سیاسی انکساری و مفادات
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) نے الیکٹ ایبلزکے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور چوہدری نثار و شاہد خاقان عباسی کے علاوہ زیادہ تر ناراض اراکین کو منانے اور ٹکٹیں دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس خبر سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ میاں نواز شریف اپنے دو پرانے ساتھیوں چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی کو منانے کے لیے تیار نہیں۔ چوہدری نثار نے شاہد خاقان عباسی کے برعکس میاں نواز شریف پر تنقید کی تھی کہ انھوں نے میری بات نہیں مانی تھی اور فوج سے تعلقات بگاڑ لیے تھے۔
انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات نہ بگاڑتے تو ان کی حکومت برقرار رہتی اور نہ وہ نااہل قرار پاتے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد چوہدری نثار نے بھی شاہد خاقان عباسی حکومت میں وزیر بننے سے اسی طرح انکار کیا تھا جس طرح شاہد خاقان نے شہباز شریف کی حکومت میں وزیر بننے سے انکار کیا تھا۔
نثار علی خان تو نواز شریف سے ناراض مگر شہباز شریف سے ان کی دوستی تھی جب کہ شاہد خاقان عباسی تو میاں نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں مگر لندن میں ملاقات کے بعد شاہد خاقان عباسی نہ ان کے جلسے یا استقبال کے لیے گئے۔
سابق وزیر شاہد خاقان عباسی شاید اس لیے اپنے قائد سے خفا ہیں کہ انھوں نے انھیں دوبارہ وزیر اعظم کیوں نہیں بنایا اور اپنے بھائی کو ان پر ترجیح دی اور انھیں نظرانداز کیا۔سابق صدر آصف زرداری کا بھی کہنا ہے کہ ان کے سب سے اس لیے تعلقات ہیں کہ وہ سیاست میں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انھوں نے نجی ٹی وی پر اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر بھی دکھائے تھے ۔
سابق صدر آصف زرداری اپنے پارٹی رہنماؤں کے برعکس یہ نہیں کہتے کہ وہ سب پر بھاری ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی پر بھاری نہیں بلکہ میری سب سے یاری ہے۔
یاری کے معاملے میں آصف زرداری اپنے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو شاید بھول گئے ہیں حالانکہ انھوں نے سندھ کے سینئر وزیر داخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا مگر صدر آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔
ذوالفقار مرزا ضد پر قائم رہے اور پی پی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی ان کی ناراضگی برقرار رہی اور دونوں پیپلز پارٹی سے دور ہو کر جی ڈی اے سندھ کا حصہ بن گئے تھے اور انھوں نے بدین کے اپنے آبائی حلقے سے اپنے بیٹے کو آزاد حیثیت میں سندھ اسمبلی کا الیکشن جتوایا تھا اور وہ اب بھی اسی جی ڈی اے میں شامل ہیں جو اب ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف نیا سیاسی اتحاد بنا رہی ہے۔
صدارت سے الگ ہو کر بھی آصف زرداری نے اپنے پرانے دوست کو نہیں منایا لیکن آئین میں ذکر نہ ہونے کے باوجود پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنایا تھا۔ 2018 میںچوہدری پرویز الٰہی بنی گالا چلے گئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔
سیاست میں رواداری، اخلاقیات اور انکساری سے زیادہ مفادات کی اہمیت ہے۔ (ن) لیگ کے پی پی حکومت چھوڑ جانے کے بعد پی پی حکومت کو ایم کیو ایم کی ضرورت تھی اس لیے آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کو نہیں منایا مگر ایم کیو ایم سے تنگ آ کر (ق) لیگ کو پی پی حکومت میں شامل کر لیا اور مدت پوری کی۔
چوہدری پرویز الٰہی معاملات طے ہونے کے بعد بنی گالا اس لیے چلے گئے تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ بن کر (ن) لیگ کی بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے میں زیادہ آسانی سمجھتے تھے حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے انھیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا حالانکہ نواز شریف نے کبھی انھیں ڈاکو کہا تھا نہ چور جب کہ ان کا شریفوں سے دیرینہ اور عزت والا تعلق تھا۔
سیاست میں عزت و رواداری نہیں بلکہ مفادات دیکھے جاتے ہیں اسی لیے چپڑاسی کے قابل نہ سمجھنے والے شیخ رشید کو اہم وزارتیں اس لیے دیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات بہتر بنوا سکیں گی جو اسٹیبلشمنٹ کے خودساختہ ترجمان بنے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف اپنے تین عشروں پرانے ساتھیوں چوہدری نثار اور شاہد خاقان کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔
نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنے رویے سے ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک اپنے پرانے ساتھیوں کی نہیں سیاسی مفادات اہمیت رکھتے ہیں ان سب کی ترجیح اخلاقیات، انکساری، اختلاف بھول جانا نہیں، صرف ذاتی وفاداری اور مفاد پرستی ہے اور یہی آج کی سیاست ہے۔
اس خبر سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ میاں نواز شریف اپنے دو پرانے ساتھیوں چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی کو منانے کے لیے تیار نہیں۔ چوہدری نثار نے شاہد خاقان عباسی کے برعکس میاں نواز شریف پر تنقید کی تھی کہ انھوں نے میری بات نہیں مانی تھی اور فوج سے تعلقات بگاڑ لیے تھے۔
انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات نہ بگاڑتے تو ان کی حکومت برقرار رہتی اور نہ وہ نااہل قرار پاتے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد چوہدری نثار نے بھی شاہد خاقان عباسی حکومت میں وزیر بننے سے اسی طرح انکار کیا تھا جس طرح شاہد خاقان نے شہباز شریف کی حکومت میں وزیر بننے سے انکار کیا تھا۔
نثار علی خان تو نواز شریف سے ناراض مگر شہباز شریف سے ان کی دوستی تھی جب کہ شاہد خاقان عباسی تو میاں نواز شریف کو اپنا قائد مانتے ہیں مگر لندن میں ملاقات کے بعد شاہد خاقان عباسی نہ ان کے جلسے یا استقبال کے لیے گئے۔
سابق وزیر شاہد خاقان عباسی شاید اس لیے اپنے قائد سے خفا ہیں کہ انھوں نے انھیں دوبارہ وزیر اعظم کیوں نہیں بنایا اور اپنے بھائی کو ان پر ترجیح دی اور انھیں نظرانداز کیا۔سابق صدر آصف زرداری کا بھی کہنا ہے کہ ان کے سب سے اس لیے تعلقات ہیں کہ وہ سیاست میں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انھوں نے نجی ٹی وی پر اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر بھی دکھائے تھے ۔
سابق صدر آصف زرداری اپنے پارٹی رہنماؤں کے برعکس یہ نہیں کہتے کہ وہ سب پر بھاری ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ میں کسی پر بھاری نہیں بلکہ میری سب سے یاری ہے۔
یاری کے معاملے میں آصف زرداری اپنے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو شاید بھول گئے ہیں حالانکہ انھوں نے سندھ کے سینئر وزیر داخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا مگر صدر آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔
ذوالفقار مرزا ضد پر قائم رہے اور پی پی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی ان کی ناراضگی برقرار رہی اور دونوں پیپلز پارٹی سے دور ہو کر جی ڈی اے سندھ کا حصہ بن گئے تھے اور انھوں نے بدین کے اپنے آبائی حلقے سے اپنے بیٹے کو آزاد حیثیت میں سندھ اسمبلی کا الیکشن جتوایا تھا اور وہ اب بھی اسی جی ڈی اے میں شامل ہیں جو اب ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف نیا سیاسی اتحاد بنا رہی ہے۔
صدارت سے الگ ہو کر بھی آصف زرداری نے اپنے پرانے دوست کو نہیں منایا لیکن آئین میں ذکر نہ ہونے کے باوجود پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنایا تھا۔ 2018 میںچوہدری پرویز الٰہی بنی گالا چلے گئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔
سیاست میں رواداری، اخلاقیات اور انکساری سے زیادہ مفادات کی اہمیت ہے۔ (ن) لیگ کے پی پی حکومت چھوڑ جانے کے بعد پی پی حکومت کو ایم کیو ایم کی ضرورت تھی اس لیے آصف زرداری نے ذوالفقار مرزا کو نہیں منایا مگر ایم کیو ایم سے تنگ آ کر (ق) لیگ کو پی پی حکومت میں شامل کر لیا اور مدت پوری کی۔
چوہدری پرویز الٰہی معاملات طے ہونے کے بعد بنی گالا اس لیے چلے گئے تھے کہ وہ وزیر اعلیٰ بن کر (ن) لیگ کی بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے میں زیادہ آسانی سمجھتے تھے حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے انھیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا حالانکہ نواز شریف نے کبھی انھیں ڈاکو کہا تھا نہ چور جب کہ ان کا شریفوں سے دیرینہ اور عزت والا تعلق تھا۔
سیاست میں عزت و رواداری نہیں بلکہ مفادات دیکھے جاتے ہیں اسی لیے چپڑاسی کے قابل نہ سمجھنے والے شیخ رشید کو اہم وزارتیں اس لیے دیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات بہتر بنوا سکیں گی جو اسٹیبلشمنٹ کے خودساختہ ترجمان بنے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف اپنے تین عشروں پرانے ساتھیوں چوہدری نثار اور شاہد خاقان کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔
نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنے رویے سے ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک اپنے پرانے ساتھیوں کی نہیں سیاسی مفادات اہمیت رکھتے ہیں ان سب کی ترجیح اخلاقیات، انکساری، اختلاف بھول جانا نہیں، صرف ذاتی وفاداری اور مفاد پرستی ہے اور یہی آج کی سیاست ہے۔