طالبان سے مذاکرات اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے مولانا فضل الرحمان
طالبان سے مذاکرات کا جو طریقہ اپنایا گیا اس پر تحفظات کا اظہارکیا تھا، مولانا فضل الرحمان
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے لیکن اب دیکھنا ہوگا کہ مذاکرات کی آڑ میں کہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا جواز پیدا کرنے کی راہ تو ہموار نہیں کی گئی۔
کراچی ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دنیا بھر میں سیاسی روایات کا حصہ ہے کہ حکومتی سطح پر کسی دوسرے ملک میں نئی حکومت کی تشکیل پر تہنیتی پیغامات بھیجے جاتے ہیں، ہمیں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہئیں، یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ہم نے بھارت کےساتھ بہتر تعلقات میں پہل کی ہے، وزیراعظم نواز شریف کا بھارت جانا پاکستان کی جانب سے مثبت اقدام ہے، بھارت کی نئی حکومت کی پالیسی سامنے آنے پر ہی کوئی ردعمل دیا جاسکتا ہے تاہم مستقبل میں ہمیں نریندر مودی کے رویوں کو دیکھنا ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان تصادم کسی بھی طرح صحیح نہیں کہا جاسکتا، اختلافات کو ایک خاص حد میں رکھنا ہی ذمہ دار لوگوں اور اداروں کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی سوچا جارہا ہے کہ جیو اور جنگ کے معاملے میں کسی کو بھی اس قدر آگے جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا میڈیا اسلامی اقدار کے منافی ہے، جہاں میڈیا کی آزادی کے نام پر آوارگی کو فروغ مل رہا ہے، ان کا سارا کردار ملک میں بے حیائی کو فروغ دے کر ہماری معاشرے کی اقدار کو پامال کرنا رہا ہے۔ یہ سب اللہ کی گرفت ہے، آج اگر جیو ایک مکافات عمل سے گزر رہا ہے تو دیگر چینلز کو بھی اس سے عبرت پکڑنی چاہیئے۔ انہیں بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمیں اپنے مذہب، روایات اور اقدار سے آگے نہیں جانا چاہئیے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کردیا تھا کیونکہ اس سلسلے میں اختیار کیا گیا راستہ وہ نہیں جس سے ہم امن کی منزل پر پہنچ سکیں گے۔ ہمیں کسی بھی طرح کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے، اب مذاکرات اپنے منطقی انجام پر پہنچ گئے ہیں، ایسی صورت حال میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مذاکرات کی آڑ میں کہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا جواز پیدا کرنے کی راہ تو ہموار نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کے پیچھے حکومتی سطح پر پالیسیاں کارفرما ہیں جب پالیسیاں غلط ہوں گی تو معاملات بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے، ہم فاٹا سمیت ملک بھر میں جنگ کو ترجیح دے رہے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں جب تک ہم اپنا ذہن تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک ملک صحیح راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا۔
کراچی ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دنیا بھر میں سیاسی روایات کا حصہ ہے کہ حکومتی سطح پر کسی دوسرے ملک میں نئی حکومت کی تشکیل پر تہنیتی پیغامات بھیجے جاتے ہیں، ہمیں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے چاہئیں، یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ ہم نے بھارت کےساتھ بہتر تعلقات میں پہل کی ہے، وزیراعظم نواز شریف کا بھارت جانا پاکستان کی جانب سے مثبت اقدام ہے، بھارت کی نئی حکومت کی پالیسی سامنے آنے پر ہی کوئی ردعمل دیا جاسکتا ہے تاہم مستقبل میں ہمیں نریندر مودی کے رویوں کو دیکھنا ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ اداروں کے درمیان تصادم کسی بھی طرح صحیح نہیں کہا جاسکتا، اختلافات کو ایک خاص حد میں رکھنا ہی ذمہ دار لوگوں اور اداروں کی پہچان ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی سوچا جارہا ہے کہ جیو اور جنگ کے معاملے میں کسی کو بھی اس قدر آگے جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کا میڈیا اسلامی اقدار کے منافی ہے، جہاں میڈیا کی آزادی کے نام پر آوارگی کو فروغ مل رہا ہے، ان کا سارا کردار ملک میں بے حیائی کو فروغ دے کر ہماری معاشرے کی اقدار کو پامال کرنا رہا ہے۔ یہ سب اللہ کی گرفت ہے، آج اگر جیو ایک مکافات عمل سے گزر رہا ہے تو دیگر چینلز کو بھی اس سے عبرت پکڑنی چاہیئے۔ انہیں بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمیں اپنے مذہب، روایات اور اقدار سے آگے نہیں جانا چاہئیے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا اظہار کردیا تھا کیونکہ اس سلسلے میں اختیار کیا گیا راستہ وہ نہیں جس سے ہم امن کی منزل پر پہنچ سکیں گے۔ ہمیں کسی بھی طرح کی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے، اب مذاکرات اپنے منطقی انجام پر پہنچ گئے ہیں، ایسی صورت حال میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مذاکرات کی آڑ میں کہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن کا جواز پیدا کرنے کی راہ تو ہموار نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کے پیچھے حکومتی سطح پر پالیسیاں کارفرما ہیں جب پالیسیاں غلط ہوں گی تو معاملات بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے، ہم فاٹا سمیت ملک بھر میں جنگ کو ترجیح دے رہے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں جب تک ہم اپنا ذہن تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک ملک صحیح راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا۔