جمہوری سیاست کا توازن

تمام فریقوں کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا،جو بوجھ ریاست کے نظام میں موجود ہے اسے اٹھانا ہوگا

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی ریاست اور سیاسی و جمہوری نظام سمیت معیشت کی ترقی کا بنیادی نقطہ ایک مستحکم، مربوط، مضبوط اور شفاف جدید ریاستی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی آج کی دنیا میں جدید ریاستوں کا سبق ہے اور اسی سبق سے سیکھ کر ہمیں بھی دنیا کے تجربات کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے۔

یہ عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم گلوبل دنیا کا حصہ ہیں اور دنیا کی نظریں ہم پر ہیں اورہم کسی بھی سیاسی تنہائی میں جدید اور منصفانہ ریاست کے نظام کے عمل کو ممکن نہیں بناسکیں گے۔

ہمیں نہ صرف ایک جدید ریاست میں تبدیل ہونا ہے بلکہ ایک ذمے دار ریاست جس کی ساکھ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر تسلیم کی جائے ، ہماری ضرورت بنتی ہے ۔اسی سوچ کی بنیاد پر ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلقات کار کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

کیونکہ جب ریاست عوامی مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھے گی تو لوگ اس ریاستی نظام کو اپنی ملکیت بھی دیں گے اور اس کے ساتھ کھڑے بھی ہونگے ۔

پاکستان کا مسئلہ محض سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ ادارہ جاتی سطح کا بحران بھی ہے ۔ جب تمام سیاسی ، انتظامی ، قانونی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی اختیار کریں یا اپنے طے کردہ آئینی اور قانونی دائرہ کار سے باہر نکل کر کام کرنے کی کوشش کریں تو اس کا نتیجہ ٹکراؤ اور عدم اعتماد کی پالیسی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

ہماری قومی سیاست اسی نقطے یا بحران کے گرد گھوم رہی ہے اور ہم مسائل کا علاج چاہتے ہیں مگر ہماری حکمت عملی میں تضادات اور فکری مغالطے نمایاں ہوتے ہیں ۔اس بحران کو پیدا کرنے یا اسے قائم رکھنے یا اس میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کی ذمے داری محض ایک فریق پر ڈال کر مسئلہ کا حل تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔

تمام فریقوں کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہوگا،جو بوجھ ریاست کے نظام میں موجود ہے اسے اٹھانا ہوگا۔ کیونکہ بحران کا حل مسائل کا درست ادراک ، بہتر مشترکہ حکمت عملی اور تمام فریقوں کا باہمی ایجنڈے پر متفقہ اتفاق رائے اور عملدرآمد کا نظام ہے ۔ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کا رجحان یا ایک دوسرے کے خلاف قائم ہونے والی ضد مسائل کا حل نہیں بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گی ۔

ایک بنیادی مسئلہ ہمارے ریاستی یا سیاسی نظام کا موثر نہ ہونا '' ہے ۔ اسی بحران یا نقطہ کی وجہ سے ہمارے سیاسی نظام کو مختلف ادوار میں سیاسی عدم استحکام ، حکومتوں کو بگاڑنے یا توڑنے کے کھیل ، سول ملٹر ی تعلقات میں بداعتمادی ، ایک دوسرے پر بالادستی کی جنگ، سیاسی سازشوں سے جڑ ا کھیل ، سیاسی و جمہوری عمل میں عدم تسلسل ، انتخابات کا غیر منصفانہ ہونا اور عوامی رائے کے مقابلے میں کسی اور کی خواہش پر حکومتوں کو بنانے کا کھیل ، آئین و قانون کی بے توقیری ، پارلیمان کے مقابلے میں غیرسیاسی میدان کا انتخاب کرنا جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

بنیادی طور پر سب ہی اس نقطہ پر متفق نظر آتے ہیں یا اہل دانش کی سطح پر اس میں کوئی ابہام بھی نہیں کہ ہمیں مستحکم سیاسی نظام کی طرف پیش رفت کرنا ہے ۔


اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر اہل سیاست یا اہل دانش قومی سیاست میں بڑھتے ہوئے غیرسیاسی اور غیرجمہوری طرز عمل و کردار پر بھی سوال اٹھاتے ہیں ۔ سوال اٹھانا اور اسی بنیاد پر علمی و فکری یا جمہوری انداز میں سوال اٹھا کر مکالمہ کو فروغ دینا یا طاقت ور طبقات کے سامنے آئین و قانون کی بالادستی یا سیاسی و جمہوری روایات کو بنیا دبنا کر آگے بڑھنے کی بحث ہی حقیقی جمہوریت کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔

اس لیے اس تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو بحث میں شامل ہونا چاہیے، ایک دوسرے پر بے بنیاد الزام تراشی کرنا، سیاسی ایشو کا حل بتانے یا منشور کو آگے بڑھانے کی بجائے مخالفین کی تضحیک کرنا، نفرت کو ہوا دینا، اچھی سیاست نہیں ہے۔

یہ نقطہ سمجھنا ہوگا کہ سیاسی نظام میں '' سول ملٹری تعلقات '' اور اس سے جڑے مسائل کی بحث کیونکر سامنے آتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ اس بحث کو بنیاد بنا کر ہم نئے متبادل راستے تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔

ایک المیہ یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ہماری سیاست کی سطح پر موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتوں میں بھی نہ صرف ابہام موجود ہے یا وہ اس قدر سیانے ہیں کہ اپنے مفادات کی بنیاد پر ایسے فیصلے کرتے ہیں جو عملا ریاستی مفاد کے برعکس ہوتے ہیں، مگر ان کے سیاسی مفادات کے حق میں ہوتے ہیں۔

جب اسٹیبلیشمنٹ کی بات کی جاتی ہے تو اس عمل کو جسے ہم سیاسی مداخلت کہتے ہیں اس میں سہولت کاری کا ایک بڑا حصہ سیاسی نظاموں ، سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی جانب سے ہی سامنے آتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اگر اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست ہمارے ساتھ کھڑی ہو تو سب ہی اچھا ہوتا ہے اور اگر وہ دوسرے فریق کے حق میں ہو یا غیر سیاسی ہو تو پھر اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کا بیانیہ سر چڑ ھ کر بولتا ہے ۔

سیاسی جماعتوں ، سیاسی قیادتوں ، اہل دانش یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا ادارے یا اسٹیبلیشمنٹ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ کسی بھی سطح کی مقابلہ بازی یا ایک دوسرے کو نیچے گرانے کی پالیسی موثر نہیں ہے۔ہمیں اندازہ کرنا چاہیے کہ اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی یا علمی و فکری افراد یا اداروں کے درمیان ٹکرا و یا ابہام ہمیں داخلی اور خارجی سیاست میں کمزور کررہا ہے۔

جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ ہمیں سفارتی محاذ پر یا ڈپلومیسی کی سطح پر اپنے ریاستی بیانیہ کو طاقت دینی ہے یا اس کی بنیاد پر خود کو دنیا کے ساتھ جوڑنا ہے تو ایسی صورت میں اسٹیبلیشمنٹ یا سیاسی قوتوں کے درمیان ٹکراؤ مزید سیاسی الجھنوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

اسی طرح جب معیشت کو طاقت بنانے اور اس کی بنیاد پر ہم دنیا کے ساتھ جڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں داخلی سیاست میں اس اہم نقطہ یعنی اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی حکومتوں یا جمہوری نظام کے درمیان توازن سے جڑی مبنی پالیسی درکارہے۔ ایسی پالیسی جہاں ایک دوسرے کے درمیان مشاورت بھی ہو، اعتماد بھی ہو اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی سوچ ہی ہمارے مسائل کے خاتمہ کا سبب بنے گی۔

ہائبرڈ نظام یا جمہوری نظام کو چلانے کا نتیجہ ہمیں مثبت نتائج دے سکا اور نہ ہی آگے دے سکے گا ۔ویسے بھی جو ہمیں انتہا پسندی ، دہشت گردی ، سیکیورٹی یا علاقائی و عالمی سطح پر جو بڑے بڑے سنگین مسائل ہیں،اس میں اسٹیبلیشمنٹ کو نظرانداز کرنے کی پالیسی بھی درست نہیں لیکن داخلی سیاست سے جڑے معاملات میں اداروں کا بڑھتا ہوا کردار بھی سود مند نہیں ہوگا ۔
Load Next Story