دہشت گردی کا خاتمہ اور معیشت بحالی کا عزم
ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار کا یہ ویژن ہے کہ ترقی کا راز مسلسل عمل اور محنت میں ہے
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کانفرنس نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے تمام دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔
معیشت کی پائیدار بحالی، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی چوری، ون ڈاکیومنٹ رجیم کا نفاذ، غیر قانونی غیر ملکیوں کی باوقار وطن واپسی اور قومی ڈیٹا بیس کی حفاظت سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مختلف شعبوں میں حکومتی اقدامات کی کانفرنس میں مکمل حمایت کی گئی۔
بلاشبہ پاک فوج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہترین فوجی حکمت عملی کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے، اگرچہ دہشت گردی ملک میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، لیکن اب اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کا بہتر ڈھانچہ موجود ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بحال ہوگیا ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات بھی دوبارہ پٹری پر آگئے ہیں۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ سول ملٹری تعاون سے اقتصادی میدان میں توسیع ممکن ہوئی ہے ۔
معیشت کی سانسیں بحال کرنے کی خاطر حکومت پاکستان نے تمام اداروں کے ساتھ مل کر اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے قیام کو یقینی بنایا جو کہ تمام شراکت داروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے، یہ پاک فوج کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسمگلنگ پر قابو پایا گیا ہے، ڈالر و سونے کے ریٹ مسلسل نیچے آرہے ہیں، اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ کئی مہینوں سے تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے اور پاکستانی روپیہ مستحکم ہو رہا ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان میں25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی اتنی ہی رقم کی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کررہے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ تاریخی طور پر مربوط ان تعلقات کی بنیاد مذہب اور ثقافت کے مشترکہ بندھنوں، باہمی مفید اقتصادی ضروریات کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے لیے مشترکہ مفادات پر ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت غیر ملکی قرضوں پر انحصار کے خطرے کو سمجھتی ہیں اور وہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرکے ایک مضبوط اقتصادی بنیاد ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ درحقیقت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی سرمایہ کاری پر یقینی واپسی کی یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی ترسیلات کے بنیادی ذریعے کے طور پہ جی سی سی خطہ پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ پاکستانی تارکین وطن کی سب سے زیادہ تعداد کا مسکن بھی ہے۔ خلیج میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت، پاکستان کے ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افرادی قوت اور قابل تجارت اشیاء خلیجی ممالک کو برآمد کرنے کے کافی مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار کا یہ ویژن ہے کہ ترقی کا راز مسلسل عمل اور محنت میں ہے۔ حکومت کسانوں کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گی۔ کسان کو قیمت پوری ملتی ہے تو وہ پوری محنت کرے گا۔
گرین اینی شیٹو پروگرام سے زرعی معیشت ایک سے دو سال میں بحال ہوجائے گی اور چار سے پانچ سال میں تیس سے چالیس ارب ڈالرز سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے۔ خلیجی ریاستیں چالیس ارب ڈالرز کی اجناس مختلف ممالک سے منگواتی ہیں، گرین اینی شیٹو پروگرام سے چالیس لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس پروگرام سے بہت امیدیں ہیں۔
پاک فوج ملک میں زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر بھی عمل پیرا ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمینوں پر نقد آور فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان کوقدرت نے چاروں موسموں سے نوازا ہے، شاید ہی کوئی ایسی فصل یا پھل ہو جو پاکستان میں پیدا نہ ہوتا ہو۔ زراعت پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
بیجوں کے معیار اور فصلوں کی جدید طریقے سے دیکھ بھال کرکے زرعی پیداوار میں اضافہ اور کثیر زرمبادلہ کمانے کے وسیع مواقع اور امکانات موجود ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کی مشکلات دور کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جس سے نہ صرف زرعی اجناس، سبزیوں اور پھلوں کے معاملہ میں ملک خود کفیل ہوسکتا ہے بلکہ ان اشیا کی برآمدات سے کثیر زر مبادلہ بھی ملک میں آسکتا ہے۔
معدنیات کے وسیع ذخائر پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں اس طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، جب کہ پاکستان میں سیاحت کے اہم مواقعے بھی موجود ہیں جو ملکی معیشت میں بہتری کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں سے اکثر پاکستانی، نچلے اور متوسط خاندانوں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا رہا ہے، لیکن اب اس میں نمایاں کمی نظر آتی ہے اور امید ہے کہ اب ملک کی معاشی صورتحال میں واضح بہتری آئے گی۔ کسی حد تک مہنگائی میں اضافہ خود ساختہ بھی ہے۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ خودساختہ مہنگائی کرنیوالے ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائیاں اور ٹھوس اقدامات کرے۔
پاک فوج نے دنیا کی پہلی اور طویل ترین جنگ دہشت گردی کے خلاف لڑی اِس سے قبل پوری دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہو اور دہشت گردوں کا اپنی سرزمین سے خاتمہ کیا ہو۔
ہمارے معاملے میں ایک چیز تو واضح ہے کہ خطے میں وطن عزیز کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ بڑی طاقتوں نے اِسے غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ روس افغان جنگ ہو یا امریکا افغان جنگ۔ دونوں طویل جنگوں میں سب سے زیادہ نقصان ہر لحاظ سے پاکستان کو اٹھانا پڑا یہی نہیں دوسری طرف بھارت نے بھی ہمہ وقت محاذ گرم رکھا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ خطے میں امن و امان کی صورت حال اور سیکیورٹی کے چیلنجز نے پاک فوج کو دنیا کی بہترین اور قابل تقلید فوج کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
امریکا افغان حالیہ جنگ اگرچہ افغانستان کی سرزمین پر لڑی گئی مگر اس کے کئی مقاصد تھے، جن کو بیان کیا جائے تو وطن عزیز کو درپیش خارجی چیلنجز لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ آج قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان اور حکومت پاکستان نے جس قدر وسائل فراہم کیے ہیں اور ترقیاتی کام کرائے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی، اسی طرح بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے وطن عزیز کے بڑے صوبوں کے برابر وہاں وسائل فراہم کیے گئے ہیں اور ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
لہٰذا مسئلہ محرومیوں کا نہیں بلکہ سرحد پار بیٹھے دشمن کی سازش ہے ۔شرپسند عناصر اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں کیونکہ سیکیورٹی فورسز اس طویل جنگ میں ہر سبق سیکھ چکی ہیں، ہم دشمن اور ان کے مقاصد سے بھی بخوبی علم ہیں اور ان کا قلع قمع کیسے کرنا ہے، یہ بھی ہم بخوبی جانتے ہیں۔
وفاق و صوبوں میں باقاعدہ معیشت کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاری کر نے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور فوری اور تیز رفتاری کے ساتھ تمام معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں۔ قوی امید ہے کہ فوج کے سپہ سالار نے جیسے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا، پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر نے والے مافیاز کو نکیل ڈالی ویسے ہی بحالی معیشت مشن میں بھی انھیں کامیابی حاصل ہوگی۔
سابقہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی معیشت کمزور ہوئی، درآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا، برآمدات کم ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان کا امپورٹ بل بڑھتا چلا گیا، قرضے بڑھتے چلے گئے، ملک چند ارب ڈالرز کے لیے بیرونی دنیا کی طرف دیکھتا رہا، جمہوری حکومتوں نے صنعتوں کی ترقی اور زرعی شعبے میں اصلاحات اور قومی پالیسی کو نظر انداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ملک چلانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔
انیس سو ساٹھ کے بعد اگر زرعی شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی تو اس کا ذمے دار کوئی ایک نہیں سب ہیں۔پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے پاک فوج کے اقدامات کو دنیا سراہنے لگی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار، ہماری کوششوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں کمی سے روپیہ مستحکم ہونے لگا ہے۔ ڈوبتی معیشت اب ابھرنے لگی ہے، یہ بات سو فیصد یقینی ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کبھی ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی خرابی کا شکار نہیں ہونے دے گی۔
سیاسی قیادت کو بھی ماضی کے جھگڑوں سے نکل کر اپنا وقت اور توانائیاں ملک کو مسائل سے نکالنے اور ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے پر خرچ کرنی چاہییں۔ پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی اور ان کے خاتمے بے رحمانہ فیصلے کریں۔ اس ملک اور دکھوں کے مارے کروڑوں لوگوں پر رحم کریں۔
مسائل حل کرنے کے لیے متحد ہوں اور نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔
معیشت کی پائیدار بحالی، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی چوری، ون ڈاکیومنٹ رجیم کا نفاذ، غیر قانونی غیر ملکیوں کی باوقار وطن واپسی اور قومی ڈیٹا بیس کی حفاظت سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مختلف شعبوں میں حکومتی اقدامات کی کانفرنس میں مکمل حمایت کی گئی۔
بلاشبہ پاک فوج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہترین فوجی حکمت عملی کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے، اگرچہ دہشت گردی ملک میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، لیکن اب اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کا بہتر ڈھانچہ موجود ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بحال ہوگیا ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات بھی دوبارہ پٹری پر آگئے ہیں۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ سول ملٹری تعاون سے اقتصادی میدان میں توسیع ممکن ہوئی ہے ۔
معیشت کی سانسیں بحال کرنے کی خاطر حکومت پاکستان نے تمام اداروں کے ساتھ مل کر اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے قیام کو یقینی بنایا جو کہ تمام شراکت داروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے، یہ پاک فوج کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسمگلنگ پر قابو پایا گیا ہے، ڈالر و سونے کے ریٹ مسلسل نیچے آرہے ہیں، اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ کئی مہینوں سے تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے اور پاکستانی روپیہ مستحکم ہو رہا ہے۔
سعودی عرب نے پاکستان میں25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی اتنی ہی رقم کی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کررہے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ تاریخی طور پر مربوط ان تعلقات کی بنیاد مذہب اور ثقافت کے مشترکہ بندھنوں، باہمی مفید اقتصادی ضروریات کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے لیے مشترکہ مفادات پر ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت غیر ملکی قرضوں پر انحصار کے خطرے کو سمجھتی ہیں اور وہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرکے ایک مضبوط اقتصادی بنیاد ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ درحقیقت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی سرمایہ کاری پر یقینی واپسی کی یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی ترسیلات کے بنیادی ذریعے کے طور پہ جی سی سی خطہ پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ پاکستانی تارکین وطن کی سب سے زیادہ تعداد کا مسکن بھی ہے۔ خلیج میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت، پاکستان کے ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افرادی قوت اور قابل تجارت اشیاء خلیجی ممالک کو برآمد کرنے کے کافی مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاک فوج کے سپہ سالار کا یہ ویژن ہے کہ ترقی کا راز مسلسل عمل اور محنت میں ہے۔ حکومت کسانوں کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گی۔ کسان کو قیمت پوری ملتی ہے تو وہ پوری محنت کرے گا۔
گرین اینی شیٹو پروگرام سے زرعی معیشت ایک سے دو سال میں بحال ہوجائے گی اور چار سے پانچ سال میں تیس سے چالیس ارب ڈالرز سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے۔ خلیجی ریاستیں چالیس ارب ڈالرز کی اجناس مختلف ممالک سے منگواتی ہیں، گرین اینی شیٹو پروگرام سے چالیس لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس پروگرام سے بہت امیدیں ہیں۔
پاک فوج ملک میں زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر بھی عمل پیرا ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمینوں پر نقد آور فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان کوقدرت نے چاروں موسموں سے نوازا ہے، شاید ہی کوئی ایسی فصل یا پھل ہو جو پاکستان میں پیدا نہ ہوتا ہو۔ زراعت پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
بیجوں کے معیار اور فصلوں کی جدید طریقے سے دیکھ بھال کرکے زرعی پیداوار میں اضافہ اور کثیر زرمبادلہ کمانے کے وسیع مواقع اور امکانات موجود ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کی مشکلات دور کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جس سے نہ صرف زرعی اجناس، سبزیوں اور پھلوں کے معاملہ میں ملک خود کفیل ہوسکتا ہے بلکہ ان اشیا کی برآمدات سے کثیر زر مبادلہ بھی ملک میں آسکتا ہے۔
معدنیات کے وسیع ذخائر پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں اس طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، جب کہ پاکستان میں سیاحت کے اہم مواقعے بھی موجود ہیں جو ملکی معیشت میں بہتری کا اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں سے اکثر پاکستانی، نچلے اور متوسط خاندانوں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا رہا ہے، لیکن اب اس میں نمایاں کمی نظر آتی ہے اور امید ہے کہ اب ملک کی معاشی صورتحال میں واضح بہتری آئے گی۔ کسی حد تک مہنگائی میں اضافہ خود ساختہ بھی ہے۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ خودساختہ مہنگائی کرنیوالے ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائیاں اور ٹھوس اقدامات کرے۔
پاک فوج نے دنیا کی پہلی اور طویل ترین جنگ دہشت گردی کے خلاف لڑی اِس سے قبل پوری دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہو اور دہشت گردوں کا اپنی سرزمین سے خاتمہ کیا ہو۔
ہمارے معاملے میں ایک چیز تو واضح ہے کہ خطے میں وطن عزیز کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ بڑی طاقتوں نے اِسے غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ روس افغان جنگ ہو یا امریکا افغان جنگ۔ دونوں طویل جنگوں میں سب سے زیادہ نقصان ہر لحاظ سے پاکستان کو اٹھانا پڑا یہی نہیں دوسری طرف بھارت نے بھی ہمہ وقت محاذ گرم رکھا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ خطے میں امن و امان کی صورت حال اور سیکیورٹی کے چیلنجز نے پاک فوج کو دنیا کی بہترین اور قابل تقلید فوج کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
امریکا افغان حالیہ جنگ اگرچہ افغانستان کی سرزمین پر لڑی گئی مگر اس کے کئی مقاصد تھے، جن کو بیان کیا جائے تو وطن عزیز کو درپیش خارجی چیلنجز لرزہ طاری کردیتے ہیں۔ آج قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان اور حکومت پاکستان نے جس قدر وسائل فراہم کیے ہیں اور ترقیاتی کام کرائے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی، اسی طرح بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے وطن عزیز کے بڑے صوبوں کے برابر وہاں وسائل فراہم کیے گئے ہیں اور ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
لہٰذا مسئلہ محرومیوں کا نہیں بلکہ سرحد پار بیٹھے دشمن کی سازش ہے ۔شرپسند عناصر اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں کیونکہ سیکیورٹی فورسز اس طویل جنگ میں ہر سبق سیکھ چکی ہیں، ہم دشمن اور ان کے مقاصد سے بھی بخوبی علم ہیں اور ان کا قلع قمع کیسے کرنا ہے، یہ بھی ہم بخوبی جانتے ہیں۔
وفاق و صوبوں میں باقاعدہ معیشت کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاری کر نے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے اور فوری اور تیز رفتاری کے ساتھ تمام معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئی ہیں۔ قوی امید ہے کہ فوج کے سپہ سالار نے جیسے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا، پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر نے والے مافیاز کو نکیل ڈالی ویسے ہی بحالی معیشت مشن میں بھی انھیں کامیابی حاصل ہوگی۔
سابقہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی معیشت کمزور ہوئی، درآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا، برآمدات کم ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان کا امپورٹ بل بڑھتا چلا گیا، قرضے بڑھتے چلے گئے، ملک چند ارب ڈالرز کے لیے بیرونی دنیا کی طرف دیکھتا رہا، جمہوری حکومتوں نے صنعتوں کی ترقی اور زرعی شعبے میں اصلاحات اور قومی پالیسی کو نظر انداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ملک چلانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔
انیس سو ساٹھ کے بعد اگر زرعی شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی تو اس کا ذمے دار کوئی ایک نہیں سب ہیں۔پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے پاک فوج کے اقدامات کو دنیا سراہنے لگی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار، ہماری کوششوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں کمی سے روپیہ مستحکم ہونے لگا ہے۔ ڈوبتی معیشت اب ابھرنے لگی ہے، یہ بات سو فیصد یقینی ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کبھی ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی خرابی کا شکار نہیں ہونے دے گی۔
سیاسی قیادت کو بھی ماضی کے جھگڑوں سے نکل کر اپنا وقت اور توانائیاں ملک کو مسائل سے نکالنے اور ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے پر خرچ کرنی چاہییں۔ پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی اور ان کے خاتمے بے رحمانہ فیصلے کریں۔ اس ملک اور دکھوں کے مارے کروڑوں لوگوں پر رحم کریں۔
مسائل حل کرنے کے لیے متحد ہوں اور نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔