بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی

نریندر مودی کیا تھا، کیا ہے اور کیا ہو سکتا ہے! یہ بات گفتگو کے موضوع کی حد تک تو درست اور جائز ہے

Amjadislam@gmail.com

بھارت کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی متوقع لیکن بھر پور کامیابی اور نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ پر فائز کیے جانے کے فیصلے کے بعد سے پاکستانی میڈیا پر الفاظ کی تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد ایک ہی بات بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ پردھان منتری شری نریندر مودی بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان سے تعلقات کو کس نہج پر آگے بڑھائینگے۔ کیا وہ واجپائی کی طرح نرم اور محتاط رویہ اختیار کرینگے یا اپنے ہندو پرست امیج کو برقرار رکھتے ہوئے دونوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث ہونگے۔ میری ذاتی رائے میں یہ فقیرانہ، معذرت خواہانہ اور ہارا ہوا لہجہ نہ ہمارے میڈیا کو زیب دیتا ہے اور نہ سرکار کو۔

نریندر مودی کیا تھا، کیا ہے اور کیا ہو سکتا ہے! یہ بات گفتگو کے موضوع کی حد تک تو درست اور جائز ہے لیکن اپنی سالمیت، حرمت اور تقدیر کے فیصلوں کو اس کی صوابدید یا چشم کرم پر چھوڑنا ایک ذلت آمیز اور شرمناک صورتحال ہے۔ بلا شبہ رقے، آبادی اور وسائل کا ملکوں کے سائز اور ان کی بین الاقوامی معاملات میں اہمیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن عالمی برادری کے رکن کے طور پر کوئی ملک چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور اگر ایسا ہو جائے تو اس کی مذمت ہر باعزت، ذی ہوش اور صاحب کردار انسان پر واجب ٹھہرتی ہے۔

میں پہلے بھی ان ہی کالموں میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ انگریز کے جانے کے بعد جو تقسیم ہوئی جس سے پاکستان اور بھارت دو علیحدہ ملکوں کی شکل میں وجود میں آئے وہ سراسر درست اور صحیح تھی۔ غلطیاں اس کے بعد شروع ہوئی ہیں یعنی ہم نے پاکستان بنایا ٹھیک تھا چلایا ٹھیک نہیں ہے اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ہم آج تک ایک ہمسایہ ملک کے طور پر بھارت سے برابری کا وہ رشتہ قائم نہیں کر پائے جو ہر آزاد ملک کا ایک بنیادی حق ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنے اس حق سے ہی دست بردار ہو جائیں اور بھارت کی طرف اس طرح دیکھنے لگیں جیسے ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ملازمین اپنے مالکوں کی طرف دیکھتے ہیں۔

ہمارے حاکموں اور سیاسی دانشوروں کو جس بات پر غور کرنا چاہیے وہ یہ نہیں کہ نریندر مودی ہمارے ساتھ کیا کریگا بلکہ یہ ہے کہ نریندر مودی ایک چائے والے کا بیٹا ہونے کے باوجود اس اعلیٰ ترین ملکی عہدے تک کس طرح پہنچا ہے۔ بلا شبہ اس نے رام مندر کی تعمیر اور گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے متعصب ہندو ذہنیت رکھنے والے ووٹرز کی حمایت حاصل کر لی تھی مگر یہ اس کی کامیابی کی واحد وجہ نہیں ہے اصل وجہ وہ جمہوری نظام ہے جو معاشرے کی پست ترین سطح سے بھی لوگوں کو اوپر آنے کا موقع دیتا ہے اور نریندر مودی کی وہ محنت، کاوش اور خدمت ہے جس پر استقلال سے قائم رہنے اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے کرنے کی وجہ سے وہ آج اس مقام تک پہنچا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے حاکم طبقے آج تک یہ بات سمجھ ہی نہیں پائے کہ کسی حکومت کی کارکردگی طرز حکومت کے نام سے نہیں بلکہ اس کے کام سے دیکھی اور پرکھی جاتی ہے۔ جمہوریت اب تک کے حکومتی نظاموں میں بہترین ہے یا نہیں اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ دیکھیے کہ کیا جس چیز کو ہم جمہوریت کہہ رہے ہیں وہ جمہوریت ہے بھی یا نہیں!


دنیا میں کہیں کوئی ایسا کامیاب جمہوری نظام نہیں ہے جس میں سیاستدانوں اور قومی نمائندوں کی سیاسی تربیت کا آغاز نیچے سے یعنی لوکل گورنمنٹ کے کسی سسٹم سے نہ ہوتا ہو۔ مانا کہ وطن عزیز کی 67 سالہ تاریخ میں فوج نے بار بار اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کی ٹرین کو پٹڑی سے اتار دیا ہے لیکن کیا جب تک یہ ٹرین اس نام نہاد پٹڑی پر رہی ہے اس کے انجن اور ڈبے ٹھیک طرح سے آپس میں مربوط رہے ہیں؟

اور کیا سیاسی حکومتوں کے دور میں عام آدمی کو اپنی رائے دینے، ترقی کرنے اور سیاسی عمل میں شامل ہونے کے وہ مواقع حاصل رہے ہیں جو اصل میں جمہوریت کا حسن اور اس کی جان ہیں! کیا تحریک پاکستان کے چند لیڈروں کو چھوڑ کر کوئی بھی حکمران سیدھے راستے سے ایوان حکومت میں داخل ہوا ہے! کیا یہ فیوڈل اور تاجر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شہزادے اور شاہی خاندان اس جمہوریت جیسے نتائج دے سکتے ہیں جس میں ہر شہری کو بطور شہری ایک جیسے حقوق اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں!

میرے اس سوال کے جواب میں تاریخی، جدلیاتی، مقامی اور تہذیبی حوالے سے بہت سے دلائل دیے جا سکتے ہیں جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ بطور ورکر سیاسی تربیت نہ ہونے کے باوجود ان ہر طرح کے شہزادگان نے ملک کی خدمت کے لیے کیا کیا بے مثال اور تعمیری کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ ان میں سے کچھ باتیں درست بھی ہو سکتی ہیں لیکن کیا کسی ڈاکو کو صرف اس وجہ سے ہیرو قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ امیروں کو لوٹنے کے بعد مال غنیمت کا کچھ حصہ غریبوں میں بھی بانٹ دیا کرتا تھا!

پیپلز پارٹی نے کیا کیا، ن لیگ کیا کررہی ہے اور تحریک انصاف کیا کر سکتی ہے! اس چیونگم جیسی بحث پر وقت ضایع کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ کے لیے جمہوریت کی جڑیں عوام کے پست ترین طبقوں میں ان کی روزمرہ زندگی اور اس کے مسائل کے حوالے سے قائم کی جائیں۔ ظاہر ہے یہ کام راتوں رات ممکن نہیں لیکن اگر حاکم طبقے اپنے خاندانوں اور حواریوں کے دائرے سے باہر نکل کر انصاف اور میرٹ کی ممکنہ حد تک پاسداری کریں تو نہ صرف اس سفر کی رفتار تیز ہو سکتی ہے بلکہ ان لوگوں کے نئے پاکستان میں Adjust ہونے کی صورت بھی نکل سکتی ہے۔

جہاں تک سیاست کے نام پر غیر سیاسی نظام حکومت سے فوج کے رویے اور کردار کا تعلق ہے اس میں بھی بہتری اسی صورت میں آ سکتی ہے کہ تمام ملکی اور قومی نوعیت کے معاملات عوام کی فعال شمولیت سے طے کیے جائیں۔ اپنا مستقبل نریندر مودی کی صوابدید سے وابستہ کرنے کے بجائے ایسے ورکر پیدا کیے جائیں جو نریندر مودی کی طرح معاشرے کے اس سواد اعظم سے تعلق رکھتے ہوں جو کسی ملک کا اصل اور صحیح نمائندہ ہوتا ہے۔
Load Next Story