چھ ہفتے
پھر کسی نے ایک سابق وردی پوش سے پوچھا آپ لوگ تو اچھے نشانہ باز سمجھے جاتے تھے۔
اب تو چھ ہفتے گزر چکے اور لوگ اب اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اپنی ہی ذات پر لعن طعن کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم کس قسم کے لوگ ہیں کہ خود سے بھی سچ کہنے اور غلطی جو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور اربوں غیر ملکیوں نے بچشم خود دیکھی تھی اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ گالف کورس کے برآمدے میں گیم ختم ہونے پر چائے کی پیالی پر بیٹھے میں نے ریٹائرڈ جج صاحب سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں وہ ڈبل کراس ہے، کیا یہ سچ ہے۔ موصوف سرکار کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ فوراً بولے ڈبل نہیں ٹرپل کراس۔ ہم ٹھہرے غیر سیاسی، نہ خود جانتے ہیں نہ کسی سے کبھی پوچھا کہ یہ ڈبل کیا ہوتا ہے اور ٹرپل کراس کس بلا کو کہتے ہیں۔ سن کر چپ ہو رہے۔
پھر کسی نے ایک سابق وردی پوش سے پوچھا آپ لوگ تو اچھے نشانہ باز سمجھے جاتے تھے۔ وہ بولے اگر آپ مجھ کو آزمائیں تو میرا نشانہ آج بھی خطا نہیں جائے گا۔ مجھے اس قسم کی مبہم سیاسی فقرے بازی میں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو چائے کی پیالی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ سچی بات ہے اکثریت کی تو ریڈیو، ٹی وی اور اخبار ہی کے ذریعے خبر تک رسائی ہوتی ہے۔ ان دنوں ٹی وی اور اخبار پانچ چھ ہفتے قبل ایک معروف ٹی وی اینکر پر کراچی ایئرپورٹ سے باہر آتے ہوئے حملے کی وجوہات اور ملک کے اکثر ٹیلی ویژنز بقدر ذوق و شوق سچی جھوٹی شرارتی الزامی اور فکر مندی سے بھرپور قیافوں اور سازشوں کے تانے بانے ملانے والی گفتگو میں سچ کی تلاش میں غوطہ زن ہیں۔
ملک میں قیافوں اور سازشی امکانات کی تھرتھلی مچانے والے اس حملے کے بعد متعلقہ ٹی وی کے ذریعے کئی گھنٹے تک جس انداز میں واقعے کی کوریج کی گئی اس نے کئی اندیشوں، تھیوریوں اور امکانات کو جنم دیا۔ بات جلسوں، جلوسوں، ڈرائنگ روموں، گلیوں، محلوں، تھڑوں، خفیہ اور سرعام، بیرون ملک دوروں سے ہوتی ہوئی حکومتی ایوانوں، پیمرا اور عدالت کے دروازوں کو کھٹکھٹانے سے بھی آگے جا پہنچی۔
الیکٹرانک میڈیا عوام و خواص کے لیے خبر اور تفریح کا ایک ذریعہ ہے لیکن گزشتہ 6ہفتوں سے اس میڈیا میں ایک سمجھ میں نہ آنے والا دنگل لگا ہوا تھا۔ پیمرا کا ٹارگٹ یا مجرم چینل کی بندش کے بعد اپنی جگہ بدل کر عدالت کے اکھاڑے میں چلا گیا لیکن سامعین و ناظرین کو بدمزہ کر گیا لیکن پٹاری کُھلتی ہے تو اس میں سے کیا برآمد ہوتا ہے انتظار کرنا ہو گا البتہ ایک بات پھر سے منکشف ہو گئی کہ حکومت کرنا کھیل نہیں۔ یہ نگاہِ دور رس اور حکمت و دانائی کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ ناخوشگوار کھیل جو اب ایک نیا پنڈورا بکس کھولے گا چند گھنٹوں میں دفن ہو سکتا تھا لیکن شاید اس کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہیں جو فتنہ، تفرقہ، بدامنی، مذہبی منافرت کا ایجنڈا لے کر ہمیں امن چین سے جینے نہیں دینا چاہتے لیکن جو ہوا یہ کھیل کس نے کس کی شہ پر کھیلا اور کس نے کیا کھویا کیا پایا ابھی اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے پر پتہ چلے گا۔ یہ لاوا البتہ بہت سوں کو معلوم ہے عرصہ سے پک رہا تھا۔ اناڑی مہرے ان کے اشاروں پر چلائے جاتے رہے اس لیے تو بعض دانشور ٹی وی کھلاڑیوں کیلیے تربیتی اکیڈمی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
سرکاری وفد کا دبئی جانا اور بظاہر ناکام لوٹنا بعید از فہم ہے۔ ہمارے دوست میاں صاحب جو بہت بڑے بزنس مین ہیں، کسی ابہام کا شکار نہیں۔ان کی خاموشی بہت کچھ واضح کر رہی ہے۔ میں جو اخلاقیات، کاروباری اصول پسندی، ضابطہ اخلاق، راست بازی، حق گوئی، ادب لحاظ، بھائی چارے، قانون کی عملداری، صلح جوئی، حرمت الفاظ، اخلاص اور اخلاق جیسے موٹے موٹے بھاری بھرکم الفاظ کو بڑی اہمیت دینا اعلیٰ اقدار کا تقاضا سمجھتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں میاں صاحب کے الفاظ کو جاننے اور پرکھنے کا منتظر رہوں گا۔ بہرحال پاکستان میں انہونیاں ہوتی رہتی ہیں، بس دیکھنا یہ ہے کہ مسائل اور بحران کی پٹاری میں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ باقی میاں صاحب کی حکومت کو تو کسی ایشو پر کوئی پریشانی نہیں ہوتی، ہاں البتہ معاملات جب پوائنٹ آف نوریٹرن تک جاتے ہیں اس وقت ہل جل ہوتی ہے لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
پھر کسی نے ایک سابق وردی پوش سے پوچھا آپ لوگ تو اچھے نشانہ باز سمجھے جاتے تھے۔ وہ بولے اگر آپ مجھ کو آزمائیں تو میرا نشانہ آج بھی خطا نہیں جائے گا۔ مجھے اس قسم کی مبہم سیاسی فقرے بازی میں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو چائے کی پیالی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ سچی بات ہے اکثریت کی تو ریڈیو، ٹی وی اور اخبار ہی کے ذریعے خبر تک رسائی ہوتی ہے۔ ان دنوں ٹی وی اور اخبار پانچ چھ ہفتے قبل ایک معروف ٹی وی اینکر پر کراچی ایئرپورٹ سے باہر آتے ہوئے حملے کی وجوہات اور ملک کے اکثر ٹیلی ویژنز بقدر ذوق و شوق سچی جھوٹی شرارتی الزامی اور فکر مندی سے بھرپور قیافوں اور سازشوں کے تانے بانے ملانے والی گفتگو میں سچ کی تلاش میں غوطہ زن ہیں۔
ملک میں قیافوں اور سازشی امکانات کی تھرتھلی مچانے والے اس حملے کے بعد متعلقہ ٹی وی کے ذریعے کئی گھنٹے تک جس انداز میں واقعے کی کوریج کی گئی اس نے کئی اندیشوں، تھیوریوں اور امکانات کو جنم دیا۔ بات جلسوں، جلوسوں، ڈرائنگ روموں، گلیوں، محلوں، تھڑوں، خفیہ اور سرعام، بیرون ملک دوروں سے ہوتی ہوئی حکومتی ایوانوں، پیمرا اور عدالت کے دروازوں کو کھٹکھٹانے سے بھی آگے جا پہنچی۔
الیکٹرانک میڈیا عوام و خواص کے لیے خبر اور تفریح کا ایک ذریعہ ہے لیکن گزشتہ 6ہفتوں سے اس میڈیا میں ایک سمجھ میں نہ آنے والا دنگل لگا ہوا تھا۔ پیمرا کا ٹارگٹ یا مجرم چینل کی بندش کے بعد اپنی جگہ بدل کر عدالت کے اکھاڑے میں چلا گیا لیکن سامعین و ناظرین کو بدمزہ کر گیا لیکن پٹاری کُھلتی ہے تو اس میں سے کیا برآمد ہوتا ہے انتظار کرنا ہو گا البتہ ایک بات پھر سے منکشف ہو گئی کہ حکومت کرنا کھیل نہیں۔ یہ نگاہِ دور رس اور حکمت و دانائی کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ ناخوشگوار کھیل جو اب ایک نیا پنڈورا بکس کھولے گا چند گھنٹوں میں دفن ہو سکتا تھا لیکن شاید اس کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں ہیں جو فتنہ، تفرقہ، بدامنی، مذہبی منافرت کا ایجنڈا لے کر ہمیں امن چین سے جینے نہیں دینا چاہتے لیکن جو ہوا یہ کھیل کس نے کس کی شہ پر کھیلا اور کس نے کیا کھویا کیا پایا ابھی اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے پر پتہ چلے گا۔ یہ لاوا البتہ بہت سوں کو معلوم ہے عرصہ سے پک رہا تھا۔ اناڑی مہرے ان کے اشاروں پر چلائے جاتے رہے اس لیے تو بعض دانشور ٹی وی کھلاڑیوں کیلیے تربیتی اکیڈمی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
سرکاری وفد کا دبئی جانا اور بظاہر ناکام لوٹنا بعید از فہم ہے۔ ہمارے دوست میاں صاحب جو بہت بڑے بزنس مین ہیں، کسی ابہام کا شکار نہیں۔ان کی خاموشی بہت کچھ واضح کر رہی ہے۔ میں جو اخلاقیات، کاروباری اصول پسندی، ضابطہ اخلاق، راست بازی، حق گوئی، ادب لحاظ، بھائی چارے، قانون کی عملداری، صلح جوئی، حرمت الفاظ، اخلاص اور اخلاق جیسے موٹے موٹے بھاری بھرکم الفاظ کو بڑی اہمیت دینا اعلیٰ اقدار کا تقاضا سمجھتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں میاں صاحب کے الفاظ کو جاننے اور پرکھنے کا منتظر رہوں گا۔ بہرحال پاکستان میں انہونیاں ہوتی رہتی ہیں، بس دیکھنا یہ ہے کہ مسائل اور بحران کی پٹاری میں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ باقی میاں صاحب کی حکومت کو تو کسی ایشو پر کوئی پریشانی نہیں ہوتی، ہاں البتہ معاملات جب پوائنٹ آف نوریٹرن تک جاتے ہیں اس وقت ہل جل ہوتی ہے لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔