سرسید سا غدار
بات تو رسوائی کی ہے لیکن بات کہنا بھی ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں فضا کچھ غداری کی چلی ہوئی ہے۔
QUETTA:
بات تو رسوائی کی ہے لیکن بات کہنا بھی ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں فضا کچھ غداری کی چلی ہوئی ہے۔ ہر طرف شور ہے کہ غدار کون ہے؟ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم کسی کو غدار کہہ کیوں رہے ہیں؟ ویسے بھی غداری کچھ فیشن سا بنتا جا رہا ہے۔ جنگ آزادی کو غدر قرار دے کر پہلے مسلمانوں کی جدوجہد کو غداری سے موسوم کیا گیا تھا تو پھر انگریز سرکار نے ہندوستان پر قبضے کے بعد جدوجہد کرنے والوں کو غدار کہہ کر سزائیں دیں۔
1857کے سانحہ ہوشربا کے بعد مسلمانان ہند کی حالت بد سے بدتر ہوچکی تھی سلطنت، دولت و حشمت اور عزت ناموس کو غارت و تباہ و برباد کردیا گیا، ابنائے قوم کو چن چن کو قتل کیا گیا۔ صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کے لیے جہاں ایک طرف انگریز شعلہ نفرت میں ملبوس تھا تو دوسری جانب ہندو پنڈت اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے لیے دانت پیس رہا تھا۔ سرسید احمد خان نے جب اپنا مشہور رسالہ ''اسباب بغاوت ہند'' لکھا تو اس رسالے نے ہندوستان اور انگلستان کے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچادیا۔
اسی طرح سرسید احمد خان ''لائن محمڈنز آف انڈیا'' میں لکھتے ہیں کہ ''اس وقت کوئی آفت ایسی برپا نہیں جس کے متعلق یہ نہ کہا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے برپا کیا ہے، خواہ وہ کسی رام دین یا ماتا دین ہی نے کیوں نہ برپا کی ہو، کوئی بلا آسمان سے نہیں آئی، جس نے سب سے پہلے مسلمان کا گھر نہ تاکا ہو، کوئی کانٹوں والا درخت اس زمانے میں نہیں اُگا جس کی نسبت یہ نہ کہا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے بویا ہے، کوئی آتشیں بگولہ نہیں اٹھا جس کے متعلق یہ نہ مشہور کیا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے اٹھایا۔''
اسباب بغاوت ہند کے رسالے پر انگریز حکومت کے جوش غیظ و غضب کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے جو گورنمنٹ آف انڈیا کے فارن سیکریٹری مسٹر بیڈن نے کہے ''اِس شخص نے بہت باغیانہ مضمون لکھا ہے، اس سے حسب ضابطہ فوراً باز پرس کی جائے اور اگر کوئی معقول جواب نہ دے سکے تو سخت سزا دی جائے۔'' سرسید احمد خان اس وقت انگریز ملازمت میں تھے، ان کی دلیرانہ ہمت پر انگلستان کے مشہور اخبار ''ہوم نیوز'' نے اس رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ''سرسید نے انتہائی دلیری سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور یہ بات محتاج بیان نہیں کہ ان کی اس جرات مندانہ رائے نے حکمران طبقہ کو بے حد متاثر کیا ہے۔''
بغاوت ہند کے ایک ہی سال بعد یعنی 1858 میں کلکتہ، بمبئی اور مدارس میں جدید علوم کی یونیوسٹیاں قائم ہوگئی تھیں جن میں ہندو جوق در جوق داخل ہورہے تھے لیکن مسلمانوں کے علماء اکرام نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے اسے شجر ممنوعہ سمجھا، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ بیس سال میں صرف بیس مسلمان گریجویٹس ہوسکے۔ ان یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے غیر مسلم، حکومت کی مشنری میں داخل ہوتے رہے، بالآخر سرسید احمد خان نے 1863 میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا اولیں مقصد تھا کہ عصر حاضر کے علوم سے متعلق جو کتابیں انگریزی میں شائع ہوں، ان کا اردو میں ترجمہ کیا جاسکے۔
اپریل 1869 یورپ کے سفر کے بعد جب اکتوبر 1870 میں سرسید احمد خان واپس ہندوستان پہنچے تو انھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی پر ایک کمیٹی ''خواستگار ترقی تعلیم'' بنائی، جس کا فریضہ تھا کہ وہ تحقیق کرے کہ مسلمان تعلیم میں پیچھے کیوں ہیں۔ 24 مئی 1875 کوسرسید احمد خان نے مدرسہ کی بنیاد رکھی، جو درحقیقت کسی مدرسہ کی نہیں بلکہ قیام پاکستان کی پہلی اینٹ تھی۔ سرسید احمد خان یہاں یہ کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب مولوی حضرات ان کے پیچھے کفر کا ڈنڈا لیے پھر رہے تھے، فتویٰ جاری ہوا کہ ''جو لوگ مدرسۃ العلوم قائم کرنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت مسلمان نہیں''۔ سرسید احمد خان ملائوں کو جواب بھی دیتے رہے اور مدرسہ علی گڑھ کی بنیاد بھی رکھی۔
ملک میں قریب ساڑھے آٹھ سو ہندو گریجویٹس تھے اور صرف بیس مسلمان۔ علی گڑھ کالج 1878 میں کھلا اور اس کے بیس سال بعد جب سرسید کی وفات ہوئی تو ملک میں 126 گریجویٹس مسلمان تھے اور 174 انڈر گریجویٹس تھے، اس کالج نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس دیوار کو بھی گرایا جو مسلمانوں کے اور علوم عہد حاضرہ کے درمیان کفر کا ہوا بن کر حائل تھی۔
نتیجہ ملک میں دیگر مقامات مثلاً لاہور، امرتسر، کراچی، حیدرآباد، بہاولپور وغیرہ میں مسلمانوں کے اسکول اور کالج کھلنے شروع ہوگئے، اس کا نیتجہ یہ نکلا کہ جہاں 1881 تک ملک میں صرف 43 مسلمان گریجویٹس تھے، 1893 تک ان کی تعداد 339 تک پہنچ گئی۔ 1894 سے 1898 تک صرف الہ آباد اور پنجاب میں ان کی تعداد 185 تھی، عام تعلیم کی یہ حالت تھی کہ بنگال میں 1881 میں کالجوں اور اسکولوں میں ایک لاکھ پچاسی ہزار مسلمان طالب علم تھے اور 1894 تک ان کی تعداد چار لاکھ نوے ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ نتیجہ تھا ایک مرد درویش دیدہ ور کی دور نگاہی اور جرات آموزی کا۔
بات یہ نہیں تھی کہ غیر مسلم کے مقابلے میں کتنے مسلم گریجویٹس پیدا کیے جارہے ہیں بلکہ زنجیر غلامی کو توڑنے کی ایک ایسی کوشش تھی جس نے وقت کے ساتھ یہ ثابت کردیا کہ، بقول سرسید احمد خان نے 1865 میں فرمایا تھا کہ ''ہندوستان میں ایک قوم نہیں بستی، مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں بستی ہیں۔'' سرسید احمد خان نے غدار، کافر، نیچری جیسے فتوئوں کے باوجود مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے منور کیا اور اس جدوجہد نے آگے چل کر مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کی شکل اختیار کی اور 1906 میں مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا، جس کے جوائنٹ سیکریٹری علی گڑھ تحریک کے روح رواں نواب محسن المک اور وقار المک تھے۔
لیگ کا صدر مقام بھی علی گڑھ ہی تھا، یہی وہ تنظیم تھی جو آگے بڑھتے بڑھتے تحریک پاکستان کی صورت اختیار کرگئی اور 1947 میں، یعنی سرسید احمد خان کی وفات کے پچاسی سال بعد مسلمانوں کی جداگانہ مملکت، پاکستان کے حسین پیکر میں نمودار ہوئی۔ اگر غدار سرسید احمد خان کچھ نہ کرپاتا تو محمد علی جوہر نہ ہوتا، شوکت علی نہ ہوتا، نہ اقبال ہوتا، نہ جناح ہوتے اور ہم آج ہندوستان میں شودروں سے بھی بدتر زندگی بسر کررہے ہوتے۔
مدرسۃ العلوم کی تعلم سے سرسید کا پیش نظر کیا تھا اس کا اندازہ ان کے اس خطاب سے لگائیے جو انھوں نے طلبا سے کیا تھا ''یاد رکھو! سب سے سچا کلمہ لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ ہے۔ اس پر یقین رکھنے کی بدولت ہماری قوم، ہماری قوم ہے، اگر تم نے سب کچھ کیا اور اس پر یقین نہ کیا تو تم ہماری قوم نہ رہے، پھر اگر تم آسمان کے ستارے بھی ہوگئے تو کیا، مجھے امید ہے کہ تم علم اور اسلام دونوں کے نمونے ہوگے اور جبھی ہماری قوم کو حقیقی عزت نصیب ہوگی۔''
سرسید احمد خان اپنے حصے کا کام کرگئے، ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ مغربی ممالک ہمارے تعلیمی نظام میں رخنہ ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور ہم ایک جانب نہ تو انگلش میڈیم ہیں اور نہ ہی اردو میڈیم ہیں۔ نقل مافیا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے اور کسی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنا کر قوم میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف اپنے مقاصد کے لیے غداروں کی فیکٹریوں سے کوئی تو سرسید احمد خان کی طرح غدار نکلے۔
بات تو رسوائی کی ہے لیکن بات کہنا بھی ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں فضا کچھ غداری کی چلی ہوئی ہے۔ ہر طرف شور ہے کہ غدار کون ہے؟ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم کسی کو غدار کہہ کیوں رہے ہیں؟ ویسے بھی غداری کچھ فیشن سا بنتا جا رہا ہے۔ جنگ آزادی کو غدر قرار دے کر پہلے مسلمانوں کی جدوجہد کو غداری سے موسوم کیا گیا تھا تو پھر انگریز سرکار نے ہندوستان پر قبضے کے بعد جدوجہد کرنے والوں کو غدار کہہ کر سزائیں دیں۔
1857کے سانحہ ہوشربا کے بعد مسلمانان ہند کی حالت بد سے بدتر ہوچکی تھی سلطنت، دولت و حشمت اور عزت ناموس کو غارت و تباہ و برباد کردیا گیا، ابنائے قوم کو چن چن کو قتل کیا گیا۔ صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کے لیے جہاں ایک طرف انگریز شعلہ نفرت میں ملبوس تھا تو دوسری جانب ہندو پنڈت اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کے لیے دانت پیس رہا تھا۔ سرسید احمد خان نے جب اپنا مشہور رسالہ ''اسباب بغاوت ہند'' لکھا تو اس رسالے نے ہندوستان اور انگلستان کے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچادیا۔
اسی طرح سرسید احمد خان ''لائن محمڈنز آف انڈیا'' میں لکھتے ہیں کہ ''اس وقت کوئی آفت ایسی برپا نہیں جس کے متعلق یہ نہ کہا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے برپا کیا ہے، خواہ وہ کسی رام دین یا ماتا دین ہی نے کیوں نہ برپا کی ہو، کوئی بلا آسمان سے نہیں آئی، جس نے سب سے پہلے مسلمان کا گھر نہ تاکا ہو، کوئی کانٹوں والا درخت اس زمانے میں نہیں اُگا جس کی نسبت یہ نہ کہا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے بویا ہے، کوئی آتشیں بگولہ نہیں اٹھا جس کے متعلق یہ نہ مشہور کیا گیا ہو کہ اسے مسلمانوں نے اٹھایا۔''
اسباب بغاوت ہند کے رسالے پر انگریز حکومت کے جوش غیظ و غضب کا اندازہ ان الفاظ سے لگائیے جو گورنمنٹ آف انڈیا کے فارن سیکریٹری مسٹر بیڈن نے کہے ''اِس شخص نے بہت باغیانہ مضمون لکھا ہے، اس سے حسب ضابطہ فوراً باز پرس کی جائے اور اگر کوئی معقول جواب نہ دے سکے تو سخت سزا دی جائے۔'' سرسید احمد خان اس وقت انگریز ملازمت میں تھے، ان کی دلیرانہ ہمت پر انگلستان کے مشہور اخبار ''ہوم نیوز'' نے اس رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ''سرسید نے انتہائی دلیری سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور یہ بات محتاج بیان نہیں کہ ان کی اس جرات مندانہ رائے نے حکمران طبقہ کو بے حد متاثر کیا ہے۔''
بغاوت ہند کے ایک ہی سال بعد یعنی 1858 میں کلکتہ، بمبئی اور مدارس میں جدید علوم کی یونیوسٹیاں قائم ہوگئی تھیں جن میں ہندو جوق در جوق داخل ہورہے تھے لیکن مسلمانوں کے علماء اکرام نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے اسے شجر ممنوعہ سمجھا، جس کا نتیجہ یہ رہا کہ بیس سال میں صرف بیس مسلمان گریجویٹس ہوسکے۔ ان یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے غیر مسلم، حکومت کی مشنری میں داخل ہوتے رہے، بالآخر سرسید احمد خان نے 1863 میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا اولیں مقصد تھا کہ عصر حاضر کے علوم سے متعلق جو کتابیں انگریزی میں شائع ہوں، ان کا اردو میں ترجمہ کیا جاسکے۔
اپریل 1869 یورپ کے سفر کے بعد جب اکتوبر 1870 میں سرسید احمد خان واپس ہندوستان پہنچے تو انھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی پر ایک کمیٹی ''خواستگار ترقی تعلیم'' بنائی، جس کا فریضہ تھا کہ وہ تحقیق کرے کہ مسلمان تعلیم میں پیچھے کیوں ہیں۔ 24 مئی 1875 کوسرسید احمد خان نے مدرسہ کی بنیاد رکھی، جو درحقیقت کسی مدرسہ کی نہیں بلکہ قیام پاکستان کی پہلی اینٹ تھی۔ سرسید احمد خان یہاں یہ کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب مولوی حضرات ان کے پیچھے کفر کا ڈنڈا لیے پھر رہے تھے، فتویٰ جاری ہوا کہ ''جو لوگ مدرسۃ العلوم قائم کرنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت مسلمان نہیں''۔ سرسید احمد خان ملائوں کو جواب بھی دیتے رہے اور مدرسہ علی گڑھ کی بنیاد بھی رکھی۔
ملک میں قریب ساڑھے آٹھ سو ہندو گریجویٹس تھے اور صرف بیس مسلمان۔ علی گڑھ کالج 1878 میں کھلا اور اس کے بیس سال بعد جب سرسید کی وفات ہوئی تو ملک میں 126 گریجویٹس مسلمان تھے اور 174 انڈر گریجویٹس تھے، اس کالج نے اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس دیوار کو بھی گرایا جو مسلمانوں کے اور علوم عہد حاضرہ کے درمیان کفر کا ہوا بن کر حائل تھی۔
نتیجہ ملک میں دیگر مقامات مثلاً لاہور، امرتسر، کراچی، حیدرآباد، بہاولپور وغیرہ میں مسلمانوں کے اسکول اور کالج کھلنے شروع ہوگئے، اس کا نیتجہ یہ نکلا کہ جہاں 1881 تک ملک میں صرف 43 مسلمان گریجویٹس تھے، 1893 تک ان کی تعداد 339 تک پہنچ گئی۔ 1894 سے 1898 تک صرف الہ آباد اور پنجاب میں ان کی تعداد 185 تھی، عام تعلیم کی یہ حالت تھی کہ بنگال میں 1881 میں کالجوں اور اسکولوں میں ایک لاکھ پچاسی ہزار مسلمان طالب علم تھے اور 1894 تک ان کی تعداد چار لاکھ نوے ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ نتیجہ تھا ایک مرد درویش دیدہ ور کی دور نگاہی اور جرات آموزی کا۔
بات یہ نہیں تھی کہ غیر مسلم کے مقابلے میں کتنے مسلم گریجویٹس پیدا کیے جارہے ہیں بلکہ زنجیر غلامی کو توڑنے کی ایک ایسی کوشش تھی جس نے وقت کے ساتھ یہ ثابت کردیا کہ، بقول سرسید احمد خان نے 1865 میں فرمایا تھا کہ ''ہندوستان میں ایک قوم نہیں بستی، مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں بستی ہیں۔'' سرسید احمد خان نے غدار، کافر، نیچری جیسے فتوئوں کے باوجود مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے منور کیا اور اس جدوجہد نے آگے چل کر مسلمانوں کی جداگانہ تنظیم کی شکل اختیار کی اور 1906 میں مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا، جس کے جوائنٹ سیکریٹری علی گڑھ تحریک کے روح رواں نواب محسن المک اور وقار المک تھے۔
لیگ کا صدر مقام بھی علی گڑھ ہی تھا، یہی وہ تنظیم تھی جو آگے بڑھتے بڑھتے تحریک پاکستان کی صورت اختیار کرگئی اور 1947 میں، یعنی سرسید احمد خان کی وفات کے پچاسی سال بعد مسلمانوں کی جداگانہ مملکت، پاکستان کے حسین پیکر میں نمودار ہوئی۔ اگر غدار سرسید احمد خان کچھ نہ کرپاتا تو محمد علی جوہر نہ ہوتا، شوکت علی نہ ہوتا، نہ اقبال ہوتا، نہ جناح ہوتے اور ہم آج ہندوستان میں شودروں سے بھی بدتر زندگی بسر کررہے ہوتے۔
مدرسۃ العلوم کی تعلم سے سرسید کا پیش نظر کیا تھا اس کا اندازہ ان کے اس خطاب سے لگائیے جو انھوں نے طلبا سے کیا تھا ''یاد رکھو! سب سے سچا کلمہ لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ ہے۔ اس پر یقین رکھنے کی بدولت ہماری قوم، ہماری قوم ہے، اگر تم نے سب کچھ کیا اور اس پر یقین نہ کیا تو تم ہماری قوم نہ رہے، پھر اگر تم آسمان کے ستارے بھی ہوگئے تو کیا، مجھے امید ہے کہ تم علم اور اسلام دونوں کے نمونے ہوگے اور جبھی ہماری قوم کو حقیقی عزت نصیب ہوگی۔''
سرسید احمد خان اپنے حصے کا کام کرگئے، ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ مغربی ممالک ہمارے تعلیمی نظام میں رخنہ ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور ہم ایک جانب نہ تو انگلش میڈیم ہیں اور نہ ہی اردو میڈیم ہیں۔ نقل مافیا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے اور کسی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنا کر قوم میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف اپنے مقاصد کے لیے غداروں کی فیکٹریوں سے کوئی تو سرسید احمد خان کی طرح غدار نکلے۔