عارضی نہیں مستقل جنگ بندی کی ضرورت
اس عارضی ریلیف کو مستقل کرانا اقوام عالم خصوصاً امریکا اور یورپی یونین کی ذمے داری ہے
اسرائیل اور حماس کے درمیان 4 روزہ جنگ بندی پر عملدرآمد جمعہ کے روز سے شروع ہو گیا ہے، یوں اسرائیل اور حماس نے قیدیوں کی رہائی کا بھی آغاز کر دیا ہے جب کہ غزہ میں امدادی سامان بھی پہنچنے لگا ہے۔
شہری اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے ہیں تاہم ابھی یہ عارضی جنگ بندی ہے، جب تک مستقل جنگ بندی نہیں ہوتی اس وقت تک غزہ میں مکمل آبادکاری ہو سکتی ہے اور نہ ہی کاروباری سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔
قطرکی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے اعلان کیا کہ حالیہ جنگ بندی کا اطلاق شمالی غزہ کے ساتھ ساتھ جنوبی غزہ پر بھی ہو گا۔ حماس نے 24 یرغمالی اور اسرائیل نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا۔اسرائیلی حکام نے قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کر دی ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حماس نے 24 یرغمالیوں کو رہا کیا، ان میں 13 اسرائیلی ہیں، جن میں کئی دوہری شہریت کے حامل ہیں، 10 تھائی لینڈ کے باشندے ہیں اور ایک فلپائن کا شہری شامل ہے، انھیں ریڈکراس کے حوالے کر دیا گیا۔
اسرائیلی جیلوں میں ڈیڑھ سو فلسطینی قیدی ہیں، جنھیں رہا کیا جائے گا۔ اب تک بچوں اور خواتین سمیت 39 فلسطینیوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ حماس 50 یرغمالیوں کو رہا کرے گی جن میں سے 24 کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بادل پوری طرح چھٹے نہیں ہیں، چار دن کی جنگ بندی محض قیدیوں کی رہائی کے لیے عمل میں آئی ہے، اب چار دن بعد کیا ہو گا اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چار روزہ جنگ بندی کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ جنوبی غزہ میں امدادی سامان داخل ہوگیا، یہ سامان اقوامِ متحدہ کی امدادی تنظیموں کے حوالے کیا گیا ہے۔ غزہ کو روزانہ 1 لاکھ 30 ہزار لیٹر ڈیزل اور گیس کے چار ٹرک فراہم کیے جائیں گے۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ فلسطینی خاندان شمالی غزہ داخل ہوئے ہیں تاکہ ملبے میں دبے ہوئے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو نکال سکیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کا یہ مختصر وقفہ ہے، عارضی جنگ بندی کے بعد لڑائی شدت سے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ ہم مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہنے کی توقع ہے۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ غزہ کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانی میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے فائر بندی کے نفاذ سے صرف چند گھنٹے قبل غزہ کے مختلف رہائشی علاقوں پر شدید بمباری کی ہے۔
یہ لڑائی 7 اکتوبر کو شروع ہوئی، اس میں 15 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 6 ہزار سے زائد بچے اور 4 ہزار خواتین ہیں۔ غرب اردن میں یہودی آباد کارو ں نے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک یہودی آبادکاروں کے تشدد سے مغربی کنارے میں52 بچوں سمیت201 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔
اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے مطابق 7 اکتوبر کو ''طوفان الا قصیٰ ''کی لڑائی کے آغاز سے اب تک 1600 اسرائیلی فوجی معذور ہو چکے ہیں۔ 400فوجی اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ تعداد یوم کپور جنگ جو اکتوبر 1973 میں لڑی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب اسرائیلی حکومت کے مؤقف میں کتنی سچائی ہے، اس کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فلسطینیوں پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے مظالم کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔
اس عرصے میں کتنے اسرائیلی شہری مارے گئے، ان کی تعداد انتہائی کم ہے جب کہ فلسطینیوں کی تعداد کئی لاکھ میں ہو گی۔ جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی یہ تنظیمیں اسرائیلی مظالم پر رپورٹیں شایع کرتی رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر سایہ کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی اسرائیلی مظالم کی تفصیلات جاری کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی اور معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ماضی میں بھی ان کے گھر مسمار ہوئے ہیں اور اب بھی انھی کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی اشرافیہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں مقیم ہیں' کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت امان میں رہائش پذیر ہیں جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میں قیدیوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس لیے اقوام عالم ہوں یا عرب ممالک کی قیادت' انھیں سب سے پہلے عام فلسطینیوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں' اسرائیل کی فوجی اور معاشی طاقت مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ہے جب کہ فلسطینیوں کی عالمی سطح پر عوامی حمایت تو بہت زیادہ ہے لیکن طاقتور اقوام کے اندر ان کی حمایت کم ہے اور اگر ہے بھی تو وہ موثر ثابت نہیں ہورہی' اس لیے حقائق کے مطابق تنازعہ فلسطین کا حل مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ غزہ
کے جو حالات ہیں' اس کا تقاضا مستقل جنگ بندی ہے کیونکہ غزہ تباہ ہو چکا ہے، وہاں کے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کے لیے کئی ارب ڈالر کی رقم درکار ہے جو کم ازکم غزہ کے پاس تو ہے نہیں۔ غزہ کے شہریوںکی نجی املاک اور کاروباری نقصان الگ ہے' اس کے ازالہ کے لیے بھی بھاری رقوم کی ضرورت ہے، صحت اور تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں۔
غزہ میں معمولات زندگی کی بحالی کے لیے چار روزہ جنگ بندی سوائے یرغمالیوں کی رہائی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر مستقل جنگ بندی کرائیں تاکہ غزہ میں معمولات زندگی بحال ہو سکیں اور شہری اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں مصروف ہوں جب کہ طلبہ یونیورسٹی، کالجز اور اسکولوں میں پڑھنے کے لیے جا سکیں۔
تمام ممالک جنگ بندی کی حمایت کر رہے ہیں' ترکی، مصر، قطر اور سعودی عرب کا کردار اور ردعمل خاصا مضبوط ہے۔ عرب لیگ بھی اپنا دباؤ بڑھائے ہوئے ہے ' اس لیے لگتا یہی ہے کہ معاملات کسی حتمی حل کی طرف چل نکلیں گے۔ اس سارے معاملے میں امریکا کا کردار سب سے اہم ہے۔ اس لڑائی کے دوران بھی امریکا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے سے انکار کر دیا ہے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے دو روز قبل اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکی کانگریس سے اسرائیل اور یوکرین کے لیے اضافی امداد کی منظوری کے لیے درخواست کردی گئی ہے۔ ایسے موقع پر اگر امریکا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی عارضی طور پر معطل کر دیتا تو اس بحران کے حل کے حوالے سے امریکی کردار کو مثبت قرار دیا جانا تھا۔ اب بھی امریکا چاہے تو حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی ہو سکتی ہے۔ یورپی یونین کو بھی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کر چکی ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کر رہا ہے۔ 19اور 20اکتوبر کو اسرائیلی بمباری سے 20غزہ میں بچوں سمیت 46شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ غزہ میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ایک مقام پر 46بے گناہ شہری مارے گئے۔ غزہ پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی تباہ کاریوں سے عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ مساجد اور چرچز پر بھی بمباری کی گئی جب کہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور پی ایل او کی پوزیشن بھی متنازعہ ہوئی ہے۔ پی ایل او اور حماس الگ الگ نظریات کی حامل جماعتیں یا تنظیمیں ہیں۔پی ایل او لبرل نیشنل ازم جب کہ حماس مذہبی نیشنل ازم کے علمبردار ہیں۔یوں دونوں میں خاصا نظریاتی اختلاف ہے' تاہم یہ تمام گروپ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے ایک ہی مؤقف رکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت غزہ میں جنگ بندی کی ہے۔
اس عارضی ریلیف کو مستقل کرانا اقوام عالم خصوصاً امریکا اور یورپی یونین کی ذمے داری ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے ان کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں۔ مسلم ممالک کو غزہ پر اتحاد اور یکجہتی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی امریکا سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ اس سارے تنازعے پر غور کیا جائے تو اس میں امریکا کا کردار سب سے اہم نظر آتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل، دونوں کے امریکا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب، قطر، یو اے ای اور کویت کے بھی امریکا اور مغرب کے ساتھ گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ روس کا معاملہ مختلف ہے، اس لیے زیادہ ذمے داری اسرائیلی حکام اور امریکا پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے کے امن کو خراب نہ کریں۔
شہری اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو گئے ہیں تاہم ابھی یہ عارضی جنگ بندی ہے، جب تک مستقل جنگ بندی نہیں ہوتی اس وقت تک غزہ میں مکمل آبادکاری ہو سکتی ہے اور نہ ہی کاروباری سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔
قطرکی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے اعلان کیا کہ حالیہ جنگ بندی کا اطلاق شمالی غزہ کے ساتھ ساتھ جنوبی غزہ پر بھی ہو گا۔ حماس نے 24 یرغمالی اور اسرائیل نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا۔اسرائیلی حکام نے قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کر دی ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حماس نے 24 یرغمالیوں کو رہا کیا، ان میں 13 اسرائیلی ہیں، جن میں کئی دوہری شہریت کے حامل ہیں، 10 تھائی لینڈ کے باشندے ہیں اور ایک فلپائن کا شہری شامل ہے، انھیں ریڈکراس کے حوالے کر دیا گیا۔
اسرائیلی جیلوں میں ڈیڑھ سو فلسطینی قیدی ہیں، جنھیں رہا کیا جائے گا۔ اب تک بچوں اور خواتین سمیت 39 فلسطینیوں کو رہا کردیا گیا ہے۔ حماس 50 یرغمالیوں کو رہا کرے گی جن میں سے 24 کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بادل پوری طرح چھٹے نہیں ہیں، چار دن کی جنگ بندی محض قیدیوں کی رہائی کے لیے عمل میں آئی ہے، اب چار دن بعد کیا ہو گا اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چار روزہ جنگ بندی کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ جنوبی غزہ میں امدادی سامان داخل ہوگیا، یہ سامان اقوامِ متحدہ کی امدادی تنظیموں کے حوالے کیا گیا ہے۔ غزہ کو روزانہ 1 لاکھ 30 ہزار لیٹر ڈیزل اور گیس کے چار ٹرک فراہم کیے جائیں گے۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ فلسطینی خاندان شمالی غزہ داخل ہوئے ہیں تاکہ ملبے میں دبے ہوئے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو نکال سکیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کا یہ مختصر وقفہ ہے، عارضی جنگ بندی کے بعد لڑائی شدت سے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ ہم مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہنے کی توقع ہے۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ غزہ کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانی میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے فائر بندی کے نفاذ سے صرف چند گھنٹے قبل غزہ کے مختلف رہائشی علاقوں پر شدید بمباری کی ہے۔
یہ لڑائی 7 اکتوبر کو شروع ہوئی، اس میں 15 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 6 ہزار سے زائد بچے اور 4 ہزار خواتین ہیں۔ غرب اردن میں یہودی آباد کارو ں نے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک یہودی آبادکاروں کے تشدد سے مغربی کنارے میں52 بچوں سمیت201 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔
اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے مطابق 7 اکتوبر کو ''طوفان الا قصیٰ ''کی لڑائی کے آغاز سے اب تک 1600 اسرائیلی فوجی معذور ہو چکے ہیں۔ 400فوجی اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ تعداد یوم کپور جنگ جو اکتوبر 1973 میں لڑی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب اسرائیلی حکومت کے مؤقف میں کتنی سچائی ہے، اس کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فلسطینیوں پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے مظالم کی تاریخ نصف صدی پر محیط ہے۔
اس عرصے میں کتنے اسرائیلی شہری مارے گئے، ان کی تعداد انتہائی کم ہے جب کہ فلسطینیوں کی تعداد کئی لاکھ میں ہو گی۔ جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی یہ تنظیمیں اسرائیلی مظالم پر رپورٹیں شایع کرتی رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر سایہ کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی اسرائیلی مظالم کی تفصیلات جاری کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی اور معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ماضی میں بھی ان کے گھر مسمار ہوئے ہیں اور اب بھی انھی کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی اشرافیہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں مقیم ہیں' کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت امان میں رہائش پذیر ہیں جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میں قیدیوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس لیے اقوام عالم ہوں یا عرب ممالک کی قیادت' انھیں سب سے پہلے عام فلسطینیوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں' اسرائیل کی فوجی اور معاشی طاقت مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ہے جب کہ فلسطینیوں کی عالمی سطح پر عوامی حمایت تو بہت زیادہ ہے لیکن طاقتور اقوام کے اندر ان کی حمایت کم ہے اور اگر ہے بھی تو وہ موثر ثابت نہیں ہورہی' اس لیے حقائق کے مطابق تنازعہ فلسطین کا حل مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ غزہ
کے جو حالات ہیں' اس کا تقاضا مستقل جنگ بندی ہے کیونکہ غزہ تباہ ہو چکا ہے، وہاں کے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کے لیے کئی ارب ڈالر کی رقم درکار ہے جو کم ازکم غزہ کے پاس تو ہے نہیں۔ غزہ کے شہریوںکی نجی املاک اور کاروباری نقصان الگ ہے' اس کے ازالہ کے لیے بھی بھاری رقوم کی ضرورت ہے، صحت اور تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں۔
غزہ میں معمولات زندگی کی بحالی کے لیے چار روزہ جنگ بندی سوائے یرغمالیوں کی رہائی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اقوام عالم کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر مستقل جنگ بندی کرائیں تاکہ غزہ میں معمولات زندگی بحال ہو سکیں اور شہری اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں مصروف ہوں جب کہ طلبہ یونیورسٹی، کالجز اور اسکولوں میں پڑھنے کے لیے جا سکیں۔
تمام ممالک جنگ بندی کی حمایت کر رہے ہیں' ترکی، مصر، قطر اور سعودی عرب کا کردار اور ردعمل خاصا مضبوط ہے۔ عرب لیگ بھی اپنا دباؤ بڑھائے ہوئے ہے ' اس لیے لگتا یہی ہے کہ معاملات کسی حتمی حل کی طرف چل نکلیں گے۔ اس سارے معاملے میں امریکا کا کردار سب سے اہم ہے۔ اس لڑائی کے دوران بھی امریکا نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے سے انکار کر دیا ہے۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے دو روز قبل اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکی کانگریس سے اسرائیل اور یوکرین کے لیے اضافی امداد کی منظوری کے لیے درخواست کردی گئی ہے۔ ایسے موقع پر اگر امریکا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی عارضی طور پر معطل کر دیتا تو اس بحران کے حل کے حوالے سے امریکی کردار کو مثبت قرار دیا جانا تھا۔ اب بھی امریکا چاہے تو حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی ہو سکتی ہے۔ یورپی یونین کو بھی اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کر چکی ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کر رہا ہے۔ 19اور 20اکتوبر کو اسرائیلی بمباری سے 20غزہ میں بچوں سمیت 46شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ غزہ میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ایک مقام پر 46بے گناہ شہری مارے گئے۔ غزہ پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی تباہ کاریوں سے عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ مساجد اور چرچز پر بھی بمباری کی گئی جب کہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور پی ایل او کی پوزیشن بھی متنازعہ ہوئی ہے۔ پی ایل او اور حماس الگ الگ نظریات کی حامل جماعتیں یا تنظیمیں ہیں۔پی ایل او لبرل نیشنل ازم جب کہ حماس مذہبی نیشنل ازم کے علمبردار ہیں۔یوں دونوں میں خاصا نظریاتی اختلاف ہے' تاہم یہ تمام گروپ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے ایک ہی مؤقف رکھتے ہیں۔ بہرحال اس وقت سب سے زیادہ ضرورت غزہ میں جنگ بندی کی ہے۔
اس عارضی ریلیف کو مستقل کرانا اقوام عالم خصوصاً امریکا اور یورپی یونین کی ذمے داری ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے ان کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں۔ مسلم ممالک کو غزہ پر اتحاد اور یکجہتی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی امریکا سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔ اس سارے تنازعے پر غور کیا جائے تو اس میں امریکا کا کردار سب سے اہم نظر آتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل، دونوں کے امریکا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب، قطر، یو اے ای اور کویت کے بھی امریکا اور مغرب کے ساتھ گہرے معاشی تعلقات ہیں۔ روس کا معاملہ مختلف ہے، اس لیے زیادہ ذمے داری اسرائیلی حکام اور امریکا پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے کے امن کو خراب نہ کریں۔