امامِ اعظم ابو حنیفہؒ اور خلیفہ وقت کا جبر

امام اعظم کی فقیہ و فقہ میں نظیر نہیں ملتی، اپنے علم کے ذریعے حقیقت سے آگاہی کی صلاحیت تھی

nasim.anjum27@gmail.com

حضرت امام ابو حنیفہؒ تمام آئمہ کے مقابلے میں بلند مرتبے پر فائز تھے، اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔

آپ کا اسم گرامی نعمان اور کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے۔ آپ80 ہجری بہ مطابق 699 عیسوی میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد ابی بن سلیمان سے حاصل کی، ان کے اساتذہ کی تعداد کئی بتائی جاتی ہے، آپ کے اساتذہ کرام میں پہلا مدرسہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔

آپ کو یہ مرتبہ بھی حاصل ہے کہ آپ تابعی ہیں، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی براہ راست زیارت کی اور احادیث نبوی ﷺ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے، امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی جن میں چالیس علما جلیل القدر مرتبت تھے اور آپ ان سے دینی معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے۔

ان دنوں کوفہ علم و فن کا ایک اہم مرکز تھا، اس شہر کی خاصیت یہ تھی کہ اس کی علمی فضا کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دیگر صحابی و تابعین کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا۔ جامع کوفہ کی ہر محراب درسگاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ علم کے طالبین تحصیل علم اور درس و تدریس میں مصروف رہتے۔

امام اعظم نے احادیث ﷺ کے حصول کے لیے تین اہم مقامات کا خصوصی طور پر سفر کیا، سب سے پہلے کوفہ میں جو علم و حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا، دوسرا مقام حرمین شریفین اور تیسرا بصرہ تھا، حضرت امام اعظم کی فہم و فراست، زہد و تقویٰ، حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب انھوں نے حصول علم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی یہ ولید اور حجاج کا زمانہ تھا جس کے ظلم و ستم اور سفاکیت نے قیامت برپا کردی تھی۔

امام ابو حنیفہ ان ایام میں اپنے آبائی پیشے ''خزبانی'' سے منسلک ہوگئے اور ایک بڑا کارخانہ کھول لیا اور تجارت کو خوب چمکایا، آپ کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ تھا وہ اپنی دولت سے ضرورت مندوں اور مجبور و بے کسوں کی مدد کرکے انھیں مشکلات سے نکالتے۔ ایک بار کسی کام سے جا رہے تھے تو راستے میں انھیں کوفہ کے مشہور امام حدیث عامر شعبی نے انھیں نصیحت فرمائی۔

امام شعبی کی نصیحت کے بعد ادب و لغت اور علم کلام کی طرف خاص رغبت ہوگئی اور بہت جلد ایسا کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے علما بھی آپ سے بحث کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے۔ امام اعظم نے تحصیل علم، اشاعت علم اور عبادت و ریاضت کے لیے اپنی زندگی کے ماہ و سال وقف کر دیے تھے ایک رات میں قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔

اسد بن عمرو سے روایت ہے، امام اعظم ابو حنیفہ نے چالیس سال تک ایک ہی وضو سے عشا اور فجر کی نماز ادا کی۔اللہ کے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں کی آزمائشوں کی مدت طویل اور سخت ہوتی ہے، اور عشق اللہ اور رسول پاکؐ کے عاشقین کو ملنے والی سزائیں اور مصائب ان کے لیے قابل برداشت، صبر و شکر کا باعث بن جاتے ہیں۔

امام اعظم کی فقیہ و فقہ میں نظیر نہیں ملتی، اپنے علم کے ذریعے حقیقت سے آگاہی کی صلاحیت تھی، اس لیے انھوں نے علم کلام کے کوچے میں قدم رکھا اور بہت جلد اس میں ایسا کمال حاصل کیا اور بڑے بڑے علما بھی آپ سے بحث کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے تھے۔


خلیفہ منصور نے اپنی حکومت کے استحکام کے بعد شہر دارالسلام بغداد کی اعلیٰ اور وسیع پیمانے پر تعمیر شروع کی لیکن شہر کی تعمیر سے پہلے اس نے علما و حکما اور دانشوروں کو بغداد آنے کی دعوت دی، بغداد آنے والوں میں فقہا و محدثین کی جماعت میں امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ بھی شامل تھے عیسیٰ بن موسیٰ نے جب امام اعظم کو منصور کے سامنے دربار میں پیش کیا تو انھوں نے اس طرح تعارف کرایا کہ'' اے امیر المومنین! اس وقت یہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں'' عیسیٰ بن موسیٰ کے تعارف کے بعد منصور امام صاحب سے مخاطب ہوا، تمہارے معلم کون تھے؟

امام اعظم نے جواب دیا، ''حضور سید عالم حضرت محمد ﷺ کے صحابہ عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم، اصحاب اور ان کے شاگردوں کے علم سے استفادہ کیا'' صاحب علم ابو جعفر نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ'' تم نے مستند اور مستحکم راہ کا اپنے لیے انتخاب کیا ہے، ''ابو جعفر کا ارادہ تھا کہ شہر بغداد کی تعمیر و تزئین ان علما کرام کے مشورے سے کی جائے۔

دوسروں کو ذمے داریاں دینے کے بعد جب امام ابو حنیفہ کو منصب قضا کی پیش کش کی گئی تو انھوں نے انکار کردیا۔ منصور نے انکار کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور شدید غصے کی حالت میں امام ابو حنیفہ کو اینٹوں کی ڈھلائی کا کام سپرد کردیا تاکہ وہ اذیت سے دوچار ہو کر مجبوراً عہدہ قضا قبول فرما لیں گے لیکن امام ابو حنیفہ نے نہ کہ خوشی خوشی کام کیا بلکہ اینٹوں کی گنتی کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا، انھوں نے ایک ایک اینٹ گننے کے بجائے علم حساب کی مدد سے وہ اینٹوں کی تعداد کا شمار بانس سے کر لیا کرتے تھے۔

امام صاحب کی بصیرت اور علوم کا شہرہ دور تک پھیل گیا تھا، دیانت داری اور انصاف کیمطابق کیے گئے فیصلے خلیفہ منصور کے مصاحبین کو نفرت اور حسد میں مبتلا کردیتے تھے، جب علم و عمل کسی عالم اور مومن کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں تو اللہ لوگوں کے دلوں میں بے پناہ محبت اور عزت کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے جیساکہ آج کے زمانے کے حالات ہیں، امانت و خیانت، جھوٹ اور سچ، علم و جہالت کے درمیان ہونے والی جنگوں نے شروع ہی سے تاریخ میں جگہ بنالی تھی، حضرت امام ابو حنیفہ کو منصور نے حکم دیا کہ وہ '' بیع وشرا '' سے متعلق کتاب لکھیں۔

دوسرے علما منصور کے معیار کیمطابق کتاب لکھنے میں ناکام ہوگئے اور امام اعظم کو دو ماہ کا وقت دیا گیا لیکن امام نے اپنے وسیع علم سے دو دن میں کتاب لکھ کر منصور کی خدمت میں پیش کردی۔ خلیفہ منصور آپ کی حکیمانہ بصیرت اور مجتہدانہ صلاحیت سے اچھی طرح واقف تھا وہ اکثر فقہی مسائل کا حل پوچھا کرتا۔

امام اعظم کی عزت و توقیر میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ ان کے حاسدین کی تعداد بڑھ رہی تھی، قاضی ابو یوسف کا بیان ہے کہ منصور کے دربار کا ایک غلام امام صاحب سے خاص عداوت رکھتا تھا اور جہالت میں اپنی مثال آپ تھا اس نے بارہا امام صاحب کی برائی کی اور ایک دن اس نے خلیفہ منصور کو اس بات پر راضی کر لیا کہ آپ امام صاحب کو اتنا ہی قابل اور علوم کا ماہر سمجھتے ہیں تو مجھے موقع دیجیے کہ میں سوالات کے ذریعے ان کا امتحان لوں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ وہ کس قدر عالم و فاضل ہیں۔

جس وقت امام صاحب اور خلیفہ منصور ایک ساتھ بیٹھے محو گفتگو تھے تو غلام نے بصد احترام کہا کہ'' آپ ہر بات کا جواب اپنے علم کی بدولت دے دیتے ہیں، میں بھی آپ سے سوالات کرنا چاہتا ہوں'' امام صاحب نے کہا ''پوچھو!'' اس نے کہا ''دنیا کے ٹھیک بیچ کون سی جگہ ہے؟'' امام نے فرمایا کہ'' وہی جگہ ہے جہاں تو بیٹھا ہے'' اس نے اسی طرح کئی احمقانہ سوالات کیے، آخر میں اسے شرمندگی اٹھانا پڑی اور منصور کے عتاب سے بھی نہ بچ سکا۔

امام اعظم کو والی عراق ابو ہبیرہ نے ایک اہم اور کلیدی منصب پر فائزکرنا چاہا تو انھوں نے انکارکر دیا اور ان کے بار بار کے انکار نے ابو ہبیرہ کو غیض و غضب میں مبتلا کردیا اور اس نے انھیں سزا دینے کے لیے قید کا انتخاب کیا اور اپنی قسم کے مطابق کوڑے لگوائے، اسی طرح خلیفہ ابو جعفر منصور نے قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کرنے پر ابن ہبیرہ کی سزا کو دہرایا۔

عبدالعزیز بن عصام جو امام صاحب کی سزا کے گواہ ہیں ان کا بیان ہے جب وہ سزا کے بعد خلیفہ کے سامنے لائے گئے وہ اس وقت پاجامہ پہنے تھے اور ان کی پشت پر کوڑوں کی ضرب نمایاں تھی۔ اسی وقت منصور کے چچا عبدالصمد بن علی وہاں پہنچے اور کہنے لگے'' امیر المومنین! یہ آپ نے کیا کیا یہ عراق والوں کا امام اور مشرق والوں کا فقیہ ہے۔''

خلیفہ منصور نے ان کی منصفی اور خوف خدا کو اپنی نافرمانی سمجھا اور آخر کار انھیں مارنے کا منصوبہ بنایا، اعلانیہ قتل کی صورت میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا لہٰذا اس نے زہر دے دیا جب آپؒ کو اندازہ ہو گیا ان کا اپنے خالق حقیقی کا قرب حاصل کرنے کا وقت آگیا تو انھوں نے سر کو سجدے میں رکھا اسی وقت آپ کی روح پرواز کر گئی۔ بغداد کے لوگ ماتم کناں تھے لوگ جوق در جوق آ رہے تھے آپؒ کی نماز جنازہ چھ بار پڑھائی گئی۔ تدفین کے بعد غیب سے ندا آئی ''فقیہ جاتا رہا اللہ سے ڈرو اور اس کے نائب بنو۔''
Load Next Story