کوئی مجھ کو بچانے والا ہے
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25۔اے میں بچوں کو لازمی مفت تعلیم اور دیگر حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے
دنیا میں ہر سال 20 نومبرکو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہم اور ہماری حکومت نے اس دن کو رسمی انداز میں منا کر اپنی '' بین الاقوامی ذمے داری'' پوری کرنے کی کوشش کی۔ یہ ہمارا عمومی مزاج بنتا جا رہا ہے کہ ہم سنجیدہ معاملات میں بھی اکثر بڑی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمارے لیے اس امر کی کوئی اہمیت نہیں کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔ مجموعی طور پر تخمینہ لگایا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ معاشی بحران کے باعث پاکستان میں '' غریب'' لوگوں کی تعداد آبادی کے پچاس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد بھی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔
بچوں سے متعلق ادارہ یونیسیف کے مطابق دنیا میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والے کل بچوں کی 90 فیصد تعداد کا تعلق سب صحارا، افریقا اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس ادارے کا تخمینہ ہے کہ دنیا کے 33 کروڑ 30 لاکھ بچے بدترین غربت کا شکار ہیں۔ مذکورہ ادارے کے مطابق جو بچے زندہ رہنے اور نشوونما پانے کے لیے درکار مادی، روحانی اور جذباتی وسائل سے محروم ہیں، وہ بدترین غربت کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔
انتہائی غربت کے شکار بچوں کے بعد دوسری درجہ بندی میں '' غریب'' بچوں کو رکھا گیا ہے۔ بچوں کے عالمی ادارے کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔ یہ وہ غریب بچے ہیں جو دنیا میں بچوں کی کل تعداد کا 50 فیصد ہیں۔ ان بدنصیب بچوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں، انھیں تین وقت کی خوراک میسر نہیں اور نہ ہی ان کے لیے پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔
پس ماندہ ملکوں میں غربت کی حالت میں زندگی کا عذاب جھیلنے والے وہ بچے جو 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ان کی تعداد امیر ملکوں میں اس عمر میں مرنے والے بچوں کی تعداد سے دوگنا زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم اس عمر کے پچاس فیصد سے زیادہ بچوں کو موت کی وادی میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم ان کی بے وقت موت کے ذمے دار نہیں ہیں؟
بچوں کے حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی بنیادی آگاہی تک نہیں ہے کہ بچوں کی بہتر نشوونما کیوں ضروری ہے اور ایک ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار کس قدر اہم ہوتا ہے۔ اس آگاہی کی کمی کے باعث وہ گھرانے جو زیادہ غریب نہیں ہیں وہ بھی بچوں کی حقیقی نشوونما کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ بچوں کا دماغ پیدائش کے پہلے تین سالوں میں غیر معمولی تیزی سے بڑھتا ہے اور 80 فیصد تک مکمل ہوجاتا ہے اور جب بچہ 5 سال کا ہوتا ہے تو اس کے دماغ کی 90 فیصد تشکیل ہوجاتی ہے۔ ان دونوں باتوں کو ذہن میں رکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ بچوں کی زندگی کے ان انتہائی اہم ابتدائی برسوں میں انھیں کس قدر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئی بھی بچہ جب آٹھ سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس کے دماغ میں سیکھنے اور سمجھنے کی پوری صلاحیت پیدا ہوچکی ہوتی ہے اور وہ حقیقی اور غیر حقیقی یعنی حقیقت اور افسانہ میں فرق کرنے کے قابل بھی ہوجاتا ہے، جو حکومتیں اور قومیں بچوں کی صحت، تعلیم اور ذہنی نشوونما کو اہمیت دیتی ہیں وہ اپنے مستقبل کو تابناک بنا لیتی ہیں۔
بچوں کو اہمیت نہ دینا، انھیں بات بے بات ڈانٹتے رہنا، ان کی تعلیم میں دلچسپی نہ لینا، ان کے اندر شوق اور جستجوکی صلاحیت کی حوصلہ شکنی کرنا اور انھیں اپنے ذہنی اور فکری سانچے میں ڈھالنے جیسے منفی رویے ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں۔ بچے کی زندگی کے اولین سال کتنے اہم ہیں یہ کم لوگ جانتے ہیں۔
ایک بچہ پیدا ہونے کے صرف 10 منٹ بعد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کوئی آواز کس سمت سے آرہی ہے۔ ان ابتدائی برسوں میں بچے کا قد بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔ اچھی اور غذائیت سے بھرپور خوراک نہ ملے تو بچے کی جسمانی نشوونما سخت متاثر ہوتی ہے۔
یہی وہ عمر ہوتی ہے کہ جب بچے کو بہترین ماحول فراہم کر کے اس کی ذہنی نشوونما کو بہتر بنانا ممکن ہوتا ہے، لیکن غریب ملکوں میں غربت کے باعث بچے جسمانی اور ذہنی نشوونما کے حوالے سے پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد اس کا نقصان نہ صرف بچے کو انفرادی طور پر اٹھانا پڑتا ہے بلکہ پورے ملک اور معاشرے کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
بچوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے اپنے ادارے برائے اطفال ( یونیسیف) کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ادارے کی سربراہ کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت، عدم مساوات ، صحت عامہ کے ہنگامی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات بچوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، انھوں نے یہ مایوس کن حقیقت بیان کی ہے کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے 34 سال پہلے جو معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد سے دنیا کے بچوں کے حقوق کو آج جس قدر خطرہ لاحق ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔
یہ امر پیش نظر رہے کہ 1989 میں منظور ہونے والے اس معاہدے میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق ناقابل انتقال ہیں، دنیا کی حکومتوں نے ان حقوق کو تحفظ دینے کا عہد کیا ہے لیکن اس کے باوجود بچوں کو درپیش خطرات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔
یونیسیف نے اندازہ لگایا ہے کہ دنیا کے تقریباً 40 کروڑ بچے یا ہر پانچ میں سے ایک بچہ یا تو جنگ زندہ ماحول میں رہتا ہے یا وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان حالات میں بہت سے بچے زخمی، ہلاک اور جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف جنگ زدہ علاقوں میں متحارب گروہ بچوں کو مسلح افواج میں شامل کرنے کے علاوہ انھیں دفاعی شیلڈ کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔
یونیسیف کی سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے سے جو موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے باعث دنیا کے نصف بچوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تیز رفتار طوفانوں، خشک سالی کے باعث انھیں جسمانی کمزوری کا سامنا ہوسکتا ہے اور شدید گرمی کی لہروں (ہیٹ ویو) اور فضائی آلودگی سے، بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر وہ موت سے ہم کنار بھی ہوسکتے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک ارب سے زیادہ بچے موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملکوں میں رہتے ہیں، ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں جاری جنگوں میں تمام بچوں کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
اس کمیٹی نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب بہت سے لڑکے اور لڑکیاں جنگ کا نوالہ بن رہے ہیں اور صرف حالیہ دنوں میں غزہ میں 4600 سے زیادہ بچے شہید ہوچکے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے '' ایکسپریس فورم '' نے بھی ایک مذاکرہ منعقد کیا۔ جس میں بعض تلخ حقائق سامنے آئے۔ اس فورم میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق میں شامل پنجاب کے رکن ندیم اشرف نے بتایا کہ صرف پنجاب میں 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ مذکورہ مذاکرے میں شامل ماہر قانون ندا عثمان نے انکشاف کیا کہ ملکی سطح پر اب تک بچے کی عمر کا تعین تک نہیں ہوسکا ہے۔ مختلف صوبوں میں عمر کی حد کہیں سولہ اور کہیں اٹھارہ سال سے کم قرار دی گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق کے معاملات میں بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں کے حقوق کے بارے میں فوری اقدامات کرے۔ سندھ حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن متعارف کرائی ہے، اس کے علاوہ صوبے کے 30 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اور ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کا کنونشن 1989 میں منظور کیا تھا۔ پاکستان نے ایک سال بعد 1990 میں اس کنونشن کی توثیق کردی تھی۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25۔اے میں بچوں کو لازمی مفت تعلیم اور دیگر حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 68 لاکھ بچے مزدوری کر رہے ہیں اور ہرسال لاکھوں بچے چائلڈ لیبر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مزید برآں، تعلیم شروع کرنے کی عمر والے 50 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ سیاسی مباحثوں سے فرصت ملے تو ہمیں بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔
پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی
کوئی مجھ کو بچانے والا ہے
ہمارے لیے اس امر کی کوئی اہمیت نہیں کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کا شکار ہے۔ مجموعی طور پر تخمینہ لگایا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ معاشی بحران کے باعث پاکستان میں '' غریب'' لوگوں کی تعداد آبادی کے پچاس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد بھی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔
بچوں سے متعلق ادارہ یونیسیف کے مطابق دنیا میں انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والے کل بچوں کی 90 فیصد تعداد کا تعلق سب صحارا، افریقا اور جنوبی ایشیا سے ہے۔ اس ادارے کا تخمینہ ہے کہ دنیا کے 33 کروڑ 30 لاکھ بچے بدترین غربت کا شکار ہیں۔ مذکورہ ادارے کے مطابق جو بچے زندہ رہنے اور نشوونما پانے کے لیے درکار مادی، روحانی اور جذباتی وسائل سے محروم ہیں، وہ بدترین غربت کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔
انتہائی غربت کے شکار بچوں کے بعد دوسری درجہ بندی میں '' غریب'' بچوں کو رکھا گیا ہے۔ بچوں کے عالمی ادارے کے مطابق ایسے بچوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے۔ یہ وہ غریب بچے ہیں جو دنیا میں بچوں کی کل تعداد کا 50 فیصد ہیں۔ ان بدنصیب بچوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں، انھیں تین وقت کی خوراک میسر نہیں اور نہ ہی ان کے لیے پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔
پس ماندہ ملکوں میں غربت کی حالت میں زندگی کا عذاب جھیلنے والے وہ بچے جو 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ان کی تعداد امیر ملکوں میں اس عمر میں مرنے والے بچوں کی تعداد سے دوگنا زیادہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم اس عمر کے پچاس فیصد سے زیادہ بچوں کو موت کی وادی میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم ان کی بے وقت موت کے ذمے دار نہیں ہیں؟
بچوں کے حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی بنیادی آگاہی تک نہیں ہے کہ بچوں کی بہتر نشوونما کیوں ضروری ہے اور ایک ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار کس قدر اہم ہوتا ہے۔ اس آگاہی کی کمی کے باعث وہ گھرانے جو زیادہ غریب نہیں ہیں وہ بھی بچوں کی حقیقی نشوونما کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ بچوں کا دماغ پیدائش کے پہلے تین سالوں میں غیر معمولی تیزی سے بڑھتا ہے اور 80 فیصد تک مکمل ہوجاتا ہے اور جب بچہ 5 سال کا ہوتا ہے تو اس کے دماغ کی 90 فیصد تشکیل ہوجاتی ہے۔ ان دونوں باتوں کو ذہن میں رکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ بچوں کی زندگی کے ان انتہائی اہم ابتدائی برسوں میں انھیں کس قدر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئی بھی بچہ جب آٹھ سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس کے دماغ میں سیکھنے اور سمجھنے کی پوری صلاحیت پیدا ہوچکی ہوتی ہے اور وہ حقیقی اور غیر حقیقی یعنی حقیقت اور افسانہ میں فرق کرنے کے قابل بھی ہوجاتا ہے، جو حکومتیں اور قومیں بچوں کی صحت، تعلیم اور ذہنی نشوونما کو اہمیت دیتی ہیں وہ اپنے مستقبل کو تابناک بنا لیتی ہیں۔
بچوں کو اہمیت نہ دینا، انھیں بات بے بات ڈانٹتے رہنا، ان کی تعلیم میں دلچسپی نہ لینا، ان کے اندر شوق اور جستجوکی صلاحیت کی حوصلہ شکنی کرنا اور انھیں اپنے ذہنی اور فکری سانچے میں ڈھالنے جیسے منفی رویے ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں۔ بچے کی زندگی کے اولین سال کتنے اہم ہیں یہ کم لوگ جانتے ہیں۔
ایک بچہ پیدا ہونے کے صرف 10 منٹ بعد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کوئی آواز کس سمت سے آرہی ہے۔ ان ابتدائی برسوں میں بچے کا قد بڑی تیزی سے بڑھتا ہے۔ اچھی اور غذائیت سے بھرپور خوراک نہ ملے تو بچے کی جسمانی نشوونما سخت متاثر ہوتی ہے۔
یہی وہ عمر ہوتی ہے کہ جب بچے کو بہترین ماحول فراہم کر کے اس کی ذہنی نشوونما کو بہتر بنانا ممکن ہوتا ہے، لیکن غریب ملکوں میں غربت کے باعث بچے جسمانی اور ذہنی نشوونما کے حوالے سے پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد اس کا نقصان نہ صرف بچے کو انفرادی طور پر اٹھانا پڑتا ہے بلکہ پورے ملک اور معاشرے کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
بچوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ نے اپنے ادارے برائے اطفال ( یونیسیف) کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ادارے کی سربراہ کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت، عدم مساوات ، صحت عامہ کے ہنگامی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات بچوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، انھوں نے یہ مایوس کن حقیقت بیان کی ہے کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے 34 سال پہلے جو معاہدہ ہوا تھا اس کے بعد سے دنیا کے بچوں کے حقوق کو آج جس قدر خطرہ لاحق ہے اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔
یہ امر پیش نظر رہے کہ 1989 میں منظور ہونے والے اس معاہدے میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق ناقابل انتقال ہیں، دنیا کی حکومتوں نے ان حقوق کو تحفظ دینے کا عہد کیا ہے لیکن اس کے باوجود بچوں کو درپیش خطرات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔
یونیسیف نے اندازہ لگایا ہے کہ دنیا کے تقریباً 40 کروڑ بچے یا ہر پانچ میں سے ایک بچہ یا تو جنگ زندہ ماحول میں رہتا ہے یا وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان حالات میں بہت سے بچے زخمی، ہلاک اور جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف جنگ زدہ علاقوں میں متحارب گروہ بچوں کو مسلح افواج میں شامل کرنے کے علاوہ انھیں دفاعی شیلڈ کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔
یونیسیف کی سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے سے جو موسمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے باعث دنیا کے نصف بچوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تیز رفتار طوفانوں، خشک سالی کے باعث انھیں جسمانی کمزوری کا سامنا ہوسکتا ہے اور شدید گرمی کی لہروں (ہیٹ ویو) اور فضائی آلودگی سے، بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر وہ موت سے ہم کنار بھی ہوسکتے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک ارب سے زیادہ بچے موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملکوں میں رہتے ہیں، ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق سے متعلق ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں جاری جنگوں میں تمام بچوں کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
اس کمیٹی نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب بہت سے لڑکے اور لڑکیاں جنگ کا نوالہ بن رہے ہیں اور صرف حالیہ دنوں میں غزہ میں 4600 سے زیادہ بچے شہید ہوچکے ہیں۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے '' ایکسپریس فورم '' نے بھی ایک مذاکرہ منعقد کیا۔ جس میں بعض تلخ حقائق سامنے آئے۔ اس فورم میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق میں شامل پنجاب کے رکن ندیم اشرف نے بتایا کہ صرف پنجاب میں 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ مذکورہ مذاکرے میں شامل ماہر قانون ندا عثمان نے انکشاف کیا کہ ملکی سطح پر اب تک بچے کی عمر کا تعین تک نہیں ہوسکا ہے۔ مختلف صوبوں میں عمر کی حد کہیں سولہ اور کہیں اٹھارہ سال سے کم قرار دی گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طلاق کے معاملات میں بچوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں کے حقوق کے بارے میں فوری اقدامات کرے۔ سندھ حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن متعارف کرائی ہے، اس کے علاوہ صوبے کے 30 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اور ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کا کنونشن 1989 میں منظور کیا تھا۔ پاکستان نے ایک سال بعد 1990 میں اس کنونشن کی توثیق کردی تھی۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25۔اے میں بچوں کو لازمی مفت تعلیم اور دیگر حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 68 لاکھ بچے مزدوری کر رہے ہیں اور ہرسال لاکھوں بچے چائلڈ لیبر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
مزید برآں، تعلیم شروع کرنے کی عمر والے 50 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ سیاسی مباحثوں سے فرصت ملے تو ہمیں بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔
پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی
کوئی مجھ کو بچانے والا ہے