چولستان کے صحرا میں مدفون 5 ہزار سال پرانے شہرکیلیے کھدائی کا فیصلہ
نامور ماہرین آثار قدیمہ اور ورثہ کی ایک ٹیم 28 نومبر کو یہاں پہنچے گی اور پھر کھدائی کا کام شروع کیا جائے گا
ماہرین آثار قدیمہ نے چولستان کے صحرا میں مدفون 5 ہزار سال پرانے شہر کی کھدائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گنویری والا کے ٹیلوں کا سراغ 1975 میں لگایا گیا تھا ،ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے شہروں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے بعد گنویری والا تیسرا بڑا شہر تھا۔
گنویری والا کے ٹیلے، قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں، یہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے ، موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔
یہ آثار 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے دریافت کیے تھے لیکن آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی ۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیق مغل کے مطابق انہوں نے اس مقام پر مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا جو وادی سندھ کے دیگر مقامات پر پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے برتن، کچھ اہم نوادرات بھی شامل ہیں جن میں ایک تنگاوالا، مجسمے، ایک تانبے کی مہر، اور ایک مٹی کی گولی قابل ذکر ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 2600 سے 1900 قبل مسیح تک یہ شہر وادی سندھ کی تہذیب کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ سروے کے دوران جمع کیے گئے نمونے بتاتے ہیں کہ گنویری والا کے باشندے مالا بنانے کے فن میں ماہر تھے، اور وہ مختلف دستکاریوں کے بھی ماہر تھے، جیسے بلیڈ اور مٹی کی گولیاں بنانا۔
مٹی کے برتن اور مجسمہ سازی لوگوں کا عام ہنر تھا۔ اسی طرح کی مادی ثقافت وادی سندھ کے قصبوں اور شہروں میں دیکھی گئی۔ اس سے خطے کے اندر وسیع تجارتی سرگرمیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب بنیادی طور پر کاشتکاری پر منحصر تھی۔ مویشی پالنا خطے کی کاشتکاری کی معیشت میں ایک اہم عنصر تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرائے چولستان میں تقریباً 500 سائٹس ہیں، جن میں سب سے اہم گنویری والا ہے۔ پنجاب حکومت کے پراجیکٹ پنجاب ٹورازم فار اکنامک گروتھ کے تحت ریت میں چھپے اس قدیم شہر کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے نامور ماہرین آثار قدیمہ اور ورثہ کی ایک ٹیم 28 نومبر کو یہاں پہنچے گی اور پھر کھدائی کا کام شروع کیا جائے گا۔ ایکسپریس نیوز کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق ابتدائی کھدائی کے لیے دو کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مغل کے مطابق گنویری والا موہنجو داڑو سے چھوٹا لیکن ہڑپہ سے بڑا شہر تھا۔ ڈاکٹر مغل اور ان کے رفقا نے بتایا کہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی طرح عمومی طور پر اُس دور کے شہر نسبتاً بلند جگہوں پر اور ایک مرکزی ٹیلے کے گرد آباد ہوتے تھے۔ گنویری والا بھی اسی انداز میں آباد کیا گیا تھا۔
وزیراعلی پنجاب کی ہدایت پر ماہرین کی 8 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرجنرل آرکیالوجی ڈاکٹر محمدرفیق مغل کوسونپی گئی ہے۔ ٹیم میں سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی سلیم الحق، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی محمدافضل خان، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی مقصود احمد، موجودہ ڈائریکٹرآرکیالوجی محمد حسن سمیت دیگر افرادشامل ہیں۔
واضح رہے کہ گورنرپنجاب بلیغ الرحمن نے 28 اگست 2023 کو اس منصوبے سے متعلق ہونے والی میٹنگ میں ہدایات دی تھیں کہ اکتوبر میں یہاں کھدائی کاکام شروع کردیا جائے، اس منصوبے میں کمشنر بہاولپور بھی اہم کردار اداکررہے ہیں جبکہ محکمہ سیاحت پنجاب، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اورپنجاب آرکیالوجی کام کررہے ہیں۔
اس منصوبے پرکام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے اب وہ دن دور نہیں کہ ہزاروں سال پرانا شہر پھر سے ریت کا سینہ چاک کرتے ہوئے باہر نکل آئے گا اورپھر تاریخ اورجغرافیے کی کتابوں میں موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے ساتھ گنویری والا کا ذکر بھی عام ہو جائے گا۔
گنویری والا کے ٹیلے، قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں، یہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے ، موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔
یہ آثار 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے دریافت کیے تھے لیکن آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی ۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیق مغل کے مطابق انہوں نے اس مقام پر مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا جو وادی سندھ کے دیگر مقامات پر پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے برتن، کچھ اہم نوادرات بھی شامل ہیں جن میں ایک تنگاوالا، مجسمے، ایک تانبے کی مہر، اور ایک مٹی کی گولی قابل ذکر ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ 2600 سے 1900 قبل مسیح تک یہ شہر وادی سندھ کی تہذیب کا ایک بڑا مرکز رہا ہے۔ سروے کے دوران جمع کیے گئے نمونے بتاتے ہیں کہ گنویری والا کے باشندے مالا بنانے کے فن میں ماہر تھے، اور وہ مختلف دستکاریوں کے بھی ماہر تھے، جیسے بلیڈ اور مٹی کی گولیاں بنانا۔
مٹی کے برتن اور مجسمہ سازی لوگوں کا عام ہنر تھا۔ اسی طرح کی مادی ثقافت وادی سندھ کے قصبوں اور شہروں میں دیکھی گئی۔ اس سے خطے کے اندر وسیع تجارتی سرگرمیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب بنیادی طور پر کاشتکاری پر منحصر تھی۔ مویشی پالنا خطے کی کاشتکاری کی معیشت میں ایک اہم عنصر تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرائے چولستان میں تقریباً 500 سائٹس ہیں، جن میں سب سے اہم گنویری والا ہے۔ پنجاب حکومت کے پراجیکٹ پنجاب ٹورازم فار اکنامک گروتھ کے تحت ریت میں چھپے اس قدیم شہر کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے نامور ماہرین آثار قدیمہ اور ورثہ کی ایک ٹیم 28 نومبر کو یہاں پہنچے گی اور پھر کھدائی کا کام شروع کیا جائے گا۔ ایکسپریس نیوز کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق ابتدائی کھدائی کے لیے دو کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مغل کے مطابق گنویری والا موہنجو داڑو سے چھوٹا لیکن ہڑپہ سے بڑا شہر تھا۔ ڈاکٹر مغل اور ان کے رفقا نے بتایا کہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی طرح عمومی طور پر اُس دور کے شہر نسبتاً بلند جگہوں پر اور ایک مرکزی ٹیلے کے گرد آباد ہوتے تھے۔ گنویری والا بھی اسی انداز میں آباد کیا گیا تھا۔
وزیراعلی پنجاب کی ہدایت پر ماہرین کی 8 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرجنرل آرکیالوجی ڈاکٹر محمدرفیق مغل کوسونپی گئی ہے۔ ٹیم میں سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی سلیم الحق، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی محمدافضل خان، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی مقصود احمد، موجودہ ڈائریکٹرآرکیالوجی محمد حسن سمیت دیگر افرادشامل ہیں۔
واضح رہے کہ گورنرپنجاب بلیغ الرحمن نے 28 اگست 2023 کو اس منصوبے سے متعلق ہونے والی میٹنگ میں ہدایات دی تھیں کہ اکتوبر میں یہاں کھدائی کاکام شروع کردیا جائے، اس منصوبے میں کمشنر بہاولپور بھی اہم کردار اداکررہے ہیں جبکہ محکمہ سیاحت پنجاب، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اورپنجاب آرکیالوجی کام کررہے ہیں۔
اس منصوبے پرکام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے اب وہ دن دور نہیں کہ ہزاروں سال پرانا شہر پھر سے ریت کا سینہ چاک کرتے ہوئے باہر نکل آئے گا اورپھر تاریخ اورجغرافیے کی کتابوں میں موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے ساتھ گنویری والا کا ذکر بھی عام ہو جائے گا۔