کوچۂ سخن
غزل
یہ کارِ زیاں جچتا نہیں دیدہ وروں پر
پاگل ہیں جو اتراتے ہیں بے کار غموں پر
تب سے ہے خفا جیسے مری ذات سے تتلی
اک شعر کہا تھا کبھی جگنو کے پروں پر
اس واسطے دھڑکن میں توازن نہیں باقی
اترا ہے صحیفہ ترے شہکار لبوں پر
آنکھیں ہیں کھلی پھر بھی نہیں دکھتا وہ چہرہ
کس کا ہے اثر دونوں طرف دونوں دلوں پر
کیونکر بھلا اتریں گی بلائیں کسی گھر میں
غازی کا علم سب نے لگایا ہے چھتوں پر
مرضی ہے اُدھورا جسے پورا وہ بنائیں
مامور نہیں کوئی میاں کوزہ گروں پر
(اسد رضا سحر۔جھنگ)
۔۔۔
غزل
صورت تراشنے کو کوئی زاویہ بنے
آنکھوں میں عکس ٹھہرے تو ایک آئینہ بنے
اپنے مزاج کی یہ زمیں نرم کیجیے
دل میں اترنے والا کوئی راستہ بنے
یہ شہر اجنبی ہے سو بہتر کسی سے بھی
نہ واسطہ پڑے نہ کوئی رابطہ بنے
کیوں آنکھ میں ہو صورتِ بے نام کی خلش
کیوں اس کی یاد دل میں پڑی اک گرہ بنے
تُو میری بد نصیبی سے کچھ فاصلے پہ رہ
یوں نہ ہو تیر ے واسطے بھی مسئلہ بنے
کچھ تو نیا ہو، زندگی ہو جس سے مطمئن
منطق نئی ہو ایک نیا فلسفہ بنے
یہ آنکھ آنسوؤں کی تھکن سے نڈھال ہے
آپ آئیں تاکہ گریۂ غم قہقہہ بنے
دریا کی لہر لہر سے لڑنا ہے اب مجھے
وہ پار سے پکارے تو کچھ حوصلہ بنے
اعزاز ہیں اثاثہ مری بے نوائی کا
وہ پَل جو ساری عمر کا اک تجربہ بنے
(خالد اعزاز۔لاہور)
۔۔۔
غزل
دیوار رو رہی ہے کوئی در بھی خوش نہیں
کرلا رہی ہے کونج کبوتر بھی خوش نہیں
صحرا سے میری ویسے ہی بنتی نہ تھی کبھی
دریا خفا ہے مجھ سے سمندر بھی خوش نہیں
اس کھردرے لباس سے کوئی گلہ ہی کیا
مجھ سے تو میرا ریشمی پیکر بھی خوش نہیں
اے حُسنِ با کمال ترے لمس کے بغیر
کمرہ تو اور چیز ہے بستر بھی خوش نہیں
دنیا میں آ کے میں ہی اکیلا نہیں اداس
دنیا کی سیر کر کے سکندر بھی خوش نہیں
اس عاشقی میں سب کو برابر صلہ ملا
عاجزہوئے ہیں خوار تو خود سر بھی خوش نہیں
ایسی اداسیوں کا بسیرا ہے ان دنوں
مجھ سا فقیر آپ سے مل کر بھی خوش نہیں
(مستحسن جامی۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
صبر کی کشتی میں تھے اور جبر کے ساگر میں تھے
جس طرح کچھ پھول اس کی آنکھ کے خنجر میں تھے
غیر کی بانہوں میں پہلی رات جو کاٹی گئی
کتنے بچھو یاد کے اس رات کے بستر میں تھے
اس قدر چیخیں مرے اندر کہیں پر دفن تھیں
جس قدر پیوند میرے صبر کی چادر میں تھے
ہم محبت کے یتیموں کا ٹھکانہ کچھ نہ تھا
وحشتوں کے ساتھ پلتے تھے انہی کے گھر میں تھے
ہم نے تیرے وعدے کی دہلیز پر کھائی تھی جو
زندگی کے سب سبق اس ایک ہی ٹھوکر میں تھے
سوگواری سے بنی تصویر تھا اپنا بدن
ہم پہاڑوں سے اترتی دھوپ کے منظر میں تھے
(بشریٰ شہزادی۔ڈی جی خان)
۔۔۔
غزل
یار تجھے میں کیا بتلاؤں بعد ترے کیا ہوتا ہے
آنکھیں دریا بن جاتی ہیں چہرا اترا ہوتا ہے
اور کسی کو چھوتے وقت بھی فرض اسے ہی کرتا ہوں
دوجا جتنا بھی دلکش ہو پہلا پہلا ہوتا ہے
بٹوے میں تصویر ہے اماں کی وہ دکھلا دیتا ہوں
جب بھی کوئی مجھ سے پوچھے اللّہ کیسا ہوتا ہے
اپنے خدو خال کو دیکھ کے کیوں رنجیدہ ہوتے ہو
سورج جتنا بھی روشن ہو اس نے ڈھلنا ہوتا ہے
تم سے مانگ کے پیتا ہوں تو لطف زیادہ دیتا ہے
ویسے میں نے جیب میں یارو سگرٹ رکھا ہوتا ہے
ہم ایسوں کی رات بسر ہوتی ہے ایسے منظر پر
تم نے تو بس شام کو چھت پر آ کر جانا ہوتا ہے
(مہر فام۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
حیرت سے مجھے کون یہ تکتا ہے کہ میں ہوں
آئینہ ہے، کوئی مرے جیسا ہے کہ میں ہوں
اک سمت اجالا ہی اجالا ہے کہ تم ہو
اک سمت اندھیرا ہی اندھیرا ہے کہ میں ہوں
کھلتی ہوئی کلیوں کی سی آشا ہے کہ تم ہو
سوکھے ہوئے پھولوں سی تمنا ہے میں ہوں
طوفان کہ آندھی کہ بگولا ہے کہ تم ہو
کاغذ ہے کہ پتہ ہے کہ تنکا ہے کہ میں ہوں
چنچل سی کہستان کی ندیا ہے کہ تم ہو
تپتا کوئی پیاسا کوئی صحرا ہے کہ میں ہوں
ماتھے پہ دمکتے ہوئی بندیا ہے کہ تم ہو
تلوے میں تپکتا ہوا چھالا ہے کہ میں ہوں
منزل پہ چمکتا ہوا تارا ہے کہ تم ہو
رستے میں پڑا نقشِ کفِ پا ہے کہ میں ہوں
ایسا ہے کہ کچھ تم کو بھی غرّہ ہے تم ہو
ایسا ہے کہ کچھ مجھ کو بھی لگتا ہے کہ میں ہوں
سچ تو یہی ہے بس مجھے کہنا ہے کہ تم ہو
پاگل وہ، دوانہ وہ جو کہتا ہے کہ میں ہوں
غزلیں بھی نقیب ؔاس لئے کہتا ہے کہ تم ہو
تم بِن اُسے ورنہ یہ دعویٰ ہے کہ میں ہوں
(فصیح اللہ نقیب۔ آکولہ، مہاراشٹر ،بھارت)
۔۔۔
غزل
چراغِ نور تھامے دشت سے جگنو نکل آئے
پلٹ کر دیکھ لیں شاید کوئی پہلو نکل آئے
تمہارے ہجر میں پتھرا گئی ہے آنکھ ساون کی
ملو ہم سے کہ یوں شاید کوئی آنسو نکل آئے
ہمہ تن رقص رہتا ہوں یہی میں سوچ کے شاید
تمنا سوز صحرا سے کوئی آہو نکل آئے
یہ کوئے یار ہے کوئی کرشمہ ہو بھی سکتا ہے
اگر اس حبس میں اس سمت سے خوشبو نکل آئے
جکڑ رکھا ہے پورے زور سے کس نے شکنجے میں
مجھے لگتا ہے تیری یاد کے بازو نکل آئے
انائیں ترک کرنے کا صفی بس ایک رستہ ہے
ادھر سے میں اگر نکلوں ادھر سے تو نکل آئے
(ڈاکٹر افضل صفی۔ فتح پور،لیہ)
۔۔۔
غزل
رنج و غم جب اشک کی ترسیل میں رکھا گیا
ایک جھرنا آنکھ کی تشکیل میں رکھا گیا
پھر حسد کی آگ میں اپنوں نے ہی مارا مجھے
یعنی مجھ کو زمرۂ ہابیل میں رکھا گیا
اس لئے جادو نہ مجھ پر کر سکا کوئی اثر
جسم میرا نعت کی تحویل میں رکھا گیا
پُر کشش ہے اس لیے بھی وادیٔ سیف الملوک
حسن کی دیوی کا قصہ جھیل میں رکھا گیا
زخم کھا کر دوستوں سے درگزر کرتے ہوئے
شکر کرنا بھی مری تکمیل میں رکھا گیا
(محسن رضا شافی۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
پھول دیتا ہوں تو زنجیر پہ آ جاتے ہیں
یار بھی خوب کہ تحقیر پہ آ جاتے ہیں
جھنگ والوں کو سہولت ہے، محبت میں اگر
کچھ نہ سوجھے تو درِ ہیر پہ آ جاتے ہیں
اچھے نوکر کی ہی توقیر سلامت ہے یہاں
جو نہیں جھکتے وہ شمشیر پہ آ جاتے ہیں
ہوش رستے کا نہ منزل کی خبر ہے جن کو
خواب دیکھا نہیں تعبیر پہ آ جاتے ہیں
کوئی پربت ہو حسیں جسم کہ چہرہ ہو یہاں
لوگ تو لوگ ہیں تسخیر پہ آ جاتے ہیں
ہم ہیں وہ چاک گریباں کہ جو ناکامی پر
صبر کرتے ہوئے تقدیر پہ آ جاتے ہیں
کیا مصیبت ہے اداسی کہ خوشی ہو صابرؔ
گھر میں وہ مفتی کہ تفسیر پہ آ جاتے ہیں
(صابر چودھری۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
یہ حرف و لفظ پرندے درخت لہجہ ہے
چمن کے سارے مکینوں کا بخت لہجہ ہے
بھلے ہو عالم و فاضل یا کوئی دانشور
ہیں سب کمال عبث جو کرخت لہجہ ہے
وفا کے رستے میں سب کا یہی اثاثہ ہے
مسافران محبت کا رخت لہجہ ہے
ہے تجھ میں علم نہ حکمت نہ ہے ہنر کوئی
یہ چاپلوسی ذریعہ ہے بخت لہجہ ہے
ہیں رائیگاں سبھی وعظ و نصیحتیں روفیؔ
زباں میں کیسے اثر ہو کہ سخت لہجہ ہے
(روفی سرکار۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
رنگ و آہنگ میں تقسیم کا ہے نام حیات
اور تدبیرِ مناجات کا ہے کام حیات
اپنی تخلیق سے مایوس نہیں ہے خالق
عقل والوں کو یہی دیتی ہے پیغام حیات
کس طرح قریۂ امواجِ خوشی لکھتا اِسے
جب یہاں رنج و مصیبت ہے سرِ عام حیات
کوئی ملتا تو بتا دیتے شب و روز کے دکھ
اپنی گزری ہے بھرے شہر میں گمنام حیات
زخم در زخم دلِ زار لیے سوچتے ہیں
جانے کب درد سے دے گی ہمیں آرام حیات
جب کبھی ماں کے میں قدموں س لپٹ جاتا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ جنّت ہے بہر گام حیات
ہم تری دید کے بد مست گنہگاروں پر
بر سرِ عشق لگاتی پھری الزام حیات
خوف آتا نہیں مرنے سے ذرا بھی طاہرؔ
جب سے جانا ہے کہ ہے موت کا انجام حیات
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
جنون عشق مجھ کو لے گیا اس پار پانی تک
ترے سائے سے کتنے طے ہوئے ادوار پانی تک
دیے کو اب جلانے کی ہوئی رسمیں پرانی سب
چراغِ دل جلائیں گے ہم اب کی بار پانی تک
ترے چھونے سے پانی میں سنہرا سا غرور آیا
رقیب اپنا مجھے لگتا ہے میرے یار پانی تک
ابھی عباس نے ہونٹوں سے مشکیزہ اٹھایا ہے
کھلیں گے کربلا والوں کے کئی کردار پانی تک
میرے اس خواب کی تعبیر اب کوئی بتائے گا؟
مجھے پھیلے ہوئے دکھتے ہیں چند اشجار پانی تک
تمہارے اور میرے درمیاں پانی ہی پانی ہے
تمہاری جیت پانی تک تو میری ہار پانی تک
یہ بحر عشق ہے عابدؔ یہاں طوفان پنہاں ہیں
بہت سے حادثوں سے ہوگئے دوچار پانی تک
(عابد علیم سہو۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
وہ جب رقیب کے شانے پہ بال ڈالتے ہیں
مزارِ چشم پہ آنسو دھمال ڈالتے ہیں
ذرا سی داد کمانے کو شعر سے شاعر
ادب نکال کے بس ابتذال ڈالتے ہیں
یہ پھول چیز ہیں کیا ہم تمہارے قدموں میں
فلک سے توڑ کے شمس و ہلال ڈالتے ہیں
علی کے ماننے والے ملنگ ہی اکثر
سمے اُدھیڑ کے ماضی پہ حال ڈالتے ہیں
میاں! یہ وادیِ کشمیر ہے، سنبھل کے، یہاں
غزال چشم اداؤں کے جال ڈالتے ہیں
(دلاور حسین دلاور۔ ملتان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن''
روزنامہ ایکسپریس ، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی