عمران خان مقدمات کے باعث جیل میں ہیں ہمارا لینا دینا نہیں الیکشن کمیشن
ہمارا کام انتخابات کرانا ہے، کسی سیاسی رہنما کو دوسری جماعت میں شامل کرانا یا ایسا ہونے سے روکنا نہیں، الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی شکایت پر کہ پارٹی چیئرمین ضمیر کے قیدی ہیں پر سرد مہری دکھاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وہ سائفر سمیت مختلف مقدمات کے باعث جیل میں ہیں ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں۔
تحریک انصاف کی طرف سے 24نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر موقف دیتے ہوئے الیکشن کمشن کا تحریک انصاف کی اس شکایت پر کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر اس کا دائرہ عمل تنگ اور اسے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے کہنا ہے کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں، تحریک انصاف نے جب اپنے گمشدہ رہنماؤں کے جبری انٹرویو، بیانات اور پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیے جانے کے معاملے سے آگاہ کیا تو بھی الیکشن کمیشن نے اسی موقف کا اعادہ کیا کہ اس کا اس میں کوئی کردار نہیں۔
پی ٹی آئی کے اس موقف کے برعکس کہ عمران خان اس وقت 'ضمیر کے قیدی' کے طور پر جیل کاٹ رہے ہیں، الیکشن کمشن نے واضح کیا کہ سابق وزیر اعظم مختلف مقدمات بشمول سائفر کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باعث جیل میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈز کیس میں نیب کی عمران خان سے 13 گھنٹے طویل تفتیش
واضح رہے کہ 6 نومبر کو پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے ای سی پی کو مراسلہ لکھا اور چارٹر آف ڈیمانڈ جمع کرایا۔ 22 نومبر کو الیکشن کمیشن نے ہر مطالبے پر ریمارکس دے کر اس کا جواب دیا۔
پی ٹی آئی کے خط میں کہا گیا کہ پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ستایا جا رہا ہے، جبری طور پر لاپتہ ہونے والے رہنماؤں کو انٹرویو ، بیانات دینے اور پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے دونوں نکات کے جواب میں کہا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے، کسی سیاسی رہنما کو کسی جماعت میں شامل کرانا یا چھوڑنے سے باز رکھنا نہیں،پی ٹی آئی کی اس شکایت پر کہ پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کیلئے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ورکرز کنونشن، ایڈوکیٹ شیر افضل مروت سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج
انتخابی ادارے نے کہا کہ تمام متعلقہ نگراں حکومتوں کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ سب کیلیے ایک غیر جانبدار ماحول فراہم کیا جائے، اس پر پی ٹی آئی نے ہفتے کو ایک پریس ریلیز جاری کی اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ مساوی مواقع کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں، چیف الیکشن کمشنر کی نے نگران حکومتوں کو ہدایت 'ناکافی' ہے، جب تحریک انصاف نے نشاندہی کی کہ اے این پی کو ہنگو میں جلسہ کرنے کی اجازت دیکر 183 سکیورٹی اہلکار فراہم کیے گئے لیکن اسی روز ناکافی سکیورٹی کا بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہ دی گئی مگر 283 پولیس اہلکار پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کیلئے استعمال ہوئے، الیکشن کمیشن نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عوامی ریلیوں اور اجتماعات کی اجازت دی جائے۔
نواز شریف کا نام لیے بغیر پی ٹی آئی نے اعتراض اٹھایا کہ ایک سزا یافتہ اور مفرور قیدی کو غیر معمولی پروٹوکول اور جلسے کرنے کی اجازت دی جارہی ہے، جو 'ایک ملک، دو نظام'کی چغلی کھاتا ہے، ای سی پی نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھا جائے گا۔
تحریک انصاف کی طرف سے 24نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر موقف دیتے ہوئے الیکشن کمشن کا تحریک انصاف کی اس شکایت پر کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر اس کا دائرہ عمل تنگ اور اسے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے کہنا ہے کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں، تحریک انصاف نے جب اپنے گمشدہ رہنماؤں کے جبری انٹرویو، بیانات اور پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیے جانے کے معاملے سے آگاہ کیا تو بھی الیکشن کمیشن نے اسی موقف کا اعادہ کیا کہ اس کا اس میں کوئی کردار نہیں۔
پی ٹی آئی کے اس موقف کے برعکس کہ عمران خان اس وقت 'ضمیر کے قیدی' کے طور پر جیل کاٹ رہے ہیں، الیکشن کمشن نے واضح کیا کہ سابق وزیر اعظم مختلف مقدمات بشمول سائفر کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باعث جیل میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈز کیس میں نیب کی عمران خان سے 13 گھنٹے طویل تفتیش
واضح رہے کہ 6 نومبر کو پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے ای سی پی کو مراسلہ لکھا اور چارٹر آف ڈیمانڈ جمع کرایا۔ 22 نومبر کو الیکشن کمیشن نے ہر مطالبے پر ریمارکس دے کر اس کا جواب دیا۔
پی ٹی آئی کے خط میں کہا گیا کہ پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ستایا جا رہا ہے، جبری طور پر لاپتہ ہونے والے رہنماؤں کو انٹرویو ، بیانات دینے اور پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے دونوں نکات کے جواب میں کہا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے، کسی سیاسی رہنما کو کسی جماعت میں شامل کرانا یا چھوڑنے سے باز رکھنا نہیں،پی ٹی آئی کی اس شکایت پر کہ پارٹی کو انتخابی مہم چلانے کیلئے مساوی مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ورکرز کنونشن، ایڈوکیٹ شیر افضل مروت سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج
انتخابی ادارے نے کہا کہ تمام متعلقہ نگراں حکومتوں کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ سب کیلیے ایک غیر جانبدار ماحول فراہم کیا جائے، اس پر پی ٹی آئی نے ہفتے کو ایک پریس ریلیز جاری کی اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ مساوی مواقع کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں، چیف الیکشن کمشنر کی نے نگران حکومتوں کو ہدایت 'ناکافی' ہے، جب تحریک انصاف نے نشاندہی کی کہ اے این پی کو ہنگو میں جلسہ کرنے کی اجازت دیکر 183 سکیورٹی اہلکار فراہم کیے گئے لیکن اسی روز ناکافی سکیورٹی کا بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہ دی گئی مگر 283 پولیس اہلکار پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کیلئے استعمال ہوئے، الیکشن کمیشن نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے گا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عوامی ریلیوں اور اجتماعات کی اجازت دی جائے۔
نواز شریف کا نام لیے بغیر پی ٹی آئی نے اعتراض اٹھایا کہ ایک سزا یافتہ اور مفرور قیدی کو غیر معمولی پروٹوکول اور جلسے کرنے کی اجازت دی جارہی ہے، جو 'ایک ملک، دو نظام'کی چغلی کھاتا ہے، ای سی پی نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھا جائے گا۔