لانگ ٹرم پالیسی اختیار کیے بغیراسموگ میں کمی ممکن نہیں ماہرین

لاہور کا شمار دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں ایئرکوالٹی انڈیکس 400 کی خطرناک حدتک ریکارڈ کیا گیا ہے

فوٹو: فائل

فضائی آلودگی اور اسموگ کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سانس لینا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں ایئرکوالٹی انڈیکس 400 کی خطرناک حدتک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

نگراں صوبائی حکومت نے اسموگ میں کمی اور شہریوں کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے کئی شارٹ ٹرم اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے جب تک حکومت اس حوالے سے لانگ ٹرم پالیسی اختیار نہیں کرتی اس وقت تک اسموگ میں کمی ممکن نہیں۔

لاہورمیں پنجاب انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ایئرکوالٹی کی مانیٹرنگ کے روزانہ تین مقامات کا ڈیٹا شیئر کرتی ہے جن میں جیل روڈ، ٹاؤن ہال اور پنجاب یونیورسٹی شامل ہیں جبکہ امریکن قونصلیٹ سمیت 17 مختلف مقامات سے نجی اداروں کی طرف سے ایئرکوالٹی کی شرح بتائی جاتی ہے۔

لاہور میں 18 سے 22 نومبرتک ایئرکوالٹی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ فضائی آلودگی گلبرگ، پولوگراؤنڈ، پاکستان انجینئرنگ سروسز اورمال روڈ پر ہے۔ ماہرین کے مطابق ان علاقوں میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ یہاں ٹرانسپورٹ گاڑیوں سےنکلنے والادھواں ہے۔ ان علاقوں میں اکثر ٹریفک کا رش رہتا ہے۔

دی اربن یونٹ کی رپورٹ کے مطابق لاہورکی فضائی آلودگی میں 83 اعشاریہ 15 فیصد حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے جس میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں سب سے اہم ہے ، انڈسٹری کا حصہ 9.07 فیصد، زراعت 3.9 فیصد، کوڑا کرکٹ کو جلائے جانے سے پیدا ہونے والی آلودگی 3.6 فیصد ، کمرشل اداروں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونیوالی آلودگی 0.14 فیصد اور گھریلو آلودگی 0.11 فیصد ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ماحولیات پرتحقیق کرنے والے مرکز اور لیبارٹری میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹرسلمان طارق نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہوا مختلف گیسوں کے امتزاج سے بنی ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بہت سے دیگر چھوٹے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔

جب کہیں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں یا ذرائع آمد و رفت دھواں پھیلانے لگیں، فیکٹریوں اور بھٹوں سے دھوئیں کا اخراج ہو، فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہوں تو ایسی صورت میں ہوا میں موجود چھوٹے مادے بڑھ جاتے ہیں۔ اور ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ انہی مادوں کے بڑھتے تناسب کا جائزہ لے کر ہی ہوا کے معیار کو جانچا جاتا ہے۔ یہ گیسیں جس قدر بڑھتی جائیں گی اتنی ہی ہوا آلودہ ہوتی جائے گی۔

ماحولیات اورپبلک پالیسی کے ماہر داور بٹ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کی ہوا کا معیار سارا سال غیر صحت بخش رہتا ہے جبکہ سردیوں میں صورتحال مزید خراب اور فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہوا کے معیار اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے حوالے سے اعدادو شمار اور شواہد کی کمی پاکستان کی پبلک پالیسی کی ناکامی کی وجوہات ہیں۔ سردیوں میں ماحول میں آگ جلانے والی جگہوں اور لکڑی کے چولہوں کے باعث مزید دھویں کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ خستہ حال انجنوں والی گاڑیاں مزید کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔

داور بٹ کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی کا باعث بننے والے اہم عناصر ٹرانسپورٹ، صنعتیں اور بجلی بنانے کے کارخانے ہیں۔ یہ تینوں شعبہ جات غیر معیاری ایندھن کا استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دن کے جن اوقات میں ٹریفک بہت زیادہ ہوتی ہے اس دوران اے کیو آئی بھی بڑھ جاتا ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹریفک کے رش کو بہتر طریقے سے مینیج کر کے فضائی آلودگی کو تھوڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

داوربٹ کہتے ہیں کہ لاہورہائیکورٹ کے حکم پر اسموگ کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے فضائی آلودگی اور اسموگ کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم تجاویز مرتب کی تھیں۔ لیکن کمیشن کی زیادہ تر تجاویز پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

ان کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ اور انڈسٹری ہے۔ انڈسٹری میں جدیدمشینری کواپنانا اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر فیول کوالٹی کو بہتر بنانا ہوگا۔ ہمسایہ ملک انڈیا میں یورو فائیو اور سکس استعمال کیا جارہا ہے ہمیں بھی اعلی کوالٹی فیول کا استعمال لازمی قراردینا ہوگا۔

اس کے علاوہ پرانی گاڑیوں اورڈیزل پرچلنے والی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگانا ہوگی۔ بڑی گاڑیوں اور زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی لاہور سمیت بڑے شہروں کے مخصوص زونز میں انٹری بند کردی جائے۔

داور بٹ نے یہ بھی تجویز دی کہ ذاتی ٹرانسپورٹ کے رحجان کو کم کرنے کے لیے اعلی معیار کی پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا ہوگا۔ پیک آور یعنی صبح اور شام کے اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے کم کردیے جائیں، طلبا وطالبات اوربزرگوں کے لیے اسپیشل ڈسکاؤنٹ کارڈ جاری کیے جائیں۔ ویک اینڈ پر تفریحی مقامات تک پبلک ٹرانسپورٹ مفت یا سستی چلائی جائے۔


اسموگ کمیشن نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ تمام تعلیمی اداروں میں 75 فیصد طلبا وطالبات کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ لازمی قرار دی جائے۔ حکومت کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بسیں فراہم کرے ۔ جو طلبا وطالبات ذاتی گاڑی استعمال کریں ان سے فیس وصول کی جائے۔ لاہور سمیت بڑے شہروں میں گاڑیوں کی نمبرپلیٹ کے مطابق مخصوص ایام میں استعمال کی اجازت دی جائے۔

اسی طرح ڈومیسٹک سطح پر لکڑے اورکوئلے کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرکے ایندھن کے متبادل ذرائع استعمال کیے جائیں۔ کسانوں کو فصلوں کی باقیات جلانے کی بجائے ان کو دوسرے طریقوں سے تلف کرنے کی ٹریننگ اورسہولت دی جائے ،کوڑا کرکٹ کو جلانے کی بجائے ٹیکنیکل طریقے سے تلف کیا جائے اور سب سے بڑھ کر انفورسمنٹ اورریگولیشن میں بہتری لائے جائے ،یہاں قوانین توموجود ہیں لیکن انفورسمنٹ کی صلاحیت نہیں ہے۔

پنجاب حکومت نے اسموگ سے نپٹنے اور شہریوں کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے لاہورسمیت چند دیگر اضلاع میں اتوار کے علاوہ ہفتے کے روز بھی چھٹی کا اعلان کررکھا ہے جبکہ چین کی مدد سے مصنوعی بارش برسانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اسموگ پر قابو پانے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی انوائرنمینٹل کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، شہریوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قراردیا گیا ہے۔

تاہم لاہور میں ماحولیات پر کام کرنے والے ایک نجی ادارے ایشین اینوائرنمینٹل سروسز کے ڈائریکٹر علیم بٹ کہتے ہیں ہیلتھ ایمرجنسی ، اسمارٹ لاک ڈاؤن ، فیکٹریوں ، بھٹہ مالکان کو جرمانے ،دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنا، اسکولوں میں چھٹی یہ سب شارٹ ٹرم اقدامات ہیں۔

اس کے فائدے ضرور ہیں لیکن یہ اقدامات کوئی مستقل حل نہیں ہیں۔اسموگ کے تدارک کے لیے لانگ ٹرم پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ اندسٹری میں غیرمعیاری ایندھن استعمال ہورہا ہے۔ کارخانوں اور اسٹیل ملز میں گاڑیوں کے ٹائرجلائے جاتے ہیں اس کوختم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب انڈسٹری کے لیے شہری آبادیوں سے دور الگ زون بنانا ہوں گے ورنہ ہرسال اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ماہرین کے مطابق کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران لاہور کی فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی تھی اس لیے حکومت کو جہاں دیگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے وہیں ورک فرام ہوم کے کلچرکوفروغ دینا چاہیے۔

ایسے کاروباری ادارے جن کے ملازمین گھر بیٹھ کر کام کرسکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ ورک فرام ہوم سے شہر میں گاڑیوں کا رش کم ہوگا اور دفاتر کے اندر توانائی کے استعمال میں کمی آئے گی۔

انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کے اعداد وشمار کے کووڈ 19 کے باعث 2020 میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دوران لاہور میں ہوا کا معیار کافی حد تک بہتر ہوگیا تھا۔ 26 فروری سے 31 اگست 2020 تک محکمہ موسمیات لاہور آفس اور ٹاؤن ہال کے ڈیٹا کے مطابق ایئرکوالٹی انڈکس کم سے کم 45 اور زیادہ سے زیادہ 76 ریکارڈ کیا گیا۔

ماہرین کے مطابق ہمارے یہاں یو ایس کوالٹی انڈیکس اور پاکستان اے کیو آئی میں بھی فرق ہے، دنیا بھر میں یوایس اے کیو آئی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن، ااسموگ پالیسی میں پاکستان نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے درجے اپنی مرضی سے طے کیے ہیں ، جسے ماحولیاتی تحفظ کمیٹی سے منظور کروایا گیا تاہم یہ عالمی اے کیو آئی سے صورت مطابقت نہیں رکھتے۔ یو ایس اے کیو آئی کے مطابق کہ صفر سے پچاس ڈگری کی سطح بہتر ہے جب کہ پاکستان اے کیو آئی صفر سے ایک سو کو بہتر مانتا ہے۔

لاہور کی ایک سافٹ وئیرکمپنی میں کام کرنے والے ارسلان احمد کہتے ہیں کہ ورک فرام ہوم ضروری ہے لیکن تمام ادارے یہ کام نہیں کرسکتے، جو لوگ آن لائن سروسز فراہم کرتے ہیں ان کے لیے ورک فرام ہوم کا آپشن اختیارکرنی ہوگا، انہوں نے کہا کہ بعض ملازمین ورک فرام ہوم سے کتراتے بھی ہیں کیونکہ اس طرح کمپنی ان کا ٹریول الاؤنس ختم کردیتی ہے۔

گلبرگ لاہور میں واقع ایک نجی یونیورسٹی کی طالبات نورین فاطمہ اور فصاحت کا کہنا ہے کہ وہ آئن لائن کلاسز لینے کے لیے تیارہیں، اس سے پڑھائی پر فرق تو پڑھتا ہے لیکن یہ نقصان اسموگ کے خطرات کےمقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کو آن لائن سٹڈی کے موڈیولز کی طرف لائیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبا وطالبات کے پاس شاید آن لائن کلاسز کی سہولت اس طرح سے نہیں ہے جو نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے پاس ہے لیکن یہ نکتہ اہم ہے کہ نجی اداروں میں طلبا وطالبات کی اکثریت ذاتی گاڑیوں پرآتی جاتی ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبا وطالبات پبلک ٹرانسپورٹ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

ڈی ایچ اےلاہور میں ایک نجی کمپنی کی سی ای او میاں زاہد احمد کہتے ہیں کہ لاہورمیں فضائی آلودگی کے جو حالات بن چکے ہیں ان کے پاس اب بہترین آپشن یہی ہے کہ وہ ملازمین سے ورک فرام ہوم لیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا جو پروڈکشن یونٹ ہے وہاں کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بھی ایک تہائی اسٹاف کوبلایا گیا تھا جبکہ دیگرشعبہ جات کے لوگ ورک فرام ہوم کرتے تھے۔

میاں زاہد احمد کا کہنا تھا کہ اب بھی اگر حکومت کوئی ایسا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس پرعمل کریں گے۔ میاں زاہد احمد کے مطابق ان کی کمپنی میں تین ہزار کے قریب ملازم ہیں ، لاہورآفس میں 400 سے زائد ملازم کام کرتے ہیں۔ ان میں سے صرف 100 ملازمین کو دفتربلائیں گے اور باقی ورک فرام ہوم کرسکتے ہیں۔
Load Next Story