نئی نسل کو بچانا ہوگا
اس نے پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر دولت مند اور بااثر کلاس کی اخلاقیات کا پردہ چاک کر دیا ہے
میرے نزدیک پروجیکٹ چیئرمین پی ٹی آئی مملکت خداداد کی سیاست میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا ، کیسے کیسے بظاہر اجلے کردار بھی اس باب کی سیاہی سے اپنا دامن نہ بچا سکے، آہستہ آہستہ عوام پر سب کچھ آشکار ہورہا ہے۔
اس پروجیکٹ کی منصوبہ سازی کے بعد جب اسے عملاً لانچ کیا گیا تو اسی وقت گالم گلوچ ، بدتمیزی اور بدتہذیبی بھی اس کی بنیاد میں رکھ دی گئی تھی، پھر سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور پگڑیاں اچھالنے کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ منصوبہ ساز بھی پریشان ہوگئے۔
اس پروجیکٹ کے سوشل میڈیا ونگز نے تو تہذیب و شائستگی کی تمام حدود و قیود توڑ ڈالیں، پھر اس پروجیکٹ کی سیاست میں ''پیری مریدی'' کے چکر کا انکشاف سامنے آ گیا۔ خاتون مرشد اور سیاستدان مرید۔ پھر دونوں کی شادی کا معاملہ منظر پر آگیا۔
حالانکہ خاتون شادی شدہ ، پانچ جوان بیٹوں، بیٹیوں کی ماں اور پوتے پوتیوں والی ہے ، موصوفہ نے کسی ''روحانی'' اشارے پر اپنے خاوند سے طلاق لے کر چیئرمین پی ٹی آئی سے شادی کی ہے کیونکہ وزارت عظمیٰ اس شادی سے ہی مل سکتی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی دو خواتین سے شادی کرکے انھیں طلاق دے چکا تھا، وہ بھی دو جوان بیٹوں کا باپ ہے، دونوں صاحبزادے لندن میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں اوربرطانوی شہری ہیں۔
یہ پس منظر اس لیے بیان کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سیاست و تواہم پرستی کے اس ڈھیر میں ایک بار پھر بشریٰ بی بی کے سابق خاوند نے ہاتھ ڈالا ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنی سابقہ اہلیہ اور سابق وزیراعظم کے بارے میں جو کچھ انکشاف کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ کم از کم میں اس گفتگو کے الفاظ لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ نئے پاکستان اور تبدیلی کے دعویدار پی ٹی آئی کے اس ٹولے نے اپنے ہر قول و فعل سے ریاست مدینہ کی تعلیمات، اصولوں اور حدود و قیود کی پامالی کے ساتھ اس کا تمسخر بھی اڑایا، انھوں نے سیاست کو تو گالیوں سے آلودہ کیا سو کیا لیکن ہماری معاشرتی اقدار کو برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، خاور مانیکا نے جو کچھ کہا ہے۔
اس نے پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر دولت مند اور بااثر کلاس کی اخلاقیات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اب تو اس حوالے سے قانونی کارروائی کا آغاز بھی ہوچکا ہے، دیکھتے ہیں کہ اس پینڈورا باکس میں سے کیسی کیسی بلائیں اور وبائیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔
رات کے پچھلے پہر طویل فون کالز سے خفیہ فون نمبرز تک ، خفیہ رابطوں اور ذلفی بخاری کے ذکر تک کی باتیں سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ بھی ہوتا رہا ہے، میں ان معاملات کو نجی سمجھوں یا سیاسی سمجھ کر بات کروں، سمجھ میں نہیں آتا ہے۔
عدت اور بغیر عدت کے نکاح کی باتوں اور اس پر قانونی کارروائی کی درخواست نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔خاور مانیکا کے بقول انھوں نے بشریٰ بی بی کو14 نومبر 2017کو طلاق دی جب کہ پی ٹی آئی قائد اوربشریٰ بی بی کا نکاح یکم جنوری 2018ء کو ہوا۔ یوں شادیوں اور طلاقوں کے اس گٹر کا ڈھکن مکمل طور پر کھل گیا ہے۔
جہاں سے پہلے ہلکی ہلکی باس آتی تھی، اب اس کی شدت تعفن بن گئی ہے ، جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ عدالت میں پوری ہوجائے گی۔ گواہان کے بیانات، وکیلوں کی جرح ، مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات، سارا منظر نامہ ترتیب دوں تو ذہن گھوم جاتا ہے۔
واقعات کے تسلسل سے ظاہر ہے کہ ماضی کا پلے بوائے جو کچھ کرتا تھا، اسے نوجوانی اورگلیمر کے زاویے سے دیکھا جاتا رہا ہے لیکن اب 72 سال کی عمر ، پاپولر سیاسی لیڈر اور سابق وزیراعظم کے تناظر سے پرکھا جا رہا ہے، اب ہاجرہ نامی ایک خاتون کی کتاب کی رونمائی اور اس کے انٹرویوز نے جلتی پر تیل کا کام کردیا ہے ۔ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر انسان دنیا میں جو اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔
ان کا حساب بروز محشر اللہ رب العزت کو دینا ہے مگر مجھے فکر ان نوجوان بچوں اور بچیوں کی ہے جو تبدیلی اور ریاست مدینہ کے قیام کا خواب دیکھ کر سیاست میں بے خطر کود پڑے تھے، ان کی مایوسی اور دکھ کا کیا عالم ہوگا، اسے بیان نہیں کیا جاسکتا، سوچنے والی بات یہ ہے کہ انھیں کس طرح سیاست کے اس گند سے بچایا جائے۔ چیئرمین پی ٹی آئی پہلے ایک کرکٹر اور سیلیبرٹی تھا لیکن سیاست میں آنے کے بعد اس نے ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوانوںمیں جو سیاسی فلسفہ اتارا ہے۔
اس نے انھیں جذباتی کر کے مخالفین کے لیے سیاسی خودکش بمبار بنا دیا ہے۔میں کئی بار اپنے کالموں میں ان خودکش سیاسی بمباروں کا ذکر کرچکا ہوں، زمان پارک کے تربیتی کیمپ میں معصوم بچوں سے ان کے والدین کی موجودگی میں جو کچھ کہلوایا گیا، میں اس پر متنبہ کر چکا ہوں مگر یہ مرض لا علاج ہوچکا ہے۔
اس کا انکشاف مجھ پر نواز شریف کے وطن واپسی والے دن ہوا۔ میرے آبائی ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والا دوست اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد جارہے تھے تو انھوں نے اپنی رشتے دار 7 سالہ بچی کو ہمارے گھر چھوڑا۔ میں نے نواز شریف کے جلسے کو دیکھنے کے لیے ٹی وی کھولا تو مریم نواز تقریر کر رہی تھی۔
اس بچی نے مجھے بلا جھجک کہا ،'' انکل اس چورنی کو بند کرکے کپتان کو لگا دیں۔'' میں حیران ہوا اور پوچھا ''کیوں بیٹا ،کیا ہوا؟''بچی کے جواب نے میرا سر چکرا دیا۔ اس نے کہا ، یہ چور کی بیٹی ہے، مجھے چیئرمین پی ٹی آئی پسند ہے۔
میں نے بے اختیار اپنے موبائل سے اس کے ساتھ گفتگو کو ریکارڈ کرنا شروع کیا، تقریباً 10 منٹ کی گفتگو کی ریکارڈنگ میرے پاس محفوظ ہے جسے میں کئی بار سن چکا ہوں۔ نواز شریف اسٹیج پر تقریر کرنے آئے تو اس بچی نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر ٹی وی سے منہ موڑ لیا تاکہ اس کو سن سکے نہ دیکھ سکے۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے پی ٹی آئی والے تو بہت خوش ہوں گے ۔ مگر میرے خیال میں معصوم بچوں کا استحصال ہے۔
ان کی معصومیت اور بچپنے کا قتل ہے، والدین اس رجحان کے ذمے دار ہیں، جس طرح کمسن بچوں کو موٹر سائیکل دینے والے والدین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل گاہوں میں بھیج رہے ہیں، اسی طرح معصوم بچوں کو گھروں میںنفرت و عناد کی تعلیم دینے والے والدین بھی ان بچوں سے پیار نہیں کررہے ہیں بلکہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یہ معاشرے میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کا آغاز ہے، یہ نفرت کی وہ بارودی سرنگیں ہیںجو ہماری آیندہ نسلوں کے پاؤں تلے پھٹیں گی۔ یہ نفرت اس ملک کو جہنم بنا دے گی۔ آخر ہم اتنے بے رحم کیوں ہوگئے ہیں کہ معصوم بچوں کے ذہنوں کو ہم نے سیاسی غلاظت اور دشمنی سے بھر دیا؟ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ سیاست جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔سیاست میں جھوٹ اگایا جاتاہے، جھوٹ کھایا جاتا ہے اور جھوٹ پلایا جاتا ہے، اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کی تباہی کا سامان خود اکٹھا کررہے ہیں۔
ہمارے بچپن کے زمانے میں والدین اپنے بچوں کے سامنے خاندانی دشمنی اور بغض و عداوت والی باتوں سے اجتناب کرتے تھے تاکہ معصوم ذہنوں کو اس سے بچایا جا سکے مگر آج سوشل میڈیا کی یلغار میں والدین بھول گئے کہ جو وہ روزانہ سنتے ہیں اور پھر بچوں کے سامنے اس پر تبصرے کرتے ہیں، یہ اسفنج کی طرح جذب کرنے کی اہلیت رکھنے والے معصوم ذہنوں میں محفوظ ہورہا ہے اور یہی ان معصوم بچوں کو پاکستانی سیاست کی بھٹی کا ایندھن بنانے کے لیے کافی ہوگا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی زندگی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی ایسی کئی کہانیوں اور اسکینڈل سے بھری پڑی ہے۔ اسے شاید ان اسکینڈلز کی اب بھی کوئی پروا نہ ہو، کل اگر اس نے سیاست چھوڑ دی یا اپنے مفادات کے لیے نواز شریف اور زرداری سے ہاتھ ملا لیا تو اسے ہیرو اور ایماندار سمجھنے والے لوگ کیا موقف اختیار کریں گے؟
دھرنے کے دوران کیسی کیسی کہانیاں سامنے آئیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ عدت کیس کے تین کردار قوم اور قانون کے سامنے ہیں، یہ عام لوگ ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ولایت کے درجے پر فائز نہیں ہے ، ان میں سے کوئی ایک بھی عالم، محقق، سائنسدان اور سیاسی مدبر و رہبر نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ ہم عام دنیاداروں سے کہیں زیادہ دنیا دار، لالچی اور حاسد ہیں۔
من حیث القوم ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو ایسے بے عمل اور بے علم کرداروں سے بچانا ہوگا، چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اگر ہم یہ کام نہیں کرسکے تو اس نفرت و انتقام اور گمراہی کی آگ اتنی خوفناک ہوگی کہ ہماری دنیا تو برباد ہوگی ہی، ساتھ ہی ساتھ آخرت بھی برباد کردے گی۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
اس پروجیکٹ کی منصوبہ سازی کے بعد جب اسے عملاً لانچ کیا گیا تو اسی وقت گالم گلوچ ، بدتمیزی اور بدتہذیبی بھی اس کی بنیاد میں رکھ دی گئی تھی، پھر سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور پگڑیاں اچھالنے کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ منصوبہ ساز بھی پریشان ہوگئے۔
اس پروجیکٹ کے سوشل میڈیا ونگز نے تو تہذیب و شائستگی کی تمام حدود و قیود توڑ ڈالیں، پھر اس پروجیکٹ کی سیاست میں ''پیری مریدی'' کے چکر کا انکشاف سامنے آ گیا۔ خاتون مرشد اور سیاستدان مرید۔ پھر دونوں کی شادی کا معاملہ منظر پر آگیا۔
حالانکہ خاتون شادی شدہ ، پانچ جوان بیٹوں، بیٹیوں کی ماں اور پوتے پوتیوں والی ہے ، موصوفہ نے کسی ''روحانی'' اشارے پر اپنے خاوند سے طلاق لے کر چیئرمین پی ٹی آئی سے شادی کی ہے کیونکہ وزارت عظمیٰ اس شادی سے ہی مل سکتی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی دو خواتین سے شادی کرکے انھیں طلاق دے چکا تھا، وہ بھی دو جوان بیٹوں کا باپ ہے، دونوں صاحبزادے لندن میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں اوربرطانوی شہری ہیں۔
یہ پس منظر اس لیے بیان کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سیاست و تواہم پرستی کے اس ڈھیر میں ایک بار پھر بشریٰ بی بی کے سابق خاوند نے ہاتھ ڈالا ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنی سابقہ اہلیہ اور سابق وزیراعظم کے بارے میں جو کچھ انکشاف کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ کم از کم میں اس گفتگو کے الفاظ لکھنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔
لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ نئے پاکستان اور تبدیلی کے دعویدار پی ٹی آئی کے اس ٹولے نے اپنے ہر قول و فعل سے ریاست مدینہ کی تعلیمات، اصولوں اور حدود و قیود کی پامالی کے ساتھ اس کا تمسخر بھی اڑایا، انھوں نے سیاست کو تو گالیوں سے آلودہ کیا سو کیا لیکن ہماری معاشرتی اقدار کو برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، خاور مانیکا نے جو کچھ کہا ہے۔
اس نے پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر دولت مند اور بااثر کلاس کی اخلاقیات کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اب تو اس حوالے سے قانونی کارروائی کا آغاز بھی ہوچکا ہے، دیکھتے ہیں کہ اس پینڈورا باکس میں سے کیسی کیسی بلائیں اور وبائیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔
رات کے پچھلے پہر طویل فون کالز سے خفیہ فون نمبرز تک ، خفیہ رابطوں اور ذلفی بخاری کے ذکر تک کی باتیں سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ بھی ہوتا رہا ہے، میں ان معاملات کو نجی سمجھوں یا سیاسی سمجھ کر بات کروں، سمجھ میں نہیں آتا ہے۔
عدت اور بغیر عدت کے نکاح کی باتوں اور اس پر قانونی کارروائی کی درخواست نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔خاور مانیکا کے بقول انھوں نے بشریٰ بی بی کو14 نومبر 2017کو طلاق دی جب کہ پی ٹی آئی قائد اوربشریٰ بی بی کا نکاح یکم جنوری 2018ء کو ہوا۔ یوں شادیوں اور طلاقوں کے اس گٹر کا ڈھکن مکمل طور پر کھل گیا ہے۔
جہاں سے پہلے ہلکی ہلکی باس آتی تھی، اب اس کی شدت تعفن بن گئی ہے ، جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ عدالت میں پوری ہوجائے گی۔ گواہان کے بیانات، وکیلوں کی جرح ، مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات، سارا منظر نامہ ترتیب دوں تو ذہن گھوم جاتا ہے۔
واقعات کے تسلسل سے ظاہر ہے کہ ماضی کا پلے بوائے جو کچھ کرتا تھا، اسے نوجوانی اورگلیمر کے زاویے سے دیکھا جاتا رہا ہے لیکن اب 72 سال کی عمر ، پاپولر سیاسی لیڈر اور سابق وزیراعظم کے تناظر سے پرکھا جا رہا ہے، اب ہاجرہ نامی ایک خاتون کی کتاب کی رونمائی اور اس کے انٹرویوز نے جلتی پر تیل کا کام کردیا ہے ۔ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر انسان دنیا میں جو اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔
ان کا حساب بروز محشر اللہ رب العزت کو دینا ہے مگر مجھے فکر ان نوجوان بچوں اور بچیوں کی ہے جو تبدیلی اور ریاست مدینہ کے قیام کا خواب دیکھ کر سیاست میں بے خطر کود پڑے تھے، ان کی مایوسی اور دکھ کا کیا عالم ہوگا، اسے بیان نہیں کیا جاسکتا، سوچنے والی بات یہ ہے کہ انھیں کس طرح سیاست کے اس گند سے بچایا جائے۔ چیئرمین پی ٹی آئی پہلے ایک کرکٹر اور سیلیبرٹی تھا لیکن سیاست میں آنے کے بعد اس نے ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوانوںمیں جو سیاسی فلسفہ اتارا ہے۔
اس نے انھیں جذباتی کر کے مخالفین کے لیے سیاسی خودکش بمبار بنا دیا ہے۔میں کئی بار اپنے کالموں میں ان خودکش سیاسی بمباروں کا ذکر کرچکا ہوں، زمان پارک کے تربیتی کیمپ میں معصوم بچوں سے ان کے والدین کی موجودگی میں جو کچھ کہلوایا گیا، میں اس پر متنبہ کر چکا ہوں مگر یہ مرض لا علاج ہوچکا ہے۔
اس کا انکشاف مجھ پر نواز شریف کے وطن واپسی والے دن ہوا۔ میرے آبائی ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والا دوست اپنی اہلیہ کے ساتھ اسلام آباد جارہے تھے تو انھوں نے اپنی رشتے دار 7 سالہ بچی کو ہمارے گھر چھوڑا۔ میں نے نواز شریف کے جلسے کو دیکھنے کے لیے ٹی وی کھولا تو مریم نواز تقریر کر رہی تھی۔
اس بچی نے مجھے بلا جھجک کہا ،'' انکل اس چورنی کو بند کرکے کپتان کو لگا دیں۔'' میں حیران ہوا اور پوچھا ''کیوں بیٹا ،کیا ہوا؟''بچی کے جواب نے میرا سر چکرا دیا۔ اس نے کہا ، یہ چور کی بیٹی ہے، مجھے چیئرمین پی ٹی آئی پسند ہے۔
میں نے بے اختیار اپنے موبائل سے اس کے ساتھ گفتگو کو ریکارڈ کرنا شروع کیا، تقریباً 10 منٹ کی گفتگو کی ریکارڈنگ میرے پاس محفوظ ہے جسے میں کئی بار سن چکا ہوں۔ نواز شریف اسٹیج پر تقریر کرنے آئے تو اس بچی نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر ٹی وی سے منہ موڑ لیا تاکہ اس کو سن سکے نہ دیکھ سکے۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے پی ٹی آئی والے تو بہت خوش ہوں گے ۔ مگر میرے خیال میں معصوم بچوں کا استحصال ہے۔
ان کی معصومیت اور بچپنے کا قتل ہے، والدین اس رجحان کے ذمے دار ہیں، جس طرح کمسن بچوں کو موٹر سائیکل دینے والے والدین اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل گاہوں میں بھیج رہے ہیں، اسی طرح معصوم بچوں کو گھروں میںنفرت و عناد کی تعلیم دینے والے والدین بھی ان بچوں سے پیار نہیں کررہے ہیں بلکہ دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یہ معاشرے میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کا آغاز ہے، یہ نفرت کی وہ بارودی سرنگیں ہیںجو ہماری آیندہ نسلوں کے پاؤں تلے پھٹیں گی۔ یہ نفرت اس ملک کو جہنم بنا دے گی۔ آخر ہم اتنے بے رحم کیوں ہوگئے ہیں کہ معصوم بچوں کے ذہنوں کو ہم نے سیاسی غلاظت اور دشمنی سے بھر دیا؟ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ سیاست جھوٹ کا دوسرا نام ہے۔سیاست میں جھوٹ اگایا جاتاہے، جھوٹ کھایا جاتا ہے اور جھوٹ پلایا جاتا ہے، اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کی تباہی کا سامان خود اکٹھا کررہے ہیں۔
ہمارے بچپن کے زمانے میں والدین اپنے بچوں کے سامنے خاندانی دشمنی اور بغض و عداوت والی باتوں سے اجتناب کرتے تھے تاکہ معصوم ذہنوں کو اس سے بچایا جا سکے مگر آج سوشل میڈیا کی یلغار میں والدین بھول گئے کہ جو وہ روزانہ سنتے ہیں اور پھر بچوں کے سامنے اس پر تبصرے کرتے ہیں، یہ اسفنج کی طرح جذب کرنے کی اہلیت رکھنے والے معصوم ذہنوں میں محفوظ ہورہا ہے اور یہی ان معصوم بچوں کو پاکستانی سیاست کی بھٹی کا ایندھن بنانے کے لیے کافی ہوگا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی زندگی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی ایسی کئی کہانیوں اور اسکینڈل سے بھری پڑی ہے۔ اسے شاید ان اسکینڈلز کی اب بھی کوئی پروا نہ ہو، کل اگر اس نے سیاست چھوڑ دی یا اپنے مفادات کے لیے نواز شریف اور زرداری سے ہاتھ ملا لیا تو اسے ہیرو اور ایماندار سمجھنے والے لوگ کیا موقف اختیار کریں گے؟
دھرنے کے دوران کیسی کیسی کہانیاں سامنے آئیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ عدت کیس کے تین کردار قوم اور قانون کے سامنے ہیں، یہ عام لوگ ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ولایت کے درجے پر فائز نہیں ہے ، ان میں سے کوئی ایک بھی عالم، محقق، سائنسدان اور سیاسی مدبر و رہبر نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ ہم عام دنیاداروں سے کہیں زیادہ دنیا دار، لالچی اور حاسد ہیں۔
من حیث القوم ہمیں اپنے نوجوانوں اور بچوں کو ایسے بے عمل اور بے علم کرداروں سے بچانا ہوگا، چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ اگر ہم یہ کام نہیں کرسکے تو اس نفرت و انتقام اور گمراہی کی آگ اتنی خوفناک ہوگی کہ ہماری دنیا تو برباد ہوگی ہی، ساتھ ہی ساتھ آخرت بھی برباد کردے گی۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا