اس سنہری موقع کو گنوانا نہیں چاہیے
اس طرح سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ اکیلی ہی حکومت بنا سکتی ہے۔
بھارت میں منعقد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تاریخ ساز فتح حاصل کرتے ہوئے حکمران جماعت کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کا صفایا کر دیا۔ یہ انتخابات نو مرحلوں میں منعقد ہوئے۔ پچھلے تیس سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی واضح اکثریت سے جیت کر سامنے آئی ہے ورنہ اس سے پہلے حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ بی جے پی نے حکومت بنانے کے لیے 272 مطلوب نشستوں سے گیارہ نشستیں زائد حاصل کیں۔ اس طرح سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ اکیلی ہی حکومت بنا سکتی ہے۔
جمہوری حوالے سے تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن نریندر مودی کے حوالے سے یہ خطرناک ہے کہ انھیں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار 55 کروڑ سے زائد لوگوں نے ووٹ ڈالا جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے بیشتر تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تھی کہ بی جے پی کی جیت یقینی ہے لیکن وہ سادہ اکثریت نہ حاصل کر پائے گی لیکن ان انتخابات کے نتائج نے بھارت اور بیرون ملک لوگوں کو صدمے سے دو چار کر دیا ہے۔
اہم ہندوستانی شخصیات نے ان نتائج کو تاریکی سے تعبیر کیا ہے کہا کہ سیکولر ہندوستان کا تصور مٹی میں مل گیا ہے۔ ان انتخابات میں وہ لوگ کامیاب ہوئے جنھوں نے گاندھی کو قتل کیا کیونکہ ان کا گناہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ تسلی دینے کے لیے اپنے آپ کو کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی ووٹروں کی دو تہائی اکثریت نے نریندر مودی کو ووٹ نہیں دیے۔ افسوس کہ مودی کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی کو پاکستان کی طرح آئی جے آئی بنانے کا خیال نہ آیا۔ بھارت کے 16 ویں انتخابات کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ بہت کم تعداد میں مسلمان ارکان منتخب ہوئے جن کی تعداد صرف 24 ہے حالانکہ ان کی تعداد کم از کم چار گنا ہونی چاہیے جب کہ تعصب کا یہ عالم تھا کہ بی جے پی نے جن چند مسلم ارکان کو ٹکٹ دیے وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
دنیا بھر کے تجزیہ نگار اس بات پر تبصرہ کر رہے ہیں کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ جس میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور بھارتی آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے پر پوری دنیا میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن اپنی حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو دعوت دینے کے لیے بھی مودی کی تحسین کی جا رہی ہے حالانکہ یہ دعوت صرف پاکستانی وزیر اعظم کو نہیں دی گئی بلکہ تمام سارک ممالک کے سربراہان کے لیے دی گئی ہے جب کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گی کیونکہ وہ پہلے ہی غیر ملکی دورے پر ہیں۔
بی جے پی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد کہا ہے کہ وہ اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش مند ہے کیونکہ دوستیاں تو ہر کسی سے کی جا سکتی ہیں لیکن ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ مودی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر چلنے پر تیار ہیں جو دوستی بس کے ذریعے لاہور پہنچے اور مینار پاکستان پر یہ بیان دیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ دونوں ہمسائیوں کا بھلا اس بات میں ہے کہ اپنے تنازعات جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کریں تا کہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان امن کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکیں لیکن افسوس کہ نومبر2008ء ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔
بھارت و پاکستان کی67 سالہ تاریخ میں یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے جب کہ یہاں کے عوام امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں شکست پر شکست کھا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کم از کم دس اور بھارت میں کم از کم تیس کروڑ عوام کو کھانے کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ دونوں ملکوں کے بھاری جنگی اخراجات کی وجہ سے خط غربت سے نیچے حیوان نما انسانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنھیں دیکھ کر حساس انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب دونوں ملک اپنے اپنے غریب عوام کو پیٹ کاٹ کر ایٹم بم دُور مار میزائل آبدوزوں طیاروں اور دیگر جنگی اسلحہ جات پر خرچ کریں گے تو عوام کے لیے کیا بچے گا۔
اگر بھارت اور پاکستان میں امن ہو جائے تو وہی ہزاروں ارب جو جنگی اسلحے پر خرچ کیے جاتے ہیں، غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ جس میں سستی خوراک ' بے روزگاری الاؤنس ' بے روزگاری کا خاتمہ صحت اور تعلیم پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جا سکے گی۔ آج پوری دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک اپنے ہر فرد پر زیادہ سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اچھی صحت اور اعلیٰ تعلیم سے بہر مند ہو کر اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ ان ہی عوام کو ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ جنگوں کے شوق نے ہمیں پس ماندہ ترین ملک بنا دیا ہے۔
پاک بھارت دوستی ہونے سے پورے خطے میں امن آ جائے گا۔ پاکستانی عوام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کو جن دہشت گرد قوتوں نے اپنا یرغمال بنایا ہوا ہے ان دونوں ملکوں میں امن ہونے سے ان دہشت گرد قوتوں کو شکست ہو جائے گی۔ اگر پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ وہ آگ و خون کے اس جہنم سے باہر نکلیں جس نے انھیں پچھلے تیس سالوں سے گھیرا ہوا ہے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ دونوں ملکوں میں امن دوستی ہو اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
خدانخواستہ ہم نے یہ راستہ اختیار نہ کیا تو اس خطے میں وہ قتل و غارت تباہی و بربادی ہو گی جس کا آسمان نے اس سے پہلے کبھی نظارہ نہ کیا ہو گا۔ غریب عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ خوش نما نعروں کی آڑ میں جنگ کا ایندھن ہمیشہ غریب عوام ہی بنتے ہیں۔ حکمران طبقے اور ان کے حواری اس جنگ کا ایندھن بننے سے ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں غریب عوام کی نسلیں اس تباہی و بربادی کا مزہ چکھتی ہیں۔ پاک بھارت دوستی ہونے سے سارے جنوبی ایشیا میں امن کی راہ ہموار ہوجائے گی اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اس سنہری موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو شاید ہمیں پچھتانے کا بھی موقع نہ ملے۔
31-30 مئی ۔3 جون تا 8-7-6 جون کی تاریخوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ا ہم اعلانات اور اقدامات سامنے آئیں گے۔
سیل فون: 0346-4527997
جمہوری حوالے سے تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن نریندر مودی کے حوالے سے یہ خطرناک ہے کہ انھیں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار 55 کروڑ سے زائد لوگوں نے ووٹ ڈالا جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے بیشتر تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تھی کہ بی جے پی کی جیت یقینی ہے لیکن وہ سادہ اکثریت نہ حاصل کر پائے گی لیکن ان انتخابات کے نتائج نے بھارت اور بیرون ملک لوگوں کو صدمے سے دو چار کر دیا ہے۔
اہم ہندوستانی شخصیات نے ان نتائج کو تاریکی سے تعبیر کیا ہے کہا کہ سیکولر ہندوستان کا تصور مٹی میں مل گیا ہے۔ ان انتخابات میں وہ لوگ کامیاب ہوئے جنھوں نے گاندھی کو قتل کیا کیونکہ ان کا گناہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے۔ تسلی دینے کے لیے اپنے آپ کو کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی ووٹروں کی دو تہائی اکثریت نے نریندر مودی کو ووٹ نہیں دیے۔ افسوس کہ مودی کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی کو پاکستان کی طرح آئی جے آئی بنانے کا خیال نہ آیا۔ بھارت کے 16 ویں انتخابات کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ بہت کم تعداد میں مسلمان ارکان منتخب ہوئے جن کی تعداد صرف 24 ہے حالانکہ ان کی تعداد کم از کم چار گنا ہونی چاہیے جب کہ تعصب کا یہ عالم تھا کہ بی جے پی نے جن چند مسلم ارکان کو ٹکٹ دیے وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
دنیا بھر کے تجزیہ نگار اس بات پر تبصرہ کر رہے ہیں کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔ جس میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور بھارتی آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے پر پوری دنیا میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن اپنی حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو دعوت دینے کے لیے بھی مودی کی تحسین کی جا رہی ہے حالانکہ یہ دعوت صرف پاکستانی وزیر اعظم کو نہیں دی گئی بلکہ تمام سارک ممالک کے سربراہان کے لیے دی گئی ہے جب کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گی کیونکہ وہ پہلے ہی غیر ملکی دورے پر ہیں۔
بی جے پی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد کہا ہے کہ وہ اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش مند ہے کیونکہ دوستیاں تو ہر کسی سے کی جا سکتی ہیں لیکن ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ مودی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنما سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر چلنے پر تیار ہیں جو دوستی بس کے ذریعے لاہور پہنچے اور مینار پاکستان پر یہ بیان دیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ دونوں ہمسائیوں کا بھلا اس بات میں ہے کہ اپنے تنازعات جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کریں تا کہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان امن کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکیں لیکن افسوس کہ نومبر2008ء ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔
بھارت و پاکستان کی67 سالہ تاریخ میں یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے جب کہ یہاں کے عوام امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں شکست پر شکست کھا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کم از کم دس اور بھارت میں کم از کم تیس کروڑ عوام کو کھانے کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ دونوں ملکوں کے بھاری جنگی اخراجات کی وجہ سے خط غربت سے نیچے حیوان نما انسانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنھیں دیکھ کر حساس انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب دونوں ملک اپنے اپنے غریب عوام کو پیٹ کاٹ کر ایٹم بم دُور مار میزائل آبدوزوں طیاروں اور دیگر جنگی اسلحہ جات پر خرچ کریں گے تو عوام کے لیے کیا بچے گا۔
اگر بھارت اور پاکستان میں امن ہو جائے تو وہی ہزاروں ارب جو جنگی اسلحے پر خرچ کیے جاتے ہیں، غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ جس میں سستی خوراک ' بے روزگاری الاؤنس ' بے روزگاری کا خاتمہ صحت اور تعلیم پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جا سکے گی۔ آج پوری دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک اپنے ہر فرد پر زیادہ سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اچھی صحت اور اعلیٰ تعلیم سے بہر مند ہو کر اپنے ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ ان ہی عوام کو ہم مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ جنگوں کے شوق نے ہمیں پس ماندہ ترین ملک بنا دیا ہے۔
پاک بھارت دوستی ہونے سے پورے خطے میں امن آ جائے گا۔ پاکستانی عوام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کو جن دہشت گرد قوتوں نے اپنا یرغمال بنایا ہوا ہے ان دونوں ملکوں میں امن ہونے سے ان دہشت گرد قوتوں کو شکست ہو جائے گی۔ اگر پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ وہ آگ و خون کے اس جہنم سے باہر نکلیں جس نے انھیں پچھلے تیس سالوں سے گھیرا ہوا ہے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ دونوں ملکوں میں امن دوستی ہو اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
خدانخواستہ ہم نے یہ راستہ اختیار نہ کیا تو اس خطے میں وہ قتل و غارت تباہی و بربادی ہو گی جس کا آسمان نے اس سے پہلے کبھی نظارہ نہ کیا ہو گا۔ غریب عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ خوش نما نعروں کی آڑ میں جنگ کا ایندھن ہمیشہ غریب عوام ہی بنتے ہیں۔ حکمران طبقے اور ان کے حواری اس جنگ کا ایندھن بننے سے ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں غریب عوام کی نسلیں اس تباہی و بربادی کا مزہ چکھتی ہیں۔ پاک بھارت دوستی ہونے سے سارے جنوبی ایشیا میں امن کی راہ ہموار ہوجائے گی اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اس سنہری موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو شاید ہمیں پچھتانے کا بھی موقع نہ ملے۔
31-30 مئی ۔3 جون تا 8-7-6 جون کی تاریخوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ا ہم اعلانات اور اقدامات سامنے آئیں گے۔
سیل فون: 0346-4527997