شانزہ لزا اور تالے والا پُل
میں سفر کی روداد نہیں لکھنا چاہتا۔ کئی دن گزر گئے مسلسل کشمکش میں ہوں۔ ویسے زندگی کے قافلے کے ساتھ دہائیاں گزر گئیں۔
میں سفر کی روداد نہیں لکھنا چاہتا۔ کئی دن گزر گئے مسلسل کشمکش میں ہوں۔ ویسے زندگی کے قافلے کے ساتھ دہائیاں گزر گئیں۔ مگر حال کے سفر میں کافی دنوں سے پیرس میں ہوں۔ ائیر پورٹ سے لے کر ہوٹل تک میں شہر سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ شہر نے مجھ پر بالکل اثر نہیں کیا۔ پر جیسے جیسے میں پیرس میں باہر نکلا۔میں خنکی کے باوجود اس جہان حیرت کو دیکھ کر پگھلنا شروع ہو گیا۔ یہ ایک شہر نہیں بلکہ میوزیم ہے۔ ہر کونے پر صدیوں کی تاریخ لکھی نظر آتی ہے۔ میں پہلی بار پیرس آیا ہوں۔ میں تیس برس میں دنیا کے ہر کونے میں گیا ہوں مگر فرنچ زبان نہ آنے کی وجہ سے کبھی فرانس نہیں آیا۔ مجھے اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اس جگہ بہت پہلے آنا چاہیے تھا۔ زبان آج کے دور میں کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں کا ہر شہری کچھ نہ کچھ انگریزی بول ہی لیتا ہے۔
میں یہ کالم دنیا کی سب سے خوبصورت سڑک جو کہ پیرس کا دل ہے، یعنی شانزہ لزا کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ اس پارک کے تقریباً درمیان میں ایک دیدہ زیب فوارہ ہے۔ اس فوارے میں تین منزلیں ہیں۔ سب سے پہلے پانی میں پانچ خوبصورت مجسمے نصب ہیں۔ یہ سبز رنگ کے ہیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں بڑی سی مچھلی ہے۔ اوپر والی سطح پر تین بزرگ قسم کے افراد کے قد آور مجسمے موجود ہیںاور سب سے اوپر خالی تہہ پر چھ سات بچوں کی کھیلتے ہوئے تصاویر ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لیے خوبصورتی ایک عام سی چیز ہے۔ لہذا کوئی بھی اس خوبصورت فوارے کے قریب موجود نہیں ہے۔مگر میرے لیے خوبصورتی ہرگز عام نہیں ہے۔ میں کافی دیر سے یہاں موجود ہوں۔ یہاں کے موسم کا کسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں۔ دن میں وقفے وقفے سے کئی بار بارش ہو چکی ہے۔ اس وقت میرے دل میں بارش ہی بارش ہے۔ بلکہ یوں کہہ سکتا ہوں کہ سیلاب ہی سیلاب ہے۔
آپ یہاں کے عام لوگوں کو دیکھیے۔ اکثریت آپکو گندمی رنگ کے عربی النسل معلوم ہونگے۔ اس ملک پر عربی زبان، کلچر اور موسیقی کا بہت گہرا اثر ہے۔ فرانس کا قبضہ جس جس ملک پر رہا ہے جیسے تیونس اور موروکو، وہ بیشتر عربی ممالک تھے۔ فرانس نے جہاں اپنی تہذیب کو ان ملکوں میں روشناس کروایا، وہیں یہ لوگ بھی ان ممالک سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ دو طرفہ اثر آگے کس طرح بڑھتا پھلتا اور پھولتا ہے، اس کے بارے میں آج کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس ملک کا بہت گھمبیر مسئلہ امیگریشن ہے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں جائز اور ناجائز طریقوں سے آئے ہوئے ہیں۔ اب وہ فرنچ بولتے ہیں، یہاں کے نظام کا حصہ نہیں بنتے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ صرف یہاں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی اب اس ملک میں قیام پذیر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک سے آئے ہوئے اکثر لوگ بھی یہاں کے نظام کا حصہ نہیں بن سکے۔ ہم لوگ پیرس میں ان ہی شرائط پر زندہ رہتے ہیں جو میر پور خاص، لورالائی، مانسہرہ یا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ہیں۔ نتیجہ بھی منطقی ہے۔ یہاں کی پاکستانی نوجوان نسل منتشر ہے۔
ایک اور چیز یہاں کی سماجی زندگی میں میں نے محسوس کی ہے وہ ہے کہ یہاں اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ رہا ہے۔ سیاحوں کو بریف کیا جاتا ہے کہ وہ ان جرائم سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں مگر ان سے محفوظ رہنا مشکل ہو چکا ہے۔ مشرقی یورپ کے اکثر لوگ اب بغیر کسی ویزہ کے یہاں آ جا سکتے ہیں۔ یورپی یونین کی بدولت ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ ان میں سے چھوٹے چھوٹے بچے انتہائی معصومیت سے آپکی جیب کاٹ لیتے ہیں۔ آپ ان بچوں سے محبت سے کلام کرتے ہیں مگر ان کا گروہ بڑی آسانی سے آپکی جیب سے بٹوہ نکال چکا ہوتا ہے۔ میں آج صبح اپنے ہوٹل کے باہر بس اسٹاپ پر بیٹھا تھا۔
شیشے کا بنا ہوا بس اسٹاپ آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ کر سوچنے کی بہترین جگہ ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک انتہائی مہذب وضع قطع کے آدمی نے مجھ سے راستہ پوچھنا شروع کر دیا۔ پھر مجھے کہنے لگا کہ وہ دبئی کا مسلمان ہے جب میں نے اسے اپنا پاکستانی ہونے کا بتایا تو اس نے خالص عربی لہجے میں مسلمانوں کے آپس میں بھائی ہونے پر مدلل بات کی۔ پانچ دس منٹ کے بعد کہنے لگا کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور اسے فوری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد اس ملک میںصرف مسلمان بھائی ہی کر سکتا ہے۔ اسے فقط پچیس یورو چاہیئں۔ وہ یہ رقم صبح تک ہوٹل میں پہنچا دیگا۔
میں نے صرف یہ گزارش کی کہ ہوٹل کی انتطامیہ سے مل لے تا کہ مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔ میری بات سن کر وہ گھبرا کر غائب ہو گیا۔ شام میں جب ہوٹل سے باہر آیا تو وہ پھر موجود تھا اور کسی اور آدمی کو بالکل وہی کہانی سنا رہا تھا جو مجھے سنائی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ کہنے کا مقصد ہے کہ یہاں ان تمام لوگوں کو جو اجنبی ہیں، بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پچاس سے ساٹھ فیصد سیاح کسی نہ کسی واردات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہاں کی زیر زمین ٹرین جسے میٹرو کہا جاتا ہے، انتہائی مناسب اور تسلی بخش ہے۔ یہ لندن کی ٹیوب ٹرین سے بہت جدید اور بہتر ہے۔ میٹرو کے کرایے بہت سستے ہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے، یہ مقامی لہجہ میں جب آنے والے اسٹیشن کا نام لیتے ہیں تو میرے جیسے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اس کا علاج بھی ان لوگوں نے کیا ہوا ہے۔ ٹرین کے دروازہ کے ساتھ ایک اسکرین موجود ہے۔ اس اسکرین پر اسٹیشن کا نام لکھا ہوا نظر آجاتا ہے۔ آپ تھوڑی سی بھی کوشش کریں تو پھر آپ کے گم ہو جانے یا غلطی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ پر میں نے ٹرین کا سفر گم ہو جانے کے لیے کیا تھا۔ میں اس کیفیت سے بھی گزرنا چاہتا تھا کہ انسان معلوم سے نامعلوم کا فکری سفر کر سکے۔ کسی بھی شہر میں گم ہو جانا اپنی طرح کا انوکھا تجربہ ہے۔
پیرس کے ارد گرد دریا ایک گول دائرے کی طرح موجود ہے۔ اس کے سفر کے لیے ہزاروں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اس سفر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تمام عجائب گھر اور قدیم محلات اس دریا کے ساتھ ساتھ ہیں۔ آپکو گائیڈ بہت تفصیل سے ان کے متعلق بتاتا رہتا ہے۔ آپ جب ان مقامات پر جاتے ہیں تو آپکو پہلے سے کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگر میری دانست میں آپ جہاں بھی چلے جائیں۔ ہر شخص آپکی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔ ان کا ملک سیاحوں کی قدر و قیمت جانتا ہے۔ آج میں ایفل ٹاور اور عجائب گھروں کا ذکر نہیں کرونگا۔ یہ معاملہ کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھیے۔
شانزہ لزا پیرس کا دل ہے۔ یہ حیران کن حد تک خوبصورت اور جدید ہے۔ دونوں طرف شاپنگ کی سیکڑوں دکانیں اور کھانے پینے کے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ میں نےLousi Vitton کے کپڑوں کا سب سے بڑا اسٹور یہاں پر دیکھا۔ شام کو اس اسٹور پر شاپنگ کرنے والوں کے لیے باقاعدہ قطار بنائی جاتی ہے اور لوگوں کو بہت دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ گھنٹوں اس سڑک کے ساتھ بنے ہوئے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ دونوں اطراف پر گھنے درخت موجود ہیں۔ چھوٹے چھوٹے باغ ہر طرف موجود ہیں۔ آپ کسی بھی جگہ بیٹھ کر دیر تک آنے جانے والوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اتنی پُر مسرت رونق امریکا، آسٹریلیا، دبئی یا لندن، کسی جگہ محسوس نہیں کی۔ رنگ، خوشبو اور رونق کا ایک سیلاب ہے جو آپکو اپنی لپیٹ میں قید کر لیتا ہے۔
دنیا کے ہر ملک سے آئے ہوئے لوگ اس سڑک پر شاپنگ، یا صرف سیر کے لیے آتے ہیں۔ واپسی پر میں نے ایک پُل دیکھا۔ اس پُل کے جنگلے پر لاکھوں تالے لگے ہوئے تھے۔ میں تجسس سے اس طرف گیا۔ اس کے دونوں طرف لوگوں نے جنگلے پر تالے باندھے ہوئے تھے۔ یہ جنگلے تالوں سے بھرے ہوئے تھے۔ روایت ہے کہ آپ تالہ لگاتے ہوئے جو خواہش کریں، وہ قبول ہو جاتی ہے! وہاں ایک پاکستانی نوجوان تالے بیچ رہا تھا! میں نے ایک سنہری رنگ کا تالہ خریدا۔ اسکو پُل کے ساتھ باندھ دیا۔ معلوم نہیں، کیوں میں نے اس پُل پر کھڑے ہو کر کوئی دعا نہیں مانگی، کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا! میری نظر میں تو تمام پیرس ہی تالے والا پُل ہے!
میں یہ کالم دنیا کی سب سے خوبصورت سڑک جو کہ پیرس کا دل ہے، یعنی شانزہ لزا کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ اس پارک کے تقریباً درمیان میں ایک دیدہ زیب فوارہ ہے۔ اس فوارے میں تین منزلیں ہیں۔ سب سے پہلے پانی میں پانچ خوبصورت مجسمے نصب ہیں۔ یہ سبز رنگ کے ہیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں بڑی سی مچھلی ہے۔ اوپر والی سطح پر تین بزرگ قسم کے افراد کے قد آور مجسمے موجود ہیںاور سب سے اوپر خالی تہہ پر چھ سات بچوں کی کھیلتے ہوئے تصاویر ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لیے خوبصورتی ایک عام سی چیز ہے۔ لہذا کوئی بھی اس خوبصورت فوارے کے قریب موجود نہیں ہے۔مگر میرے لیے خوبصورتی ہرگز عام نہیں ہے۔ میں کافی دیر سے یہاں موجود ہوں۔ یہاں کے موسم کا کسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں۔ دن میں وقفے وقفے سے کئی بار بارش ہو چکی ہے۔ اس وقت میرے دل میں بارش ہی بارش ہے۔ بلکہ یوں کہہ سکتا ہوں کہ سیلاب ہی سیلاب ہے۔
آپ یہاں کے عام لوگوں کو دیکھیے۔ اکثریت آپکو گندمی رنگ کے عربی النسل معلوم ہونگے۔ اس ملک پر عربی زبان، کلچر اور موسیقی کا بہت گہرا اثر ہے۔ فرانس کا قبضہ جس جس ملک پر رہا ہے جیسے تیونس اور موروکو، وہ بیشتر عربی ممالک تھے۔ فرانس نے جہاں اپنی تہذیب کو ان ملکوں میں روشناس کروایا، وہیں یہ لوگ بھی ان ممالک سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ دو طرفہ اثر آگے کس طرح بڑھتا پھلتا اور پھولتا ہے، اس کے بارے میں آج کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس ملک کا بہت گھمبیر مسئلہ امیگریشن ہے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں جائز اور ناجائز طریقوں سے آئے ہوئے ہیں۔ اب وہ فرنچ بولتے ہیں، یہاں کے نظام کا حصہ نہیں بنتے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ صرف یہاں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی اب اس ملک میں قیام پذیر ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک سے آئے ہوئے اکثر لوگ بھی یہاں کے نظام کا حصہ نہیں بن سکے۔ ہم لوگ پیرس میں ان ہی شرائط پر زندہ رہتے ہیں جو میر پور خاص، لورالائی، مانسہرہ یا ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ہیں۔ نتیجہ بھی منطقی ہے۔ یہاں کی پاکستانی نوجوان نسل منتشر ہے۔
ایک اور چیز یہاں کی سماجی زندگی میں میں نے محسوس کی ہے وہ ہے کہ یہاں اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ رہا ہے۔ سیاحوں کو بریف کیا جاتا ہے کہ وہ ان جرائم سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں مگر ان سے محفوظ رہنا مشکل ہو چکا ہے۔ مشرقی یورپ کے اکثر لوگ اب بغیر کسی ویزہ کے یہاں آ جا سکتے ہیں۔ یورپی یونین کی بدولت ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ ان میں سے چھوٹے چھوٹے بچے انتہائی معصومیت سے آپکی جیب کاٹ لیتے ہیں۔ آپ ان بچوں سے محبت سے کلام کرتے ہیں مگر ان کا گروہ بڑی آسانی سے آپکی جیب سے بٹوہ نکال چکا ہوتا ہے۔ میں آج صبح اپنے ہوٹل کے باہر بس اسٹاپ پر بیٹھا تھا۔
شیشے کا بنا ہوا بس اسٹاپ آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ کر سوچنے کی بہترین جگہ ہے۔ تھوڑی دیر میں ایک انتہائی مہذب وضع قطع کے آدمی نے مجھ سے راستہ پوچھنا شروع کر دیا۔ پھر مجھے کہنے لگا کہ وہ دبئی کا مسلمان ہے جب میں نے اسے اپنا پاکستانی ہونے کا بتایا تو اس نے خالص عربی لہجے میں مسلمانوں کے آپس میں بھائی ہونے پر مدلل بات کی۔ پانچ دس منٹ کے بعد کہنے لگا کہ اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے اور اسے فوری مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد اس ملک میںصرف مسلمان بھائی ہی کر سکتا ہے۔ اسے فقط پچیس یورو چاہیئں۔ وہ یہ رقم صبح تک ہوٹل میں پہنچا دیگا۔
میں نے صرف یہ گزارش کی کہ ہوٹل کی انتطامیہ سے مل لے تا کہ مجھے معلوم ہو جائے کہ اس کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔ میری بات سن کر وہ گھبرا کر غائب ہو گیا۔ شام میں جب ہوٹل سے باہر آیا تو وہ پھر موجود تھا اور کسی اور آدمی کو بالکل وہی کہانی سنا رہا تھا جو مجھے سنائی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ کہنے کا مقصد ہے کہ یہاں ان تمام لوگوں کو جو اجنبی ہیں، بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پچاس سے ساٹھ فیصد سیاح کسی نہ کسی واردات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہاں کی زیر زمین ٹرین جسے میٹرو کہا جاتا ہے، انتہائی مناسب اور تسلی بخش ہے۔ یہ لندن کی ٹیوب ٹرین سے بہت جدید اور بہتر ہے۔ میٹرو کے کرایے بہت سستے ہیں۔ مسئلہ صرف ایک ہے، یہ مقامی لہجہ میں جب آنے والے اسٹیشن کا نام لیتے ہیں تو میرے جیسے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اس کا علاج بھی ان لوگوں نے کیا ہوا ہے۔ ٹرین کے دروازہ کے ساتھ ایک اسکرین موجود ہے۔ اس اسکرین پر اسٹیشن کا نام لکھا ہوا نظر آجاتا ہے۔ آپ تھوڑی سی بھی کوشش کریں تو پھر آپ کے گم ہو جانے یا غلطی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ پر میں نے ٹرین کا سفر گم ہو جانے کے لیے کیا تھا۔ میں اس کیفیت سے بھی گزرنا چاہتا تھا کہ انسان معلوم سے نامعلوم کا فکری سفر کر سکے۔ کسی بھی شہر میں گم ہو جانا اپنی طرح کا انوکھا تجربہ ہے۔
پیرس کے ارد گرد دریا ایک گول دائرے کی طرح موجود ہے۔ اس کے سفر کے لیے ہزاروں لوگ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اس سفر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ تمام عجائب گھر اور قدیم محلات اس دریا کے ساتھ ساتھ ہیں۔ آپکو گائیڈ بہت تفصیل سے ان کے متعلق بتاتا رہتا ہے۔ آپ جب ان مقامات پر جاتے ہیں تو آپکو پہلے سے کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگر میری دانست میں آپ جہاں بھی چلے جائیں۔ ہر شخص آپکی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔ ان کا ملک سیاحوں کی قدر و قیمت جانتا ہے۔ آج میں ایفل ٹاور اور عجائب گھروں کا ذکر نہیں کرونگا۔ یہ معاملہ کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھیے۔
شانزہ لزا پیرس کا دل ہے۔ یہ حیران کن حد تک خوبصورت اور جدید ہے۔ دونوں طرف شاپنگ کی سیکڑوں دکانیں اور کھانے پینے کے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ میں نےLousi Vitton کے کپڑوں کا سب سے بڑا اسٹور یہاں پر دیکھا۔ شام کو اس اسٹور پر شاپنگ کرنے والوں کے لیے باقاعدہ قطار بنائی جاتی ہے اور لوگوں کو بہت دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ گھنٹوں اس سڑک کے ساتھ بنے ہوئے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ دونوں اطراف پر گھنے درخت موجود ہیں۔ چھوٹے چھوٹے باغ ہر طرف موجود ہیں۔ آپ کسی بھی جگہ بیٹھ کر دیر تک آنے جانے والوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اتنی پُر مسرت رونق امریکا، آسٹریلیا، دبئی یا لندن، کسی جگہ محسوس نہیں کی۔ رنگ، خوشبو اور رونق کا ایک سیلاب ہے جو آپکو اپنی لپیٹ میں قید کر لیتا ہے۔
دنیا کے ہر ملک سے آئے ہوئے لوگ اس سڑک پر شاپنگ، یا صرف سیر کے لیے آتے ہیں۔ واپسی پر میں نے ایک پُل دیکھا۔ اس پُل کے جنگلے پر لاکھوں تالے لگے ہوئے تھے۔ میں تجسس سے اس طرف گیا۔ اس کے دونوں طرف لوگوں نے جنگلے پر تالے باندھے ہوئے تھے۔ یہ جنگلے تالوں سے بھرے ہوئے تھے۔ روایت ہے کہ آپ تالہ لگاتے ہوئے جو خواہش کریں، وہ قبول ہو جاتی ہے! وہاں ایک پاکستانی نوجوان تالے بیچ رہا تھا! میں نے ایک سنہری رنگ کا تالہ خریدا۔ اسکو پُل کے ساتھ باندھ دیا۔ معلوم نہیں، کیوں میں نے اس پُل پر کھڑے ہو کر کوئی دعا نہیں مانگی، کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا! میری نظر میں تو تمام پیرس ہی تالے والا پُل ہے!