سندھ کے تعلیمی بورڈزمیں بحرانی صورتحال تنخواہوں کی ادائیگی بھی رک گئی
نگراں صوبائی حکومت نے 23 نومبر کو انٹر بورڈ کراچی اور سندھ ٹیکنیکل بورڈ کے چیئرمین کو فارغ کردیا تھا
سندھ میں نگراں حکومت کی نااہلی و لاپرواہی کے سبب صوبے کے کم از کم تین تعلیمی بورڈز میں دفتری امور منجمد ہونے کے بعد اب تنخواہوں بھی رک گئی ہیں، امتحانی نتائج کی تیاری اور نئے طلبا کی انرولمنٹ و رجسٹریشن سمیت دیگر امور پہلے ہی معطل تھے۔
اداروں کے سربراہوں کی عدم تعیناتی کے سبب کراچی میں قائم کم از کم دو بڑے تعلیمی انتظامی ادارے، اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ اور سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں جاری نہیں ہوسکی ہیں اور مزید کئی روز تک جاری نہ ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ نگراں صوبائی حکومت نے ایک ہفتے قبل 23 نومبر کو صوبے کے دو بڑے تعلیمی بورڈز، انٹر بورڈ کراچی اور سندھ ٹیکنیکل بورڈ سے چیئرمین کو فارغ کردیا تھا جبکہ مذکورہ دونوں بورڈز سمیت تعلیمی بورڈ بینظیر آباد(نوابشاہ) سے سیکریٹریز ، ناظمین امتحانات اور آڈٹ آفیسرز کو بھی فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد سے ان تعلیمی بورڈز میں دفتری امور ٹھپ ہیں۔
بورڈز میں ملازمین سے کام لینے کے لیے اعلی افسران موجود ہی نہیں جو پالیسیوں پر عملدرآمد کراسکیں ، انٹر بورڈ کراچی میں انٹر سال اول کی تمام فیکلٹیز کے امتحانی نتائج پر کام تقریباً رکا ہوا ہے اور پالیسی نہ ہونے کے سبب نتائج کی تیاری سست روی کا شکار ہوچکی ہے جبکہ ٹیکنیکل بورڈ کو ڈی اے ای سال اول کے نتائج بھی جاری کرنے ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین،سیکریٹری اور آڈٹ افسران کے نہ ہونے کے سبب تنخواہیں بن کر ملازمین کے اکائونٹس میں بھجوائی نہیں جاسکیں جس سے مہنگائی کے اس دور میں کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز اور نچلے گریڈز کے ملازمین شدید ذہنی تنائو کا شکار ہیں، کیونکہ مہینے کی آخری تاریخ کو ان کے اکاؤنٹس میں تنخواہیں ٹرانسفر کردہ جاتی ہیں۔
ٹیکنیکل بورڈ کے ایک ملازم کے مطابق ہمارے اکاؤنٹس خالی ہیں، جسٹس (ر) مقبول باقر کا یہ کیسا جسٹس ہے کہ نئے مہینے کے آغاز پر اخراجات کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
'' ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں وزیر اعلی سندھ کے ترجمان رشید چنا سے موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی، انھیں واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا تاہم ان کی جانب سے حکومت سندھ کا موقف موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل جب مذکورہ بالا بورڈز سے چیئرمین ،سیکریٹری اور ناظمین امتحانات سمیت سندھ کے دیگر تعلیمی بورڈ حیدر آباد اور میرپورخاص سے سیکریٹری اور ناظمین امتحانات ہٹائے گئے تو مستقل تقرریوں کے لیے الیکشن کمیشن کی منظوری آنے تک اسٹاپ گیپ ارینجمنٹ کے طور پر ان اداروں میں عارضی تقرریاں کی جانی تھیں۔
تاہم ایک ہفتے میں بھی یہ تقرریاں نہ ہوسکیں اور بورڈز بحرانی کیفیت کا یہاں تک شکار ہوئے کہ اب ملازمین و افسران کی تنخواہیں تک رک گئی ہیں۔
ادھر صورتحال یہ ہے کہ انٹر بورڈ میں 13 سال قبل ناظم امتحانات کے عہدے سے ہٹائے گئے قابل اور تجربے کار افسر کو گھر بٹھا دیا گیا ہے، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔
2011 میں ناظم امتحانات کے عہدے سے ہٹائے گئے افسر کو پہلے میرپورخاص بھجوادیا گیا اس کے بعد عدالت سے واضح ہدایت ملنے کے باوجود ان کو پوسٹنگ نہیں دی جارہی، بورڈ میں سیکریٹری،ناظم امتحانات اور چیئرمین تینوں ہی عہدے خالی ہیں۔
اداروں کے سربراہوں کی عدم تعیناتی کے سبب کراچی میں قائم کم از کم دو بڑے تعلیمی انتظامی ادارے، اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ اور سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں جاری نہیں ہوسکی ہیں اور مزید کئی روز تک جاری نہ ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ نگراں صوبائی حکومت نے ایک ہفتے قبل 23 نومبر کو صوبے کے دو بڑے تعلیمی بورڈز، انٹر بورڈ کراچی اور سندھ ٹیکنیکل بورڈ سے چیئرمین کو فارغ کردیا تھا جبکہ مذکورہ دونوں بورڈز سمیت تعلیمی بورڈ بینظیر آباد(نوابشاہ) سے سیکریٹریز ، ناظمین امتحانات اور آڈٹ آفیسرز کو بھی فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد سے ان تعلیمی بورڈز میں دفتری امور ٹھپ ہیں۔
بورڈز میں ملازمین سے کام لینے کے لیے اعلی افسران موجود ہی نہیں جو پالیسیوں پر عملدرآمد کراسکیں ، انٹر بورڈ کراچی میں انٹر سال اول کی تمام فیکلٹیز کے امتحانی نتائج پر کام تقریباً رکا ہوا ہے اور پالیسی نہ ہونے کے سبب نتائج کی تیاری سست روی کا شکار ہوچکی ہے جبکہ ٹیکنیکل بورڈ کو ڈی اے ای سال اول کے نتائج بھی جاری کرنے ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین،سیکریٹری اور آڈٹ افسران کے نہ ہونے کے سبب تنخواہیں بن کر ملازمین کے اکائونٹس میں بھجوائی نہیں جاسکیں جس سے مہنگائی کے اس دور میں کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز اور نچلے گریڈز کے ملازمین شدید ذہنی تنائو کا شکار ہیں، کیونکہ مہینے کی آخری تاریخ کو ان کے اکاؤنٹس میں تنخواہیں ٹرانسفر کردہ جاتی ہیں۔
ٹیکنیکل بورڈ کے ایک ملازم کے مطابق ہمارے اکاؤنٹس خالی ہیں، جسٹس (ر) مقبول باقر کا یہ کیسا جسٹس ہے کہ نئے مہینے کے آغاز پر اخراجات کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
'' ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں وزیر اعلی سندھ کے ترجمان رشید چنا سے موقف جاننے کے لیے ان سے رابطے کی کوشش کی، انھیں واٹس ایپ پر پیغام بھی بھیجا تاہم ان کی جانب سے حکومت سندھ کا موقف موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل جب مذکورہ بالا بورڈز سے چیئرمین ،سیکریٹری اور ناظمین امتحانات سمیت سندھ کے دیگر تعلیمی بورڈ حیدر آباد اور میرپورخاص سے سیکریٹری اور ناظمین امتحانات ہٹائے گئے تو مستقل تقرریوں کے لیے الیکشن کمیشن کی منظوری آنے تک اسٹاپ گیپ ارینجمنٹ کے طور پر ان اداروں میں عارضی تقرریاں کی جانی تھیں۔
تاہم ایک ہفتے میں بھی یہ تقرریاں نہ ہوسکیں اور بورڈز بحرانی کیفیت کا یہاں تک شکار ہوئے کہ اب ملازمین و افسران کی تنخواہیں تک رک گئی ہیں۔
ادھر صورتحال یہ ہے کہ انٹر بورڈ میں 13 سال قبل ناظم امتحانات کے عہدے سے ہٹائے گئے قابل اور تجربے کار افسر کو گھر بٹھا دیا گیا ہے، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔
2011 میں ناظم امتحانات کے عہدے سے ہٹائے گئے افسر کو پہلے میرپورخاص بھجوادیا گیا اس کے بعد عدالت سے واضح ہدایت ملنے کے باوجود ان کو پوسٹنگ نہیں دی جارہی، بورڈ میں سیکریٹری،ناظم امتحانات اور چیئرمین تینوں ہی عہدے خالی ہیں۔