کمال و زوال
تین آدمیوں کو ذرا غور سے دیکھیں۔ سیٹھ صاحب دکان میں بیٹھے ہیں اور خریداروں کا ہجوم ہے، یہ کیا ہے؟
تین آدمیوں کو ذرا غور سے دیکھیں۔ سیٹھ صاحب دکان میں بیٹھے ہیں اور خریداروں کا ہجوم ہے، یہ کیا ہے؟ کھلاڑی کئی برسوں سے مسلسل ٹیم میں منتخب ہو رہا ہے اور مقبول پارٹی لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنارہی ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ قدرت کا فیصلہ ہے، پوزیشن ہے سیٹھ کی، کھلاڑی کی اور مقبول لیڈر کی۔ اگر یہ پوزیشن بدل جائے یا کمال کو زوال لگ جائے تو؟ سیٹھ کی دکان نہ رہے، کھلاڑی ٹیم میں منتخب نہ ہوسکے اور پاپولر لیڈر عوام میں غیر مقبول ہوجائے، یہ کیا ہے؟ یہ قدرت کا اپنے فیصلے بدلنا ہے۔ یہ حیثیت میں تبدیلی ہے، پھر اس انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ معاشرہ کا سلوک کیوں کر بدل جاتا ہے؟ ہے نا دلچسپ معاشرتی مسئلہ جس پر گفتگو کی جاسکتی ہے، پہلے خالق کے فیصلے پر اور پھر مخلوق کے رویے پر ہمارا آج کا کالم ہوگا۔ ہم کمال و زوال کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریںگے۔
دودھ والے کے پاس لمبی قطار لگی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ مفت مل رہا ہے، ایک یتیم نوجوان نے سیڑھیوں پر کچھ برتن لے کر دودھ بیچنا شروع کیا، بلڈنگ والوں نے اعتراض نہ کیا کہ وہ اس کے والد کے جنازے میں شریک ہوچکے تھے۔ آہستہ آہستہ نوجوان ترقی کرتا رہا اور اس نے گلی میں ایک دکان خریدی، اب نہ جانے اس کا دودھ بہتر ہوتا تھا یا قدرت اسے نوازنا چاہتی تھی، تقدیر اور تدبیر کا کھیل بہت پرانا ہے اور ہم اس پر فیصلہ نہیں کرسکتے کہ نصیب کا سرا کہاں سے شروع ہوتا ہے اور دانش کی حد کہاں ختم ہوجاتی ہے، اب اگلے مرحلے میں اس دودھ والے لڑکے کی کشمکش کی کہانی ہے جس میں ہم حکمت اور قسمت کی جنگ کو سمجھیں گے، علاقہ چھوڑ کر ہم کہیں اور رہنے چلے گئے۔
جب بھی وہاں سے گزرتے تو دودھ والے کو غور سے دیکھتے یہ قدرت کی کرم نوازی کا شاہکار تھا۔ وقت گزرتا رہا اور وہ لڑکا اب لڑکا نہ رہا بلکہ آدمی اور پھر ادھیڑ عمر کا آدمی دکھائی دینے لگا۔ بچپن کی معصومیت غائب ہوچکی تھی اور چہرے سے کچھ کاروباری چالاکی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ دودھ والا گلی میں تھا جب کہ مین روڈ پر لسی والے کی دکان خوب چلتی تھی۔ وہ رش کہ خدا کی پناہ۔ کشمکش اب شروع ہوتی ہے۔ دودھ والے نے لسی والے کے برابر میں مین روڈ پر دکان خرید کر مقابلہ شروع کردیا، اب جس اکلوتی دکان پر لوگ لسی پینے خود بخود جاتے تھے وہاں دودھ والے نے اپنے آدمی کھڑے کردیے۔
وہ آتے جاتے لوگوں اور رکتی گاڑیوں کی طرف لپک کر آرڈر لینے کی کوشش کرتے، یہ دیکھ کر مجبوراً پرانے لسی والے نے بھی کچھ آدمی اس کام کے لیے رکھ لیے۔ وہ بھی گاڑیوں کی جانب دوڑتے اور آرڈر لیتے۔ ایسا شہروں میں اکثر جگہ ہوتا ہے جہاں دو تین ایک جیسی کھانے پینے کی دکانیں ہوں۔ ایسا اس یتیم لڑکے سے ادھیڑ عمر کے کاروباری بنتے شخص نے کیوں کیا؟ ان دودھ اور لسی بیچنے والوں میں کون کامیاب رہا؟ اس کہانی کو ہم تھوڑی دیر کے لیے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کیوں کیا؟
ہم کاروباری کشمکش کے ساتھ قدرت کے فیصلوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب تک کرم فرماتا ہے؟ کس کو نوازتا ہے؟ کس شعبے میں اس کی عطا بے پناہ ہوتی ہے؟ وہ کس کو کس شعبے میں فراوانی سے محروم رکھتا ہے؟ کب چھین لیتا ہے؟ دودھ والے سے شروع ہونے والی کہانی لسی والے تک پہنچی اور کچھ لمحے ربڑی والے کے پاس ٹھہر کر ایک مرتبہ پھر دو لوگوں کی کشمکش کی جانب لوٹ جائے گی۔ آیئے ایک منٹ میں دو ربڑی والوں کی کہانی سمجھتے ہیں۔
کراچی کی فوڈ اسٹریٹ بن جانے والی سڑک پر دو ربڑی بیچنے والے ہوتے تھے۔ دونوں کا ٹھیلہ بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔ پرائمری کے دور سے اسکول آتے جاتے یہ دو لوگ دکھائی دیتے۔ ایک چپ چاپ کھڑا رہتا اور دوسرا آنے جانے والوں کو آوازیں لگاتا۔ ''آیئے بھائی صاحب! آیئے باجی!'' یہ سن کر ربڑی کھانے یا لینے کے خواہش مند اس کی جانب بڑھتے۔ مروتاً بھی اور ایک محاورہ ہے کہ ''جو بولتاہے اس کے بیر بکتے ہیں'' آہستہ آہستہ آوازیں لگانے والے کی دکان پر رش بڑھتا گیا اور دوسرا تقریباً مکھیاں مارتا، حالات نے دوسرے آدمی کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا ٹھیلا سمیٹ لے۔ اب وہاں اکیلے رہ جانے والے کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ اس نے بیکری والے سے دکان خرید کر اسے ''ربڑی ہائوس'' بنالیا۔ اب اسے شادیوں میں بھی آرڈر ملنے لگے۔ کچھ وقت گزرا تو اس نے مین روڈ پر ایک بڑی دکان خریدی۔ ایک نے کمال کو چھولیا اور دوسرا شاید زوال پذیر ہوگیا۔
''اﷲ شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہے'' جس ربڑی والے نے آوازیں لگائیں اور کوشش کی وہ کامیاب رہا۔ لیکن کیا ہر دفعہ یہی ہوتا ہے؟ آیئے دیکھیں کہ جب دودھ والے نے لسی کی دکان کھول کر آوازیں لگانی شروع کیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اپنے مقرر کردہ ملازمین کو گاڑیوں اور انسانوں کی طرف دوڑانے کا مقصد اجارہ داری تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی اکثریت لسی کی پرانی دکان کی طرف لپکتی۔
اس سے قدرت کیا ظاہر کرتی ہے؟ قدرت نے اگر زید کے لیے ایک میدان اور بکر کے لیے دوسرا رکھا ہے تو کسی کی بھی دوسرے کے شعبے میں مداخلت کو وہ پسند نہیں کرتا۔ بچپن سے خوشحالی دیکھنے والے کی ذرا بھی سستی اسے گوارا نہیں۔ حق مارنے والے کو تو وہ آسمان سے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ خدمت خلق کے کاموں میں بٹوے اور تجوری پر منہ بناکر ہاتھ لگانے والا زیادہ عرصہ نوٹوں کی گڈیاں گننے اور چیک بک پر دستخط کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ دودھ والا جس نے ادھیڑ عمری میں آکر لسی کی دکان کھولی تھی اسے وہ دکان بیچنی پڑی اور دودھ کے کاروبار تک محدود ہونا پڑا۔
قدرت کا فیصلہ کیا ہے؟ اس نے ایک یتیم کی سرپرستی کی تو اس نے کمال پایا۔ جب اس نے دوسرے کام میں ہاتھ ڈالا تو ناکام بلکہ زوال پذیر ہوا۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شخص اتنا قابل رحم نہ رہا جتنا پہلے تھا۔ دوسرا یہ کہ قدرت پرانے لسی والے کو بھی اس مقام پر برقرار رکھنا چاہتی تھی، ربڑی والے کی مثال دیکھ کر شور شرابا کرنے اور گاہک پکڑنے والا فارمولا ایک جگہ کامیاب ہوا تو ضروری نہیں کہ ہر جگہ کامیاب رہے۔
کائنات کے خالق کی مصلحت ہوتی ہے کہ کسے دینا ہے؟ کب تک دینا ہے؟ کب لے لینا ہے؟ مخلوق بدقسمتی سے چڑھتے سورج کی پجاری نظر آتی ہے۔ ایک دو ذاتی واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ چار چھ مکان چھوڑ کر ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم رہتے تھے، صبح کے وقت ان کے گھر ایک کام سے دفتری لباس میں پیدل جارہا تھا تو گلی کا جمعدار کہنے لگا ''کیا ہوا صاحب! آج گاڑی نہیں ہے'' جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑا خاندان ہو تو گاڑی بھی ہوتی ہے اور اسکوٹربھی۔ ایک مرتبہ کار میں دیکھنے والا جب دوسری مرتبہ بائیک پر دیکھ لے تو کہتا ہے کہ کیا ہوا آپ بڑی سے چھوٹی سواری پر آگئے۔ یہ ہے معاشرے کا رویہ۔ جب کوئی تھوڑے پیسے ملاکر بظاہر کوئی بڑی گاڑی لے لے تو دور قریب کے عزیز مبارکباد دیتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟
انسانوں کو کیوں مال و دولت کے پیمانے سے ناپا جاتاہے۔ قدرت کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ وہ دے کر لیتا ہے اور لے کر دیتا ہے۔ وہ خالق ہے اور اپنے بھید خود ہی جانتا ہے۔ ہم نادان و جلد باز مخلوق اور اوزان ناپ تول اور کرنسی کا فیتہ لے کر کیوں کر فوراً ہی پیمائش کو چل پڑتے ہیں۔ یوں معاشرے میں دولت کے حصول کی کشمکش بڑھ جاتی ہے، سیٹھ، کھلاڑی اور لیڈر کی پوزیشن بدل جائے تو رب کی مصلحت ہوتی ہے۔ ہم باکمال کی طرف جلد لپکتے ہیں اور جو مائل بہ زوال ہو تو ہاتھوں کو جھٹکتے ہیں۔ ہم اونچائی پر چڑھنے والے شخص کے لیے نظریں بچھانے والے اور ڈھلوان کی طرف لڑھکتے آدمی سے نظریں بچانے والے حضرت انسان ہیں۔ ہم نادان کیا سمجھیں کہ کیا ہوتا ہے فلسفہ کمال و زوال؟
دودھ والے کے پاس لمبی قطار لگی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ مفت مل رہا ہے، ایک یتیم نوجوان نے سیڑھیوں پر کچھ برتن لے کر دودھ بیچنا شروع کیا، بلڈنگ والوں نے اعتراض نہ کیا کہ وہ اس کے والد کے جنازے میں شریک ہوچکے تھے۔ آہستہ آہستہ نوجوان ترقی کرتا رہا اور اس نے گلی میں ایک دکان خریدی، اب نہ جانے اس کا دودھ بہتر ہوتا تھا یا قدرت اسے نوازنا چاہتی تھی، تقدیر اور تدبیر کا کھیل بہت پرانا ہے اور ہم اس پر فیصلہ نہیں کرسکتے کہ نصیب کا سرا کہاں سے شروع ہوتا ہے اور دانش کی حد کہاں ختم ہوجاتی ہے، اب اگلے مرحلے میں اس دودھ والے لڑکے کی کشمکش کی کہانی ہے جس میں ہم حکمت اور قسمت کی جنگ کو سمجھیں گے، علاقہ چھوڑ کر ہم کہیں اور رہنے چلے گئے۔
جب بھی وہاں سے گزرتے تو دودھ والے کو غور سے دیکھتے یہ قدرت کی کرم نوازی کا شاہکار تھا۔ وقت گزرتا رہا اور وہ لڑکا اب لڑکا نہ رہا بلکہ آدمی اور پھر ادھیڑ عمر کا آدمی دکھائی دینے لگا۔ بچپن کی معصومیت غائب ہوچکی تھی اور چہرے سے کچھ کاروباری چالاکی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ دودھ والا گلی میں تھا جب کہ مین روڈ پر لسی والے کی دکان خوب چلتی تھی۔ وہ رش کہ خدا کی پناہ۔ کشمکش اب شروع ہوتی ہے۔ دودھ والے نے لسی والے کے برابر میں مین روڈ پر دکان خرید کر مقابلہ شروع کردیا، اب جس اکلوتی دکان پر لوگ لسی پینے خود بخود جاتے تھے وہاں دودھ والے نے اپنے آدمی کھڑے کردیے۔
وہ آتے جاتے لوگوں اور رکتی گاڑیوں کی طرف لپک کر آرڈر لینے کی کوشش کرتے، یہ دیکھ کر مجبوراً پرانے لسی والے نے بھی کچھ آدمی اس کام کے لیے رکھ لیے۔ وہ بھی گاڑیوں کی جانب دوڑتے اور آرڈر لیتے۔ ایسا شہروں میں اکثر جگہ ہوتا ہے جہاں دو تین ایک جیسی کھانے پینے کی دکانیں ہوں۔ ایسا اس یتیم لڑکے سے ادھیڑ عمر کے کاروباری بنتے شخص نے کیوں کیا؟ ان دودھ اور لسی بیچنے والوں میں کون کامیاب رہا؟ اس کہانی کو ہم تھوڑی دیر کے لیے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کیوں کیا؟
ہم کاروباری کشمکش کے ساتھ قدرت کے فیصلوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب تک کرم فرماتا ہے؟ کس کو نوازتا ہے؟ کس شعبے میں اس کی عطا بے پناہ ہوتی ہے؟ وہ کس کو کس شعبے میں فراوانی سے محروم رکھتا ہے؟ کب چھین لیتا ہے؟ دودھ والے سے شروع ہونے والی کہانی لسی والے تک پہنچی اور کچھ لمحے ربڑی والے کے پاس ٹھہر کر ایک مرتبہ پھر دو لوگوں کی کشمکش کی جانب لوٹ جائے گی۔ آیئے ایک منٹ میں دو ربڑی والوں کی کہانی سمجھتے ہیں۔
کراچی کی فوڈ اسٹریٹ بن جانے والی سڑک پر دو ربڑی بیچنے والے ہوتے تھے۔ دونوں کا ٹھیلہ بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔ پرائمری کے دور سے اسکول آتے جاتے یہ دو لوگ دکھائی دیتے۔ ایک چپ چاپ کھڑا رہتا اور دوسرا آنے جانے والوں کو آوازیں لگاتا۔ ''آیئے بھائی صاحب! آیئے باجی!'' یہ سن کر ربڑی کھانے یا لینے کے خواہش مند اس کی جانب بڑھتے۔ مروتاً بھی اور ایک محاورہ ہے کہ ''جو بولتاہے اس کے بیر بکتے ہیں'' آہستہ آہستہ آوازیں لگانے والے کی دکان پر رش بڑھتا گیا اور دوسرا تقریباً مکھیاں مارتا، حالات نے دوسرے آدمی کو مجبور کردیا کہ وہ اپنا ٹھیلا سمیٹ لے۔ اب وہاں اکیلے رہ جانے والے کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ اس نے بیکری والے سے دکان خرید کر اسے ''ربڑی ہائوس'' بنالیا۔ اب اسے شادیوں میں بھی آرڈر ملنے لگے۔ کچھ وقت گزرا تو اس نے مین روڈ پر ایک بڑی دکان خریدی۔ ایک نے کمال کو چھولیا اور دوسرا شاید زوال پذیر ہوگیا۔
''اﷲ شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہے'' جس ربڑی والے نے آوازیں لگائیں اور کوشش کی وہ کامیاب رہا۔ لیکن کیا ہر دفعہ یہی ہوتا ہے؟ آیئے دیکھیں کہ جب دودھ والے نے لسی کی دکان کھول کر آوازیں لگانی شروع کیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اپنے مقرر کردہ ملازمین کو گاڑیوں اور انسانوں کی طرف دوڑانے کا مقصد اجارہ داری تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی اکثریت لسی کی پرانی دکان کی طرف لپکتی۔
اس سے قدرت کیا ظاہر کرتی ہے؟ قدرت نے اگر زید کے لیے ایک میدان اور بکر کے لیے دوسرا رکھا ہے تو کسی کی بھی دوسرے کے شعبے میں مداخلت کو وہ پسند نہیں کرتا۔ بچپن سے خوشحالی دیکھنے والے کی ذرا بھی سستی اسے گوارا نہیں۔ حق مارنے والے کو تو وہ آسمان سے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ خدمت خلق کے کاموں میں بٹوے اور تجوری پر منہ بناکر ہاتھ لگانے والا زیادہ عرصہ نوٹوں کی گڈیاں گننے اور چیک بک پر دستخط کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ دودھ والا جس نے ادھیڑ عمری میں آکر لسی کی دکان کھولی تھی اسے وہ دکان بیچنی پڑی اور دودھ کے کاروبار تک محدود ہونا پڑا۔
قدرت کا فیصلہ کیا ہے؟ اس نے ایک یتیم کی سرپرستی کی تو اس نے کمال پایا۔ جب اس نے دوسرے کام میں ہاتھ ڈالا تو ناکام بلکہ زوال پذیر ہوا۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شخص اتنا قابل رحم نہ رہا جتنا پہلے تھا۔ دوسرا یہ کہ قدرت پرانے لسی والے کو بھی اس مقام پر برقرار رکھنا چاہتی تھی، ربڑی والے کی مثال دیکھ کر شور شرابا کرنے اور گاہک پکڑنے والا فارمولا ایک جگہ کامیاب ہوا تو ضروری نہیں کہ ہر جگہ کامیاب رہے۔
کائنات کے خالق کی مصلحت ہوتی ہے کہ کسے دینا ہے؟ کب تک دینا ہے؟ کب لے لینا ہے؟ مخلوق بدقسمتی سے چڑھتے سورج کی پجاری نظر آتی ہے۔ ایک دو ذاتی واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ چار چھ مکان چھوڑ کر ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم رہتے تھے، صبح کے وقت ان کے گھر ایک کام سے دفتری لباس میں پیدل جارہا تھا تو گلی کا جمعدار کہنے لگا ''کیا ہوا صاحب! آج گاڑی نہیں ہے'' جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑا خاندان ہو تو گاڑی بھی ہوتی ہے اور اسکوٹربھی۔ ایک مرتبہ کار میں دیکھنے والا جب دوسری مرتبہ بائیک پر دیکھ لے تو کہتا ہے کہ کیا ہوا آپ بڑی سے چھوٹی سواری پر آگئے۔ یہ ہے معاشرے کا رویہ۔ جب کوئی تھوڑے پیسے ملاکر بظاہر کوئی بڑی گاڑی لے لے تو دور قریب کے عزیز مبارکباد دیتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟
انسانوں کو کیوں مال و دولت کے پیمانے سے ناپا جاتاہے۔ قدرت کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔ وہ دے کر لیتا ہے اور لے کر دیتا ہے۔ وہ خالق ہے اور اپنے بھید خود ہی جانتا ہے۔ ہم نادان و جلد باز مخلوق اور اوزان ناپ تول اور کرنسی کا فیتہ لے کر کیوں کر فوراً ہی پیمائش کو چل پڑتے ہیں۔ یوں معاشرے میں دولت کے حصول کی کشمکش بڑھ جاتی ہے، سیٹھ، کھلاڑی اور لیڈر کی پوزیشن بدل جائے تو رب کی مصلحت ہوتی ہے۔ ہم باکمال کی طرف جلد لپکتے ہیں اور جو مائل بہ زوال ہو تو ہاتھوں کو جھٹکتے ہیں۔ ہم اونچائی پر چڑھنے والے شخص کے لیے نظریں بچھانے والے اور ڈھلوان کی طرف لڑھکتے آدمی سے نظریں بچانے والے حضرت انسان ہیں۔ ہم نادان کیا سمجھیں کہ کیا ہوتا ہے فلسفہ کمال و زوال؟