غیر ملکی سرمایہ کاری روشن مستقبل کی نوید

معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں

معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں۔ فوٹو: ایکس اکاؤنٹ ریڈیو پاکستان

پاکستان اور کویت نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے سات معاہدوں اور تین مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کردیے۔

وزیر اعظم نے کویت کے ساتھ ان معاہدوں کو ان کامیابیوں میں ایک اور سنگ میل قرار دیا جو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک کے لیے سامنے آ رہی ہیں۔

دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے پاکستان میں موجود اپنے 3 ارب ڈالر کے ڈپازٹ کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کردی ہے۔

بلاشبہ دنیا ترقی کے مواقع سے بھری ہوئی ہے، گلوبلائزیشن، جو کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ مل کر چلتی ہے، ہم اس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ درحقیقت کسی بھی ملک کی ترقی میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کرکے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیار کرنے کے قابل نہ ہوتے۔

سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل ہیں، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے ہیں، لیکن اصل قرعہ آبادی کا حجم ہے جو کہ چوبیس کروڑ ہوچکی ہے۔ ایک بڑی آبادی کا مطلب ہے بہت سارے صارفین۔

بلاشبہ ہم کاروباری ماحول پیدا کرکے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔ کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

'معاشی بحالی منصوبہ' کے عنوان سے تیار کردہ قومی حکمت عملی کا مقصد پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔

منصوبے کے تحت زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا، اور ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔

حکومت کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ منصوبہ درست سمت میں ایک قدم ہے ، اور اس کے دور رس اثرات معیشت پر مرتب ہونگے ۔پاکستان میں زرخیز زمینیں ہیں اور زراعت کے لیے سازگار آب و ہوا ہے۔

یہ شعبہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور تقریباً 38.5 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ پاکستان خوراک اور فصلوں کے دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔ پاکستان اس وقت سالانہ 4.4 بلین ڈالر مالیت کی زرعی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک بڑی، نوجوان آبادی ہے جس میں ہنر مند افرادی قوت کی صلاحیت موجود ہے۔

پاکستان کی تقریباً 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے، جب کہ 29 فیصد کا تعلق 15 سے 29 سال کی عمر کے طبقے سے ہے۔ پاکستان قوت خرید کی برابری کے لحاظ سے دنیا کی 23ویں بڑی معیشت ہے، جب کہ برائے نام جی ڈی پی کے لحاظ سے یہ 40ویں بڑی معیشت ہے۔


یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے وسائل سے مالا مال ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس کوئلہ، گیس، قیمتی پتھر، تانبا، نمک، معدنیات اور سونے کے وافر ذخائر ہیں۔

دیگر وسائل میں تیل، آئرن اور ایلومینیم شامل ہیں جو کسی بھی بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان میں خطے اور ایشیا کا ایک بڑا اقتصادی کھلاڑی ہونے کے تمام تقاضے ہیں اور اس کی اقتصادی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، مستحکم اقتصادی پالیسیوں سے پاکستان کی معیشت 2047 تک 2 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے ۔پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر چل پڑا، معاشی اعداد و شمار اور مہنگائی سے متعلق اعشاریے جاری کرنے والے عالمی ادارے نے پاکستان کو دنیا کے سستے ترین ممالک کی صف میں شامل کر دیا۔

ورلڈ اسٹیسٹکس ویب سائٹ نے نئی رینکنگ جاری کر دی جس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی ضروریات زندگی، اشیائے خورونوش، رہائش اور کرائے شہریوں کی قوت خرید میں ہیں جس کے باعث اسے سستا ملک قرار دیا تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق 23-2022 کے دوران وینز ویلا میں مہنگائی کی شرح 398 فیصد، شام میں 252 فیصد، لبنان میں 139 فیصد، ترکی 47.83 فیصد، مصر 36.5 فیصد جب کہ پاکستان میں 26.89 فیصد رہی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں آئی ٹی اور غیرملکی سرمایہ کاری سے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے جب کہ گزشتہ دو سالوں میں ترسیلات زر، اسٹاک ایکسچینج اور برآمدات میں مثبت رحجانات میں مثبت رحجانات سامنے آئے۔پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ کرنسی کی قدر میں ستمبر کے اوائل سے ہی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

روپے کی مضبوطی سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملنے کا امکان ہے۔ ملکی معیشت بارے جاری کردہ ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 میں اپنے تجارتی خسارے میں 40 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 85 فیصد تک کم کرنے میں نمایاں پیش رفت دیکھی گئی، جو ادائیگیوں کے بہتر توازن کو ظاہر کرتا ہے۔

جی ڈی پی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.1 فیصد اضافے کے ساتھ غیر معمولی نمو دکھائی دی جو کہ ملکی ترقی میں مثبت علامت ہے، آئی ٹی صنعت نے 1.72 بلین ڈالر کا تجارتی سرپلس حاصل کیا ہے جو برآمدات اور اقتصادی ترقی کو ظاہر کرتا ہے، چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی آئی ٹی برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

درآمدات میں نمایاں طور پر 28.4 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تجارتی توازن اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مثبت اثر ڈال سکتی ہے، کوئلہ، ڈولومائٹ، بیریٹس اور دیگر جیسے اہم معدنیات کی پیداوار میں اضافہ کان کنی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔

آئی ٹی شعبے میں چین کی دلچسپی ملکی اقتصادی ڈھانچے کی مضبوطی کو نمایاں کرتی ہے، ٹیلی کام سیکٹر کی اہم شراکت داری نے ملک میں مزید ترقی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہوئے قومی خزانے میں نمایاں حصہ ڈالا ہے، بینکنگ سیکٹر نے منافع میں خاطر خواہ اضافے کی اطلاع دی ہے جو مجموعی اقتصادی استحکام اور کاروباری سرگرمیوں کی عکاسی کرتا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک مستحکم اور مستقل اقتصادی پالیسی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے، جو سیاسی تبدیلیوں سے مشروط نہ ہو اور جو سرمایہ کاروں کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے لیے درکار اعتماد فراہم کر سکے۔ ماہرین کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے مجموعی اقتصادی ماڈل میں پائیدار اصلاحات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ برآمدات میں تنوع اور تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس ضمن میں اقتصادی پالیسیاں ایک طویل المدتی وژن کے ساتھ تیار کی جانی چاہئیں جس میں ملک کی اقتصادی صلاحیت، آبادیاتی رجحانات اور عالمی اقتصادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھا جائے۔

اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سلسلے میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور شفاف اور جوابدہ طرز حکمرانی اداروں میں اعتماد پیدا کرنے اور معاشی پالیسیوں کو موثر طریقے سے لاگو کرنے کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان اپنے منفرد محل وقوع کی وجہ سے خطے میں اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے، جو جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان CPEC میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے اور CPEC چین کے مغربی علاقوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے جوڑتا ہے، جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی ملتی ہے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔
Load Next Story