زمینی حقائق کو دھیان میں رکھیں
ہم معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور اخلاقی پستی کی دلدل میں ڈوب رہے ہیں اور پاکستانی عوام خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں
اسرائیل اور حماس کے مابین عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یہ بات کہنا محض ایک تکلف ہے کہ یہ دو فریقوں کے درمیان جنگ بندی ہے۔
اصل میں یہ ایک غاصب اور جارح قوت کی جانب سے ایک کھلی جیل کے قیدیوں پرحملوںمیں ایک وقفہ دیا گیا ہے۔حماس نے صرف 7اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے بعد حماس کے اندر اتنی سکت نہ رہی کہ وہ اسرائیل پر حملے جاری رکھ سکے۔
اسرائیل نے فضا اور زمین سے حملے کر کے غزہ کی فلسطینی پٹی کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔اس تنازعے میں حماس ملٹری ونگ کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا غزہ میںبسنے والے سویلین کا ہوا ہے جو کسی طرح بھی حماس کی کارروائیوں میں شامل نہیں تھے۔ گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں جن کے نیچے ابھی بھی لاشیں بے گورو کفن پڑی ہیں۔
پورے پورے خاندان مٹ گئے ہیں۔ان خاندانوں میں سے اکثر کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا۔سات ہزار سے اوپر فرشتوں کی طرح معصوم بچے مارے گئے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس مجاہدین کی کارروائی سے 1200 کے قریب اسرائیلی مارے گئے لیکن حماس کی اس کارروائی سے اسرائیل کو بہیمانہ تشدد اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کا بہانہ ہاتھ آ گیا اور اسرائیل نے اس بہانے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جس کے تصور سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے۔اسرائیل کو امریکا،یورپ اور آسٹریلیا کی کھلم کھلا مدد حاصل ہے۔
امریکا اور برطانیہ نے اپنے اسلحے کے انباروں کا منہ کھول کر اسرائیل کو تباہی پھیلانے کے جرم میں مدد دی۔اسرائیل،اس کے اتحادی اور حماس ملٹری ونگ معصوم جانوں کے ضیاع کے ذمے دار ہیں۔
7اکتوبر 2023سے پہلے یہ لگتا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی وژن اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔امریکا ،تہران کے ساتھ ایک انڈرسٹینڈنگ پر پہنچ رہا تھا جس کی وجہ سے تہران نے اپنا نیوکلیر پروگرام مزید آگے نہ بڑھانے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
اس انڈرسٹینڈنگ سے تہران کو منجمد اکاؤنٹس میں سے ایک خاطر خواہ رقم ملنے کا امکان پیدا ہو چلا تھا۔امریکا اور سعودی عرب ایک باہمی دفاعی معاہدے پر کام کر رہے تھے جس کی رُو سے سعودی عرب کے دفاع کی ذمے داری بڑی حد تک امریکا اپنے ذمے لے رہا تھا۔
اس کے بدلے میں سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔امریکی دباؤ کے تحت متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے یہ تعلقات بہت غیر معمولی نوعیت کے ہو چکے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ متحدہ عرب امارات کے مختلف ہوائی اڈوں سے صرف ایک ہفتے میں142پروازیں اسرائیل کے دو ہوائی اڈوں پر اترتی ہیں۔
کچھ اور مسلمان ملکوں نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔امریکا کے کہنے پر عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تو استوار کر رہی تھیں لیکن بدلے میں اسرائیل فلسطینیوں کو کوئی چھوٹ،کوئی مراعات دینے کو تیار نہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی کے سامنے کچھ مشکلات بھی تھیں ۔ حالیہ امریکی اور ایران انڈرسٹینڈنگ کی وجہ سے تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی کچھ کم ہو گئی تھی لیکن یہ کشیدگی ابھی بھی بہت زیادہ تھی اور اس بات کا احتمال موجود تھا کہ کہیں کوئی چنگاری آگ نہ پکڑ لے۔حزب اﷲ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی حالت بھی ایک بڑی مشکل کھڑی کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل میں دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کے عزائم اور اقدامات بھی امریکی وژن کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے تھے۔اسرائیل فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر مسلسل قبضہ جمانے کی پالیسی پر گامزن تھا۔آئے روز اسرائیلی آبادکار اسرائیلی حکومت کی ہلہ شیری پا کر کسی نہ کسی فلسطینی کے گھر اور زمین پر قابض ہو رہے تھے۔اس لیے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی کے سامنے کوئی نہ کوئی ڈائنامیٹ ضرور بچھا ہوا تھا۔
امریکا مشرقِ وسطیٰ کو اپنے وژن اور اسرائیلی خواہشات کے مطابق ڈھالتا جا رہا تھا کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے سارا کھیل چوپٹ کر دیا۔حماس مجاہدین نے انتہائی ہائی سیکیورٹی لائن کو عبور کر تے ہوئے غزہ کی پٹی کے ساتھ ملحقہ اسرائیلی آبادیوں پر قیامت ڈھا دی۔حماس حملے کی زد میں آنے والے لمبے عرصے تک خوف کی فضا میں رہیں گے۔اسرائیل کے دوسو چالیس افراد کو دھر لیا گیا۔
حماس کی کارروائی سے یہ عیاں ہو گیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں سب اچھا نہیں ہے۔یہ عیاںہو چکا ہے کہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے مابین مثالی تعلقات قائم ہونے سے پہلے فلسطین کے مسئلے کا حل ضروری ہے،کہ اسرائیل کی یہ خوش فہمی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے اور اب عربوں کو فلسطین کو یکسر بھول کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
حماس مجاہدین کی صرف ایک روزہ کارروائی اور اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کے باسیوں کے انتہائی بے رحمانہ قتلِ عام نے ایک دفعہ پھر فلسطین کے خوابیدہ مسئلے کو سینٹر اسٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔حملے کے جواب میں حملہ ہمیشہ اچھے نتائج نہیں لاتا۔اگر اسرائیل،حماس حملے کے جواب میں ہاتھ روک کر رکھتا تو اسے بہت بہتر نتائج مل سکتے تھے لیکن اس کے غیر اخلاقی اور انتہائی غیر متناسب جواب نے ایک دنیا کو فلسطین کاز سے روشناس کر کے کاز کا حامی بنا دیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ٹونی بلنکن نے سات اکتوبر کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے کئی دورے کیے۔ایسے لگتا تھا کہ بلنکن علاقے کے ملکوں کو اس اسرائیلی پلان پر راضی کر پائیں گے جس کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ سے فلسطینیوں کو نکال باہر کر کے گریٹر اسرائیل بن جائے گا اور اس طرح فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دریا برد ہو جائے گا۔
ٹونی بلنکن متعدد ملاقاتوں میں بھی عرب رہنماؤں کو امریکا اور اسرائیل کے پلان پر راضی نہ کر پائے۔بلنکن وزیرِ خارجہ بننے سے پہلے اسٹافر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ان کے اندر وہ قابلیت دکھائی نہیں دیتی جو کہ امریکی وزرائے خارجہ دکھاتے رہے ہیں۔بلنکن کا اپنے آپ کو یہودی متعارف کروانا بھی ان کی کوششوں کے خلاف گیا۔یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ امریکا اپنی پہلے والی سپر پاور کی حیثیت اب نہیں رکھتا ۔
اب وہ اپنے فیصلے دوسرے ممالک پر ٹھونسنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔یہ صحیح ہے کہ امریکا ابھی تک بہت بڑی فوجی اور معاشی قوت ہے اور اس قابل ہے کہ کہیں بھی پہنچ کر حریف کو للکارے لیکن اس کی ثالث والی حیثیت بہت کمزور پڑ رہی ہے۔
نئی صورتحال میں امریکا کو بین الاقوامی میدان میں اپنی اسٹریٹیجی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مرتب کرنی ہوگی۔اب تک امریکا مشرقِ وسطیٰ میں زمینی حقائق سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اسرائیلی مفادات کے لیے کام کرتارہا ہے۔
7اکتوبر کے بعد مشرقِ وسطیٰ بہت حد تک بدل گیا ہے۔ امریکا،اسرائیل اور حماس کو زمینی حقیقت کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔اسرائیل بھی ایک بڑی حقیقت بن چکا ہے اور فلسطینی بھی بڑی حقیقت ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے سبق لینا چاہیے۔مشرقِ وسطیٰ سے باہر کی چند مغربی قوتوں نے ایکا کر کے فلسطینیوں سے ان کا ملک چھین کر یہودیوں کو دے دیا۔تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی پوری قوم کو اس کے اپنے علاقے سے نکال دیا جائے لیکن فلسطین میں ایسا کامیابی سے ہوا۔
جو قومیں کمزور ہو جاتی ہیں ان کے فیصلے کہیں اور ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔یہ فیصلے مقامی باشندوں کے حقوق پر ڈاکہ ہوتے ہیں۔ پاکستان باہر سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور اندر سے ایک نالائق اورنا اہل قیادت کے نرغے میں ہے۔ہمارے پاس اس وقت کوئی ایسا اسٹیٹس مین نہیں جو قوم کو مشکلات سے نکال سکے۔
عوام نا اہل سیاست دانوں کی محبت میں گرفتار ہیں۔ہم معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور اخلاقی پستی کی دلدل میں ڈوب رہے ہیں اور پاکستانی عوام خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں۔ہمیں خوابِ غفلت سے جاگنا ہو گا اور یقینی بنانا ہو گا کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کے اندر ہی ہوں۔ہمیں پرو ایکٹو ہو کر، آگے بڑھ کر اپنے ملک کو سنبھالنا ہو گا ۔
اصل میں یہ ایک غاصب اور جارح قوت کی جانب سے ایک کھلی جیل کے قیدیوں پرحملوںمیں ایک وقفہ دیا گیا ہے۔حماس نے صرف 7اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے بعد حماس کے اندر اتنی سکت نہ رہی کہ وہ اسرائیل پر حملے جاری رکھ سکے۔
اسرائیل نے فضا اور زمین سے حملے کر کے غزہ کی فلسطینی پٹی کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔اس تنازعے میں حماس ملٹری ونگ کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا غزہ میںبسنے والے سویلین کا ہوا ہے جو کسی طرح بھی حماس کی کارروائیوں میں شامل نہیں تھے۔ گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں جن کے نیچے ابھی بھی لاشیں بے گورو کفن پڑی ہیں۔
پورے پورے خاندان مٹ گئے ہیں۔ان خاندانوں میں سے اکثر کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا۔سات ہزار سے اوپر فرشتوں کی طرح معصوم بچے مارے گئے ہیں۔
سات اکتوبر کو حماس مجاہدین کی کارروائی سے 1200 کے قریب اسرائیلی مارے گئے لیکن حماس کی اس کارروائی سے اسرائیل کو بہیمانہ تشدد اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کا بہانہ ہاتھ آ گیا اور اسرائیل نے اس بہانے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جس کے تصور سے ہی روح کانپ اُٹھتی ہے۔اسرائیل کو امریکا،یورپ اور آسٹریلیا کی کھلم کھلا مدد حاصل ہے۔
امریکا اور برطانیہ نے اپنے اسلحے کے انباروں کا منہ کھول کر اسرائیل کو تباہی پھیلانے کے جرم میں مدد دی۔اسرائیل،اس کے اتحادی اور حماس ملٹری ونگ معصوم جانوں کے ضیاع کے ذمے دار ہیں۔
7اکتوبر 2023سے پہلے یہ لگتا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی وژن اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔امریکا ،تہران کے ساتھ ایک انڈرسٹینڈنگ پر پہنچ رہا تھا جس کی وجہ سے تہران نے اپنا نیوکلیر پروگرام مزید آگے نہ بڑھانے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔
اس انڈرسٹینڈنگ سے تہران کو منجمد اکاؤنٹس میں سے ایک خاطر خواہ رقم ملنے کا امکان پیدا ہو چلا تھا۔امریکا اور سعودی عرب ایک باہمی دفاعی معاہدے پر کام کر رہے تھے جس کی رُو سے سعودی عرب کے دفاع کی ذمے داری بڑی حد تک امریکا اپنے ذمے لے رہا تھا۔
اس کے بدلے میں سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔امریکی دباؤ کے تحت متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے یہ تعلقات بہت غیر معمولی نوعیت کے ہو چکے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ متحدہ عرب امارات کے مختلف ہوائی اڈوں سے صرف ایک ہفتے میں142پروازیں اسرائیل کے دو ہوائی اڈوں پر اترتی ہیں۔
کچھ اور مسلمان ملکوں نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔امریکا کے کہنے پر عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تو استوار کر رہی تھیں لیکن بدلے میں اسرائیل فلسطینیوں کو کوئی چھوٹ،کوئی مراعات دینے کو تیار نہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی کے سامنے کچھ مشکلات بھی تھیں ۔ حالیہ امریکی اور ایران انڈرسٹینڈنگ کی وجہ سے تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی کچھ کم ہو گئی تھی لیکن یہ کشیدگی ابھی بھی بہت زیادہ تھی اور اس بات کا احتمال موجود تھا کہ کہیں کوئی چنگاری آگ نہ پکڑ لے۔حزب اﷲ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی حالت بھی ایک بڑی مشکل کھڑی کیے ہوئے ہے۔
اسرائیل میں دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت کے عزائم اور اقدامات بھی امریکی وژن کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے تھے۔اسرائیل فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں پر مسلسل قبضہ جمانے کی پالیسی پر گامزن تھا۔آئے روز اسرائیلی آبادکار اسرائیلی حکومت کی ہلہ شیری پا کر کسی نہ کسی فلسطینی کے گھر اور زمین پر قابض ہو رہے تھے۔اس لیے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی کے سامنے کوئی نہ کوئی ڈائنامیٹ ضرور بچھا ہوا تھا۔
امریکا مشرقِ وسطیٰ کو اپنے وژن اور اسرائیلی خواہشات کے مطابق ڈھالتا جا رہا تھا کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے سارا کھیل چوپٹ کر دیا۔حماس مجاہدین نے انتہائی ہائی سیکیورٹی لائن کو عبور کر تے ہوئے غزہ کی پٹی کے ساتھ ملحقہ اسرائیلی آبادیوں پر قیامت ڈھا دی۔حماس حملے کی زد میں آنے والے لمبے عرصے تک خوف کی فضا میں رہیں گے۔اسرائیل کے دوسو چالیس افراد کو دھر لیا گیا۔
حماس کی کارروائی سے یہ عیاں ہو گیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں سب اچھا نہیں ہے۔یہ عیاںہو چکا ہے کہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے مابین مثالی تعلقات قائم ہونے سے پہلے فلسطین کے مسئلے کا حل ضروری ہے،کہ اسرائیل کی یہ خوش فہمی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہو چکا ہے اور اب عربوں کو فلسطین کو یکسر بھول کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
حماس مجاہدین کی صرف ایک روزہ کارروائی اور اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کے باسیوں کے انتہائی بے رحمانہ قتلِ عام نے ایک دفعہ پھر فلسطین کے خوابیدہ مسئلے کو سینٹر اسٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔حملے کے جواب میں حملہ ہمیشہ اچھے نتائج نہیں لاتا۔اگر اسرائیل،حماس حملے کے جواب میں ہاتھ روک کر رکھتا تو اسے بہت بہتر نتائج مل سکتے تھے لیکن اس کے غیر اخلاقی اور انتہائی غیر متناسب جواب نے ایک دنیا کو فلسطین کاز سے روشناس کر کے کاز کا حامی بنا دیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ٹونی بلنکن نے سات اکتوبر کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے کئی دورے کیے۔ایسے لگتا تھا کہ بلنکن علاقے کے ملکوں کو اس اسرائیلی پلان پر راضی کر پائیں گے جس کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ سے فلسطینیوں کو نکال باہر کر کے گریٹر اسرائیل بن جائے گا اور اس طرح فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دریا برد ہو جائے گا۔
ٹونی بلنکن متعدد ملاقاتوں میں بھی عرب رہنماؤں کو امریکا اور اسرائیل کے پلان پر راضی نہ کر پائے۔بلنکن وزیرِ خارجہ بننے سے پہلے اسٹافر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ان کے اندر وہ قابلیت دکھائی نہیں دیتی جو کہ امریکی وزرائے خارجہ دکھاتے رہے ہیں۔بلنکن کا اپنے آپ کو یہودی متعارف کروانا بھی ان کی کوششوں کے خلاف گیا۔یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ امریکا اپنی پہلے والی سپر پاور کی حیثیت اب نہیں رکھتا ۔
اب وہ اپنے فیصلے دوسرے ممالک پر ٹھونسنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔یہ صحیح ہے کہ امریکا ابھی تک بہت بڑی فوجی اور معاشی قوت ہے اور اس قابل ہے کہ کہیں بھی پہنچ کر حریف کو للکارے لیکن اس کی ثالث والی حیثیت بہت کمزور پڑ رہی ہے۔
نئی صورتحال میں امریکا کو بین الاقوامی میدان میں اپنی اسٹریٹیجی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مرتب کرنی ہوگی۔اب تک امریکا مشرقِ وسطیٰ میں زمینی حقائق سے پہلو تہی کرتے ہوئے صرف اسرائیلی مفادات کے لیے کام کرتارہا ہے۔
7اکتوبر کے بعد مشرقِ وسطیٰ بہت حد تک بدل گیا ہے۔ امریکا،اسرائیل اور حماس کو زمینی حقیقت کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔اسرائیل بھی ایک بڑی حقیقت بن چکا ہے اور فلسطینی بھی بڑی حقیقت ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے سبق لینا چاہیے۔مشرقِ وسطیٰ سے باہر کی چند مغربی قوتوں نے ایکا کر کے فلسطینیوں سے ان کا ملک چھین کر یہودیوں کو دے دیا۔تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی پوری قوم کو اس کے اپنے علاقے سے نکال دیا جائے لیکن فلسطین میں ایسا کامیابی سے ہوا۔
جو قومیں کمزور ہو جاتی ہیں ان کے فیصلے کہیں اور ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔یہ فیصلے مقامی باشندوں کے حقوق پر ڈاکہ ہوتے ہیں۔ پاکستان باہر سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور اندر سے ایک نالائق اورنا اہل قیادت کے نرغے میں ہے۔ہمارے پاس اس وقت کوئی ایسا اسٹیٹس مین نہیں جو قوم کو مشکلات سے نکال سکے۔
عوام نا اہل سیاست دانوں کی محبت میں گرفتار ہیں۔ہم معاشی بدحالی کا شکار ہیں اور اخلاقی پستی کی دلدل میں ڈوب رہے ہیں اور پاکستانی عوام خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں۔ہمیں خوابِ غفلت سے جاگنا ہو گا اور یقینی بنانا ہو گا کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کے اندر ہی ہوں۔ہمیں پرو ایکٹو ہو کر، آگے بڑھ کر اپنے ملک کو سنبھالنا ہو گا ۔