آج کی جمہوریت کے آداب

آج کی جمہوریت کے آداب اب کوئی بزرگ نہیں بلکہ نوجوان پی پی چیئرمین یاد دلا رہا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور قومی اسمبلی کے ایک سابق ڈپٹی اسپیکر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو مخالفین کو جمہوریت کے آداب یاد دلارہے ہیں۔

ڈی آئی جی خان میں پی پی کے اس رہنما کے روایتی حریف اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بلاول کے بیانات میں وہی فرق ہے جو بزرگ اور بچے کی سوچ میں ہوتا ہے، ہم پی پی کے خلاف انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے۔

سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے سابق نوجوان وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات پر کہا ہے کہ وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں، ہم سیاست کو دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے اور بلاول کے بیانات کا جمہوریت کے مطابق ہی جواب دیں گے۔

پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کے پی کے حالیہ دورے اور خصوصاً چترال میں پرانے سیاستدانوں کو اپنے نشانے پر رکھا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ آنے والے وقت کا نہیں سوچتے اور اقتدار میں آ کر صرف انتقامی رویہ ہی رکھتے ہیں۔

ان کی وجہ سے 76 سالوں میں ملک کو بہت نقصان ہوا۔ ان پرانے سیاستدانوں کی وجہ سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اس لیے اب بزرگ سیاستدان سیاست چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ کر ملک و قوم کے لیے دعائیں کریں۔

یہ مشورہ بلاول بھٹو نے اپنے والد آصف زرداری کو بھی برائے راست دیا ہے شاید باپ بیٹے کے احترام یا کسی مصلحت کے باعث یہ مشورہ اپنے والد اور پرانے سیاستدان آصف زرداری کو ان کے سامنے نہ دے سکے ہوں اس لیے انھوں نے بہتر سمجھا کہ وہ اپنے والد کو ناراض کرنے کی بجائے تمام پرانے سیاستدانوں کو مخاطب کرکے اپنے والد کو بھی سمجھا دیں۔

وہی جنھوں نے اپنی عقل مندی اور دور اندیشی سے جوان بلاول بھٹو کو ایسا وزیر خارجہ بنوایا تھا جس کا کام سرکاری طور پر دنیا گھومنا تھا اور پی پی کی اتحادی حکومت جو مہنگائی بڑھا رہی تھی اس سے وزیر خارجہ کا کوئی تعلق نہیں تھا، البتہ اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی کے بڑی تعداد میں جو رہنما سرکاری وسائل پر مزے کر رہے تھے وہ سب اور وزیر خارجہ بھی اتحادی حکومت کے ان تمام فیصلوں کے مکمل ذمے دار تھے۔

اس وقت پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہیے تھا کہ وہ وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر بڑی تعداد میں اپنے رہنماؤں کو حکومت میں شامل نہ کرائے جس کی وجہ سے شہباز شریف کی کابینہ ملک کی سب سے بڑی کابینہ تھی جس میں (ن) لیگ اور پی پی کے رہنماؤں کی تعداد سب سے بلکہ ضرورت سے زیادہ اور قومی خزانے پر بڑا بوجھ تھی جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا تھا مگر اس پر پرانے سیاستدان اور ان کے جوان وزیر خارجہ نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا مگر اس وقت وزیر خارجہ دنیا گھومتے رہے اور (ن) لیگ ملک میں مہنگائی بڑھاتی رہی تھی۔


اس لیے اب بلاول کو مہنگائی کی ذمے دار پوری اتحادی حکومت نہیں بلکہ صرف مسلم لیگ (ن) نظر آ رہی ہے اور ان کی آج کی سیاست میں وہ اپنی اتحادی (ن) لیگ کو مہنگائی لیگ قرار دے رہے ہیں۔پرانے سیاستدانوں میں آصف زرداری، میاں نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، چیئرمین پی ٹی آئی اور بے شمار سیاستدان شامل ہیں ۔ آج کی جمہوریت یہ ہے کہ بلاول بھٹو پرانے سیاستدانوں کو جمہوریت کے آداب یاد دلا رہے ہیں ۔

آج کی سیاست اور جمہوریت واقعی مختلف ہے جس میں پرانے سیاستدان باہمی اختلافات کو دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیتے تھے، ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، غمی خوشی میں ایک دوسرے سے ملتے تھے، باہمی تعلق برقرار رکھتے تھے وہ ایک دوسرے پر سیاسی تنقید کرتے تھے مگر ایک دوسرے پر بے سروپا الزامات نہیں لگاتے تھے۔

جلسوں میں ایک دوسرے کا نام بگاڑتے تھے نہ گالم گلوچ کے قائل تھے نہ کھلے عام دھمکیاں دیتے تھے، نہ جلسوں میں یہ کہتے تھے کہ فلاں کو گرفتار کراؤں گا، مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا۔ آئی جی کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا اور بغیر ثبوت اپنے طور پر سیاسی مخالف کو چور، ڈاکو قرار دوں گا۔

آج کی جمہوریت کے آداب اب کوئی بزرگ نہیں بلکہ نوجوان پی پی چیئرمین یاد دلا رہا ہے ۔ سیاست میں رواداری اور اخلاقیات کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ تین ماہ تک آپ جس حکومت کا حصہ تھے اس نے اہم فیصلے باہمی مشاورت سے کیے تھے۔

مہنگائی اب صوبائی حکومتوں کا مسئلہ ہے۔ اتحادی حکومت مہنگائی مشاورت سے بڑھاتی تھی (ن) لیگ نہیں بڑھاتی تھی۔ پیپلز پارٹی اس وقت مہنگائی بڑھنے کا دفاع کرتی تھی اور ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی تھی مگر آج چیئرمین پی پی جوش جوانی میں مہنگائی کا تنہا ذمے دار (ن) لیگ کو قرار دے رہے ہیں اور ملک کے 70 سالہ مسائل کا ذمے دار پرانے سیاستدانوں کو قرار دے رہے ہیں۔

ان پرانے سیاستدانوں میں جب وہ اقتدار میں آئے وہ سب جوانی کی حدیں تو واقعی عبور کر چکے تھے مگر ان میں بلاول کے نانا، والدہ اور والد بھی شامل تھے جن کی حکومتوں کی تعریفیں بلاول آج بھی ہر جگہ کرتے ہیں تو وہ ملک کے مسائل کے ذمے دار اب کیسے ہوگئے۔

آج کی جمہوریت کے آداب اب شاید یہ رہ گئے ہیں کہ اقتدار میں رہنے والے اپنے بزرگوں، پرانے اتحادیوں کے اچھے کام بھی بھلا دیے جائیں۔

جن کی کل تک تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے انھیں پرانا سمجھ کر ناکام قرار دیں اور یہ آداب اب جوان سیاسی رہنما اپنے والد سمیت سب کو یاد دلا رہے ہیں۔ انھیں سب سے پہلے ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہیے اور اپنے بوڑھے اور پرانے والد اور پھوپھی کو کہنا چاہیے کہ اب وہ سیاست چھوڑیں اور اللہ اللہ کریں۔

جمہوریت کے یہ آداب نہیں جو بلاول دلا رہے ہیں۔ جمہوری آداب اور اخلاقیات ان پرانے سیاستدانوں کو یاد ہیں، اگر یہ معاملہ جوان بلاول اور کسی پرانے سیاستدان کا ہوتا تو 71 سالہ پرانا جوان تنقید اور آداب جمہوریت کی وہ دھجیاں اڑاتا کہ سب اس کا منہ دیکھتے رہ جاتے اور توبہ توبہ کرتے کہ یہ جمہوری آداب ہیں۔
Load Next Story