اسلام تحفظ حقوق نسواں کا نگہبان
اسلامی نظام حیات نے جتنے بے پایاں حقوق خواتین کو عطا کر رکھے ہیں اس کی مثال مذاہب عالم میں ملنا مشکل ہے
خالق ارض و سماء نے اپنی بے عدیل حکمت سے زمین و آسمان اور موجودات تخلیق کیے، پھر نظام عالم کو چلانے کے لیے حضرت انسان کو تخلیق کیا اور پھر عظمت نیابت آشکار کرنے کے لیے اس میں روح پھونکی اور مزید یہ کہ اس کی حرمت و تقدس کے اظہار کے لیے سب سے ارفع نورانی مخلوق ملائکہ کو حکم دیا کہ شوکت و سطوتِ آدمیت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔
افزائش نسل انسانی کے لیے اسی پیکر گل سے عورت جیسی لطیف و نازک اندام مخلوق کو پیدا کیا تاکہ تکوین گیتی کو فروغ ملتا رہے اور سلسلۂ توالد و تناسل کے ذریعے اشرف المخلوقات ابن آدم و بنت آدم مل کر معرکہ ہائے حیات کے ذریعے تسلسل آمیز جدوجہد کی تکمیل کر سکیں اگرچہ قوت پروردگار سے بعید نہیں تھا کہ مثل آدم تنہا مردوں کے توسل سے نظام چمنستان دہر چلائے رکھے لیکن اس کی بے پایاں حکمت تھی کہ تزئین دہر کے لیے وجود صنف نازک کو بھی لازم ٹھہرایا جائے۔
تاریخ آدمیت بتاتی ہے کہ عورت کو ہمیشہ ایک کم تر مخلوق تصور کیا گیا بالخصوص حضور سرور کونین ﷺ کی تشریف آوری سے قبل سرتاپا جہالت میں غوطہ زن وہ بدطینت معاشرے کے اس جزولاینفک کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ معمولی تکرار کی نوبت آنے پر صنف نازک کو مار پیٹ تو ان کا مشغلہ بن چکا تھا۔
بیٹیاں پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کر دینا ان کا شیوہ بنا ہوا تھا اور پھر سفاکیت اور سنگ دلی کی انتہا یہ کہ یہ فعل قبیح انجام دیتے ہوئے وہ معمولی ندامت بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور نہ ہی بچیوں کی چیخوں سے ان کے دلوں میں گداز پیدا ہوتا تھا۔
ارباب سیر تحریر کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات ﷺ کی بارگاہ اقدس پناہ میں حاضر ایک صحابیؓ نے اپنے عہد جاہلیت میں اپنی بچی کو زندہ درگور کر دینے کا واقعہ سنایا تو رحمۃ للعالمین ﷺ کے گوشہ ہائے چشم سے اتنے آنسو گرے کہ حضور ﷺ کا دامن شفقت بھیگ گیا۔
کریم النفس آقائے دو جہاں ﷺ کی تشریف آوری سے اس مظلوم و مقہور صنف کو دست استبداد سے آزادی نصیب ہوئی، انہیں آزاد فضا میں سانس لینا میسر آگیا اور وہ حبس زدہ ماحول سے نکل کر نسیم صبح کے حیات بخش جھونکوں سے آشنا ہوئی۔
آقا کریم ﷺ کے لائے ہوئے ضابطۂ حیات کے مطابق اسے ایسی تکریم و تعظیم سے نوازا گیا کہ ایک صاحب ایمان اور صاحب کردار ماں کے پاؤں کو جنّت کا نشان بنا دیا گیا۔ سورۃ النساء تمام کی تمام حقوق خواتین سے بھری پڑی ہے۔
یہ جامع سورۃ حقوق نسواں کی اتنی زبردست علم بردار ہے کہ اس کی موجودی میں خواتین کو عائلی زندگی کے حوالے سے راہ نمائی کے لیے کہیں اور بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں۔ شاید یہ ایک بہت بڑی حکمت خداوندی تھی کہ حضور سید المرسلین ﷺ کی ذات گرامی کو فقط صاحب زادیوں ہی کی صورت میں اولاد سے نوازا گیا کہ ایک تو اولاد نرینہ سے محروم صاحبان ایمان کی قیامت تک دل جوئی ہوتی رہے کہ جب وہ یہ دیکھا کریں کہ ہمارے ہادی برحق باعث تخلیق ارض و سماء حضرت محمد مصطفی ﷺ اولاد نرینہ کی نعمت سے بہرہ ور نہیں تھے تو ان کے بے چین دلوں کو دولت صبر و قرار نصیب ہو جائے۔
نیز یہ کہ بیٹیوں کی تربیت کا فریضہ کس طرح انجام دیا جاتا ہے، ان کو شادی بیاہ کے موقع پر رخصتی کے وقت کیا طرز عمل اختیار کیا جائے، حق مہر اور جہیز کا تعین کس طرح کیا جائے ورنہ اگر حبیب کبریا ﷺ بارگاہ رب العزت میں اس تمنا کا اظہار فرماتے کہ میرے صاحب زادوں کو عمر خضر عطا فرما اور انہیں تادیر سلامت رکھ تو شان و رحمت خداوندی آپؐ کی دعا کو ضرور شرف قبولیت بخشتی مگر یہ مشیت ایزدی تھی کہ عورت کی تقدیس و تحریم اور عظمت کو اہل جہاں پر آشکار کر دیا جائے۔ نبی رحمت ﷺ نے اپنی صاحب زادیوں کے ساتھ جس بے پایاں شفقت کا مظاہرہ فرمایا وہ تاابد اوراق باب نسوانیت کو جگ مگاتا رہے گا۔
خاتون جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرا ؓ آپؐ کی سب سے زیادہ چہیتی تھیں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے اپنی لخت جگر کی تربیت، نکاح اور رخصتی کو دنیا والوں کے لیے ایک نادر نمونہ بنا دیا۔ حضور ﷺ کے اس عدیم النظیر حسن سلوک نے مخدارت عالم کی تعظیم و حرمت کو واضح کر دیا۔ اگر آقائے گیتی پناہؐ چاہتے تو اپنی عزیز از جان و دل صاحب زادی خاتون جنّت سیدہ فاطمۃ الزہرا کو بہ وقت رخصتی تعشیات جہاں سے بھی مالا مال فرما سکتے تھے مگر بات واضح ہے کہ عورت کی سب سے بڑی ثروت سیرت و کردار کی رفعت ہوتی ہے ناکہ جہیز میں لولوئے لالہ اور لعل بدخشاں کی فراوانی۔
رسالت مآب ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں مختلف مواقع پر عظمت عالم انسانیت کو آشکار کیا۔ حتیٰ کہ اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع (جو تہذیب و تمدنِ انسانی کا بہت بڑا ضابطہ اور شاہ کار ہے) میں بھی حقوق نسواں کی اہمیت کو اجاگر فرمایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ ازواج مطہرات ؓکے ساتھ شفیقانہ اور منصفانہ برتاؤ تقدیس خواتین کا آئینہ دار ہی تو ہے بل کہ بہ وقت وصال رحمت دارین کا سر اقدس سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ ؓ کی آغوش مبارک میں تھا۔ اپنی اہلیہ محترمہؓ کے ساتھ آپؐ کی غایت محبت اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کس حد تک اظہار محبت کر سکتا ہے۔
مگر ایک بات طے ہے کہ رضا و تقرب خدا اور رسولؐ حاصل کرنے کے لیے خواتین کو ضوابط قرآن و سنت کا ہر صورت پابند ہونا ہوگا۔ وہ اگر زینت خانہ بننے کے بہ جائے چراغ محفل بن کر غیر مردوں کو دعوت نظارہ و رغبت دے گی تو جنّت کی خوش بُو بھی نہیں سونگھ پائے گی۔ وہ خلعت فاخرہ زیب تن کر کے پیکر رعنائی و زیبائی بن کر اپنے خاوند کی توجہ کا مرکز بننے کی کوشش کرے تو یہ عین رضائے خدا و مصطفی ﷺ ہے لیکن وہ سرور آگیں طریقے سے نسیم سحر بن کر بے حیا نظروں کا تماشا بنے گی تو جہنم کے دہکتے ہوئے شعلے اس کے منتظر ہوں گے۔
جب اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے اور غیر محرم کے ساتھ تقرب و اختلاط سے منع کرتا ہے تو مغربی تہذیب کی چکا چوند کے پرستار اسے عالم نسوانیت پر جبر قرار دے کر ان کی مادر پدر آزادی کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ نام نہاد صاحبان فراست و تدبر نہیں سوچتے کہ محسن انسانیت ﷺ کے عطا کردہ جامع اسلامی نظام حیات نے جتنے بے پایاں حقوق عورت کو عطا کر رکھے ہیں اس کی مثال مذاہب عالم میں ملنا مشکل ہے۔
اس سے بڑھ کر اگر کوئی مطالبہ ہے تو وہ پھر صریحاً حیا باختگی کے زمرے میں آتا ہے۔ یورپ کی قدیم و جدید تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس معاشرے کو عصمت شکنی نے انہیں کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ حکمت خداوندی نے اپنے محبوب مکرم ﷺ کے ذریعے آزادی اور حقوق نسواں عین فطرت کے مطابق عطا کر دیے ہیں۔
حضور ﷺ کے نزدیک خواتین کا احترام اتنا اہم تھا کہ لشکر اسلام کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ اعدائے دین کی خواتین کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے احترام کا پورا خیال رکھا جائے۔ یہ محسن عالم انسانیتؐ کی تربیت کا فیضان تھا کہ حضورؐ کے ایک فدا کار حضرت ابُودجانہؓ اپنی شمشیر بے نیام کے ساتھ دشمن کو جہنم رسید کرتے ہوئے دشمن کی خواتین کی صفوں تک جا پہنچے۔
انہیں بھی قتل کرنے کے لیے جب دست ابودجانہؓ فضا میں بلند ہُوا تو آپؓ کو اپنے آقا ﷺ کا یہ فرمان اقدس یاد آگیا کہ دوران جنگ خواتین پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ چناں چہ اسلامی دستور و ضوابط کا اسیر یہ باطل شکن مجاہد اپنے ذوق شجاعت کو پا بہ زنجیر کرتے ہوئے رک گیا ورنہ کفار کا اثاثہ نسوانیت اس مرد مجاہد کے جذبۂ بسالت کے رحم و کرم پر تھا، گویا حضور اکرم ﷺ نے زندگی کے ہر قدم پر خواتین کے احترام و حقوق کے تحفظ کی ایسی تلقین فرمائی کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
افزائش نسل انسانی کے لیے اسی پیکر گل سے عورت جیسی لطیف و نازک اندام مخلوق کو پیدا کیا تاکہ تکوین گیتی کو فروغ ملتا رہے اور سلسلۂ توالد و تناسل کے ذریعے اشرف المخلوقات ابن آدم و بنت آدم مل کر معرکہ ہائے حیات کے ذریعے تسلسل آمیز جدوجہد کی تکمیل کر سکیں اگرچہ قوت پروردگار سے بعید نہیں تھا کہ مثل آدم تنہا مردوں کے توسل سے نظام چمنستان دہر چلائے رکھے لیکن اس کی بے پایاں حکمت تھی کہ تزئین دہر کے لیے وجود صنف نازک کو بھی لازم ٹھہرایا جائے۔
تاریخ آدمیت بتاتی ہے کہ عورت کو ہمیشہ ایک کم تر مخلوق تصور کیا گیا بالخصوص حضور سرور کونین ﷺ کی تشریف آوری سے قبل سرتاپا جہالت میں غوطہ زن وہ بدطینت معاشرے کے اس جزولاینفک کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ معمولی تکرار کی نوبت آنے پر صنف نازک کو مار پیٹ تو ان کا مشغلہ بن چکا تھا۔
بیٹیاں پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کر دینا ان کا شیوہ بنا ہوا تھا اور پھر سفاکیت اور سنگ دلی کی انتہا یہ کہ یہ فعل قبیح انجام دیتے ہوئے وہ معمولی ندامت بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور نہ ہی بچیوں کی چیخوں سے ان کے دلوں میں گداز پیدا ہوتا تھا۔
ارباب سیر تحریر کرتے ہیں کہ حضور سرور کائنات ﷺ کی بارگاہ اقدس پناہ میں حاضر ایک صحابیؓ نے اپنے عہد جاہلیت میں اپنی بچی کو زندہ درگور کر دینے کا واقعہ سنایا تو رحمۃ للعالمین ﷺ کے گوشہ ہائے چشم سے اتنے آنسو گرے کہ حضور ﷺ کا دامن شفقت بھیگ گیا۔
کریم النفس آقائے دو جہاں ﷺ کی تشریف آوری سے اس مظلوم و مقہور صنف کو دست استبداد سے آزادی نصیب ہوئی، انہیں آزاد فضا میں سانس لینا میسر آگیا اور وہ حبس زدہ ماحول سے نکل کر نسیم صبح کے حیات بخش جھونکوں سے آشنا ہوئی۔
آقا کریم ﷺ کے لائے ہوئے ضابطۂ حیات کے مطابق اسے ایسی تکریم و تعظیم سے نوازا گیا کہ ایک صاحب ایمان اور صاحب کردار ماں کے پاؤں کو جنّت کا نشان بنا دیا گیا۔ سورۃ النساء تمام کی تمام حقوق خواتین سے بھری پڑی ہے۔
یہ جامع سورۃ حقوق نسواں کی اتنی زبردست علم بردار ہے کہ اس کی موجودی میں خواتین کو عائلی زندگی کے حوالے سے راہ نمائی کے لیے کہیں اور بھٹکنے کی ضرورت ہی نہیں۔ شاید یہ ایک بہت بڑی حکمت خداوندی تھی کہ حضور سید المرسلین ﷺ کی ذات گرامی کو فقط صاحب زادیوں ہی کی صورت میں اولاد سے نوازا گیا کہ ایک تو اولاد نرینہ سے محروم صاحبان ایمان کی قیامت تک دل جوئی ہوتی رہے کہ جب وہ یہ دیکھا کریں کہ ہمارے ہادی برحق باعث تخلیق ارض و سماء حضرت محمد مصطفی ﷺ اولاد نرینہ کی نعمت سے بہرہ ور نہیں تھے تو ان کے بے چین دلوں کو دولت صبر و قرار نصیب ہو جائے۔
نیز یہ کہ بیٹیوں کی تربیت کا فریضہ کس طرح انجام دیا جاتا ہے، ان کو شادی بیاہ کے موقع پر رخصتی کے وقت کیا طرز عمل اختیار کیا جائے، حق مہر اور جہیز کا تعین کس طرح کیا جائے ورنہ اگر حبیب کبریا ﷺ بارگاہ رب العزت میں اس تمنا کا اظہار فرماتے کہ میرے صاحب زادوں کو عمر خضر عطا فرما اور انہیں تادیر سلامت رکھ تو شان و رحمت خداوندی آپؐ کی دعا کو ضرور شرف قبولیت بخشتی مگر یہ مشیت ایزدی تھی کہ عورت کی تقدیس و تحریم اور عظمت کو اہل جہاں پر آشکار کر دیا جائے۔ نبی رحمت ﷺ نے اپنی صاحب زادیوں کے ساتھ جس بے پایاں شفقت کا مظاہرہ فرمایا وہ تاابد اوراق باب نسوانیت کو جگ مگاتا رہے گا۔
خاتون جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرا ؓ آپؐ کی سب سے زیادہ چہیتی تھیں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے اپنی لخت جگر کی تربیت، نکاح اور رخصتی کو دنیا والوں کے لیے ایک نادر نمونہ بنا دیا۔ حضور ﷺ کے اس عدیم النظیر حسن سلوک نے مخدارت عالم کی تعظیم و حرمت کو واضح کر دیا۔ اگر آقائے گیتی پناہؐ چاہتے تو اپنی عزیز از جان و دل صاحب زادی خاتون جنّت سیدہ فاطمۃ الزہرا کو بہ وقت رخصتی تعشیات جہاں سے بھی مالا مال فرما سکتے تھے مگر بات واضح ہے کہ عورت کی سب سے بڑی ثروت سیرت و کردار کی رفعت ہوتی ہے ناکہ جہیز میں لولوئے لالہ اور لعل بدخشاں کی فراوانی۔
رسالت مآب ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں مختلف مواقع پر عظمت عالم انسانیت کو آشکار کیا۔ حتیٰ کہ اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع (جو تہذیب و تمدنِ انسانی کا بہت بڑا ضابطہ اور شاہ کار ہے) میں بھی حقوق نسواں کی اہمیت کو اجاگر فرمایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی۔ ازواج مطہرات ؓکے ساتھ شفیقانہ اور منصفانہ برتاؤ تقدیس خواتین کا آئینہ دار ہی تو ہے بل کہ بہ وقت وصال رحمت دارین کا سر اقدس سیّدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ ؓ کی آغوش مبارک میں تھا۔ اپنی اہلیہ محترمہؓ کے ساتھ آپؐ کی غایت محبت اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کس حد تک اظہار محبت کر سکتا ہے۔
مگر ایک بات طے ہے کہ رضا و تقرب خدا اور رسولؐ حاصل کرنے کے لیے خواتین کو ضوابط قرآن و سنت کا ہر صورت پابند ہونا ہوگا۔ وہ اگر زینت خانہ بننے کے بہ جائے چراغ محفل بن کر غیر مردوں کو دعوت نظارہ و رغبت دے گی تو جنّت کی خوش بُو بھی نہیں سونگھ پائے گی۔ وہ خلعت فاخرہ زیب تن کر کے پیکر رعنائی و زیبائی بن کر اپنے خاوند کی توجہ کا مرکز بننے کی کوشش کرے تو یہ عین رضائے خدا و مصطفی ﷺ ہے لیکن وہ سرور آگیں طریقے سے نسیم سحر بن کر بے حیا نظروں کا تماشا بنے گی تو جہنم کے دہکتے ہوئے شعلے اس کے منتظر ہوں گے۔
جب اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے اور غیر محرم کے ساتھ تقرب و اختلاط سے منع کرتا ہے تو مغربی تہذیب کی چکا چوند کے پرستار اسے عالم نسوانیت پر جبر قرار دے کر ان کی مادر پدر آزادی کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ نام نہاد صاحبان فراست و تدبر نہیں سوچتے کہ محسن انسانیت ﷺ کے عطا کردہ جامع اسلامی نظام حیات نے جتنے بے پایاں حقوق عورت کو عطا کر رکھے ہیں اس کی مثال مذاہب عالم میں ملنا مشکل ہے۔
اس سے بڑھ کر اگر کوئی مطالبہ ہے تو وہ پھر صریحاً حیا باختگی کے زمرے میں آتا ہے۔ یورپ کی قدیم و جدید تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس معاشرے کو عصمت شکنی نے انہیں کس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ حکمت خداوندی نے اپنے محبوب مکرم ﷺ کے ذریعے آزادی اور حقوق نسواں عین فطرت کے مطابق عطا کر دیے ہیں۔
حضور ﷺ کے نزدیک خواتین کا احترام اتنا اہم تھا کہ لشکر اسلام کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ اعدائے دین کی خواتین کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کے احترام کا پورا خیال رکھا جائے۔ یہ محسن عالم انسانیتؐ کی تربیت کا فیضان تھا کہ حضورؐ کے ایک فدا کار حضرت ابُودجانہؓ اپنی شمشیر بے نیام کے ساتھ دشمن کو جہنم رسید کرتے ہوئے دشمن کی خواتین کی صفوں تک جا پہنچے۔
انہیں بھی قتل کرنے کے لیے جب دست ابودجانہؓ فضا میں بلند ہُوا تو آپؓ کو اپنے آقا ﷺ کا یہ فرمان اقدس یاد آگیا کہ دوران جنگ خواتین پر ہاتھ نہ اٹھانا۔ چناں چہ اسلامی دستور و ضوابط کا اسیر یہ باطل شکن مجاہد اپنے ذوق شجاعت کو پا بہ زنجیر کرتے ہوئے رک گیا ورنہ کفار کا اثاثہ نسوانیت اس مرد مجاہد کے جذبۂ بسالت کے رحم و کرم پر تھا، گویا حضور اکرم ﷺ نے زندگی کے ہر قدم پر خواتین کے احترام و حقوق کے تحفظ کی ایسی تلقین فرمائی کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔