ریگستان میں نخلستان
ایک جانب اگر قتل، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش بمبار، دھماکے اور اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں
NEW DELHI:
ایک جانب اگر قتل، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش بمبار، دھماکے اور اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں تو دوسری جا نب کروڑوں مسا ئل زدہ انسانوں کا بپھرا ہوا احتجاج سڑکوں پر امڈ آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریگستان سکڑتا جارہا ہے اور نخلستان پھیلتا جارہا ہے۔ لاطینی امریکا کے 35 ممالک میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سوشل ڈیمو کریٹ برسر اقتدار ہیں اور امریکی سامراج سے برسرپیکار ہیں۔ ادھر جنوبی یورپ کی صورت حال انقلابی دور سے گزر رہی ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے امریکی سامراج کی چولیں ہلادی ہیں۔
اگر شمالی یمن میںدہشت گرد اپنی مذموم حرکتوں میں مصروف ہیں تو جنوبی یمن کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ہڑتال کرتے ہیں، شام میں اگر عالمی سامراج مداخلت کررہا ہے تو ترکی کے عوام بھوک، افلاس اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف اور ترکی میں موجود جرمن فوجی اڈے کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مصر میں اگر قطر اور سعودی بادشاہتیں مرسی اور سیسی کی حمایت اور مالی معاونت کرتی نظر آتی ہیں تو تیونس میں عوام ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور بے روزگاری کے خلاف نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ ہڑتال بھی کرتے ہیں۔
پاکستان میں اگر فاٹا، کے پی کے، بلوچستان، کراچی اور کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری ہورہی ہے تو کشمیری نوجوان اور اندرون سندھ کے عوام آئے روز مسائل پر احتجاج میں مصروف ہیں۔ اس بار تو مزدوروں کا عالمی دن، یوم مئی اتنی گرمجوشی سے منایا گیا کہ اس سے قبل کئی دہائیوں سے نہیں منایا گیا۔ اس بار سنگاپور، ہانگ کانگ، مکائو، تائی پے، بھوٹان، کویت اور بحرین میں بھی مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی پاکستان میں ہو رہی ہے، جب کہ اسی پاکستان کا ایک ایسا علاقہ گلگت بلتستان بھی ہے جہاں کے عوام تمام تر نسلی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اپنے مسائل پر ہفتوں سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ یہ عمل ریگستان میں نخلستان جیسا برملا اظہار ہے۔ گزشتہ چند ماہ قبل ہندوستان، چین اور افغانستان کی سرحد پر واقع گلگت بلتستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی احتجاج اس خطے کی متحرک زندگی کی علامت بن گئی۔ بہرحال یہ تحریک تیزی سے انقلابی کردار میں سول نافرمانی کی شکل اختیار کرگئی۔ 15 اپریل کو غیر معینہ مدت کے لیے2 ہفتے سے عوام دھرنے پر بیٹھ گئے۔ وہ رنگ و نسل، مذہب اور فرقہ سے بالاتر ہو کر گندم میں دی جانے والی رعایت واپس لینے پر احتجاج اور اسے بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
احتجاج کا بنیادی رخ بے روزگاری، افراط زر اور اختیار کا ناجائز استعمال ہے۔ اسکردو چوک کا نام بدل کر مظاہرین نے تحریر اسکوائر رکھ دیا۔ گلگت کا گڑھی باغ احتجاج کا مرکز بن گیا، جہاں ہزاروں افراد کا سیلاب امڈ آیا۔ کچھ پرنٹنگ میڈیا نے ان خبروں کو کوریج دی کہ احتجاج جاری ہے۔ یہ کام مقامی حکومت کا تھا کہ وہ ان کے مسائل اجاگر کرتی اور ان کے مطالبات کو آگے بڑھاتی۔ مقامی حکومتیں اس بحران کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دینے میں ہی مصروف تھیں۔ 24 اپریل کو امور کشمیر کی وزیر برجیس طاہر نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ گندم میں دی جانے والی رعایت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ختم کی جاتی ہے۔
گندم میں رعایت سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے دی تھی، یہ سلسلہ پرویز مشرف کی حکومت میں 2008 تک جاری تھا۔ مشرف کے آخری دور میں فی ٹن 850 رو پے بڑھا دیا گیا تھا، جسے زرداری حکومت نے 1100 روپے کردیا۔ اضافے سے صرف سرمایہ داروں، سیاست دانوں، برسر اقتدار نوکرشاہی کو فائدہ ہوا، جب کہ آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت نواز حکومت نے آٹے پر دی جانے والی رعایت کو ختم کرکے فی ٹن 1400 روپے کردیا۔ اس عوام دشمن اقدام پر گلگت بلتستان کی پیپلز پارٹی کی حکومت کی نواز شریف کی وفاقی حکومت کو مکمل حمایت حاصل رہی۔
ان اقدامات کے خلاف گلگت بلتستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اے اے سی (عوامی ایکشن کمیٹی) تشکیل دی، جس کے تحت 28 فروری 2014 کو عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اے اے سی، پی پی پی اور ایم ایل دونوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف گندم کی سبسڈیز کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا بلکہ گلگت کے معدنیات کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے لوٹ مار کی بھی مذمت کی۔ ملازمت کے مواقعے فراہم کرنے، وفاق کی علاقے پر سامراجی طرز پر استحصال اور مقامی حکومت کو بے اختیار کرنے کے خلاف تھے۔ دیامر سے 3000 جب کہ غذر بلتستان، ہنزہ نگر اور استور سے 15 ہزار احتجاجی گڑھی باغ پہنچے۔ 23 اور 24 اپریل کو اسکردو کے یادگار چوک پر 30 ہزار لوگ جمع ہوئے۔
گندم پر دی جانے والی سبسڈیز کے خاتمے کے اعلان نامے پر دستخط کرنے والے چیف سیکریٹری محمد یونس داغا کو کسی نے گولی مار دی اور وہ جان سے جاتے رہے۔ مگر اس عمل سے احتجاجی قطعی خوش نہ تھے۔ مقامی انتظامیہ نے احتجاج کرنے والوں سے نہ مذاکرات کیے اور نہ احتجاج پر کسی قسم کی رعایت۔ وہ صرف مرکزی حکومت کی جانب آس لگائے بیٹھی رہی کہ وہی کچھ کرسکتی ہے۔ یہ مرکزیت پر انحصاریت کی ریاستی نالائقی اور احمقانہ سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ایک اور گلگتی اخبار رقم طراز ہے کہ دہائیوں سے فرقہ واریت کے سوا مسائل پر اس طرح لوگ کبھی اکٹھا نہیں ہوئے جس طرح اس بار صرف اپنے مسائل پر متحد ہو کر احتجاج کیا ہے۔ یہ صرف گندم کی سبسڈیز کے خاتمے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ لوگ اس نظام سے تنگ آچکے ہیں۔
ایک جانب اگر قتل، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش بمبار، دھماکے اور اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں تو دوسری جا نب کروڑوں مسا ئل زدہ انسانوں کا بپھرا ہوا احتجاج سڑکوں پر امڈ آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریگستان سکڑتا جارہا ہے اور نخلستان پھیلتا جارہا ہے۔ لاطینی امریکا کے 35 ممالک میں سے 33 میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور سوشل ڈیمو کریٹ برسر اقتدار ہیں اور امریکی سامراج سے برسرپیکار ہیں۔ ادھر جنوبی یورپ کی صورت حال انقلابی دور سے گزر رہی ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے امریکی سامراج کی چولیں ہلادی ہیں۔
اگر شمالی یمن میںدہشت گرد اپنی مذموم حرکتوں میں مصروف ہیں تو جنوبی یمن کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ہڑتال کرتے ہیں، شام میں اگر عالمی سامراج مداخلت کررہا ہے تو ترکی کے عوام بھوک، افلاس اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف اور ترکی میں موجود جرمن فوجی اڈے کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مصر میں اگر قطر اور سعودی بادشاہتیں مرسی اور سیسی کی حمایت اور مالی معاونت کرتی نظر آتی ہیں تو تیونس میں عوام ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور بے روزگاری کے خلاف نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ ہڑتال بھی کرتے ہیں۔
پاکستان میں اگر فاٹا، کے پی کے، بلوچستان، کراچی اور کشمیر میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری ہورہی ہے تو کشمیری نوجوان اور اندرون سندھ کے عوام آئے روز مسائل پر احتجاج میں مصروف ہیں۔ اس بار تو مزدوروں کا عالمی دن، یوم مئی اتنی گرمجوشی سے منایا گیا کہ اس سے قبل کئی دہائیوں سے نہیں منایا گیا۔ اس بار سنگاپور، ہانگ کانگ، مکائو، تائی پے، بھوٹان، کویت اور بحرین میں بھی مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی پاکستان میں ہو رہی ہے، جب کہ اسی پاکستان کا ایک ایسا علاقہ گلگت بلتستان بھی ہے جہاں کے عوام تمام تر نسلی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اپنے مسائل پر ہفتوں سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ یہ عمل ریگستان میں نخلستان جیسا برملا اظہار ہے۔ گزشتہ چند ماہ قبل ہندوستان، چین اور افغانستان کی سرحد پر واقع گلگت بلتستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی احتجاج اس خطے کی متحرک زندگی کی علامت بن گئی۔ بہرحال یہ تحریک تیزی سے انقلابی کردار میں سول نافرمانی کی شکل اختیار کرگئی۔ 15 اپریل کو غیر معینہ مدت کے لیے2 ہفتے سے عوام دھرنے پر بیٹھ گئے۔ وہ رنگ و نسل، مذہب اور فرقہ سے بالاتر ہو کر گندم میں دی جانے والی رعایت واپس لینے پر احتجاج اور اسے بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
احتجاج کا بنیادی رخ بے روزگاری، افراط زر اور اختیار کا ناجائز استعمال ہے۔ اسکردو چوک کا نام بدل کر مظاہرین نے تحریر اسکوائر رکھ دیا۔ گلگت کا گڑھی باغ احتجاج کا مرکز بن گیا، جہاں ہزاروں افراد کا سیلاب امڈ آیا۔ کچھ پرنٹنگ میڈیا نے ان خبروں کو کوریج دی کہ احتجاج جاری ہے۔ یہ کام مقامی حکومت کا تھا کہ وہ ان کے مسائل اجاگر کرتی اور ان کے مطالبات کو آگے بڑھاتی۔ مقامی حکومتیں اس بحران کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دینے میں ہی مصروف تھیں۔ 24 اپریل کو امور کشمیر کی وزیر برجیس طاہر نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ گندم میں دی جانے والی رعایت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ختم کی جاتی ہے۔
گندم میں رعایت سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے دی تھی، یہ سلسلہ پرویز مشرف کی حکومت میں 2008 تک جاری تھا۔ مشرف کے آخری دور میں فی ٹن 850 رو پے بڑھا دیا گیا تھا، جسے زرداری حکومت نے 1100 روپے کردیا۔ اضافے سے صرف سرمایہ داروں، سیاست دانوں، برسر اقتدار نوکرشاہی کو فائدہ ہوا، جب کہ آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت نواز حکومت نے آٹے پر دی جانے والی رعایت کو ختم کرکے فی ٹن 1400 روپے کردیا۔ اس عوام دشمن اقدام پر گلگت بلتستان کی پیپلز پارٹی کی حکومت کی نواز شریف کی وفاقی حکومت کو مکمل حمایت حاصل رہی۔
ان اقدامات کے خلاف گلگت بلتستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اے اے سی (عوامی ایکشن کمیٹی) تشکیل دی، جس کے تحت 28 فروری 2014 کو عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ اے اے سی، پی پی پی اور ایم ایل دونوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف گندم کی سبسڈیز کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا بلکہ گلگت کے معدنیات کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے لوٹ مار کی بھی مذمت کی۔ ملازمت کے مواقعے فراہم کرنے، وفاق کی علاقے پر سامراجی طرز پر استحصال اور مقامی حکومت کو بے اختیار کرنے کے خلاف تھے۔ دیامر سے 3000 جب کہ غذر بلتستان، ہنزہ نگر اور استور سے 15 ہزار احتجاجی گڑھی باغ پہنچے۔ 23 اور 24 اپریل کو اسکردو کے یادگار چوک پر 30 ہزار لوگ جمع ہوئے۔
گندم پر دی جانے والی سبسڈیز کے خاتمے کے اعلان نامے پر دستخط کرنے والے چیف سیکریٹری محمد یونس داغا کو کسی نے گولی مار دی اور وہ جان سے جاتے رہے۔ مگر اس عمل سے احتجاجی قطعی خوش نہ تھے۔ مقامی انتظامیہ نے احتجاج کرنے والوں سے نہ مذاکرات کیے اور نہ احتجاج پر کسی قسم کی رعایت۔ وہ صرف مرکزی حکومت کی جانب آس لگائے بیٹھی رہی کہ وہی کچھ کرسکتی ہے۔ یہ مرکزیت پر انحصاریت کی ریاستی نالائقی اور احمقانہ سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ ایک اور گلگتی اخبار رقم طراز ہے کہ دہائیوں سے فرقہ واریت کے سوا مسائل پر اس طرح لوگ کبھی اکٹھا نہیں ہوئے جس طرح اس بار صرف اپنے مسائل پر متحد ہو کر احتجاج کیا ہے۔ یہ صرف گندم کی سبسڈیز کے خاتمے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ لوگ اس نظام سے تنگ آچکے ہیں۔