اسرائیل کے فلسطینیوں پر نئے حملے

یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں تشدد سے بھی 60 کے قریب پرامن فلسطینی مارے جا چکے ہیں

یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں تشدد سے بھی 60 کے قریب پرامن فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

اسرائیل اور حماس کے درمیان سات روزہ جنگ بندی جمعے کو ختم ہو گئی لیکن جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں پر بمباری شروع کردی ہے۔

حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی تازہ بمباری میں 109فلسطینی شہید ہوئے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے زمینی، فضائی اور بحری کارروائیوں میں فلسطینی علاقوں' خان یونس، رفح اورجنوبی وشمالی غزہ میں 200 اہداف کو نشانہ بنایا ہے ۔اس بیان کو مدنظر رکھا جائے تو حماس نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد بتائی ہے' ممکن ہے تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔اسرائیلی کابینہ کے ارکان بھی مسلسل اشتعال انگیز تقریریں کر رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ غزہ واپس لوٹنا چاہیے تاکہ 7/10 کی ہولناکیاں کبھی واپس نہ آئیں۔ اس نے حماس کو تباہ کرنے کی کھلی دھمکی دی ہے۔

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس جنگ کی آڑ میں اپنے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے جن میں سرفہرست حماس کا مکمل خاتمہ کرنا اور غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا ہے۔ ادھر کی پالیسی بھی یہی لگتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے تاکہ بعد میں مستقل جنگ بندی کرا دی جائے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ ان کا ملک جنگ بندی کے لیے کوششیں جاری رکھے گا،ہم اس سلسلے میں اسرائیل،مصراور قطر کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔

گزشتہ روز ہی امریکی وزیرخارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایسے اسرائیلی جو فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں کے خلاف ویزہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہے اور انھوں نے اس ضمن میں پابندیوں سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہوکو آگاہ کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں اگلے ہفتے ہی لگ سکتی ہیں تاہم انھوں نے پابندیوں کی زدمیں آنے والے اسرائیلیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

امریکا کے دو اہم عہدے داروں کے بیانات پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے فلسطینیوں کے حق میں کوئی بات نہیں کی۔یہ کہنا کہ ان کا ملک جنگ بندی کی کوششیں جاری رکھے گا یا یہ کہنا کہ جن اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر تشدد کیا ہے' ان پر ویزہ پابندی عائد کرنے کے لیے تیار ہیں'یہ محض روایتی قسم کی بیان بازی ہے۔جنگ بندی کی کوششیں تو دنیا کا ہر ملک کر رہا ہے۔اب یہ کوششیں کتنی سنجیدہ ہیں اس کے بارے میں غزہ کے حقائق سب کچھ عیاں کرتے ہیں۔

ایسی کوششیں کرنے کا اعلان تو مالٹا 'ماریشس ' مالی 'مالدیپ اور پاناما جیسے چھوٹے چھوٹے ملک بھی کر سکتے ہیںکیونکہ بیان دینے میں کیا حرج ہوتا ہے لیکن امریکا' فرانس' برطانیہ'روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں جب'محض'' کوششیں'' کرنے کااعلان کریںتو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ طاقتیں سنجیدگی سے کوئی اقدام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ امریکا اسرائیل پر دبائو ڈالے اور اسرائیل اسے انکار کر دے؟ایسا نہیں ہو سکتا۔


ویسے تو یہ بھی خبر ہے کہ پوپ فرانسس نے اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ کے ساتھ ایک خصوصی ٹیلی فونک گفتگو میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے لیے ''دہشت گردی'' کا لفظ استعمال کیا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نام کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ایک بااختیار اسرائیلی شخصیت کے حوالے سے شایع کردہ خبر میں کہا ہے کہ پوپ فرانسس نے کہا کہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینا ممنوع ہے۔صدر ہرزوگ نے کہا کہ ہم نے اپنے دفاع کے لیے ضروری کارروائی کی ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بھی ایک کوشش ہے لیکن کیا پوپ فرانسس کی باتوں کو اسرائیلی حکمران سنجیدگی سے لیں گے؟ایسا نہیں ہو گا۔

بلاشبہ پوپ فرانسس انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں لیکن شاید اسرائیلی حکمرانوں کے لیے نہیں۔ جب مقصد ہی فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہو اور فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کرناہو 'فلسطینیوں کی قیادت کو راستے سے ہٹانا ہو تواسرائیل پوپ فرانسس کی بات نہیں مانے گا' اسرائیل کے حکمران اپنے اہداف سے اس وقت ہی پیچھے ہٹیں گے جب ان کا اپنا بھاری نقصان ہو گا۔ فلسطینیوں کے پاس طاقت نہیں ہے۔ حماس کے پاس تو شاید پولیس بھی نہ ہو' اگر ہو گی بھی تو انتہائی مختصر تعداد میں اور غیر تربیت یافتہ ہو گی۔

ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر بمباری انسانیت کے خلاف جنگی جرائم ہیں۔ایک فلسطینی صحافی یارا عید کے بقول کہ غزہ کے رہائشیوں کو اس وقت جس نقصان کا سامنا ہے' اسے بیان کرنے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ آپ کی پوری دنیا ختم کی جا رہی ہے۔ہمارے گھر، اہم مقامات، اسکول ، یونیورسٹیاں، ہمارے ریسٹورنٹ صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں۔ انھوں نے فلسطینی تاریخ کے کسی بھی ثبوت کو مٹانے کے لیے ہمارے قدیم تاریخی مقامات پر بمباری کی۔ ایران نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں پر دوبارہ جارحیت شروع ہونے کے بعد اس کے نتائج سے خبردارکیاہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصرکنعانی نے اسرائیل اور امریکا کو تازہ حملوں کا ذمے دار قراردیا ہے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک بیان میں ترجمان کا کہنا ہے کہ نئی جارحیت اورقتل عام کی تمام تر سیاسی اور قانونی ذمے داری اسرائیل اورامریکا پر عائد ہوتی ہے۔سوشلسٹ ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیزکی طرف سے ایک انٹرویومیں یورپی یونین کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بیان کے بعد اسرائیل نے اسپین سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ تل ابیب میں موجود ہسپانوی سفیر کو بھی طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جب جنگ کا معاہدہ طے پایا تھا تو اس وقت ہی یہ ظاہر تھا کہ جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی کیونکہ جنگ بندی صرف چند ایام کے لیے تھی۔ اس کے بعد کیا ہونا ہے اس کا کوئی میکنزم تیار نہیں کیا گیا تھا' اس لیے جیسے ہی جنگ بندی کی مدت ختم ہوئی تو اسرائیل نے فوری حملے شروع کر دیے۔ سات روزہ جنگ بندی کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ جنوبی غزہ میں امدادی سامان داخل ہوگیا'جس کی وجہ سے محصور خاندانوں کو چند دن سکون سے رہنے کے لیے ملے ہیں لیکن اب پھر دوبارہ وہی بدامنی کا راج ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ جنگ بندی کا یہ مختصر وقفہ ہے، عارضی جنگ بندی کے بعد لڑائی شدت سے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہنے کی توقع ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ غزہ اور فلسطینی علاقوں کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ لڑائی 7 اکتوبر کو شروع ہوئی، اس میں 17,18 ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں کئیہزار بچے اورخواتین شامل ہیں۔ غرب اردن میں یہودی آباد کارو ں نے الگ سے پرامن فلسطینیوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں۔

یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں تشدد سے بھی 60 کے قریب پرامن فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔اسرائیل کا بھی بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی یہ تنظیمیں اسرائیلی مظالم پر رپورٹیں شایع کرتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے زیر سایہ کام کرنے والے مختلف اداروں نے بھی اسرائیلی مظالم کی تفصیلات جاری کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی اور معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی اشرافیہ امریکا، یورپ، بیروت اور قطر میں مقیم ہیں' کئی امیرفلسطینی اردن کے دارالحکومت امان میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ عام فلسطینی شہری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں یا اسرائیل کے زیرکنٹرول علاقوں میںڈرے سہمے رہنے پر مجبور ہیں۔تنازعہ فلسطین کے حل میں سب سے اسٹیک ہولڈر عام فلسطینی ہیں۔ان کے جان و مال کے تحفظ سب سے اہم ہے۔

فلسطینی عوام جنگ کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے' فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن فلسطینیوں کی سیاسی قیادت کے اندر نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینی قیادت کو ان معاملات پر بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے کہ ان کی نظریاتی تقسیم عام فلسطینیوں پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے۔اس لیے وقت کی ضرورت یہی ہے کہ فلسطینی قیادت اپنے نظریاتی اور سیاسی اختلافات ختم کرکے متحد ہو۔
Load Next Story