بکرمی کیلنڈر کئی اعتبارسے بے مثال

 عیسوی اور ہجری کیلنڈر سے قدیم ماہ و سال

 عیسوی اور ہجری کیلنڈر سے قدیم ماہ و سال ۔ فوٹو : فائل

واہ بھئی واہ، بکرمی کیلنڈر کی ہے کیا بات۔ منفرد اور دلکش ہیں اس کی امتیازی خصوصیات۔ موسمی تبدیلیوں کی بشارت دیتے نظر آتے ہیں اس کے معمولات اورغور طلب ہیں اس کے معاملات۔ دنیا بھر میں بالعموم اور جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں بالخصوص بیک وقت تین کیلنڈروں پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں ہمارا موضوع بکرمی مہ و سال ہی ہے۔

اس لئے کہ یہ تینوں میں سب سے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی مروج ہے اور اپنے مہینوں کے دنوں کی تعداد کے اعتبارسے بے مثال بھی ہے اور کئی اعتبارسے باکمال بھی۔ ان تین کیلنڈروں میں بکرمی، عیسوی اور ہجری کیلنڈرز شامل ہیں۔ ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے آج کل 1445والا سن چل رہا ہے ۔ عیسوی کیلنڈر بتا رہا ہے یہ 2023 واں سن و سال ہے۔ جبکہ بکرمی کا 2080 واں سال اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ بکرمی کیلنڈر اور اس کے مہ و سال کے حوالے سے تمام اہم باتیں ضرور ہوں گی، لیکن اس کی اہمیت ،افادیت، ضرورت ، وسعت اوراولیت کو سمجھنے سے پہلے باقی کیلنڈروں کی بات نہ ہوئی تو ابہام باقی رہے گا۔

تینوں کیلنڈروں کی بات چھیڑنے سے پہلے یہ بتانا غیرضروری معلوم نہیں ہوتا کہ بکرمی کیلنڈر کا آغاز پنجاب سے ہوا ۔ اہم تہواربکرمی مہینوں کی بنیاد پر منانے کا سلسلہ بھی پنجاب سے شروع ہوا۔

اس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے متحدہ ہندوستان کی تمام ریاستوں تک پھیل گیا اور جب بھارت کا بٹوارہ ہونے پر نئی مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بکرمی مہینوں کی بنیاد پر منائے جانے والے تہوار کے رنگ پاکستان کے علاقے پنجاب میں بھی نظر آنے لگے ۔ کچھ تہوار فصلوں کی کٹائی پر منائے جاتے ہیں اور کچھ مذاہب کی بنیاد پر۔ پاک و ہند میں ہندو، عیسائی ،سکھ اور مسلم باشندے آباد ہیں، اس لئے ان سب کے مذہبی تہوار بھی ان علاقوں میں زور و شور اور شان و شوکت کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ ان تہواروں پر خوشی کا سماں ہوتا ہے ۔ بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں ،ڈھول بجائے جاتے ہیں۔ دھمال ڈالے جاتے ہیں ۔ بچیاں جھولے جھولتی ہیں۔ لڈیاں ڈالتی ہیں۔ بسنت تہوار کا سلسلہ بھی اتنا مقبول ہوا کہ اس کادائرہ پنجاب کی سرحدوں کو عبور کر کے پاکستان کے شہر شہر میں پھیل گیا۔

بسنت تہوار موسم بہارکو خوش آمدید کہنے کیلئے منایا جاتا ہے لیکن جب پاکستان میں بسنت تہواروں پر بچوں اور بڑوں کی زندگی کی ڈور کٹنے لگی تو بسنت پر پتنگ بازی کو جرم قرار دے دیا گیا۔اب بسنت پر ہی نہیں ، ہر مہینے اور ہر دن پتنگ اْڑانے پر پابندی ہے۔ ناجائز منافع خوروں نے بسنت پر پابندی لگوا کر ہمیں بہت سی خوشیوں سے محروم کر دیا ہے۔ بسنت بہار پر بچے بڑے ، لڑکیاں اور خواتین بسنتی پہناوں میں نظر آتی تھیں لیکن اب بسنت بھی آتی ہے اور بہار بھی لیکن آسمان پر پتنگ کے رنگ نظر آتے ہیں نہ ہی دھرتی کے جسم پر بسنتی رنگ کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔

لوہری ایک ایسا تہوار ہے جو موسم سرما میں آتا ہے اور گنے کی فصل کی کٹائی پر کسانوں کے مالی سال کا آخری دن بڑے دھوم دھڑکے، کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مگھی کے تہوار پر کھیل میلے سجتے ہیں ۔ اور مگھر پرکھیر سے منہ میٹھے کرائے جاتے ہیں ۔ تیاں بھی پنجابی کیلنڈر کے اعتبار سے ایک خوبصورت تہوار ہے ، جو مون سون کی رْت کے خیر مقدم کیلئے منایا اور سجایا جاتا ہے ۔

خواتین اور لڑکیاں پارکوں ، سبزہ زاروں ، حویلیوں کے آنگنوں اور اپنے گھروں کے صحنوں میں پیڑوں پر پینگیں ڈال کر جھولے جھولتی اور خوب موج مستی کرتی ہیں ۔

تہواروں کا ذکر اگر مزید طویل ہو گیا تو ہم اپنے موضوع سے ہٹ جائیں گے۔ ہمیں اپنے منتخب موضوع بکرمی کیلنڈر کی طرف واپس آنا ہوگا۔ لیکن موضوع کی طرف واپسی سے پہلے یہ بتانا ناگزیر ہے کہ بکرمی، عیسوی اور ہجری کیلنڈروں میں کئی باتیں مشترک ہیں ۔ اور بہت سی خصوصیات ایک دوسرے سے ہٹ کر ہیں ۔ ان تینوں میں بکرمی کیلنڈر سب سے قدیم ہے ۔ اس کے بعد عیسوی کیلنڈر آتا ہے اور سب سے جدید ہجری کیلنڈر ہے، جسے بہت سے لوگ اسلامی یا مسلم دْنیا کا کیلنڈر بھی کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بکرمی، عیسوی اور ہجری کیلنڈرز میں مشترک بات یہ بھی ہے کہ یہ تینوں کیلنڈر بارہ، بارہ مہینوں کے ہیں ۔ ہر کیلنڈر میں ایک ہفتہ سات دنوں پر مشتمل ہے ۔

لیکن ہر کیلنڈر میں ہر مہینے کے دنوں کی تعداد ایک جیسی نہیں ۔ ہجری کیلنڈر میں کوئی مہینہ 28 دن کا نہیں ہوتا لیکن لیپ کے سال کے سوا عیسوی کیلنڈر میں فروری کا مہینہ 28 دنوں کا ہوتا ہے جبکہ بکرمی کیلنڈر میں کوئی ایک مہینہ بھی 28 دنوں کا نہیںہے ۔ لیپ کے سال کے علاوہ عیسوی کیلنڈر میں فروری کے سوا کوئی ایک مہینہ 29 دنوں کا دکھائی نہیں دیتا ۔اور بکرمی کیلنڈر میں تو کسی بھی ایک مہینے میں ہمیں 29 دن نظر نہیں آتے ۔ جبکہ ہجری کیلنڈر کو دیکھیں تو کچھ مہینوں کے دن 29 اور کچھ کے 30 ہوتے ہیں ۔

اس ہجری کیلنڈر کے بغیر کسی اسلامی ملک کاگزارہ ممکن نہیں اور بات اسلامی ممالک تک محدود نہیں ، کوئی مسلم اگر کسی بھی ملک کا مکین ہے تو وہ عیدین ، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حج اور باقی اہم ایام منانے کیلئے اسی ہجری کیلنڈر کی تواریخ کا منتظررہتاہے اور لیلۃ القدر کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں بھی عبادت و ریاضت میں محو اور منہمک نظرآتا ہے تاکہ ہزار مہینوں سے افضل رات سے فیضیاب ہو سکے، جسے دنیا شب قدر کہتی اور سمجھتی ہے۔

اسے قرآن حکیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لیلۃ القدر کا نام دیا ہے اور اپنے آخری کلام میں ایک سورت بھی نازل فرمائی ہے ، جسے سورہء قدر کا نام دیا گیا ہے ۔ کوئی بھی مومن چاہے ہر اعتبار سے عیسوی مہ و سال میں زندہ ہو ، اپنی برتھ ڈے، شادی کی سالگرہ اور اپنے بزرگوں کی برسی ، یا یوم وصال عیسوی مہ و سال کے اعتبار سے مناتا ہو لیکن جب اپنے بزرگوں کا عرس مناتا ہے تو اس کے لئے عیسوی مہ و سال کے اعتبار سے نہیں، بلکہ ہجری کیلنڈر کے مہ و سال کی مناسبت سے تاریخ کا تعین کرتا ہے ۔

نبی آخرالزماں فخر کون و مکاں امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت دنیا بھر میں مسلمانان عالم 12 ربیع الاول کو مناتے ہیں ۔ مولود حرم مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا یوم ولادت 13 ویں رجب المرجب کو اور ان کا یوم شہادت 21 ویں رمضان المبارک کو منایا جاتا ہے۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک لاہور میں 20 صفر المظفر کو منانے کی روایت بھی نئی نہیں ہے ۔ خواجہ خواجگاں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک ہر سال رجب المرجب میں ہوتا ہے ۔ پیران پیر دستگیر محبوب سبحانی، قندیل نورانی ، شہباز لامکانی حضرت سید محی الدین عبدالقادر جیلانی کا عرس ربیع الثانی کی گیارہویں تاریخ کو منانے کی روایت بھی صدیوں پرانی ہے ۔ مقصد یہ کہ کوئی مسلم چاہے کسی بھی ملک کا مکین ہو ، وہ ہجری کیلنڈر کے اعتبار ہی سے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے عرس یا برسیوں کیلئے تواریخ کا تعین کرتا ہے۔ دنیائے اسلام میں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی نئی تاریخ طلوع ہو جاتی ہے اور نیا دن بھی شروع ہو جاتا ہے۔

عیسوی اور ہجری کیلنڈر پر اجمالاً گفتگو تو ہوگئی۔ اب بات ہوگی صرف بکرمی کیلنڈر کی، جو پاکستان اور بھارت میں مروج بھی ہے اور مقبول بھی۔ بکرمی کیلنڈر کی بنیا د بھارت کے ایک مہاراجا بکرما جیت گرجر راجا بکرم اجیت یا راجا وکرم جیت نے رکھی تھی۔ انہوں نے جو ہندی یا پنجابی کیلنڈر متعارف کرایا، اسے بہت سے ناموں سے جانا اور پہچانا گیا ۔

کچھ لوگ اسے ہندی ، دیسی اور پنجابی کیلنڈر بھی کہتے ہیں۔ کچھ اسے جنتری بولتے اور لکھتے ہیں اور بہت سے اہل علم نے اسے موسموں کے کیلنڈر کا نام دیا ہے ۔

ساون اور بھادوں کے مہینے بھی اسی بکرمی کیلنڈر میں دکھائی دیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس بکرمی کیلنڈر کو بہت مانتے ہیں لیکن اسی جنوبی ایشیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں بکرمی کیلنڈر کی الف اور ب کا بھی علم نہیں ۔ حالانکہ تمام قومی اخبارات میں عیسوی اور ہجری مہ وسال کے ناموں کے ساتھ ساتھ دن اورتاریخ تو ہوتی ہی ہے۔ اسی پٹی میں بکرمی سن و سال، اس کا رواں مہینہ ، دن اور تاریخ بھی درج کرنے کی روایت بھی ہے۔ یہ اور بات کہ اخبارات پڑھنے والے بہت سے لوگ اس سے بے خبر ہیں اور بے خبر ہی رہتے ہیں ۔

بکرما جیت محض نام ہی نہیں، ایک شاہانہ خطاب بھی ہے۔ یایوں کہئے کہ جیسے ایران میں قبل ازاسلام بادشاہ وقت کو خسرو اورعراق میں قیصر کہا جاتا تھا ۔ اسی طرح قدیم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے تو پتا چلتا ہے بکرما جیت ، وہ لقب یا خطاب ہے ، جسے بہت سے معروف اور مشہور حکمرانوں نے اپنی آن ، بان ، شان اور پہچان بنا رکھا تھا ۔ گپت خاندان میں چندر گپت بکرما جیت ہی نہیں اس کا پوتا پوروگپتا بھی وکرما دتیہ کے نام ہی سے جانا پہچانا جاتا تھا اور اس کا سراغ اس کے عہد میں چلنے والے سکوں سے بھی چلتا ہے۔

اردو اور ہندی ادب میں بکرمی ، پنجابی اور دیسی مہینوں کی مناسبت سے بہت سے محاورے موجود ہیں اور ان کی بنیاد پربہت سے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے تخلیقی رنگ جمائے اور دکھائے ہیں۔ مثلاً ساون بھادوں کی جھڑی لگنا۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے۔ ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے۔ بھادوں کا گھام، ساجھے کاکام ۔بھادوں کا جھلا ، ایک سینگ سوکھا ، ایک گِلّا۔ بکرمی مہینوں کی بنیاد پر کہاوتوں اور محاوروں کا ذکر چھڑ گیا تو ایک نیا باب کھل جائیگا۔ لہٰذا یہ بات کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔

اب آئیے ، دیکھتے ہیں ۔ اس بکرمی سال کے کس مہینے کی کیا خصوصیات ہیں؟یا یوں کہیے کہ کون سا مہینہ بہار کا ہے؟ کس مہینے میں ہمیں جاڑے کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟کب بادل برستے ہیں؟کس مہینے میں گھٹن ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ بکرمی کیلنڈر دیکھیں تو 9 مہینے ، تیس دن کے اور دو مہینے 32 بتیس، دن کے ہوتے ہیں۔ 31دن کا ایک مہینہ ہے بیساکھ یا ویساکھ ۔ جس کے 31 دنوں کو لوگ انجوائے کرتے ہیں۔ اب ذرا ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں۔ کس مہینے کے کتنے دن ہیں اور کس مہینے کی کیا پہچان ہے؟ اجمالاً اس کا ذکر اس لئے ضروری ہے تاکہ بکرمی کیلنڈر کے بارہ کے بارہ مہینے اپنی امتیازی خوبیوں کے ساتھ ہمارے سامنے آسکیں۔

چیت/ چیتر کا مہینہ :۔ یہ مہینہ تیس دنوں کا ہوتا ہے ۔ قدرت کے دلکش رنگوں کے ساتھ ساتھ بہار کا موسم اپنے ساتھ لاتا ہے۔ بیساکھ، ویساکھ یا سیوک: ۔ پنجابی کیلنڈر میں یہ واحد مہینہ ہے، وساکھ ، جو اکتیس دن کا ہوتا ہے ۔ اس مہینے میں دوموسم گلے ملتے نظر آتے ہیں۔آپ اسے ٹھنڈے اور گرم موسم کا ملا جلا مہینہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔

جیٹھ:۔ 32 دنوں پر پھیلے اس مہینے میں گرم ہواؤں کے تھپیڑے گھر سے نکلنا محال بنا دیتے ہیں۔ لوگ سر کو کپڑے ، چادر یا لمبے رومال سے ڈھانپ کر چلتے ہیں کیونکہ لْو چلتی ہے اور وہ جھلسا دینے والی ہوا سے بچنا چاہتے ہیں ۔

ہاڑ یا اساڑھ : ۔ یہ مہینہ بھی 32 دنوں کا ہوتا ہے اور اسی مہینے میں مون سون کا موسم ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے۔

ساون: ۔ عام لوگ بھی جانتے ہیں ، ساون کا مہینہ اپنے ساتھ برسات لاتا ہے۔

بھادوں :۔ بھادوں اور ساون دو جڑواں بہنوں کے نام سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں مہینوں میں موسم بھیگا بھیگا ہوتا ہے۔

اسْو/ اسوج:۔ معتدل۔ کاتک/ کَتا، کاتئے:۔ ہلکی سردی۔ مگھر/ منگر :۔ سرد

پوہ :۔ اسے پوس بھی کہا جاتا ہے اور اس مہینے میں یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں اور سخت سردی پڑتی ہے ۔


ماگھ یا مانہہ:۔ اس مہینے میں سخت سردی، دھندکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نزلے، زکام اور بخار کی شکایت عام ہوتی ہے ۔ حکیموں کے مطب اور ڈاکٹروں کے کلینکس آباد رہتے ہیں ۔

پھاگن/ پھگن/اربشہ : ۔سردی کی شدت بھی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے ۔ خشک ہوائیں چلنے لگتی ہیں ۔ بہار کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دیتی ہے۔

ہم عیسوی مہ و سال میں زندہ ہیں ۔ اس لئے اسی کے آئینے میں ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ پنجابی کیلنڈر جب شروع ہوتا ہے تو اس وقت عیسوی کیلنڈر کے اعتبار سے کس مہینے کی کیا تاریخ ہوتی ہے۔؟ اور صرف ایک مہینے ہی کی نہیں ؟ ہم بات کریں گے بکرمی سال کے ہر مہینے کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ ہمارا کون سا بکرمی، دیسی یا پنجابی مہینہ کب شروع ہوتا ہے؟یہ بتانا غیر ضروری معلوم نہیںہوتا ہے کہ عیسوی مہینے کے قریباً وسط سے بکرمی مہینے کا آغاز ہوتا ہے۔ پہلا بکرمی مہینہ چیت کا ہے۔ یکم چیت 14مارچ کو ہوتی ہے۔

دوسرا مہینہ بیساکھ کا ہے، یہ 14اپریل کو شروع ہوتا ہے۔ تیسرا مہینہ جیٹھ کا ہے جس کا ہوتا ہے آغاز 14مئی کو اور چوتھا مہینہ ہے ہاڑ جس کی ابتدا 15جون کو ہوتی ہے۔ ساون بکرمی سال کا پانچواں مہینہ ہے جو 17جولائی کو شروع ہوتا ہے۔ بھادوں کا آٹھواں نمبر ہے جس کا آغاز 16اگست کو ہوتا ہے۔ مہینوں کی فہرست میں اسوج کا 9 واںنمبر ہے جو 16ستمبر کو شروع ہوکر16 اکتوبر تک رہتا ہے۔10واں مہینہ کاتک ہے ، جس کا آغاز 17اکتوبر کو ہوتا ہے۔ پنجابی کیلنڈرکے11ویں مہینے کا آغاز 16نومبر کو دیکھنے میں آتا ہے اور اس دیسی کیلنڈر کے بارہویں یا آخری مہینے کا نام ہے، پوہ۔ یکم پوہ سولہ دسمبر کو ہوتی ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد تقویم ہے۔ جس کے شب و روز 8 پہر وں میں بٹے ہوئے ہیں۔

تقویم بکرمی کی ہے بے شک کمال کی

تصویر زندگی کے ہے حْسن و جمال کی

سب سے قدیم ہوتے ہوئے بھی جدید ہے

اِک داستاں ہے روزوشب و ماہ وسال کی

رکھا ہے آٹھ پہروں میں جیون کو بانٹ کر

تصویر یہ ہے اس کے حسیں خدو خال کی

بکرمی کیلنڈر کے اعتبار سے اس تقویم کے تحت روز وشب کا ہر پہر 3 گھنٹوں کا ہے۔ اوقات کی اس تقسیم کا فائدہ ٹرانسپورٹرز اور میڈیا نے خوب اٹھایا ہے ۔ آپ دیکھئے کہ جب لمبی مسافت کیلئے ائیرکنڈیشنڈ بسیں اور ویگنیںچلتی ہیں تو وہ قریباً 3 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد کسی موٹل یا ہوٹل کنارے پڑاؤ ڈالتی ہیں ۔ مسافر ا تر کر کھاتے پیتے ہیں اور تازہ دم ہو کر پھر اپنے سفر کا آغاز کر دیتے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا بھی اپنے قیام کے بعد سے اپنی اہم نشریات کو 8 پہروں میں بانٹے ہوئے ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہر نیوز ٹی وی چینل کے بڑے نیوز بلیٹن تین ، یا چار گھنٹے کے بعد نشر ہوتے ہیں ۔ مثلاً 12بجے دوپہر ،3بجے سہہ پہر ، 6بجے شام ، رات 9 بجے اور 12بجے رات نیوز ٹی وی نشریات بڑے ذوق وشوق کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں ۔ ہے ناں ہر پہر 3 گھنٹوں کا ، جس سے ٹی وی دیکھنے اور نشریات جاری کرنے والے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ بکرمی کیلنڈر کی خصوصیات کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔

بکرمی کیلنڈر

سال کے ہر ماہ کی ، ہر دِن کی یہ تصویر ہے

ہے عدد کا کھیل، خانوں میں بٹی تحریر ہے

باندھ رکھا ہے ہمیں قدرت نے ماہ و سال میں

گویا کیلنڈر نہیں، یہ آہنی زنجیر ہے

سچ یہی ہے آٹھ پہروں میں بٹے ہیں رات دن

ایک اِک پل ہر پہر کا قبضہ ء شمشیر ہے

ہیں مروج جتنے کیلنڈر، یہ ہے اْن میں قدیم

ہے بشارت موسموں کی، خوابوں کی تعبیر ہے

عیسوی اور ہجری کیلنڈر یقیناً ہیں نئے

ہر کیلنڈر کی یقیناً اپنی ہی تنویر ہے

ایک دن پہلے کریں ہر کام ، چاہے کچھ بھی ہو

وقت سے آگے نکلنے کی یہی تدبیر ہے

ہاتھ میں تلوار ہو گی، تب ہی آئے گی یہ کام

سچ ہے ورنہ وقت کی تلوار بے توقیر ہے

صدیاں گزرگئیں، اب تک پنجابی کیلنڈر کا حساب کتاب غلط ثابت نہیںہو سکا۔ لیکن ہم لوگ دیسی چیزوں کے بجائے 'پردیسی ' چیزوںکو زیادہ پسند کرتے ہیں، اسی لئے عیسوی کیلنڈر کو بھی اپنائے ہوئے ہیں ۔ ہم کب جاگیں گے؟ کب ہوش میں آئیں گے ؟ کس سے پوچھیں؟ کون بتائے گا؟ اور بتایا بھی تو کس کیلنڈر کے مہ وسال کے حساب سے؟ عیسوی؟ ، ہجری یا بکرمی اور پنجابی کیلنڈر کی تاریخ کی بنیاد پر ؟ یہ فیصلہ تو وقت کرے گا؟ انتظارکیجئے۔ البتہ آپ تک کوئی معقول جواب پہنچے تو مجھے ضرور بتائیے گا ۔
Load Next Story