ہندوستان ہر چال چل سکتا ہے
طالبان سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگ‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہندوستان کی خوفناک گیم کا حصہ بن چکے ہیں
میہول چوکسی(Mehul Choksi) ہندوستان کا بہت کامیاب تاجر ہے۔ اس کا بنیادی پیشہ ہیرے جواہرات کا کام ہے۔ انڈیا میں اس کی جیولری کی چار ہزار دکانیں موجود ہیں۔ 2017 میں چوکسی' انڈین پنجاب کے ایک بینک اسکینڈل میں ملوث پایا گیا۔
2018میں ہندوستان چھوڑ کر انٹیگوا (Antigoua) منتقل ہو گیا۔ یہ کیرابین کے علاقہ میں چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوکسی' ہندوستان چھوڑنے کے باوجود ایک متمول جوہری ہے۔ اس کا کاروبار پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ آج سے تقریباً دو برس پہلے' اسے انڈیا کی خفیہ ایجنسی ''را'' نے وزیراعظم نریندر مودی کے حکم پر اغوا کرنے کی کوشش کی جو مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔
ہوا ایسے ' کہ لندن میں ایک سابقہ بھارتی سفارت کار نے را کے احکامات پر ایک خوفناک منصوبہ بندی کی۔ یہ سفارت کار ' لندن میں'انڈین کمرشل اتاشی (attache) رہ چکا ہے۔ آج کل' لندن کے مہنگے ترین علاقے Mayfair میں تقریباً ڈھائی ارب روپے کے محل میں رہ رہا ہے۔ اس سفارتکار نے' ایک خاتون پراپرٹی ڈیلر کو ایک فرضی ڈیل طے کرنے کے لیے انٹیگوا بھجوایا۔ اس خاتون نے اس دورہ میں چوکسی کو میٹنگ کے لیے ایک جگہ بلایا۔
وہاں را کے اہلکار موجود تھے۔ چوکس پر شدید تشدد کیا گیا۔ اسے وہیل چیئر سے باندھ کر ایک کشتی میں منتقل کیا گیا۔ چوکسی کو زبردستی ایک ہمسایہ ملک Dominica لے جایا گیا۔ اسے زبردستی دہلی لے جانے کا تمام انتظام مکمل ہو چکا تھا۔
چوکسی' کیونکہ ایک امیر انسان تھا اور اس کے ذاتی تعلقات ہر سطح پر موجود تھے۔لہٰذا اغوا کی خبر ' اس کے وکلاء تک پہنچ گئی کہ چوکسی کو زبردستی ایک ایسے چھوٹے ملک میں قید رکھا گیا ہے جہاں ہندوستان کی حکومت کا بہت زیادہ اثر ہے۔ وکلاء فوری اسے لینے کے لیے ایک نجی جیل میں گئے' تو چوکسی حد درجہ خراب حالت میں تھا۔ اسے رسیوں سے باندھا ہوا تھا اور وہ سمجھ رہا تھا کہ را کے اہلکار اسے زبردستی دہلی لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ خیر چوکسی کو حد درجہ مشکل طریقہ سے انٹیگوا لایا گیا۔
وہاں پہنچ کر اسے نارمل ہونے میں عرصہ لگا۔ جیسے ہی وہ بہتر ہوا۔ اس نے اغوا کاروں کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ ڈومینکا کی حکومت نے صاف انکار کر دیا بلکہ وہ منکر ہی ہو گئے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ڈومینکاکی عدالتوں نے حکم دیاکہ اس معاملہ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ ساتھ ساتھ'چوکسی نے برطانوی پولیس کو اس معاملہ کی تفتیش کرنے کی استدعا کی۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ابتدائی تحقیقات ہی کی تھی کہ سارا منصوبہ کھل کر سامنے آ گیا۔ بھارتی سفارتکار اور خاتون پراپرٹی ڈیلر کے اکاؤنٹس میں ہندوستان سے پیسوں کی منتقلی ' ان کا اور ساتھیوں کا انٹیگوا کا سفر اور اس کے بعد کے معاملات سب افشا ہو گئے۔ ہندوستان کے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے تمام ثبوت بھی سامنے آ گئے۔
جیسے ہی اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تحقیقات کادائرہ بڑھایا۔ فوری طور پر ہندوستان کی حکومت خم ٹھوک کر کھڑی ہو گئی اور کسی بھی حکومتی ادارے کے ملوث ہونے کا انکار کر دیا۔ بلکہ تمام معاملہ سے ہی راہ فرار اختیار کر لی۔ اب یہ حد درجہ سنسنی خیز واقعہ' عدالت اور لندن کے تحقیقاتی اداروں کے لیے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔
برطانیہ کا وزیراعظم' ہندوستان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے ہندوستان کی حکومت ' اپنا بندہ تصور کرتی ہے۔ مگر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے برطانوی وزیراعظم مکمل بے بس ہے۔ یہ معاملہ اب ہندوستان اور برطانوی سفارت کاری کے میدان میں دشوار تر ہو چکا ہے۔
اس پورے واقعہ کا ایک اور پس منظر بھی ہے۔حال ہی میں کینیڈین حکومت نے دہلی پر الزام لگایا تھا' بلکہ تمام ثبوت فراہم کیے تھے کہ را نے کینیڈا میں ایک سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ کو قتل کروایا ہے۔ وجہ یہ کہ ہردیپ سنگھ ' آزاد خالصتان کے لیے حد درجہ سرگرم تھا۔
سنجیدہ امر یہ بھی ہے کہ کینیڈین وزیراعظم نے انڈیا پر الزام لگانے سے پہلے' ہردیپ کے قتل کے تمام ثبوت امریکی اور برطانوی اداروں کو فراہم کیے تھے۔ ہندوستانی حکومت نے نہ صرف اس معاملہ کی تردید کر دی بلکہ کینیڈا سے اپنے سفارت کار بھی واپس بلا لیے اور تجارت کو بھی محدود کرنے کا اعلان کر دیا۔ تقریباً بیس دن پہلے' امریکی اداروں نے ایک اور سکھ لیڈر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف کیا ۔مگر بروقت کارروائی سے وہ بندہ محفوظ رہا۔یہ سب کچھ لکھنے کی ایک وجہ ہے۔
وہ یہ کہ ہندوستان ' نریندر مودی کی حکومت میں ایک ایسے عفریت میں تبدیل ہو چکا ہے جو پوری دنیا میں دہشت گردی کومنظم اور مؤثر کر رہا ہے۔ لندن' امریکا' کینیڈا اور دیگر ممالک میں را' اپنی من مانیاں کرنے میں مصروف ہے۔ مغربی حکومتوں میں ادارے اور عدالتیں مضبوط ہیں۔ لہٰذا' وہ تھوڑی سی تفتیش پر پکڑے جاتے ہیں۔
یعنی مغربی ممالک میں' ہندوستان اس طریقہ سے دہشت گردی نہیں کروا پا رہا جو اس کے عزائم کے مطابق ہو۔ یہاں ایک حد درجہ نازک نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پورے افغانستان اور پاکستان کے وسیع علاقوں میں قانون کی عملداری کا طاقتور نظام موجود نہیں ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ موقع تھا کہ اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے ہمارے ملک کو تباہ حالی میں مبتلا رکھے۔ ان کے لیے ' افغانستان کی ٹی ٹی پی آلہ کار بن گئی۔
ہندوستان نے ٹی ٹی پی کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا' اورکے پی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں کروا دیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بھارتی پیسے سے طالبان کو بھی کافی حد تک پاکستان کے خلاف کیا جا چکا ہے۔ اب ٹی ٹی پی کی صورت میں ہندوستان ہمارے مغربی حصوں میں بھرپور وار کررہا ہے۔ جسے ہماری فوج کے جوان اپنے خون کے نذرانوں سے ناکام بنا رہے ہیں۔ پوری دنیا میںد ہشت گردی کے خلاف جس جوانمردی سے ہماری فوج نے کامیابی حاصل کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ طالبان سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگ' بالواسطہ یا بلاواسطہ ہندوستان کی خوفناک گیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ کے پی میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں ، جہاں ہمارے جوانوں کی قربانیوں کو بھی مذہبی طور پر متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان ہمارے ملک کے لیے ہر طرح کی مصیبت کھڑی کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بالکل یہی حالت ' بلوچستان میں ہے۔ وہاں کی ایک علیحدگی پسند تنظیم کے تانے بانے ہندوستان سے جا ملتے ہیں۔
اب انڈیا کے اداروں کانشانہ گلگت بلتستان ہے۔ دو دن پہلے' وہاں ایک بس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور متعدد لوگوں کو شہید کرنے کی غلیظ واردات میں بھی بیرونی عناصر شامل ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں ' کہ ہندوستان کی اصل دشمنی پاکستان سے ہے۔ نریندر مودی اس دشمنی کو پاگل پن کی حدتک لے جا چکا ہے۔
ہمارے خفیہ ادارے اس پوری صورتحال پر کڑی نظر ضرور رکھتے ہیں۔ مگر چند ناعاقبت اندیش عناصر' جو پاکستانی ضرور ہیں مگر ان کا ذاتی مفاد مغربی ممالک سے وابستہ ہے۔وہ پاکستان دشمنی میں چھپ کر ہر منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔کوئی ایک معاملہ بتایئے جس میں نریندر مودی نے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ایف اے ٹی ایف میں ہماری درجہ بندی کو کمزور تر کرنے میں براہ راست بھارت ملوث تھا۔ غور فرمائیے۔ امریکی نائب صدر بھی ہندوستان نژاد ہے۔ قدرتی طور پر انڈیا' برطانیہ اور امریکا سے حد درجہ نزدیک ہو چکا ہے۔
اسرائیل سے دوستی بھی ہر حد پار کر چکی ہے۔ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں ' جس میں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں بھارتی فوجی' اسرائیل کی عسکری یونیفارم میں قتل عام میں ملوث ہیں۔ دوبارہ نکتہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہمارے ملک کو برباد کرنا ' ہندوستان کی اولین خواہش ہے۔
اور یہ خواب گزشتہ دہائیوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ ہندوستان ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ہماری خرابی میں وہ اپنی فتح سمجھتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت ' پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی بالواسطہ طور پر کنٹرول حاصل کرنے کوشش کرتا رہا ہے۔ ذہن میں کئی خدشات ہیں جن کا معمولی سا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہماری فوج ایک شاندار ادارہ ہے۔ اس عظیم ادارے کو جس طرح متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ کس کو ہے؟ بالکل اسی طرح ہمارے چند سیاست دانوں کی بھارت سے محبت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
فہمیدہ حلقے حقائق کو بخوبی جانتے ہیں۔ ہندوستان کے خفیہ ادارے کن سیاست دانوں سے رابطے میں رہے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ میں ایک لکھاری ہوں' جو بات سمجھ نہیں پاتا' اسے آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید کوئی درست بات مل جائے۔ مگر گزشتہ دو سال سے ' بھیانک سوالات ہی ذہن میں آ رہے ہیں۔ کوئی جواب نہیں ملتا۔ خاکم بدہن' کیا، سازش کے تحت' ملک کی سلامتی کو پامال تو نہیں کیا جا رہا؟ کیا عرض کروں' آپ خود ان سنجیدہ سوالات کا جواب تلاش کرلیجیے؟
2018میں ہندوستان چھوڑ کر انٹیگوا (Antigoua) منتقل ہو گیا۔ یہ کیرابین کے علاقہ میں چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوکسی' ہندوستان چھوڑنے کے باوجود ایک متمول جوہری ہے۔ اس کا کاروبار پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ آج سے تقریباً دو برس پہلے' اسے انڈیا کی خفیہ ایجنسی ''را'' نے وزیراعظم نریندر مودی کے حکم پر اغوا کرنے کی کوشش کی جو مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔
ہوا ایسے ' کہ لندن میں ایک سابقہ بھارتی سفارت کار نے را کے احکامات پر ایک خوفناک منصوبہ بندی کی۔ یہ سفارت کار ' لندن میں'انڈین کمرشل اتاشی (attache) رہ چکا ہے۔ آج کل' لندن کے مہنگے ترین علاقے Mayfair میں تقریباً ڈھائی ارب روپے کے محل میں رہ رہا ہے۔ اس سفارتکار نے' ایک خاتون پراپرٹی ڈیلر کو ایک فرضی ڈیل طے کرنے کے لیے انٹیگوا بھجوایا۔ اس خاتون نے اس دورہ میں چوکسی کو میٹنگ کے لیے ایک جگہ بلایا۔
وہاں را کے اہلکار موجود تھے۔ چوکس پر شدید تشدد کیا گیا۔ اسے وہیل چیئر سے باندھ کر ایک کشتی میں منتقل کیا گیا۔ چوکسی کو زبردستی ایک ہمسایہ ملک Dominica لے جایا گیا۔ اسے زبردستی دہلی لے جانے کا تمام انتظام مکمل ہو چکا تھا۔
چوکسی' کیونکہ ایک امیر انسان تھا اور اس کے ذاتی تعلقات ہر سطح پر موجود تھے۔لہٰذا اغوا کی خبر ' اس کے وکلاء تک پہنچ گئی کہ چوکسی کو زبردستی ایک ایسے چھوٹے ملک میں قید رکھا گیا ہے جہاں ہندوستان کی حکومت کا بہت زیادہ اثر ہے۔ وکلاء فوری اسے لینے کے لیے ایک نجی جیل میں گئے' تو چوکسی حد درجہ خراب حالت میں تھا۔ اسے رسیوں سے باندھا ہوا تھا اور وہ سمجھ رہا تھا کہ را کے اہلکار اسے زبردستی دہلی لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ خیر چوکسی کو حد درجہ مشکل طریقہ سے انٹیگوا لایا گیا۔
وہاں پہنچ کر اسے نارمل ہونے میں عرصہ لگا۔ جیسے ہی وہ بہتر ہوا۔ اس نے اغوا کاروں کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ ڈومینکا کی حکومت نے صاف انکار کر دیا بلکہ وہ منکر ہی ہو گئے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ڈومینکاکی عدالتوں نے حکم دیاکہ اس معاملہ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ ساتھ ساتھ'چوکسی نے برطانوی پولیس کو اس معاملہ کی تفتیش کرنے کی استدعا کی۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ابتدائی تحقیقات ہی کی تھی کہ سارا منصوبہ کھل کر سامنے آ گیا۔ بھارتی سفارتکار اور خاتون پراپرٹی ڈیلر کے اکاؤنٹس میں ہندوستان سے پیسوں کی منتقلی ' ان کا اور ساتھیوں کا انٹیگوا کا سفر اور اس کے بعد کے معاملات سب افشا ہو گئے۔ ہندوستان کے خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے تمام ثبوت بھی سامنے آ گئے۔
جیسے ہی اسکاٹ لینڈ یارڈ نے تحقیقات کادائرہ بڑھایا۔ فوری طور پر ہندوستان کی حکومت خم ٹھوک کر کھڑی ہو گئی اور کسی بھی حکومتی ادارے کے ملوث ہونے کا انکار کر دیا۔ بلکہ تمام معاملہ سے ہی راہ فرار اختیار کر لی۔ اب یہ حد درجہ سنسنی خیز واقعہ' عدالت اور لندن کے تحقیقاتی اداروں کے لیے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔
برطانیہ کا وزیراعظم' ہندوستان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے ہندوستان کی حکومت ' اپنا بندہ تصور کرتی ہے۔ مگر اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے برطانوی وزیراعظم مکمل بے بس ہے۔ یہ معاملہ اب ہندوستان اور برطانوی سفارت کاری کے میدان میں دشوار تر ہو چکا ہے۔
اس پورے واقعہ کا ایک اور پس منظر بھی ہے۔حال ہی میں کینیڈین حکومت نے دہلی پر الزام لگایا تھا' بلکہ تمام ثبوت فراہم کیے تھے کہ را نے کینیڈا میں ایک سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ کو قتل کروایا ہے۔ وجہ یہ کہ ہردیپ سنگھ ' آزاد خالصتان کے لیے حد درجہ سرگرم تھا۔
سنجیدہ امر یہ بھی ہے کہ کینیڈین وزیراعظم نے انڈیا پر الزام لگانے سے پہلے' ہردیپ کے قتل کے تمام ثبوت امریکی اور برطانوی اداروں کو فراہم کیے تھے۔ ہندوستانی حکومت نے نہ صرف اس معاملہ کی تردید کر دی بلکہ کینیڈا سے اپنے سفارت کار بھی واپس بلا لیے اور تجارت کو بھی محدود کرنے کا اعلان کر دیا۔ تقریباً بیس دن پہلے' امریکی اداروں نے ایک اور سکھ لیڈر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف کیا ۔مگر بروقت کارروائی سے وہ بندہ محفوظ رہا۔یہ سب کچھ لکھنے کی ایک وجہ ہے۔
وہ یہ کہ ہندوستان ' نریندر مودی کی حکومت میں ایک ایسے عفریت میں تبدیل ہو چکا ہے جو پوری دنیا میں دہشت گردی کومنظم اور مؤثر کر رہا ہے۔ لندن' امریکا' کینیڈا اور دیگر ممالک میں را' اپنی من مانیاں کرنے میں مصروف ہے۔ مغربی حکومتوں میں ادارے اور عدالتیں مضبوط ہیں۔ لہٰذا' وہ تھوڑی سی تفتیش پر پکڑے جاتے ہیں۔
یعنی مغربی ممالک میں' ہندوستان اس طریقہ سے دہشت گردی نہیں کروا پا رہا جو اس کے عزائم کے مطابق ہو۔ یہاں ایک حد درجہ نازک نکتہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پورے افغانستان اور پاکستان کے وسیع علاقوں میں قانون کی عملداری کا طاقتور نظام موجود نہیں ہے۔ ہندوستان کے لیے یہ موقع تھا کہ اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے ہمارے ملک کو تباہ حالی میں مبتلا رکھے۔ ان کے لیے ' افغانستان کی ٹی ٹی پی آلہ کار بن گئی۔
ہندوستان نے ٹی ٹی پی کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا' اورکے پی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں کروا دیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بھارتی پیسے سے طالبان کو بھی کافی حد تک پاکستان کے خلاف کیا جا چکا ہے۔ اب ٹی ٹی پی کی صورت میں ہندوستان ہمارے مغربی حصوں میں بھرپور وار کررہا ہے۔ جسے ہماری فوج کے جوان اپنے خون کے نذرانوں سے ناکام بنا رہے ہیں۔ پوری دنیا میںد ہشت گردی کے خلاف جس جوانمردی سے ہماری فوج نے کامیابی حاصل کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ طالبان سے ہمدردی رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگ' بالواسطہ یا بلاواسطہ ہندوستان کی خوفناک گیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ کے پی میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں ، جہاں ہمارے جوانوں کی قربانیوں کو بھی مذہبی طور پر متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستان ہمارے ملک کے لیے ہر طرح کی مصیبت کھڑی کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بالکل یہی حالت ' بلوچستان میں ہے۔ وہاں کی ایک علیحدگی پسند تنظیم کے تانے بانے ہندوستان سے جا ملتے ہیں۔
اب انڈیا کے اداروں کانشانہ گلگت بلتستان ہے۔ دو دن پہلے' وہاں ایک بس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور متعدد لوگوں کو شہید کرنے کی غلیظ واردات میں بھی بیرونی عناصر شامل ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں ' کہ ہندوستان کی اصل دشمنی پاکستان سے ہے۔ نریندر مودی اس دشمنی کو پاگل پن کی حدتک لے جا چکا ہے۔
ہمارے خفیہ ادارے اس پوری صورتحال پر کڑی نظر ضرور رکھتے ہیں۔ مگر چند ناعاقبت اندیش عناصر' جو پاکستانی ضرور ہیں مگر ان کا ذاتی مفاد مغربی ممالک سے وابستہ ہے۔وہ پاکستان دشمنی میں چھپ کر ہر منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔کوئی ایک معاملہ بتایئے جس میں نریندر مودی نے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ایف اے ٹی ایف میں ہماری درجہ بندی کو کمزور تر کرنے میں براہ راست بھارت ملوث تھا۔ غور فرمائیے۔ امریکی نائب صدر بھی ہندوستان نژاد ہے۔ قدرتی طور پر انڈیا' برطانیہ اور امریکا سے حد درجہ نزدیک ہو چکا ہے۔
اسرائیل سے دوستی بھی ہر حد پار کر چکی ہے۔ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں ' جس میں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں بھارتی فوجی' اسرائیل کی عسکری یونیفارم میں قتل عام میں ملوث ہیں۔ دوبارہ نکتہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہمارے ملک کو برباد کرنا ' ہندوستان کی اولین خواہش ہے۔
اور یہ خواب گزشتہ دہائیوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ ہندوستان ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ہماری خرابی میں وہ اپنی فتح سمجھتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت ' پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی بالواسطہ طور پر کنٹرول حاصل کرنے کوشش کرتا رہا ہے۔ ذہن میں کئی خدشات ہیں جن کا معمولی سا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہماری فوج ایک شاندار ادارہ ہے۔ اس عظیم ادارے کو جس طرح متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ کس کو ہے؟ بالکل اسی طرح ہمارے چند سیاست دانوں کی بھارت سے محبت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
فہمیدہ حلقے حقائق کو بخوبی جانتے ہیں۔ ہندوستان کے خفیہ ادارے کن سیاست دانوں سے رابطے میں رہے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ میں ایک لکھاری ہوں' جو بات سمجھ نہیں پاتا' اسے آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید کوئی درست بات مل جائے۔ مگر گزشتہ دو سال سے ' بھیانک سوالات ہی ذہن میں آ رہے ہیں۔ کوئی جواب نہیں ملتا۔ خاکم بدہن' کیا، سازش کے تحت' ملک کی سلامتی کو پامال تو نہیں کیا جا رہا؟ کیا عرض کروں' آپ خود ان سنجیدہ سوالات کا جواب تلاش کرلیجیے؟