دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حتمی مرحلہ
وقت کی انتہائی اہم ضرورت ریاست پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی عوامی پشت پناہی ہے
پاکستان کے دشمنوں کو شکست دیں گے، پوری توجہ سرحدوں کے دفاع پر مرکوز ہے، چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں، قوم کی حمایت سے وطن دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تیار ہیں۔
ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے خیرپور ٹامیوالی میں بہاولپورکور کی فیلڈ مشقوں کے مشاہدہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
دوسری جانب ضلع غذر سے راولپنڈی جانے والی بس پر چلاس میں شاہراہ قراقرام پر ہڈور کے مقام پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے آٹھ مسافر جاں بحق اور سولہ شدید زخمی ہوگئے ۔ بس پر فائرنگ کی بزدلانہ کارروائی میں پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے ہیں جب کہ اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کا ایک جوان بھی زخمیوں میں شامل ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں ان ہی بے رحم قاتلوں کا سامنا ہے جو اس سے پہلے بھی ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے اس فتنہ کو دبایا تھا لیکن افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد پاکستان میں رواں برس دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل جاری ہے، جس میں نہ صرف عام شہری نشانہ بنے ہیں بلکہ پاک فوج کے ایئر پورٹس اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
کسی ریاستی ادارے پر حملہ صرف '' ریاست پر حملہ'' کہہ کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی کیونکہ انتظامی ادارے پر حملہ کرنے کا مقصد ہی عوام میں خوف اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں میں حالات گزشتہ تین برس میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغٖانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔
اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔
پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے جس کے منفرد جغرافیے کو اس کی طاقت بنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان جتنی کاوشیں کر رہا ہے افغانستان کو اس میں تعاون کرنا ہوگا کہ اس میں اس کا بھی بھلا ہے۔ پاکستان میں ترقی و خوشحالی ہو گی تو لازم ہے کہ اس کے اثرات افغانستان پر بھی مرتب ہوں کیونکہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
امریکی امداد اور بھارتی حمایت کے باوجود افغانستان کا پاکستان پر انحصار کچھ زیادہ کم نہیں ہوسکتا، اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان میں لاکھوں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں، افغانستان ابھی تک ان کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوسکا۔
کابل کے حالات میں قدرے بہتری اور عالمی امداد کے باوجود نہ تو افغان ریاست ان مہاجرین کی واپسی کے بندوبست پر تیار ہے اور نہ ہی یہ خود واپس جانے پر رضامند ہیں، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ان افغان مہاجرین سے جان چھڑا لے۔ سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم و ضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے جانے والے اس نظم و ضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ صرف طورخم سرحد کو بند کرنا کافی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کو مل کر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف حالات کو مکمل طور پر قابو کرنا ہوگا۔ پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پر عزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طو ر پر ختم نہیں کرسکا۔
پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کا یہ پل ہر صورت توڑنا ہوگا اور افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ اس پل کو توڑنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔
سب سے بڑا اور اہم کام معاشی اور تعلیمی شعبوں میں کرنے کا ہے۔ جب تک معیشت کی بہتری کی صورت میں نوجوانوں کو روزگار کے وافر ذرایع میسر نہیں ہوں گے تب تک ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خطرات مکمل طور پر ختم نہیں کیے جاسکتے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمہ گیر اصلاحات اور ان پر تیز رفتار عمل کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طور پر پائیداری کے ساتھ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے ساتھ جذباتی وابستگی اور غیر متزلزل وفاداری اور بلا مذہب و ملت ہر دوسرے فرد کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو یہ پڑھانا اور سمجھانا ہوگا کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور اس گھر کی حفاظت اور تقدس کو قائم رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
وقت کی انتہائی اہم ضرورت ریاست پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی عوامی پشت پناہی ہے۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کی طاقت کے سبب ایک حکومت اپنے اختیارات بروئے کار لاتی ہے اور یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اپنی حمایت واپس لے لیں تو دنیا کے کسی ملک میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
باوجود اس کے کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے کو عوامی سطح پر وہ پذیرائی میسر نہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ یا متمدن ملک میں حاصل ہوتی ہے اور اس کی وجہ پولیس کے محکمے میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پولیس میں سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے یہ ادارہ انحطاط کا شکار ہوا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی قربانیوں سے انکار کیا جائے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر پولیس کی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی پاکستانی عوام دہشت گردی کے خلاف پولیس کی قربانیوں کو سراہنے کے لیے عملی طور پر آگے آئیں۔ اس سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عوامی حمایت ملے گی بلکہ پولیس کے ایماندار اور محنتی اہلکاروں اور افسروں کا مورال بھی بلند ہوگا اور پاکستانی قوم یک جا ہو کر دہشت گردی کے خلاف حتمی کامیابی حاصل کر سکے گی۔
افغان سرحد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مسلسل چیلنج کیا جارہا ہے، لہٰذا طالبان حکومت کو ایک بار پھر سختی سے وارننگ دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پرآہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اگر ریاستی منصوبہ بندیمیں کوئی کمی یا کمزوری رہ گئی ہے تو اسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔ سہولت کاروں کے بغیر دہشتگردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشتگردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔
دہشتگردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تاآنکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔
ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے خیرپور ٹامیوالی میں بہاولپورکور کی فیلڈ مشقوں کے مشاہدہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
دوسری جانب ضلع غذر سے راولپنڈی جانے والی بس پر چلاس میں شاہراہ قراقرام پر ہڈور کے مقام پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے آٹھ مسافر جاں بحق اور سولہ شدید زخمی ہوگئے ۔ بس پر فائرنگ کی بزدلانہ کارروائی میں پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے ہیں جب کہ اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کا ایک جوان بھی زخمیوں میں شامل ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری ان قربانیوں کا اب عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جانے لگا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز کیے اور ان کا کافی حد تک خاتمہ کردیا تھا لیکن اب افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں اور ٹی ٹی پی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہوچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایک بار پھر ہمیں ان ہی بے رحم قاتلوں کا سامنا ہے جو اس سے پہلے بھی ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے اس فتنہ کو دبایا تھا لیکن افغانستان سے امریکا کے انخلاء کے بعد پاکستان میں رواں برس دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل جاری ہے، جس میں نہ صرف عام شہری نشانہ بنے ہیں بلکہ پاک فوج کے ایئر پورٹس اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
کسی ریاستی ادارے پر حملہ صرف '' ریاست پر حملہ'' کہہ کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی کیونکہ انتظامی ادارے پر حملہ کرنے کا مقصد ہی عوام میں خوف اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستانی سرحدی علاقوں میں حالات گزشتہ تین برس میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان افغٖانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔
اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔
پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے جس کے منفرد جغرافیے کو اس کی طاقت بنانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان جتنی کاوشیں کر رہا ہے افغانستان کو اس میں تعاون کرنا ہوگا کہ اس میں اس کا بھی بھلا ہے۔ پاکستان میں ترقی و خوشحالی ہو گی تو لازم ہے کہ اس کے اثرات افغانستان پر بھی مرتب ہوں کیونکہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
امریکی امداد اور بھارتی حمایت کے باوجود افغانستان کا پاکستان پر انحصار کچھ زیادہ کم نہیں ہوسکتا، اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان میں لاکھوں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں، افغانستان ابھی تک ان کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوسکا۔
کابل کے حالات میں قدرے بہتری اور عالمی امداد کے باوجود نہ تو افغان ریاست ان مہاجرین کی واپسی کے بندوبست پر تیار ہے اور نہ ہی یہ خود واپس جانے پر رضامند ہیں، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ان افغان مہاجرین سے جان چھڑا لے۔ سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم و ضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے جانے والے اس نظم و ضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ صرف طورخم سرحد کو بند کرنا کافی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کو مل کر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف حالات کو مکمل طور پر قابو کرنا ہوگا۔ پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پر عزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ لاہور، کراچی، پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طو ر پر ختم نہیں کرسکا۔
پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کا یہ پل ہر صورت توڑنا ہوگا اور افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ اس پل کو توڑنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔
سب سے بڑا اور اہم کام معاشی اور تعلیمی شعبوں میں کرنے کا ہے۔ جب تک معیشت کی بہتری کی صورت میں نوجوانوں کو روزگار کے وافر ذرایع میسر نہیں ہوں گے تب تک ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خطرات مکمل طور پر ختم نہیں کیے جاسکتے۔
تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمہ گیر اصلاحات اور ان پر تیز رفتار عمل کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طور پر پائیداری کے ساتھ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست کے ساتھ جذباتی وابستگی اور غیر متزلزل وفاداری اور بلا مذہب و ملت ہر دوسرے فرد کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو یہ پڑھانا اور سمجھانا ہوگا کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور اس گھر کی حفاظت اور تقدس کو قائم رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
وقت کی انتہائی اہم ضرورت ریاست پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی عوامی پشت پناہی ہے۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کی طاقت کے سبب ایک حکومت اپنے اختیارات بروئے کار لاتی ہے اور یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اپنی حمایت واپس لے لیں تو دنیا کے کسی ملک میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
باوجود اس کے کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے کو عوامی سطح پر وہ پذیرائی میسر نہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ یا متمدن ملک میں حاصل ہوتی ہے اور اس کی وجہ پولیس کے محکمے میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پولیس میں سیاسی دخل اندازی کی وجہ سے یہ ادارہ انحطاط کا شکار ہوا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی قربانیوں سے انکار کیا جائے۔
اس لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر پولیس کی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر بھی پاکستانی عوام دہشت گردی کے خلاف پولیس کی قربانیوں کو سراہنے کے لیے عملی طور پر آگے آئیں۔ اس سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو عوامی حمایت ملے گی بلکہ پولیس کے ایماندار اور محنتی اہلکاروں اور افسروں کا مورال بھی بلند ہوگا اور پاکستانی قوم یک جا ہو کر دہشت گردی کے خلاف حتمی کامیابی حاصل کر سکے گی۔
افغان سرحد سے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مسلسل چیلنج کیا جارہا ہے، لہٰذا طالبان حکومت کو ایک بار پھر سختی سے وارننگ دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پرآہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اگر ریاستی منصوبہ بندیمیں کوئی کمی یا کمزوری رہ گئی ہے تو اسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں سے نمٹنے سے متعلق سخت پالیسی اپنائی جائے۔ سہولت کاروں کے بغیر دہشتگردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشتگردی کے پھیلتے ناسور کو بہر صورت جیسے بھی ہے یہیں پر ختم کرنا ہوگا۔ قوم صرف دہشت گردوں کا خاتمہ دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکے جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔
دہشتگردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہمیں پاکستان سے باہر دیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشت گردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تاآنکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔