خصوصی افراد معاشرے کا اہم حصہ قومی دھارے میں لانا ہوگا

ملک میں 2 کروڑ سے زائد افراد معذوری کا شکار ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں

جامع حکمت عملی بنا کر ان کے مسائل حل کیے جائیں:خصوصی افراد کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

خصوصی افراد معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جن کا خیال رکھنا ، سہولیات فراہم کرنا، معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا اور زندگی گزارنے کے برابر مواقع دینا جہاں ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں معاشرتی رویہ اور کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے۔

خصوصی افراد کے مسائل ، ان کا حل اور ان سے منسلک بیشتر اہم معاملات کے بارے میں آگاہی دینے اور عملی اقدامات کی ترغیب دینے کے حوالے سے ہر سال 3 دسمبر کو دنیا بھر ''خصوصی افراد کا عالمی دن'' منایا جاتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس عالمی دن کے موقع پر بھی ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر خالد جمیل

(بگ برادر)

اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور پاکستان کے مقامی سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں دو کروڑ کے قریب افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔

یہاں معذوری کی چار بڑی اقسام ہیں جن میں حرکت نہ کر پانا، بینائی کا نہ ہونا، قوت سماعت اور گویائی سے محرومی اور ذہنی معذوری شامل ہیں۔ ہمارے ہاں جسمانی معذوری کی سب سے بڑی وجہ حاملہ ماؤں کی صحیح نگہداشت کا نہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور فیکٹریوں میں ہونے والے حادثات کی وجہ سے لوگ معذور ہوجاتے ہیں۔

کزن میرج بھی معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح ذہنی معذوری کی سب سے بڑی وجہ کزن میرج ہے یا بعض اوقات فولک ایسڈ کی کمی،ماں کو بلڈ پریشر کا مسئلہ، یا کچھ وائرس ہیں جو ذہنی معذوری کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح نابینا افراد میں بعض ایسے ہوتے ہیں۔

جن کے ذہن میں موجود بینائی کیلئے کام کرنے والا حصہ ناکارہ ہوتا ہے۔ اسے 'آپٹیکل بلائنڈنیس' کہتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جن کی آنکھوں میں کورنیا یا دباؤ کا مسئلہ ہوسکتا ہے، یہ کسی حد تک قابل علاج ہے۔ پٹھوں اور جوڑوں کی بیماریاں بھی معذوری پیدا کرتی ہیں۔

بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری بھی معذوری کی ایک شکل ہے۔ اب یہ بیماریاںا ور وجوہات بھی ہائی لائٹ ہو رہی ہیں، پہلے ان پر بات نہیں کی جاتی تھی۔ دل، گردہ و دیگر بیماریوں کے لیے تو خصوصی ہسپتال موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک بھر میں خصوصی افراد کیلئے کوئی خصوصی ہسپتال نہیں اور نہ ہی کوئی شعبہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی سابق صوبائی حکومت میں میاں محمد شہباز شریف کے ویژن اور ذاتی دلچسپی وجہ سے خصوصی افراد کیلئے ایک ہسپتال بننے جا رہا تھا، میں بھی اس کار خیر میںشامل تھا لیکن اس منصوبے میں بعدازاں نان پروفیشنل افراد شامل ہوگئے جس کے باعث یہ میں کھٹائی میں پڑ گیا۔

جس طرح دل کے ہسپتال کیلئے دل کے امراض کے ماہرین سے رائے لی جاتی ہے اسی طرح خصوصی افراد کے ہسپتال کیلئے خصوصی افرادا ور ان کے ڈاکٹرز کو اس کے بورڈ میں شامل کرنا چاہیے تھا، سوائے میرے باقی سب کا تعلق دوسرے شعبوں سے تھا جنہیں خصوصی افراد، معذوری اور اس سے منسلک مسائل کا درست علم نہیں تھا جس کے باعث یہ ہسپتال نہیں بن سکا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس وقت بھی میں نے اس ہسپتال کیلئے کوشش کی، آئندہ جو بھی حکومت آئے گی۔

ا س میں بھی خصوصی افراد کیلئے خصوصی ہسپتال بنانے کیلئے بھرپور کام کروں گا۔ ہر صوبے میں خصوصی افراد کیلئے کم از کم ایک ہسپتال لازمی ہونا ہوچاہیے۔ 3 دسمبر کو خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ میں نے رواں برس یہ موضوع تجویز کیا ہے کہ اسے والدین کی آگاہی کے ساتھ جوڑا جائے۔ ہمیں خصوصی بچوں کے والدین کو مضبوط بنانا ہے اور آگہی دینی ہے۔ انہیں بتانا ہے کہ ان کے بچوں کو کیا مرض ہے۔

اس کی تشخیص کا طریقہ کیا ہے، علاج کیسے ہوگا۔ ہمارے ہاں والدین کو رہنمائی نہیں ملتی جس کی وجہ سے بچوں کی معذوری بڑھ جاتی ہے۔ بعض ورزشیں تو ایسی ہیں جو والدین گھر پر ہی اپنے بچوں کو کروا سکتے ہیں لیکن انہیں معالج کے پاس گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، وقت اور پیسہ دونوں کو ضیا ع ہوتا ہے۔

جہاں ضروری ہو وہاں معالج کے پاس ضرور جائیں لیکن ہمیںو الدین کو 'ہوم پروگرام' دینا چاہیے تاکہ وہ بچوں کی بہتر نگہداشت کر سکیں۔میں نے میو ہسپتال لاہور میں 'مدرز ڈاکٹر' منصوبے کا آغاز کیا تھا جس میں ہم خصوصی بچوں کی ماؤں کی تربیت کرتے تھے تاکہ وہ اپنے بچوں کی خود موثر دیکھ بھال کر سکیں۔ 2 کروڑ معذور افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اپنی ترجیحات متعین کرنی چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے انہیں بوجھ بنانا ہے یا انہیں خودمختار کرنا ہے؟

ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر خصوصی افراد کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا جائے،ا س سے وہ نہ صرف اپنی حالت بہتر بنا سکیں گے بلکہ ملکی معیشت میں بھی حصہ ڈالیں گے۔ حکومت کے بعض اقدامات اچھے ہیں جو ہماری طویل جدوجہد کے بعد ممکن ہوسکے۔ اس حوالے سے تعلیم اور ملازمت کیلئے کوٹہ مختص کیا گیا۔ خصوصی افراد آج بھی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں، ان کی حالت بہتر بناناحکومت کا کام ہے۔

میں نے جنرل ضیاء الحق سے خصوصی ہسپتال بنانے کا مطالبہ کیا۔ میاں محمد نواز شریف سے میو ہسپتال لاہور میں ایک الگ شعبہ قائم کیا۔ یہاں مصنوعی اعضاء بنانے کے کام کا آغاز کیا۔ 2005ء کے زلزلے اور بعد ازاں سیلاب میں بھی ہم نے اور ہمارے رضاکاروں نے کام کیا اور متاثرین کو مصنوعی اعضاء لگائے گئے۔

ضرورت یہ ہے کہ خصوصی افراد کیلئے موثر کام کیا جائے۔ پاکستان کو 'ری ہیب' کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے جن کی اس میں سپیشلائزیشن ہو۔ فوج میں تو سپیشلسٹ موجود ہیں لیکن سول میں ہم نے جن ڈاکٹرز کو تربیت دی ان میں سے بیشتر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہسپتال اور ملازمت کے مواقع نہیں ہیں لہٰذاس حکومت کواس حوالے سے جامع لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان بہت سارے ممالک سے بہتر ہے۔

ہمارے ہاں معیار تعلیم بہتر ہے۔ یہاں وہیل چیئرز ، سرجیکل آلات و دیگر حوالے سے معاملات اچھے ہیں لیکن اداروں کے درمیان کووارڈینیشن نہیں ہے۔ کسی مریض کی سرجری ہونی چاہیے یا نہیں، مصنوعی ٹانگ لگنی چاہیے یا نہیں،دنیا میں اس حوالے سے بورڈ فیصلہ کرتا ہے مگر ہمارے ہاں فرد واحد (سرجن)فیصلہ کرکے سرجری کر دیتا ہے۔ اگر مریض فزیوتھراپسٹ کے پاس چلا جائے تو وہ کہتا ہے کہ ورزش کافی ہے۔

اگر فزیشن کے پاس چلا جائے تو وہ کہتا ہے کہ صرف ادویات کافی ہیں۔ 'ری ہیبلی ٹیشن' ٹیم ورک ہے جس میں فراد واحد نہیں بلکہ ماہرین باہم مشاورت سے معاملات طے کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ری ہیبلی ٹیشن میڈیسن کا ایک الگ شعبہ ہونا چاہیے۔

ہر صوبے اور ڈویژن کی سطح پر کم از کم ایک ایک خصوصی ہسپتال قائم کیا جائے۔ جو طلبہ اس شعبے میں سپیشلائزیشن کرنا چاہیں انہیں سکالر شپ دینی چاہیے۔ خصوصی افراد کیلئے بڑے اقدامات ضروری ہیں جن کیلئے حکومتی وِل چاہیے۔

ڈاکٹر اظہار ہاشمی

(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار دی ڈس ایببل)

یہ صدی اور آنے والی صدیاں، افراد باہم معذوری کی ہیں کیونکہ ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ آج سے بیس برس قبل عالمی ادارہ صحت کے مطابق معمولی سے انتہائی معذوری کی شرح 10فیصد کے قریب تھی جبکہ حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ شرح 16 فیصد ہوچکی ہے۔


اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں 1.3 ارب افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں، اس میں پوشیدہ معذوری شامل نہیں ہے۔ ان اعداد و شمار میں 34.4 فیصدافراد ٹانگ، بازو، ہڈیوں یا نیورو مسکلر مسائل کی وجہ معذور ہیں۔ 31.1 فیصد افراد سماعت جبکہ 31.2 فیصد ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ نابینا افراد کی تعداد 21.5 فیصد ہے۔ 16.4 فیصد افراد کو زندگی گزارنے کیلئے معاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

7.5 فیصد افراد انتہائی معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات بھی خود نہیں کر سکتے۔دنیا کے خصوصی افراد کا 80 فیصد جنوبی کے خطے میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو ترقی پزیر ممالک ہیں۔

افراد باہم معذور کی عمر نارمل افراد سے کم ہوتی ہے۔ معذوری کی بعض اقسام میں نارمل افراد کی نسبت ان کی وفات 20 برس قبل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انہیں دمہ، ڈپریشن، سٹروک، موٹاپا اور ذیابطیس سمیت مختلف دائمی بیماریاں ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے سائیکو سوشل مسائل کا علاج کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معذوری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جن ممالک میں70 برس عمر کے افراد موجود ہیں وہ اپنی زندگی کے 8 برس کسی نہ کسی معذوری میں گزارتے ہیں۔ پاکستان کی بات کریں تو ہمارا مسئلہ دنیا سے مختلف ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے لہٰذا یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کیا کام کرنا ہے، کن کیلئے کرنا ہے اور کس جگہ کرنا ہے۔ جب تک ڈیٹا نہیں ہوگا تب تک خصوصی افراد کی معاشی، معاشرتی، جسمانی اور نفسیاتی بحالی کیسے کی جاسکتی ہے، انہیں معاشرے کا فعال شہری کیسے بنایا جاسکتا ہے۔1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد 2.48 فیصد تھی لیکن جب 2017ء کی مردم شماری دیکھتے ہیں تو یہ شرح 0.48 فیصد رہ گئی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے معذوری ختم کر دی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں معذوری کی شرح 16 فیصد ہے۔ انہوں نے اٹک اور زیارت میں جو سروے کیے ہیں ان کے مطابق یہ شرح بالترتیب 15.5 اور 16.6 فیصد ہے۔ اسی طرح 3 برس سے لے کر 16 برس کی عمر کے بچوں پر ہونے والے ایک سروے کے مطابق یہ شرح 2.72فیصد ہے۔

اسی طرح2017ء میں 8 سے 12 برس عمر کے بچوں پر کیے گئے سروے میں یہ شرح 11.2 فیصد آئی، ان میں ڈپریشن و غیرہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ لاہور، ملتان اور بہاولپور میں 5 سے 16 برس عمر کے بچوں پر کیے جانے والے سروے میں یہ شرح 18.5 فیصد آئی۔ ان میں مایوسی اور پریشانی والے بچوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان پاورٹی الیویشن فنڈ کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میںمعذوری کی شرح 14 فیصد کے قریب ہے۔

پاکستان 2011ء میں معذوری کے حامل افراد کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق کر چکا ہے۔ اس کے تحت وفاق اور صوبوں میں ایکٹ بن چکے ہیں جن پر بعض جگہ عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔ہمیں سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ خصوصی افراد کے مسائل کیا ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خصوصی افراد کے معاشرے میں فعال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ جی ڈی پی میں 4.6 سے 6.1 فیصد تک نقصان ہوتا ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی توثیق بھی کر رکھی ہے۔ پاکستان پہلا ملک ہے جس نے SDGs 2023 پر دستخط کیے۔ ان میں پانچ اہداف 4، 8، 10، 11 اور 17 کا براہ راست تعلق افراد باہم معذوری سے ہے۔ اگر ہم انڈیکیٹرز اور ٹارگٹس کو دیکھیں تو یہ 32 کے قریب ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح افراد باہم معذوری سے تعلق بنتا ہے۔

افراد باہم معذوری معاشرے میں پیچھے رہ جاتے ہیں لہٰذا میرے نزدیک پائیدار ترقی کے اہداف کے 17 گولز اور 169 انڈیکیٹرز خصوصی افراد کی زندگی میں بہتری لاسکتے ہیں۔ پاکستان ، خصوصاََپنجاب میں خصوصی افراد کے حوالے سے مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ حکومت اپنی کوشش کرتی ہے مگر معاشی عدم استحکام،ٹیکنالوجی،ا ٓلات و دیگر وسائل کی عدم موجودگی بڑا مسئلہ ہے۔ ہم دنیا میں اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے 24 ملین نارمل بچے سکول نہیں جاتے، ایسے میں خصوصی بچوں کی حالت کیا ہوگی؟پنجاب میں سپیشل ایجوکیشن اور این جی اوز کے سکولوں میں ایک لاکھ سے کم خصوصی بچے زیر تعلیم ہیں۔

خصوصی بچوں کے حوالے سے تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات نہیں ہیں لہٰذا یہ معاشرے کے فعال شہری کیسے بن سکتے ہیں؟سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ بیت المال، خصوصی افراد کے حوالے سے کام کرنے میں سرفہرست ہیں۔

معذوری کے سرٹیفکیٹ کا اجرائ، این جی اوز کی رجسٹریشن، پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ جیسے اداروں کا قیام، اضلاع اور تحصیل کی سطح پر خصوصی افراد کیلئے سہولیات، معذوری کے سرٹیفکیٹ کی آن لائن دستیابی جیسے کام قابل ذکر ہیں۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی ایک لاکھ کے قریب خصوصی افراد کو خدمت کارڈ کے ذریعے ماہانہ وظائف دیتی ہے، اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ ڈھائی ارب کے قریب ہے جو خصوصی افراد پر خرچ ہوتا ہے۔

محکمہ لیبر بھی خصوصی افراد کے حوالے سے کام کرتا ہے جو ملازمت میںان کیلئے مختص 3 فیصد کوٹہ کو یقینی بنا رہی ہے جس پر 90 فیصد سے زائد کام ہوچکا ہے۔ میرے نزدیک خصوصی افراد کو خودمختار بنانا اہم ہے۔

اس سلسلے میں پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی اور اخوت نے مل کر 32 ہزار کے قریب خصوصی افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے جن کی ریکوری 100 فیصد ہے۔ افراد باہم معذوری کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بنیادی تربیت، تعلیم، ٹیکنیکل سکلز، انفراسٹرکچر تک رسائی، ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کی درست سہولیات کا نہ ہونا ہے۔

نجی شعبے کو خصوصی افراد کو ہنر مند بنانے اور روزگار فراہم کرنے میں آگے آنا ہوگا۔ ان افراد کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ معذوری کے حوالے سے ملک بھر سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے اور اس کی روشنی میں ان کے مسائل حل کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

لالہ جی سعید اقبال مرزا

(چیئرمین پاکستان سپیشل پرسنز اسلام آباد، ممبر ڈویژنل امن کمیٹی گوجرانوالہ، قائد اعظم گولڈ میڈلسٹ)

خصوصی افراد معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔ پاکستان میں ان کی تعداد 2 کروڑ، پنجاب میں 50 لاکھ اور سندھ میں 30 لاکھ ہے۔ ہر سا ل خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، اقدامات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے مگر اس پر عملاََ کوئی کام نہیں ہوا۔ میں 1980ء سے معذور افراد کیلئے ملک بھر میں کام کر رہا ہوں۔

خصوصی افراد کے لیے میں نے اور ڈاکٹر خالد جمیل نے خصوصی افراد کیلئے جتنا کام کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ ہمیں جنرل ضیاء الحق سے معذور افراد کیلئے 1 فیصد کوٹہ منظور کروانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ملک میں مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ ہم نے خصوصی افراد کیلئے مختلف عمارتوں اور عوامی مقامات پر ریمپ بنوائے ہیں۔ خصوصی افراد کے لیے مخصوص 'لوگو' والے کارڈ کے اجراء کیلئے بھی ہم نے جدوجہد کی۔

اس کارڈ کے حامل افراد کیلئے ہوائی جہاز اور ریلوے میں سستا سفر ہے جبکہ 1300 سی سی تک گاڑی بھی امپورٹ کی جاسکتی ہے۔ وفاقی آرڈیننس 1981ء کے تحت 18 برس سے لے کر 40 برس کی عمر تک کے معذورافراد کی ملازمت یقینی ہے۔ جب خصوصی افراد ملازمت کیلئے درخواست دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ملازمت پر پابندی ہے، یہ سلوک افسوسناک ہے۔ بلدیاتی اداروں میں خصوصی افراد کیلئے ایک نشست رکھی گئی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میںخصوصی افرادکیلئے دو، دو نشستیں مختص کی جائیں۔

میری نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ خصوصی افراد کے حوالے سے کام کریں، یہ ان کیلئے صدقہ جاریہ ہوگا۔ پنجاب کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے،ا س کیلئے کاؤنٹرز کی تعداد بڑھائی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ موبائل وین سروس کا آغاز بھی کیا جائے تاکہ خصوصی افراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر سرٹیفکیٹ فراہم کیے جاسکیں۔ وفاق اور پنجاب میں خصوصی افراد کیلئے جو بورڈز موجود ہیں، ان میں خصوصی افراد کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔ ایسے افراد جو دوران سروس معذور ہوجاتے ہیں ۔

ان کے بچوں کو ملازمت دی جائے۔ ایسے خصوصی افراد جو کام نہیں کر سکتے، انہیں وظیفہ کی صورت میں بھیک نہ دی جائے بلکہ ان کے بچوں کو ملازمت دی جائے،جو ٹیکنیکل کام جانتے ہیں انہیں 5 لاکھ روپیہ بلا سود قرضہ آسان شرائط پر دیا جائے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کیلئے اگر کسی نے کام کیا ہے تو وہ جنرل ضیاء الحق ہیں۔

آج خصوصی افراد کیلئے کوٹہ 3 ہوچکا ہے مگر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ضلع گجرات میں سرکار کے سپیشل ایجوکیشن سینٹرز، پرائیوٹ عمارتوں میں چل رہے ہیں جن کا کروڑوں روپیہ کرایہ خزانے پر اضافہ بوجھ ہے۔ بیت المال اورزکوٰۃ کے محکموں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ میرے نزدیک بیت المال، زکوٰۃ اور سوشل ویلفیئر کے محکموں کو ضم کر دیا جائے،ا س سے وسائل بھی کم خرچ ہونگے اور کام بھی موثر انداز میں ہوسکے گا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور چیف سیکرٹری پنجاب اختر زمان سے اپیل ہے کہ پنجاب کے تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو پابند کریں کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے خصوصی افراد کا ڈیٹا اکٹھا کریں، ان سے ملیں اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے دن رات کام کریں۔

ہمارے دیرینہ مطالبے پر سابق وزیر سید تنویر اشرف کائرہ نے گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر لالہ موسیٰ بنوایا۔ سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے خصوصی افراد کیلئے بہت کام کیا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹر لالہ موسیٰ کو خصوصی افراد کیلئے کام کرنے والوں کے نام سے منسوب کیا جائے اور حکومتی اعزازات سے خصوصی افراد کو بھی نوازا جائے۔
Load Next Story