ریاست کا سیاسی اور معاشی بحران
سیاسی جماعتوں نے خود کو اس حد تک کمزور کرلیا ہے کہ ان کی سیاسی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے
ریاست اوراس سے جڑے سیاسی ، انتظامی، قانونی اورمعاشی بحران کو سمجھنے کے لیے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہاں ریاست اور حکومت کی حکمرانی کا نظام '' اقتدار کے حصول کی سیاست '' سے جڑا ہوا ہے۔
اقتدار کا حصول ایک فطری نظام ہے لیکن اگر اقتدار کی سیاست میں سے عوام کو عملی طور پر نکال دیا جائے تو ایسی حکمرانی یا ریاستی نظام اپنی ساکھ سمیت افادیت کے عمل کو بھی کھو دیتا ہے۔
یہ ہی حقیقت ہے کہ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت کا مرکزی نقطہ اقتدار کی سیاست ہے تو دوسری طرف غیر سیاسی قوتیں بھی '' طاقت کی حکمرانی '' کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی کشمکش کا کھیل '' عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی '' کے نظام کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے یا طاقت کی حکمرانی کے نظام میں عوامی مفادات کی ترجیحات کا عمل بہت پیچھے چلاجاتا ہے۔
دنیا میں ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی کنجی عوام یا ریاستی سطح پر عوام سے کیے گئے وعدوں ,معاہدوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں عوام کی حیثیت محض ایک بڑے سیاسی تماشائی کے او رکچھ بھی نہیں اور لوگوں کو نہ صرف سیاسی اور معاشی معاملات کی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ مجموعی حکمرانی کے نظام میں ان کی شمولیت پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔
یہاں تک کہ جمہوری معاشروں میں عوامی حکمرانی کے لیے عوام کو ووٹ کی مدد سے حکمرانی کے نظام میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کرنے کی آزادی ہوتی ہے ۔مگر ہماری سیاسی تاریخ ہو یا انتخابی تاریخ ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ یہاں حکمرانی کا نظام جو بذریعہ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر سامنے آتی ہے، یہ مکمل سچ نہیں ۔
کیونکہ عوام کے ووٹوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کی اپنی مرضی ، منشا اور خواہشات سمیت کسی کی حمایت یا مخالفت کی بنا پر انتخابی نظام پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں یہ پیغام واضح ہے کہ ہمیں عوام کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کے بجائے اصل توجہ پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کی بہتری پر لگانے چاہیے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات عوام کی حمایت کے بجائے پس پردہ قوتوں کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے ۔
اگرچہ سیاسی جماعتوںکی ترجیحات کا بنیادی نقطہ عوامی مفادات ہی ہوتے ہیں اور اسی نقطہ کو بنیاد پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر عملی طور پر ہمارا مجموعی ریاستی ، سیاسی یا حکومتی نظام بڑے طاقتور طبقات کے گرد گھومتا ہے اور ان ہی کے مفادات کو ہی بالادستی حاصل ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کا ریاستی و حکومتی نظام اور عوام میں ایک بڑی سیاسی , سماجی او رمعاشی خلیج واضح نظر آرہی ہے ۔
لوگوں کو اپنے ہی ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کا عمل کمزور ہورہا ہے ۔ ایک طرف عوامی مفادات پر مبنی کمزور حکمرانی کا نظام اور دوسری طرف ریاستی یا سیاست کے عمل میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، نفرت، تشدد، تعصب او رایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا عمل ہمارے مجموعی ریاستی عمل یا نظام کو کمزور کررہا ہے ۔ یہ جو طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جہاں طاقتور اور کمزور افراد یا محروم طبقات کے درمیان مختلف اور تضادات پر مبنی پالیسیاں ہیں وہی معاشرے میں ایک بڑے انتشار کا سبب بن رہی ہیں ۔
ریاستی یا حکومتی بحران کا پیدا ہونا ایک مسئلہ مگر اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا دوسرا مسئلہ اور عوامی حکمرانی کے بجائے طاقتور افراد یا اداروں کے درمیان حکمرانی کے نظام کے تانے بانے تیسرا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
ریاستوں میں مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے مگر اگر ہم اپنی سیاست اور سیاسی یا ریاستی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان مسائل کو حل نہیں کریں گے تو کیونکر لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال ہوگا ۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ '' طاقت کی لڑائی '' میں جو بھی سیاسی یا غیرسیاسی فریق شامل ہیں سب کو ہی طاقت کی حکمرانی کا نشہ ہی سوار ہوا ہے اور ہمیں عوامی مسائل یا اس سے جڑے مشکلات پر کوئی نہ تو حیرانگی ہے او رنہ ہی اس کو حل کرنے کے حوالے سے ہماری کوئی عملی کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں بالخصوص جو اقتدار میں شامل ہوتی ہیں ان کے پاس دو ہی نقطہ ہوتے ہیں اول عوامی مسائل کا درست ادراک او راس پر ٹھوس منصوبہ بندی اور دوئم ان مسائل کے حل میں ان کا روڈ میپ اور عملدرآمد کا موثر نظام ہوتا ہے۔آپ کسی بھی سطح پر عملا سیاسی جماعتوںکے منشور اور پالیسیوں کو دیکھ لیں تو اس میں عوامی مسائل کی جھلک کم یا عملی منصوبہ بندی اور وسائل کی درست تقسیم کا عمل بھی کمزور نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے خود کو اس حد تک کمزور کرلیا ہے کہ ان کی سیاسی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کی کمزوری ان کو اور زیادہ سیاسی تنہائی میں مبتلا کررہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں جو علمی و فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا واضح اور گہرا فقدان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے بانجھ پن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتے جارہے ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک کمزور وکٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں او ران کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں تواتر کے ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت ہی ایک متبادل نظام پیش کرتی ہیں اور جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت بھی ہوتی ہے اور لوگ ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں۔
لیکن جو آج ہماری سیاسی جماعتوں کا انداز سیاست ہے اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں ۔کیونکہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا نظام خود ایک مثبت اور بڑ ی تبدیلی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے او راس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلوں کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ ، سب کو ہی سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔ کیونکہ جس انداز میں ریاستی عمل کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہے وہ تشویش کا پہلو ہے او رہمیں ریڈ لائن کی طرف لے کر جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، قانونی اور انتظامی سمیت معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومی اور استحصا ل کی سیاست یا حکمرانی عوام کو مزید تنہا کررہی ہے ۔
یہ عملا مشکل حالات ہیں اور غیر معمولی بھی اور اس کا علاج بھی غیر معمولی ہی ہونا چاہیے ۔یہ جو ہمارے شاندار الفاظ ہیں یا جذباتیت پر مبنی نعرے یا خوش نما دعووں کی سیاست ہو یا سب کچھ مثبت طور پر بدلنے کی لگن ، شوق اور جنون ہو جب تک عوام ان معاملات کو حقیقی معنوں میں تبدیل یا بہتر حالات کی صورت میں نہیں دیکھیں گے تو کچھ نہیں بدلے گا ۔
کاش ہمارا ریاستی او رحکومتی نظام عام آدمی یا محروم طبقات کی کمزور آوازوں کو سن سکتا اور ان کے کانوں میں عام آدمی کی صدائیں گونجتی کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا ان کی سیاسی اور معاشی توقعات کیا ہیں ۔
ہمارے ریاستی یا حکومتی نظام کو گونگے یا بہرے پن سے باہر نکلنا ہوگا۔ کھلی آنکھوں سے اور لوگوں کی آوازوں سے جائزہ لینا ہوگا کہ لوگ حقیقی معنوں میں کہاں کھڑے ہیں او رکیونکر ان میں مایوسی یا لاتعلقی کا عمل بڑھ رہا ہے ۔آمدنی اور آخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن اور دیگر سیاسی و معاشی یا قانونی ناہمواریوں نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ کھڑی کردی ہیں ۔
یہ جو ہم سیاسی , سماجی محاذپر اسلامی , جمہوری اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا یا ہمیں یہ خواب دکھایا گیا تھا اس کی تکمیل, تعبیر کیسے ممکن ہوگی اور کیسے عوام یا لوگوں کا اجتماعی شعور اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام کمزور آدمی کے ساتھ کھڑا ہے ۔اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر بڑی تبدیلیاں درکار ہیں ۔
یہ تبدیلیاں سخت گیر بھی ہونگی اور کڑوی بھی لیکن اس کڑوے پن کو ہضم کرنا ہوگا ۔ طاقتور لوگوں کو حکمرانی کے نظام میں جوابدہ بنانا او ران کے مقابلے میں کمزور افراد کو طاقتور بنانا ہی ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے ۔
لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میںممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمرانی کے نشے سے باہر نکل کر عوامی خدمت یا عوام کی حالت بدلنے کی حکمرانی کو اپنی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنالیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں مزید تکالیف پیدا کرے گا اور یہ پہلے سے موجود بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ بداعتمادی پیدا کرے گا جو ریاستی نظام کی مزید کمزوری کا سبب بنے گا۔
اقتدار کا حصول ایک فطری نظام ہے لیکن اگر اقتدار کی سیاست میں سے عوام کو عملی طور پر نکال دیا جائے تو ایسی حکمرانی یا ریاستی نظام اپنی ساکھ سمیت افادیت کے عمل کو بھی کھو دیتا ہے۔
یہ ہی حقیقت ہے کہ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت کا مرکزی نقطہ اقتدار کی سیاست ہے تو دوسری طرف غیر سیاسی قوتیں بھی '' طاقت کی حکمرانی '' کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی کشمکش کا کھیل '' عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی '' کے نظام کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے یا طاقت کی حکمرانی کے نظام میں عوامی مفادات کی ترجیحات کا عمل بہت پیچھے چلاجاتا ہے۔
دنیا میں ریاستی یا حکمرانی کے نظام کی کنجی عوام یا ریاستی سطح پر عوام سے کیے گئے وعدوں ,معاہدوں پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست میں عوام کی حیثیت محض ایک بڑے سیاسی تماشائی کے او رکچھ بھی نہیں اور لوگوں کو نہ صرف سیاسی اور معاشی معاملات کی سطح پر اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ مجموعی حکمرانی کے نظام میں ان کی شمولیت پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔
یہاں تک کہ جمہوری معاشروں میں عوامی حکمرانی کے لیے عوام کو ووٹ کی مدد سے حکمرانی کے نظام میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق قیادت کا انتخاب کرنے کی آزادی ہوتی ہے ۔مگر ہماری سیاسی تاریخ ہو یا انتخابی تاریخ ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ یہاں حکمرانی کا نظام جو بذریعہ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر سامنے آتی ہے، یہ مکمل سچ نہیں ۔
کیونکہ عوام کے ووٹوں کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کی اپنی مرضی ، منشا اور خواہشات سمیت کسی کی حمایت یا مخالفت کی بنا پر انتخابی نظام پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں یہ پیغام واضح ہے کہ ہمیں عوام کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کے بجائے اصل توجہ پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کی بہتری پر لگانے چاہیے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات عوام کی حمایت کے بجائے پس پردہ قوتوں کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے ۔
اگرچہ سیاسی جماعتوںکی ترجیحات کا بنیادی نقطہ عوامی مفادات ہی ہوتے ہیں اور اسی نقطہ کو بنیاد پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر عملی طور پر ہمارا مجموعی ریاستی ، سیاسی یا حکومتی نظام بڑے طاقتور طبقات کے گرد گھومتا ہے اور ان ہی کے مفادات کو ہی بالادستی حاصل ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کا ریاستی و حکومتی نظام اور عوام میں ایک بڑی سیاسی , سماجی او رمعاشی خلیج واضح نظر آرہی ہے ۔
لوگوں کو اپنے ہی ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد کا عمل کمزور ہورہا ہے ۔ ایک طرف عوامی مفادات پر مبنی کمزور حکمرانی کا نظام اور دوسری طرف ریاستی یا سیاست کے عمل میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی ، ٹکراؤ ، نفرت، تشدد، تعصب او رایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا عمل ہمارے مجموعی ریاستی عمل یا نظام کو کمزور کررہا ہے ۔ یہ جو طبقاتی حکمرانی کا نظام ہے جہاں طاقتور اور کمزور افراد یا محروم طبقات کے درمیان مختلف اور تضادات پر مبنی پالیسیاں ہیں وہی معاشرے میں ایک بڑے انتشار کا سبب بن رہی ہیں ۔
ریاستی یا حکومتی بحران کا پیدا ہونا ایک مسئلہ مگر اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا دوسرا مسئلہ اور عوامی حکمرانی کے بجائے طاقتور افراد یا اداروں کے درمیان حکمرانی کے نظام کے تانے بانے تیسرا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
ریاستوں میں مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے مگر اگر ہم اپنی سیاست اور سیاسی یا ریاستی فیصلوں کو بنیاد بنا کر ان مسائل کو حل نہیں کریں گے تو کیونکر لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال ہوگا ۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ '' طاقت کی لڑائی '' میں جو بھی سیاسی یا غیرسیاسی فریق شامل ہیں سب کو ہی طاقت کی حکمرانی کا نشہ ہی سوار ہوا ہے اور ہمیں عوامی مسائل یا اس سے جڑے مشکلات پر کوئی نہ تو حیرانگی ہے او رنہ ہی اس کو حل کرنے کے حوالے سے ہماری کوئی عملی کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتیں بالخصوص جو اقتدار میں شامل ہوتی ہیں ان کے پاس دو ہی نقطہ ہوتے ہیں اول عوامی مسائل کا درست ادراک او راس پر ٹھوس منصوبہ بندی اور دوئم ان مسائل کے حل میں ان کا روڈ میپ اور عملدرآمد کا موثر نظام ہوتا ہے۔آپ کسی بھی سطح پر عملا سیاسی جماعتوںکے منشور اور پالیسیوں کو دیکھ لیں تو اس میں عوامی مسائل کی جھلک کم یا عملی منصوبہ بندی اور وسائل کی درست تقسیم کا عمل بھی کمزور نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے خود کو اس حد تک کمزور کرلیا ہے کہ ان کی سیاسی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کی کمزوری ان کو اور زیادہ سیاسی تنہائی میں مبتلا کررہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں جو علمی و فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا واضح اور گہرا فقدان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے بانجھ پن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتے جارہے ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک کمزور وکٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں او ران کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتیں تواتر کے ساتھ طاقتور ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت ہی ایک متبادل نظام پیش کرتی ہیں اور جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت بھی ہوتی ہے اور لوگ ان پر بھروسہ بھی کرتے ہیں۔
لیکن جو آج ہماری سیاسی جماعتوں کا انداز سیاست ہے اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں ۔کیونکہ موجودہ سیاسی جماعتوں کا نظام خود ایک مثبت اور بڑ ی تبدیلی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے او راس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلوں کے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکے گا۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ ، سب کو ہی سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔ کیونکہ جس انداز میں ریاستی عمل کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہے وہ تشویش کا پہلو ہے او رہمیں ریڈ لائن کی طرف لے کر جارہا ہے۔ سیاسی، سماجی، قانونی اور انتظامی سمیت معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومی اور استحصا ل کی سیاست یا حکمرانی عوام کو مزید تنہا کررہی ہے ۔
یہ عملا مشکل حالات ہیں اور غیر معمولی بھی اور اس کا علاج بھی غیر معمولی ہی ہونا چاہیے ۔یہ جو ہمارے شاندار الفاظ ہیں یا جذباتیت پر مبنی نعرے یا خوش نما دعووں کی سیاست ہو یا سب کچھ مثبت طور پر بدلنے کی لگن ، شوق اور جنون ہو جب تک عوام ان معاملات کو حقیقی معنوں میں تبدیل یا بہتر حالات کی صورت میں نہیں دیکھیں گے تو کچھ نہیں بدلے گا ۔
کاش ہمارا ریاستی او رحکومتی نظام عام آدمی یا محروم طبقات کی کمزور آوازوں کو سن سکتا اور ان کے کانوں میں عام آدمی کی صدائیں گونجتی کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا ان کی سیاسی اور معاشی توقعات کیا ہیں ۔
ہمارے ریاستی یا حکومتی نظام کو گونگے یا بہرے پن سے باہر نکلنا ہوگا۔ کھلی آنکھوں سے اور لوگوں کی آوازوں سے جائزہ لینا ہوگا کہ لوگ حقیقی معنوں میں کہاں کھڑے ہیں او رکیونکر ان میں مایوسی یا لاتعلقی کا عمل بڑھ رہا ہے ۔آمدنی اور آخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن اور دیگر سیاسی و معاشی یا قانونی ناہمواریوں نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ کھڑی کردی ہیں ۔
یہ جو ہم سیاسی , سماجی محاذپر اسلامی , جمہوری اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا یا ہمیں یہ خواب دکھایا گیا تھا اس کی تکمیل, تعبیر کیسے ممکن ہوگی اور کیسے عوام یا لوگوں کا اجتماعی شعور اس بات کو تسلیم کرے گا کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام کمزور آدمی کے ساتھ کھڑا ہے ۔اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر بڑی تبدیلیاں درکار ہیں ۔
یہ تبدیلیاں سخت گیر بھی ہونگی اور کڑوی بھی لیکن اس کڑوے پن کو ہضم کرنا ہوگا ۔ طاقتور لوگوں کو حکمرانی کے نظام میں جوابدہ بنانا او ران کے مقابلے میں کمزور افراد کو طاقتور بنانا ہی ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے ۔
لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میںممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمرانی کے نشے سے باہر نکل کر عوامی خدمت یا عوام کی حالت بدلنے کی حکمرانی کو اپنی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنالیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں میں مزید تکالیف پیدا کرے گا اور یہ پہلے سے موجود بداعتمادی کے ماحول میں اور زیادہ بداعتمادی پیدا کرے گا جو ریاستی نظام کی مزید کمزوری کا سبب بنے گا۔