تشدد کا شکار کمسن ملازمہ رضوانہ صحتیابی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج
چیئرپرسن چائلڈپروٹیکشن بیوروکی جنرل اسپتال میں رضوانہ سے ملاقات، تعلیم و نگہداشت کے انتظامات کیے جائینگے، سارہ احمد
سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کا شکار کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ صحت یاب ہونے کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کردی گئی۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے جنرل اسپتال آکر گھریلو تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ بچی رضوانہ اب مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی ہے۔ عدالتی احکامات پر رضوانہ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو تحویل میں لے رہا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: رضوانہ تشدد کیس؛ کمسن بچی نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا
انہوں نے کہا کہ عدالت نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو رضوانہ کی ذمے داری سونپی ہے۔ رضوانہ کو 5 ماہ اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ڈسچارج کیا جا رہا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رضوانہ کی تعلیم اور بہتر نگہداشت کے انتظامات کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ تشدد کیس میں متاثرہ بچی رضوانہ نے پولیس کو اپنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا تھا کہ جج کی اہلیہ روزانہ تشدد کرتی تھیں اور مجھے ڈنڈوں سے مارتی تھیں۔ کمسن بچی رضوانہ نے پولیس کو بتایا کہ غصے میں آکرجج کی اہلیہ مجھے لاتیں اور ٹھڈے بھی مارتی تھی اور کئی کئی روز کمرے میں بند کر کے بھوکا رکھتی تھیں۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں مزید بتایا تھا کہ مجھے ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں ملتی تھی جب کہ ٹیلی فون پر بات کراتے وقت جج کی اہلیہ میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ میرے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں کراتے تھے۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے جنرل اسپتال آکر گھریلو تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ بچی رضوانہ اب مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی ہے۔ عدالتی احکامات پر رضوانہ کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو تحویل میں لے رہا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: رضوانہ تشدد کیس؛ کمسن بچی نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا
انہوں نے کہا کہ عدالت نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو رضوانہ کی ذمے داری سونپی ہے۔ رضوانہ کو 5 ماہ اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ڈسچارج کیا جا رہا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رضوانہ کی تعلیم اور بہتر نگہداشت کے انتظامات کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ تشدد کیس میں متاثرہ بچی رضوانہ نے پولیس کو اپنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا تھا کہ جج کی اہلیہ روزانہ تشدد کرتی تھیں اور مجھے ڈنڈوں سے مارتی تھیں۔ کمسن بچی رضوانہ نے پولیس کو بتایا کہ غصے میں آکرجج کی اہلیہ مجھے لاتیں اور ٹھڈے بھی مارتی تھی اور کئی کئی روز کمرے میں بند کر کے بھوکا رکھتی تھیں۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں مزید بتایا تھا کہ مجھے ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہیں ملتی تھی جب کہ ٹیلی فون پر بات کراتے وقت جج کی اہلیہ میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ میرے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہیں کراتے تھے۔