پیپلزپارٹی کی پنجاب میں سیاسی مہم
بہرحال آصف زرداری لاہور پہنچ گئے ہیں اور چند دن بعد بلاول بھی لاہور آرہے ہیں
پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف بھر پور محاذ کھول رکھا ہے۔ پہلے بلاول بھٹو نے محاذ گرم کیا ہوا تھا۔ ا ب آصف زرداری بھی سا تھ شامل ہو گئے ہیں۔
انھوں نے بلاول کو بریک لگانے کی کوشش کی تھی لیکن لگتا ہے کہ بلاول کی ناراضگی نے آصفٖ زرداری کو سیاسی طور پر سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے دونوں کے دورہ دبئی کے بعد اب آصف زرداری بھی بلاول کے ہمنوا نظر آتے ہیں۔
پہلے صرف بلاول حملہ آور تھے لیکن اب آصف زرداری ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر حملہ کا کوئی موقع دونوں ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ تادم تحریر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی بلاول اور آصف زرداری کو کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جواب نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے محاذ آرائی کا وہ ماحول نہیں بن سکا ہے جس کی پیپلزپارٹی کوشش کر رہی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ آرائی اور ماحول کو گرم رکھنا بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہی سیاسی پلان کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس پالیسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت اور آشیر باد حاصل ہے۔
بلاول مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بلاول کو کہا ہے کہ آپ نے تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف اپنی تقاریر میں بات نہیں کرنی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ انتخابی مہم میں چیئرمین تحریک انصاف کچھ زیادہ فوکس میں آئیں۔
اس لیے جب ان کا ذکر نہیں کیا جائے گا تو وہ فوکس میں بھی نہیں آئیں گے۔ اس لیے بلاول کو میاں نواز شریف اور ن لیگ پر محاذ گرم رکھنے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح انتخابات میں نواز شریف فوکس میں رہیں گے۔ لیکن آصف زرداری کو علم ہے کہ اس کے نتیجے میں ن لیگ سے تعلقات زیادہ خراب ہو جائیں گے جس کا سیاسی نقصان بھی ہوگا۔
بہرحال آصف زرداری لاہور پہنچ گئے ہیں اور چند دن بعد بلاول بھی لاہور آرہے ہیں۔ بلاول پنجاب کا تفصیلی دورہ کریں گے جہاں وہ پنجاب کی زمین کو سیاسی طورپر گرم کرنے کی کوشش کر یں گے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آصف زرداری بلاول کے دورہ پنجاب کی تیاری کے لیے پہلے لاہور آگئے ہیں۔
یہ آصف زرداری کا کوئی پہلا دورہ لاہور اور پنجاب نہیں ہے۔ ان کے لاہور اور پنجاب کے دورے بڑھ گئے ہیں۔وہ باقاعدگی سے لاہور اور پنجاب آرہے ہیں۔ انھوں نے پنجاب میںبہت سے نامور لوگوں کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے لیکن کوئی شامل ہونے کے لیے نہیں مانا ہے۔ یہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اب بلاول پنجاب آرہے ہیں تو کیا کریں گے۔
چند پریس کانفرنس تو کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لاہور میں کوئی پاور شو کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ کیا پیپلزپارٹی نواز شریف کے مقابلے میں مینار پاکستان پر عوامی جلسہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
تحریک انصاف کے پاس تو بہانہ ہے کہ انھیں اجازت نہیں ملتی۔ لیکن پیپلزپارٹی کو تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کر رہے ہیں۔ انھیں اجازت بھی مل رہی ہے بلکہ عوامی اجتماعات کے لیے انتظامی سہولت کاری بھی مل رہی ہے۔
اس لیے انھیں پنجاب میں کوئی مسائل نہیں ہیں۔ ویسے بھی آصف زرداری اپنے انٹرویو میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو دوبارہ اپنا بیٹا قرار دے چکے ہیں بلکہ نگران حکومت پر تنقید کرنے والے ندیم افضل چن کے بارے میں کہا کہ انھیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس لیے پنجاب میں بھر پور سیاسی سرگرمیوں کے لیے انھیں مکمل آزادی حا صل ہے۔
زرداری صاحب کا ایک بیٹا وزیر اعلیٰ ہے دوسرا بیٹا سیاسی میدان میں ہے۔ اس سے بہترین صورتحال کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے تحت بلاول اور پیپلزپارٹی لاہور میں کوئی بھی پاور شو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عمومی رائے یہ ہے کہ اگر پاور شو نواز شریف کے 21اکتوبر کے شو سے کم ہوا تو پیپلزپارٹی اور بلاول کا بہت سیاسی نقصان ہو جائے گا۔ اس لیے لاہور سے بھاگنے کا پروگرام ہے۔ لاہور سے صرف سیاسی بڑھکیں ماری جائیں گی۔ لیکن کوئی بڑا سیاسی شو نہیں کیا جائے گا۔ اب تک کے پروگرام کے مطابق قمر زمان قائرہ نے لالہ موسیٰ میں ایک جلسہ کروانے کی حامی بھری ہے۔
حسن مرتضیٰ نے چنیوٹ میں جلسہ کروانے کی حامی بھری ہے۔اسی طرح چوہدری منظور نے قصورمیں جلسہ کروانے کا کہا ہے۔
اس طرح ابھی تک تین جلسے طے ہوئے ہیں۔ تا ہم بلاول کا فیصل آباد سیالکوٹ جانے کا بھی پروگرام ہے۔ لیکن وہاں کوئی عوامی اجتماعات نہیں ہونگے۔ زیادہ زور ملاقاتوں اور میڈیا سے بات چیت پر ہی ہوگا۔ شائد پنجاب کی سیاسی صورتحال کا اندازہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں تمام نشستوں پر انتخابات لڑنے کے لیے موزوں امیدوار بھی نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کو تمام نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے پر بھی مسئلہ ہوگا۔ اسی لیے جہاں سندھ، کے پی میں پیپلزپارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شروع نظر آتا ہے وہاں پنجاب میں اس حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں ہے۔
چند لیڈر ہیں جو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہروں کے شہر اور اضلاع کے اضلاع خالی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال جائز ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں امیدوار ہی نہیں ہیں تو وہ ن لیگ کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ خالی سیٹوں پر تو مقابلہ نہیں ہوگا۔
انھوں نے بلاول کو بریک لگانے کی کوشش کی تھی لیکن لگتا ہے کہ بلاول کی ناراضگی نے آصفٖ زرداری کو سیاسی طور پر سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے دونوں کے دورہ دبئی کے بعد اب آصف زرداری بھی بلاول کے ہمنوا نظر آتے ہیں۔
پہلے صرف بلاول حملہ آور تھے لیکن اب آصف زرداری ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پر حملہ کا کوئی موقع دونوں ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ تادم تحریر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی بلاول اور آصف زرداری کو کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جواب نہ دینے کی پالیسی کی وجہ سے محاذ آرائی کا وہ ماحول نہیں بن سکا ہے جس کی پیپلزپارٹی کوشش کر رہی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف محاذ آرائی اور ماحول کو گرم رکھنا بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہی سیاسی پلان کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس پالیسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت اور آشیر باد حاصل ہے۔
بلاول مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بلاول کو کہا ہے کہ آپ نے تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف اپنی تقاریر میں بات نہیں کرنی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ انتخابی مہم میں چیئرمین تحریک انصاف کچھ زیادہ فوکس میں آئیں۔
اس لیے جب ان کا ذکر نہیں کیا جائے گا تو وہ فوکس میں بھی نہیں آئیں گے۔ اس لیے بلاول کو میاں نواز شریف اور ن لیگ پر محاذ گرم رکھنے کا کہا گیا ہے۔ اس طرح انتخابات میں نواز شریف فوکس میں رہیں گے۔ لیکن آصف زرداری کو علم ہے کہ اس کے نتیجے میں ن لیگ سے تعلقات زیادہ خراب ہو جائیں گے جس کا سیاسی نقصان بھی ہوگا۔
بہرحال آصف زرداری لاہور پہنچ گئے ہیں اور چند دن بعد بلاول بھی لاہور آرہے ہیں۔ بلاول پنجاب کا تفصیلی دورہ کریں گے جہاں وہ پنجاب کی زمین کو سیاسی طورپر گرم کرنے کی کوشش کر یں گے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آصف زرداری بلاول کے دورہ پنجاب کی تیاری کے لیے پہلے لاہور آگئے ہیں۔
یہ آصف زرداری کا کوئی پہلا دورہ لاہور اور پنجاب نہیں ہے۔ ان کے لاہور اور پنجاب کے دورے بڑھ گئے ہیں۔وہ باقاعدگی سے لاہور اور پنجاب آرہے ہیں۔ انھوں نے پنجاب میںبہت سے نامور لوگوں کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے لیکن کوئی شامل ہونے کے لیے نہیں مانا ہے۔ یہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اب بلاول پنجاب آرہے ہیں تو کیا کریں گے۔
چند پریس کانفرنس تو کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لاہور میں کوئی پاور شو کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ کیا پیپلزپارٹی نواز شریف کے مقابلے میں مینار پاکستان پر عوامی جلسہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
تحریک انصاف کے پاس تو بہانہ ہے کہ انھیں اجازت نہیں ملتی۔ لیکن پیپلزپارٹی کو تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ پورے پاکستان میں عوامی اجتماعات کر رہے ہیں۔ انھیں اجازت بھی مل رہی ہے بلکہ عوامی اجتماعات کے لیے انتظامی سہولت کاری بھی مل رہی ہے۔
اس لیے انھیں پنجاب میں کوئی مسائل نہیں ہیں۔ ویسے بھی آصف زرداری اپنے انٹرویو میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو دوبارہ اپنا بیٹا قرار دے چکے ہیں بلکہ نگران حکومت پر تنقید کرنے والے ندیم افضل چن کے بارے میں کہا کہ انھیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس لیے پنجاب میں بھر پور سیاسی سرگرمیوں کے لیے انھیں مکمل آزادی حا صل ہے۔
زرداری صاحب کا ایک بیٹا وزیر اعلیٰ ہے دوسرا بیٹا سیاسی میدان میں ہے۔ اس سے بہترین صورتحال کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے تحت بلاول اور پیپلزپارٹی لاہور میں کوئی بھی پاور شو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عمومی رائے یہ ہے کہ اگر پاور شو نواز شریف کے 21اکتوبر کے شو سے کم ہوا تو پیپلزپارٹی اور بلاول کا بہت سیاسی نقصان ہو جائے گا۔ اس لیے لاہور سے بھاگنے کا پروگرام ہے۔ لاہور سے صرف سیاسی بڑھکیں ماری جائیں گی۔ لیکن کوئی بڑا سیاسی شو نہیں کیا جائے گا۔ اب تک کے پروگرام کے مطابق قمر زمان قائرہ نے لالہ موسیٰ میں ایک جلسہ کروانے کی حامی بھری ہے۔
حسن مرتضیٰ نے چنیوٹ میں جلسہ کروانے کی حامی بھری ہے۔اسی طرح چوہدری منظور نے قصورمیں جلسہ کروانے کا کہا ہے۔
اس طرح ابھی تک تین جلسے طے ہوئے ہیں۔ تا ہم بلاول کا فیصل آباد سیالکوٹ جانے کا بھی پروگرام ہے۔ لیکن وہاں کوئی عوامی اجتماعات نہیں ہونگے۔ زیادہ زور ملاقاتوں اور میڈیا سے بات چیت پر ہی ہوگا۔ شائد پنجاب کی سیاسی صورتحال کا اندازہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں تمام نشستوں پر انتخابات لڑنے کے لیے موزوں امیدوار بھی نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کو تمام نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے پر بھی مسئلہ ہوگا۔ اسی لیے جہاں سندھ، کے پی میں پیپلزپارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شروع نظر آتا ہے وہاں پنجاب میں اس حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں ہے۔
چند لیڈر ہیں جو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شہروں کے شہر اور اضلاع کے اضلاع خالی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال جائز ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب میں امیدوار ہی نہیں ہیں تو وہ ن لیگ کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ خالی سیٹوں پر تو مقابلہ نہیں ہوگا۔