سیاسی جماعتیں اور اعتماد کا بحران

سیاسی جماعتوں کی حیثیت جمہوری عمل میں ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں

salmanabidpk@gmail.com

سیاست ، جمہوریت اور عام آدمی کے تحفظ سمیت معاشرے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔

سیاسی جماعتوں کی حیثیت جمہوری عمل میں ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان سیاسی جماعتوں یا ان سے جڑی قیادتوں کے کردار کو نظرانداز کرکے جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ سکتا ۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر جہاں لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں وہیں ان سیاسی جماعتوں کے کردار پر بہت زیادہ تنقید بھی ہوتی ہے ۔

سیاسی جماعتیں اگرچہ ووٹ کو بنیاد بنا کر اقتدارکا حصہ بنتی ہیں لیکن مجموعی طور پر لوگوں میں سیاسی جماعتوں پر اعتماد کا بحران غالب نظر آتا ہے ۔ایک عمومی بحث معاشرے کی سطح پر یہ موجود ہے کہ ہمیں سیاسی جماعتوں پر بہت زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر آپ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر بہت زیادہ علمی یا عملی بنیادوں پر تنقید کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ آپ جمہوریت مخالف ہیں ۔

جمہوریت کے فروغ کے لئے لازم ہے کہ جمہوری کردار ہی کو آگے بڑھایا جائے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں سیاسی اور جمہوری عمل کی مضبوطی میں سب سے زیادہ سیاسی توقعات سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے ہی ہوتی ہے ۔

اس لیے اگر علمی و فکری محاذ پر سیاسی جماعتوں اور ان کی سیاسی قیادت سمیت ان کے مجموعی طور پر کردار پر تنقید ہوتی ہے تو اس پر گھبرانے کی بجائے ہمیں کھلے دل کے ساتھ اس تنقید کا علمی و فکری جواب دینا چاہیے ۔تنقید برائے تنقید اپنی جگہ مگر تنقید برائے اصلاح یا متبادل نظام کی بحث کو ہر سطح پر پزیرائی ملنی چاہیے ۔کیونکہ جو لوگ بھی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت پر تنقید کو محض سیاسی اور جمہوری دشمنی کے تناظر میں دیکھتے ہیں وہ درست طرز عمل نہیں ۔

آج اگر ہم سیاسی جماعتوں کے معاملات کو دیکھیں تو اس میں چھ اہم پہلو ہیں ۔ اول سیاسی جماعتوں کے پاس قومی مسائل کا شفاف حل یا مسائل کا درست انداز میں ادراک اور ایشوز پر مبنی سیاست کے ایجنڈے کی کمی ،دوئم سیاسی جماعتوں کی داخلی سطح پر موجود سیاسی جمہوری ساکھ پر مبنی شفافیت سے جڑے مسائل، سوئم سیاسی مخالفین کے خلاف غیر سنجیدہ ایشوز، الزامات اور کردار کشی پر مبنی مہم ، چہارم غیر سیاسی و غیر جمہوری یا غیر آئینی و قانونی بنیادوں پر غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر سہولت کا ری کا کھیل یا جمہوری عمل کو کمزور کرنا ، پنجم عوامی سیاست کے مقابلے کی بجائے طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر اقتدار کی سیاست سے جڑا منفی کھیل، ششم سیاست میں بڑھتا ہوا دولت کا کھیل یا سیاسی برادریوں کو بنیاد بناکر سیاسی فیصلوں کی اجارہ داری جیسے امور سرفہرست ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتو ں نے اپنے داخلی اور خارجی سطح کے نظام میں بہتری پیدا کرنے یا سیاسی اور جمہوری عمل کو مضبوط بنانے میں کیا کردار ادا کیا ۔

سیاسی جماعتوں کا عوامی رشتہ محض انتخابات یا ووٹ کی سیاست تک کیوں محدود ہے اور کیا وجہ ہے کہ عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر ہماری سیاسی جماعتیں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ایسے لگتا ہے کہ عوامی مسائل کا حل مضبوط اور دیرپا حل ان کے پاس نہیں اور ان کی ترقی کے لیے ہمیں محض قومی یا حکومتی سطح پر خیراتی منصوبے نظر آتے ہیں جن کا مقصد لوگوں کی معاشی حیثیت کو ترقی دینا نہیں بلکہ ان کو خیرات تک محدود کرنا ہے۔


جو بھی کمزور سی سیاسی حکومتیں رہی مثال کے طور پر جن جن حکومتوں کو پانچ پانچ برس حکومت کرنے کے ملے یا پنجاب مسلم لیگ ن کی دس برس کی حکومت، سندھ میں پیپلزپارٹی کی پندرہ برس سے جاری حکومت اور خیبر پختونخواہ میں دس برس پر محیط پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ ان حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں ایسی کونسی پالیسیاں ، قانون سازی یا اسٹرکچرل اصلاحات کی ہیں جن کی مدد سے صوبوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکا ہو۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو گورننس کے معاملات کی بہتری میں جو بڑا کردار ادا کرنا چاہیے تھا اس پر کیونکر عملدرآمد نہیں ہوسکا اور کیونکر صوبائی حکومتیں صوبوں میںایک مضبوط، مربوط اور شفاف خود مختار مقامی حکومتوںکے نظام سے انحراف کرتی رہی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا اپنی ناکامی کا سارا ملبہ غیر جمہوری قوتوں پر ڈالنا اور خود کو تمام خرابیوں سے دور رکھنا درست تجزیہ نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو جتنا بھی موقع کم یا زیادہ ملا ان کو اپنی اپنی جماعتوں ، قیادتوں اور حکومتوں کو مثالی حکومت ، سیاست اور جمہوریت کے طور پر پیش کرنا چاہیے تھا اور یہ ہی عوام کی ان سے توقعات بھی ہیں ۔

سیاسی جماعتوں کی سطح پر پالیسی سازی یا منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور ان کی پوری سوچ ردعمل کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے ۔ سیاسی سطح پر دیکھیں تو سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا جامع اور شفافیت پر مبنی تبدیلی کا پروگرام پیش کرنے کی بجائے محض اپنے سیاسی مخالفین کی مخالفت میں الزام تراشیوں اور کردار کشی کے کھیل تک خود کو محدود رکھتی ہیں ۔

اسی طرح سیاسی جماعتیں طاقت ور اشرافیہ یا طاقت ور طبقات کے ساتھ مل کر عوامی مفادات کے مقابلے میں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کی ترجمانی بھی کرتی ہیں اور ان کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں ۔

ہماری قومی سطح کی سیاست سے عام آدمی کا حصہ کم ہورہا ہے اور اسی بنیاد پر معاشرے کے مختلف طبقات اور بالخصوص کمزور طبقات میں مختلف نوعیت کی سخت مایوسی یا لاتعلقی کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا اقتدار میںشامل حکمران طبقہ ان کی ترجیحات میں عام آدمی یا ملک بدلنا نہیں بلکہ اپنی ذاتی ، خاندانی اور جماعتی سیاست کو مضبوط بنانا اور وسائل پر کنٹرول کرنا ہے ۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہمیں خود احتسابی ، جوابدہی ، احتساب ، کرپشن ، بدعنوانی جیسے معاملات کبھی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے بلکہ سیاسی جماعتوں میں یا ان کی قیادت میں اس مسئلہ کی سنگینی کو کبھی مسئلہ ہی نہیں سمجھا گیا۔

روپے پیسے کا کھیل اور سیاست میں دولت کا بڑھتا ہوا رجحان کی حوصلہ شکنی کی بجائے اس پر عملی بنیادوں پر سرپرستی یا حوصلہ افزائی کرتی ہے جو عام آدمی کی سیاسی و انتخابی عمل میںشرکت کو روکتا ہے۔

اس لیے اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی ساکھ کو عوامی محاذ پر قائم کرناہے تو ان کو اپنے موجودہ کردار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہونگی اور خود کو عوامی مفادات سمیت سیاسی اور جمہوریت کے ساتھ جوڑ کر ایک مثالی کردار کے طور پر پیش کرنا ہوگا اور یہ ہی ان کی سیاسی قبولیت کا عملی سبب بھی بن سکتا ہے۔
Load Next Story