شرح صدر اﷲ کی خاص عنایت
اے ہمارے ربّ! تُو ہمارے دلوں کو نُورِ ایمان سے منور فرما اور ہمارے سینے کو اسلام کے لیے کھول دے
شرح صدر کے لفظی معنی سینے کو کھول دینا یا کھل جانا ہیں۔
اس سے مراد حقیقت واضح کر دینا، نورِ ایمان سے سینہ کو بھر دینا، عالم بالا کے فیضان کے لیے طبیعت کو مستعد اور آمادہ بنا دینے کے ہیں جسے ''انشراح قلب'' کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد گرامی کا مفہوم: ''تو اﷲ جس کسی کو ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔'' (الانعام)
''شرح صدر'' اﷲ کی وہ نعمت اور خاص عنایت ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الانشراح کی پہلی آیت میں حضور ﷺ کے لیے ایک بہت بڑے احسان کے طور پر کیا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اس شرحِ صدر کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اے ہمارے ربّ! تُو ہمارے دلوں کو نورِ ایمان سے منور فرما اور ہمارے سینے کو اسلام کے لیے کھول دے۔ اﷲ تعالیٰ سے باطنی بصیرت مانگنی چاہیے، جب ایک انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی اندرونی کیفیت نیکی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے اور پھر اسے دین کے کسی حکم سے دل میں تنگی محسوس نہیں ہوتی۔ دل کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے۔ اﷲ کا ارادہ جسے ہدایت دینے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں یعنی اﷲ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا، مفہوم: ''اﷲ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں کو زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہت ڈال دی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں۔'' (الحجرات)
شرحِ صدر کی اہمیت: اس دنیا میں رائج تمام مذاہب میں دین اسلام کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ کائنات کے خالق و مالک کے نزدیک مقبول و پسندیدہ دین ہے۔
اسلام ہی انسان کا اصل راہ بر ہے، اور اسی پر اس کی نجات کا دار و مدار بھی ہے، مگر اس حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے شرحِ صدر نصیب ہو جائے، جس کے سینہ میں اسلام و ایمان کا نور داخل ہو جائے، لیکن اﷲ پاک یہ انعام ہر ایک کو نہیں دیتے، بل کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے، جسے ہدایت سے نواز دیتے ہیں، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں، اور پھر جیسے ہر چیز کو پہچاننے کا ایک خاص معیار ہے، اسی طرح جس کے سینہ میں نورِ ایمانی داخل ہوگیا اس کے پہچاننے کا بھی ایک خاص معیار ہے۔
شرحِ صدر کی علامات: حدیث میں فرمان کا مفہوم: جب نورِ ایمان کسی کے سینہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے، پھر وہ اسلام کے تمام احکامات کو قبول کرتا ہے اور ان کی ادائی میں پیش آنے والی دشواری بھی اسے آسان محسوس ہوتی ہے۔
کسی نے عرض کیا: حضور ﷺ! اس کے پہچاننے کی کوئی خاص علامت بھی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہاں! تین علامتیں ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ نورِ ایمان اس کے سینہ میں داخل ہوگیا اور جس میں یہ تین علامتیں نہ پائی جائیں وہ دل نورانی نہیں ظلمانی ہے، اور دل نورانی ہوتا ہے ایمان اور نیکیوں کے نور سے، جب کہ کفر و معصیت کی ظلمت سے دل ظلمانی ہو جاتا ہے۔
دارالغرور سے دور رہنا: بہ ہر حال شرح صدر کی پہلی علامت یہ ہے: ''دارِغرور (دھوکے کے گھر ) سے دور رہنا'' اس سے مراد دنیا کی حرام لذت اور زیب و زینت ہے، قرآنِ کریم نے حیاتِ دنیوی کو دھوکے سے تعبیر فرما کر اس پر آگاہ کیا ہے کہ اے لوگو! کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔
اسی لیے علماء نے دنیا کی زندگی اور اس کے مال و متاع کی مثال سراب (چمکتی ریت) سے دی ہے، جس طرح سخت دھوپ میں ریگستانی ریت کو چمکتا ہوا دیکھ کر پیاسا اس کی طرف بڑھتا ہے، مگر جب قریب جاکر حقیقت معلوم کرتا ہے تو اُسے اپنے دھوکے میں مبتلا ہونے کا احساس ہوتا ہے، بالکل اسی طرح دنیادار اس کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر جب اس کی حقیقت کھلتی ہے تو زندگی گذر چکی ہوتی ہے سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، اس لیے قبل از وقت یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب دنیا دارالغرور ہے تو اس سے محبت کرنا بھی فضول ہے، اور بے وقوف ہیں وہ لوگ جو اس کے حصول میں اﷲ تعالیٰ ہی کو بھول گئے۔
آخرت اور اس کے اعمال کی طرف رغبت: شرحِ صدر کی دوسری علامت دارالخلود یعنی آخرت اور اس کے اعمال کی طرف رغبت ہے، جس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے بس وہ ہر وقت آخرت کی تیاری اور اس کو سنوارنے کی فکر میں رہتا ہے، وہ ہر وقت آخرت کے نفع نقصان کو مدنظر رکھتا ہے، اپنا وقت اور اپنی دولت آخرت کی بہتری و بہبود ی کے لیے صرف کرتا ہے، وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہے۔
موت سے قبل اس کی تیاری: شرحِ صدر کی تیسری علامت حدیث میں یہ بیان فرمائی گئی: مرنے سے قبل موت کی تیاری کرنا، یہ انسان کی دانائی اور عقل مندی کی بہت بڑی علامت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو اﷲ تعالیٰ کے حکم کا مطیع بنائے اور مرنے کے بعد کی تیاری کرلے۔ موت سے قبل اس کی تیاری نہایت ضروری ہے، صوفیاء و صلحاء اس کا خوب اہتمام کرتے تھے، وہ اس سے ذرہ برابر غافل نہ رہے۔
موت کے لیے نہ کوئی بیماری ضروری ہے نہ بڑھاپا، بغیر بیماری اور بڑھاپے کے بھی موت آسکتی ہے، اس کا کوئی زمانہ اور وقت متعین نہیں، وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے، اسی لیے عقل مندی یہی ہے کہ بندہ ہر وقت اس کی تیاری رکھے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کے متعلق آتا ہے کہ وہ ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتی تھیں، سوتی بہت کم تھیں، کسی نے وجہ دریافت کی، تو فرمایا: ''ڈر لگتا ہے کہ کہیں سونے کی حالت میں موت واقع ہو جائے اور کلمہ نصیب نہ ہو، میں چاہتی ہوں کہ موت اس طرح آئے کہ اس کے لیے پہلے سے تیار اور بیدار رہوں۔''
حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے تھے کہ اگر ملک الموت آجائیں تو فوراً چل دوں، تھوڑی دیر بھی مہلت نہ مانگوں اتنا تیار بیٹھا ہوں۔ شرحِ صدر کی تیسری علامت یہ ہے کہ موت سے قبل مرنے کی تیاری کی جائے۔ جب دل کی کیفیت ایسی ہوجائے تو سمجھ لیجیے شرحِ صدر کی نعمت میسر ہوگئی۔
اﷲ فرماتے ہیں ، مفہوم: ''اور جس کو وہ گم راہ کرنا چاہتا ہے اُس کے سینے کو بالکل تنگ کر دیتا ہے، گھٹا ہُوا (وہ ایسے محسوس کرتا ہے) گویا اسے آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہے۔'' (سورہِ الانعام)
جیسے اونچائی پر چڑھتے ہوئے انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل کام کرنا چھوڑ دے گا' ایسے ہی اگر اﷲ کی طرف سے انسان کو ہدایت کی توفیق عطا نہ ہوئی ہو تو اس کے لیے راہِ حق پر چلنا دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔
اگر کہیں ذرا سی آزمائش آ جائے تو گویا اس کے لیے قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ دوسری طرف وہ شخص جس کو اﷲ نے شرح صدر کی نعمت سے نوازا ہو اس کے لیے ناصرف حق کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے بل کہ اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر مشکل کو وہ شوق اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔
شرحِ صدر کے بعد علم کا صحیح مطلب سمجھ آتا ہے، علم پھر ظاہر سے باطن میں اترنا شروع ہوتا ہے، تب قلب کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ قلب ہر غیر اﷲ کے خیال سے پاک ہونے لگتا ہے۔ پھر اس بندے کی عبادت و اطاعت اعمال و افعال کی سمت خالص اﷲ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے، گویا وہ متوجہ الی اﷲ ہو جاتا ہے۔
علمِ حق کو سمجھنے سے باطن برے خیالات و شہوات، حرص و لالچ، بری عادات و رذائل سے محفوظ ہونے لگ جاتا ہے۔
اس طرح نور بڑھنے لگتا ہے جو قلب سے بڑھ کر روح میں اترتا ہے۔ جوں جوں علمِ حق سمجھ آتا ہے دل کی کثافتیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بندے کا ایسا تزکیہ ہوتا ہے کہ پھر قرآن پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ احادیث کی حکمتیں سمجھ آتی ہیں، پھر مومن سنّت رسول کریمؐ پر دل و جان سے عمل کرتا ہے۔
اﷲ پاک ہم سب کو شرحِ صدر کی دولت سے مالا مال فرمائیں۔ آمین
اس سے مراد حقیقت واضح کر دینا، نورِ ایمان سے سینہ کو بھر دینا، عالم بالا کے فیضان کے لیے طبیعت کو مستعد اور آمادہ بنا دینے کے ہیں جسے ''انشراح قلب'' کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد گرامی کا مفہوم: ''تو اﷲ جس کسی کو ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔'' (الانعام)
''شرح صدر'' اﷲ کی وہ نعمت اور خاص عنایت ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الانشراح کی پہلی آیت میں حضور ﷺ کے لیے ایک بہت بڑے احسان کے طور پر کیا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اس شرحِ صدر کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اے ہمارے ربّ! تُو ہمارے دلوں کو نورِ ایمان سے منور فرما اور ہمارے سینے کو اسلام کے لیے کھول دے۔ اﷲ تعالیٰ سے باطنی بصیرت مانگنی چاہیے، جب ایک انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہو جاتی ہے تو اس کی اندرونی کیفیت نیکی کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہے اور پھر اسے دین کے کسی حکم سے دل میں تنگی محسوس نہیں ہوتی۔ دل کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے۔ اﷲ کا ارادہ جسے ہدایت دینے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہو جاتے ہیں یعنی اﷲ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انہیں اپنا نور عطا فرماتا ہے اور آیت میں فرمایا، مفہوم: ''اﷲ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کر دی اور اسے تمہارے دلوں کو زینت دار بنا دیا اور کفر فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہت ڈال دی یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں۔'' (الحجرات)
شرحِ صدر کی اہمیت: اس دنیا میں رائج تمام مذاہب میں دین اسلام کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ کائنات کے خالق و مالک کے نزدیک مقبول و پسندیدہ دین ہے۔
اسلام ہی انسان کا اصل راہ بر ہے، اور اسی پر اس کی نجات کا دار و مدار بھی ہے، مگر اس حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے شرحِ صدر نصیب ہو جائے، جس کے سینہ میں اسلام و ایمان کا نور داخل ہو جائے، لیکن اﷲ پاک یہ انعام ہر ایک کو نہیں دیتے، بل کہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے، جسے ہدایت سے نواز دیتے ہیں، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں، اور پھر جیسے ہر چیز کو پہچاننے کا ایک خاص معیار ہے، اسی طرح جس کے سینہ میں نورِ ایمانی داخل ہوگیا اس کے پہچاننے کا بھی ایک خاص معیار ہے۔
شرحِ صدر کی علامات: حدیث میں فرمان کا مفہوم: جب نورِ ایمان کسی کے سینہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے، پھر وہ اسلام کے تمام احکامات کو قبول کرتا ہے اور ان کی ادائی میں پیش آنے والی دشواری بھی اسے آسان محسوس ہوتی ہے۔
کسی نے عرض کیا: حضور ﷺ! اس کے پہچاننے کی کوئی خاص علامت بھی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہاں! تین علامتیں ہیں، وہ جس میں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ نورِ ایمان اس کے سینہ میں داخل ہوگیا اور جس میں یہ تین علامتیں نہ پائی جائیں وہ دل نورانی نہیں ظلمانی ہے، اور دل نورانی ہوتا ہے ایمان اور نیکیوں کے نور سے، جب کہ کفر و معصیت کی ظلمت سے دل ظلمانی ہو جاتا ہے۔
دارالغرور سے دور رہنا: بہ ہر حال شرح صدر کی پہلی علامت یہ ہے: ''دارِغرور (دھوکے کے گھر ) سے دور رہنا'' اس سے مراد دنیا کی حرام لذت اور زیب و زینت ہے، قرآنِ کریم نے حیاتِ دنیوی کو دھوکے سے تعبیر فرما کر اس پر آگاہ کیا ہے کہ اے لوگو! کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔
اسی لیے علماء نے دنیا کی زندگی اور اس کے مال و متاع کی مثال سراب (چمکتی ریت) سے دی ہے، جس طرح سخت دھوپ میں ریگستانی ریت کو چمکتا ہوا دیکھ کر پیاسا اس کی طرف بڑھتا ہے، مگر جب قریب جاکر حقیقت معلوم کرتا ہے تو اُسے اپنے دھوکے میں مبتلا ہونے کا احساس ہوتا ہے، بالکل اسی طرح دنیادار اس کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر جب اس کی حقیقت کھلتی ہے تو زندگی گذر چکی ہوتی ہے سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، اس لیے قبل از وقت یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب دنیا دارالغرور ہے تو اس سے محبت کرنا بھی فضول ہے، اور بے وقوف ہیں وہ لوگ جو اس کے حصول میں اﷲ تعالیٰ ہی کو بھول گئے۔
آخرت اور اس کے اعمال کی طرف رغبت: شرحِ صدر کی دوسری علامت دارالخلود یعنی آخرت اور اس کے اعمال کی طرف رغبت ہے، جس کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے بس وہ ہر وقت آخرت کی تیاری اور اس کو سنوارنے کی فکر میں رہتا ہے، وہ ہر وقت آخرت کے نفع نقصان کو مدنظر رکھتا ہے، اپنا وقت اور اپنی دولت آخرت کی بہتری و بہبود ی کے لیے صرف کرتا ہے، وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہے۔
موت سے قبل اس کی تیاری: شرحِ صدر کی تیسری علامت حدیث میں یہ بیان فرمائی گئی: مرنے سے قبل موت کی تیاری کرنا، یہ انسان کی دانائی اور عقل مندی کی بہت بڑی علامت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو اﷲ تعالیٰ کے حکم کا مطیع بنائے اور مرنے کے بعد کی تیاری کرلے۔ موت سے قبل اس کی تیاری نہایت ضروری ہے، صوفیاء و صلحاء اس کا خوب اہتمام کرتے تھے، وہ اس سے ذرہ برابر غافل نہ رہے۔
موت کے لیے نہ کوئی بیماری ضروری ہے نہ بڑھاپا، بغیر بیماری اور بڑھاپے کے بھی موت آسکتی ہے، اس کا کوئی زمانہ اور وقت متعین نہیں، وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے، اسی لیے عقل مندی یہی ہے کہ بندہ ہر وقت اس کی تیاری رکھے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کے متعلق آتا ہے کہ وہ ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتی تھیں، سوتی بہت کم تھیں، کسی نے وجہ دریافت کی، تو فرمایا: ''ڈر لگتا ہے کہ کہیں سونے کی حالت میں موت واقع ہو جائے اور کلمہ نصیب نہ ہو، میں چاہتی ہوں کہ موت اس طرح آئے کہ اس کے لیے پہلے سے تیار اور بیدار رہوں۔''
حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے تھے کہ اگر ملک الموت آجائیں تو فوراً چل دوں، تھوڑی دیر بھی مہلت نہ مانگوں اتنا تیار بیٹھا ہوں۔ شرحِ صدر کی تیسری علامت یہ ہے کہ موت سے قبل مرنے کی تیاری کی جائے۔ جب دل کی کیفیت ایسی ہوجائے تو سمجھ لیجیے شرحِ صدر کی نعمت میسر ہوگئی۔
اﷲ فرماتے ہیں ، مفہوم: ''اور جس کو وہ گم راہ کرنا چاہتا ہے اُس کے سینے کو بالکل تنگ کر دیتا ہے، گھٹا ہُوا (وہ ایسے محسوس کرتا ہے) گویا اسے آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہے۔'' (سورہِ الانعام)
جیسے اونچائی پر چڑھتے ہوئے انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل کام کرنا چھوڑ دے گا' ایسے ہی اگر اﷲ کی طرف سے انسان کو ہدایت کی توفیق عطا نہ ہوئی ہو تو اس کے لیے راہِ حق پر چلنا دنیا کا مشکل ترین کام بن جاتا ہے۔
اگر کہیں ذرا سی آزمائش آ جائے تو گویا اس کے لیے قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ دوسری طرف وہ شخص جس کو اﷲ نے شرح صدر کی نعمت سے نوازا ہو اس کے لیے ناصرف حق کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے بل کہ اس راہ کی ہر تکلیف اور ہر مشکل کو وہ شوق اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔
شرحِ صدر کے بعد علم کا صحیح مطلب سمجھ آتا ہے، علم پھر ظاہر سے باطن میں اترنا شروع ہوتا ہے، تب قلب کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ قلب ہر غیر اﷲ کے خیال سے پاک ہونے لگتا ہے۔ پھر اس بندے کی عبادت و اطاعت اعمال و افعال کی سمت خالص اﷲ کی طرف مبذول ہو جاتی ہے، گویا وہ متوجہ الی اﷲ ہو جاتا ہے۔
علمِ حق کو سمجھنے سے باطن برے خیالات و شہوات، حرص و لالچ، بری عادات و رذائل سے محفوظ ہونے لگ جاتا ہے۔
اس طرح نور بڑھنے لگتا ہے جو قلب سے بڑھ کر روح میں اترتا ہے۔ جوں جوں علمِ حق سمجھ آتا ہے دل کی کثافتیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بندے کا ایسا تزکیہ ہوتا ہے کہ پھر قرآن پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ احادیث کی حکمتیں سمجھ آتی ہیں، پھر مومن سنّت رسول کریمؐ پر دل و جان سے عمل کرتا ہے۔
اﷲ پاک ہم سب کو شرحِ صدر کی دولت سے مالا مال فرمائیں۔ آمین