ذہنی دباؤ سے نجات پانے کی خواہش میں جنوبی کوریائی باشندے جیل جانے لگے
جنوبی کوریائی باشندے 150000 وَن دے کر 2 دن جیل میں گزارتے ہیں اور حیران کن طور پر اس دوران ان کا اسٹریس لیول بہت۔۔۔
ذہنی و جسمانی دباؤ یا اسٹریس آج کی مصروف زندگی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
گوناگوں مسائل نے آج ہر فرد کو اسٹریس میں متبلا کر رکھا ہے۔ اسٹریس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانا شائد ممکن نہیں البتہ مختلف طریقے اپنا کر اس سے عارضی طور پر نجات ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسٹریس سے نجات پانے کے لیے دنیا بھر میں مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم جنوبی کوریا میں لوگ ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے ' جیل ' کا رُخ کررہے ہیں۔
وہ 150000 وَن (won) دے کر دو دن جیل میں گزارتے ہیں، اور حیران کن طور پر دو روز کے دوران ان کا اسٹریس لیول بہت نیچے آجاتا ہے۔ دراصل Prison Inside Me نامی یہ جگہ کوئی باقاعدہ جیل نہیں ہے بلکہ اسے جیل کے نمونے پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں جیل ہی کی طرح کے قواعد و ضوابط نافذ کیے گئے ہیں۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل سے 58 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر Hongcheon کے مضافات میں یہ ' جیل' کوان یونگ سیؤک نامی ایک قانون داں نے تعمیر کروائی ہے۔ زندگی کی مصروفیات نے کوان کو کچھ اس طرح اپنے شکنجے میں لیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوگیا تھا۔ شدید اسٹریس میں مبتلا کوان کے دماغ میں ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک انوکھا خیال آیا۔
اس کا ایک دوست جیلر تھا۔ اس نے اپنے دوست سے جیل میں ایک ہفتہ گزارنے کی انوکھی درخواست کی مگر قانونی وجوہ کی بنا پر یہ درخواست رد کردی گئی جس کے بعد کوان نے جیل کے طرز پر ایک روحانی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو ارب وَن کی لاگت سے Prison Inside Me کی تعمیر گذشتہ برس جون میں مکمل ہوئی تھی۔
اس عمارت میں 60 مربع فٹ کے 28 حوالات یا سیل بنے ہوئے ہیں۔ اسٹریس سے نجات پانے کے خواہش مند مقررہ معاوضہ ادا کرکے عمارت میں داخل ہوتے ہیں، اور پھر انھیں ان حوالات میں ' قید ' کردیاجاتا ہے۔ حقیقی جیل کے قیدیوں کی طرح Prison Inside Me میں آنے والے ' قیدیوں ' کو بھی مخصوص یونیفارم پہننے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ہر سیل میں ایک ٹوائلٹ، ایک سنک اور ایک چھوٹی میز موجود ہے۔
انھیں کھانا بھی جیل کے قیدیوں کی طرح دروازے میں بنے ہوئے ایک خانے میں سے دیا جاتا ہے۔ سیل میں داخل ہونے سے پہلے قیدیوں سے ان کا سامان لے لیا جاتا ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار اپنا موبائل فون چیک کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسٹریس سے نجات کے لیے قیدیوں کو روحانی درس بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آڈیٹوریم میں قیدی ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں جن کا مقصد انھیں اسٹریس سے چھٹکارا پانے میں مدد دینا ہوتا ہے۔
کوان کا کہنا ہے کہ اسٹریس سے نجات پانے کے سلسلے میں اس کا آئیڈیا بہت مؤثر ثابت ہورہا ہے اور جیل میں آنے والے ' قیدیوں ' کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔
گوناگوں مسائل نے آج ہر فرد کو اسٹریس میں متبلا کر رکھا ہے۔ اسٹریس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانا شائد ممکن نہیں البتہ مختلف طریقے اپنا کر اس سے عارضی طور پر نجات ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسٹریس سے نجات پانے کے لیے دنیا بھر میں مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم جنوبی کوریا میں لوگ ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے ' جیل ' کا رُخ کررہے ہیں۔
وہ 150000 وَن (won) دے کر دو دن جیل میں گزارتے ہیں، اور حیران کن طور پر دو روز کے دوران ان کا اسٹریس لیول بہت نیچے آجاتا ہے۔ دراصل Prison Inside Me نامی یہ جگہ کوئی باقاعدہ جیل نہیں ہے بلکہ اسے جیل کے نمونے پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں جیل ہی کی طرح کے قواعد و ضوابط نافذ کیے گئے ہیں۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل سے 58 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر Hongcheon کے مضافات میں یہ ' جیل' کوان یونگ سیؤک نامی ایک قانون داں نے تعمیر کروائی ہے۔ زندگی کی مصروفیات نے کوان کو کچھ اس طرح اپنے شکنجے میں لیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوگیا تھا۔ شدید اسٹریس میں مبتلا کوان کے دماغ میں ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک انوکھا خیال آیا۔
اس کا ایک دوست جیلر تھا۔ اس نے اپنے دوست سے جیل میں ایک ہفتہ گزارنے کی انوکھی درخواست کی مگر قانونی وجوہ کی بنا پر یہ درخواست رد کردی گئی جس کے بعد کوان نے جیل کے طرز پر ایک روحانی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو ارب وَن کی لاگت سے Prison Inside Me کی تعمیر گذشتہ برس جون میں مکمل ہوئی تھی۔
اس عمارت میں 60 مربع فٹ کے 28 حوالات یا سیل بنے ہوئے ہیں۔ اسٹریس سے نجات پانے کے خواہش مند مقررہ معاوضہ ادا کرکے عمارت میں داخل ہوتے ہیں، اور پھر انھیں ان حوالات میں ' قید ' کردیاجاتا ہے۔ حقیقی جیل کے قیدیوں کی طرح Prison Inside Me میں آنے والے ' قیدیوں ' کو بھی مخصوص یونیفارم پہننے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ہر سیل میں ایک ٹوائلٹ، ایک سنک اور ایک چھوٹی میز موجود ہے۔
انھیں کھانا بھی جیل کے قیدیوں کی طرح دروازے میں بنے ہوئے ایک خانے میں سے دیا جاتا ہے۔ سیل میں داخل ہونے سے پہلے قیدیوں سے ان کا سامان لے لیا جاتا ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار اپنا موبائل فون چیک کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسٹریس سے نجات کے لیے قیدیوں کو روحانی درس بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آڈیٹوریم میں قیدی ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں جن کا مقصد انھیں اسٹریس سے چھٹکارا پانے میں مدد دینا ہوتا ہے۔
کوان کا کہنا ہے کہ اسٹریس سے نجات پانے کے سلسلے میں اس کا آئیڈیا بہت مؤثر ثابت ہورہا ہے اور جیل میں آنے والے ' قیدیوں ' کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔