علاقائی تجارت کا فروغترقی کا زینہ

ایشیا میں چین کے بعد بھارت عالمی مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے بھرپور تگ و دو کر رہا ہے۔

ایشیا میں چین کے بعد بھارت عالمی مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے بھرپور تگ و دو کر رہا ہے. فوٹو؛فائل

FAISALABAD:
کسی بھی ملک کی صنعتی' تجارتی اور معاشی ترقی کا انحصار اس کے اندرون اور بیرون ملک مجموعی تجارتی حجم پر ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا میں تجارتی ترقی کے حوالے سے امریکا سرفہرست ہے جس کے بعد چین تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی قوت بن کر سامنے آ رہا ہے۔

ایشیا میں چین کے بعد بھارت عالمی مارکیٹ میں اپنا مقام بنانے کے لیے بھرپور تگ و دو کر رہا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود عالمی معاشی و تجارتی میدان میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس شعبے کی جانب خصوصی توجہ دی جائے۔ پاکستانی صنعت اس وقت متعدد مشکلات میں گھری ہونے کے باعث مناسب ترقی نہیں کر پا رہی۔ توانائی کے بحران اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے گراف نے صنعتی شعبہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اس تناظر میں موجودہ حکومت ملک کو معاشی و اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔

خوش آیند امر یہ ہے کہ وزارت تجارت نے ملکی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے علاقائی منڈیوں سے روابط مضبوط بنانے کے علاوہ نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے کمر کس لی ہے۔ پاکستان شروع ہی سے اس امر کا خواہاں رہا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بہتر اور مضبوط بنایا جائے۔ اب حکومت نے افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک تجارت کو بڑھانے کے لیے طورخم بارڈر پر بین الاقوامی لینڈ پورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے' وزارت تجارت کے مطابق آیندہ چند ماہ میں طورخم کے راستے افغانستان سے تجارت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر تجارتی عمل جاری ہے ،اس کے علاوہ پاکستان' افغانستان کے لیے ایک بڑی تجارتی راہداری بھی ہے ۔


پاکستان کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے اپنے تجارتی تعلقات مضبوط بنائے مگر افغانستان کے مخدوش حالات تجارتی ترقی کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بنتے رہے ہیں ،اب جب افغانستان کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور ان میں کافی بہتری آ رہی ہے اس لیے یہ لازمی ہو گیا ہے کہ پاکستان افغانستان سے اپنے سفارتی تعلقات مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات کو بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دے۔ اس وقت افغانستان کے ساتھ ہونے والی تجارت میں ایک بڑا حصہ اسمگلنگ پر مشتمل ہے جس سے پاکستانی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس اسمگلنگ کو روک کر تجارت کو قانونی طریقے سے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو اس سے سالانہ کروڑوں ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں۔ اب حکومت نے طورخم بارڈر پر بین الاقوامی لینڈ پورٹ بنانے کا فیصلہ کر کے درست جانب قدم اٹھایا ہے۔

اگر افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں تو اس سے پاکستان کی تجارت کئی گنا بڑھنے کے علاوہ ان علاقوں میں بے روز گاری اور جہالت کا بھی خاتمہ ہو گا اور یہاں سے غربت کے باعث جنم لینے والی انتہا پسندی کو بھی قابو لانے میں مدد ملے گی۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ ملکی برآمدات بڑھانے کے لیے سرحدوں کے قریب ڈرائی پورٹس کے قیام پر قانون سازی کر رہے ہیں جس کے بعد چین' ایران' افغانستان اور بھارت کے ساتھ تجارتی بندر گاہیں تعمیر ہوں گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو جتنا زیادہ فروغ دیا جائے گا ملک میں اتنی ہی زیادہ خوشحالی آئے گی۔ ملک کو صنعتی بحران سے نکالنے کا بھی یہی درست راستہ ہے کہ علاقائی ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں۔

جنوبی ایشیا کا خطہ تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود پسماندگی غربت اور جہالت کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے اسے اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے کہ باہمی اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر علاقائی تجارتی تعلقات پر بھرپور توجہ دی جائے۔ موجودہ حکومت کی کاوشوں اور بہتر معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ چین پانچ سال کے دوران پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہو چکا ہے۔ صنعتوں کی ترقی میں توانائی کا بحران سد راہ ہے۔ حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے، وزارت تجارت کے مطابق دو ڈیم بھاشا اور داسو کی تعمیر جلد شروع کر دی جائے گی جس کے لیے بھاری رقم مختص کر دی گئی ہے۔ گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبہ پر بات چیت کا عمل جاری ہے۔ دوسری جانب خوش کن خبر یہ ہے کہ پاکستان فٹ بال کی عالمی صنعت میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہو چکا ہے۔

آیندہ ماہ برازیل میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی صنعت کو دوبارہ دس سال بعد آرڈر ملے ہیں جس سے مذکورہ صنعت بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان اعلیٰ قسم کے چاول' کپاس' آم اور دیگر غذائی اجناس میں عالمی سطح پر اہم مقام رکھتا ہے۔ عالمی معیار کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اپنا کر پاکستان غذائی اجناس کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ پاکستان اپنی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کو جدید طریقوں کے مطابق ڈھال لے اوراپنی پوری توجہ اندرون اور بیرون ملک تجارت پر مرکوز کردے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آیندہ چند برسوں میں ملک میں ترقی کا تیز رفتار عمل پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔
Load Next Story