بھارت کے حالیہ عام انتخابات
کانگریس کے دوغلے پن کا سب سے زیادہ احساس ہندوستان کے مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت کے المناک سانحے سے ہوا۔
16مئی کو آخر کار وہی ہوا جس کی زبردست قیاس آرائیاں اور سیاسی نجومیوں کی جانب سے پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں۔بھارت کے 2014 کے عام چناؤ حکمراں سیاسی جماعت کانگریس کے لیے واٹر لو ثابت ہوئے۔ گھمسان کا رن پڑا جس میں بی جے پی کو فقید المثال فتح اور کانگریس کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ تاریخ نے ہندوستان کے ایک بزرگ اور صاحب نظر سیاست داں آنجہانی سی دا جگو پال آچار یہ المعروف راجہ جی کی برسوں پرانی وہ سیاسی پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت کردی جو انھوں نے ہندوستان کی راجدھانی دلی کے ایک جلسہ عام میں غروب آفتاب کے وقت ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
مغرب میں ڈوبتے ہوئے سورج کی طرف اپنی انگشت شہادت کا اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ''وہ دیکھیے! سورج غروب ہورہاہے، کانگریس کا سورج بھی ایک دن اسی طرح غروب ہوگا۔''17 مئی کو ہندوستان کی راجدھانی کا سماں کچھ اور ہی تھا۔ ایک طرف شکست خوردہ کانگریس کے ممبران اور ان کے حواری اور حمایتی تھے جن کے چہرے افسردگی اور پژمردگی سے مرجھائے ہوئے تھے اور ان کی گردنیں ہزیمت کے مارے لٹکی ہوئی تھیں۔ دوسری جانب فاتح بے جی پی کے ورکرز اور حمایتی اپنی پارٹی کے کیسری جھنڈے لہراتے ہوئے اور اپنی فتح کے جوش سے سرشار اپنے مستقبل کے پردھان منتری کے رتپاک سواگت کے لیے نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھے۔
یہ لوگ خوشی سے سرمست ہوکر ناچ گارہے تھے اور اپنے قائد کی شان میں نعروں پر نعرے بلند کررہے تھے، ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا۔ ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات کئی اعتبار سے تاریخ ساز اہمیت کے حامل کہے جاسکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان میں 814 ملین لوگوں نے حصہ لیا جو کہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ دوسری بات یہ کہ انتہائی طویل دورانیے کے یہ مرحلہ وار انتخابات 10 مرحلوں پر محیط تھے جو 7 اپریل سے شروع ہوکر 12 مئی کو اختتام پذیر ہوئے۔ اگرچہ کانگریس والے اپنی ممکنہ شکست کے خوف کو چھپانے کے لیے اپنی جماعت کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں پیش کررہے تھے مگر ہوا کا رخ بتارہا تھا کہ کانگریس کے پیر اکھڑ چکے ہیں اور شکست اس کا مقدر بن چکی ہے۔ ایگزٹ پولز (Exit Polls) کے تمام سروے نمایاں طور پر اس امکان کی جانب اشارہ کررہے تھے کہ بی جے پی کو بڑی زبردست فتح حاصل ہوگی۔
نریندر مودی کے دست راست امت شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے تقریباً 300 نشستیں حاصل ہوجائیںگی۔ بھارت کے بیشتر اخبارات کی رائے بھی یہی تھی کہ کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کا پلڑہ ہی بھاری رہے گا۔ اگرچہ امیت شاہ کا دعویٰ تو درست ثابت نہیں ہوا مگر بی جے پی 543 نے سیٹوں پر لڑی جانے والی الیکشن میں سے 280 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنی سب سے بڑی حریف کانگریس پارٹی کے چھکے چھڑادیے۔ جو بمشکل صرف 47 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔
کانگریس کے پاس اب اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی شکست کے کاری زخموں کو چاٹتی رہے۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا کہناہے کہ بھارت کی جنتا نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ بے شک ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی کہی جاسکتی ہے کیوں کہ ہندوستان کے عوام کانگریس کی ناقص کارکردگی سے تنگ آچکے تھے اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے Shining India کے نعرے کی قلعی کھل چکی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بڑی حد تک درست اور بجا ہے کہ بھارت کے عوام کا 2014 کا بھاری مینڈیٹ ان کی انتہائی بیزاری اور اکتاہٹ کا آئینہ دار ہے۔بھارت کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کی عبرت ناک بلکہ شرمناک شکست میں بی جی پی کی حکمت عملی سے کہیں زیادہ کانگریس کی اپنی سالہا سال کی مسلسل بداعمالیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
وہ اس زعم اور گھمنڈ میں مبتلا تھی کہ وہ ہندوستان کو فرنگیوں سے آزادی دلانے والی سیاسی جماعت ہے۔ اس نے اقتدار کے نشے میں مدہوش ہوکر بھارت کی جنتا کو اپنی رعیت سمجھ لیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن اقلیت مسلمانوں کے ووٹوں کو وہ اپنی جیب میں پڑے ہوئے ووٹ تصور کرتی تھی اس کے دور حکمرانی میں وقفے وقفے سے مسلم کش فسادات ہوتے رہے مگر اس نے محض زبانی اور جھوٹی تسلیوں کے سوا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملاً کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ انتظامی معاملات میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کی آواز اس کے دور میں دبی ہی رہی۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کے لیے دروازے زیادہ تر بند ہی رہے جب کہ فوج جیسے اہم ادارے میں تو ان کا وجود نہ ہونے کے ہی برابر ہے۔ کانگریس نے گویا ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھ لیا تھا۔ اس کے اس غلط رویے نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس سے بد دل کرنا شروع کردیا تا آنکہ وہ اس سے مایوس اور Indifferent ہوتے چلے گئے۔
کانگریس کی اس غلط روش اور دوغلے پن کا سب سے زیادہ احساس ہندوستان کے مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت کے المناک سانحے سے ہوا۔ جو کانگریس کے وزیر اعظم پی وی نرسمہاراؤ کے دور میں وقوع پذیر ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ نرسمہا راؤ جیسے متعصب رہنما کانگریس میں پہلے بھی شامل رہے ہیں جن میں ولبھ بھائی پٹیل، گورنر ولبھ پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے مسلم دشمن سب سے نمایاں ہیں۔ رہی بات بی جے پی اور اس کی موجودہ قیادت کی تو اس کی مسلم دشمنی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون واقف نہیں ہے کہ 2002 میں بھارت کی ریاست گجرات میں جو ہزاروں مسلمان مسلم کش فسادات میں شہید کیے گئے تھے۔ ان کے خون میں نریندر مودی ہی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور اب ہندوستان کے وزیراعظم بن رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ قانون کی کاغذی کارروائی کے ذریعے اس کے ثبوت فراہم نہ ہوسکے جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتاہے کہ:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ کانگریس کی موجودہ شکست کا سب سے بڑا سبب اس کی مسلم ووٹ کی حمایت سے محرومی اور ''ہندو توا'' کا نعرہ ہے جسے بی جے پی نے موجودہ عام انتخابات میں کیش کرایاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی موجودہ کامیابی نے دو قومی نظریے کی صداقت پر مہر ثبوت ثبت کردی ہے اور بھارتی سیکولرزم کا وہ ملمع اتار کر رکھ دیا ہے جو کانگریس نے عرصہ دراز سے چڑھایا ہوا تھا۔
مغرب میں ڈوبتے ہوئے سورج کی طرف اپنی انگشت شہادت کا اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ''وہ دیکھیے! سورج غروب ہورہاہے، کانگریس کا سورج بھی ایک دن اسی طرح غروب ہوگا۔''17 مئی کو ہندوستان کی راجدھانی کا سماں کچھ اور ہی تھا۔ ایک طرف شکست خوردہ کانگریس کے ممبران اور ان کے حواری اور حمایتی تھے جن کے چہرے افسردگی اور پژمردگی سے مرجھائے ہوئے تھے اور ان کی گردنیں ہزیمت کے مارے لٹکی ہوئی تھیں۔ دوسری جانب فاتح بے جی پی کے ورکرز اور حمایتی اپنی پارٹی کے کیسری جھنڈے لہراتے ہوئے اور اپنی فتح کے جوش سے سرشار اپنے مستقبل کے پردھان منتری کے رتپاک سواگت کے لیے نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھے۔
یہ لوگ خوشی سے سرمست ہوکر ناچ گارہے تھے اور اپنے قائد کی شان میں نعروں پر نعرے بلند کررہے تھے، ہر طرف ایک جشن کا سماں تھا۔ ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات کئی اعتبار سے تاریخ ساز اہمیت کے حامل کہے جاسکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان میں 814 ملین لوگوں نے حصہ لیا جو کہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ دوسری بات یہ کہ انتہائی طویل دورانیے کے یہ مرحلہ وار انتخابات 10 مرحلوں پر محیط تھے جو 7 اپریل سے شروع ہوکر 12 مئی کو اختتام پذیر ہوئے۔ اگرچہ کانگریس والے اپنی ممکنہ شکست کے خوف کو چھپانے کے لیے اپنی جماعت کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں پیش کررہے تھے مگر ہوا کا رخ بتارہا تھا کہ کانگریس کے پیر اکھڑ چکے ہیں اور شکست اس کا مقدر بن چکی ہے۔ ایگزٹ پولز (Exit Polls) کے تمام سروے نمایاں طور پر اس امکان کی جانب اشارہ کررہے تھے کہ بی جے پی کو بڑی زبردست فتح حاصل ہوگی۔
نریندر مودی کے دست راست امت شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے تقریباً 300 نشستیں حاصل ہوجائیںگی۔ بھارت کے بیشتر اخبارات کی رائے بھی یہی تھی کہ کانگریس کے مقابلے میں بی جے پی کا پلڑہ ہی بھاری رہے گا۔ اگرچہ امیت شاہ کا دعویٰ تو درست ثابت نہیں ہوا مگر بی جے پی 543 نے سیٹوں پر لڑی جانے والی الیکشن میں سے 280 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنی سب سے بڑی حریف کانگریس پارٹی کے چھکے چھڑادیے۔ جو بمشکل صرف 47 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔
کانگریس کے پاس اب اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی شکست کے کاری زخموں کو چاٹتی رہے۔ بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ کا کہناہے کہ بھارت کی جنتا نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ بے شک ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی کہی جاسکتی ہے کیوں کہ ہندوستان کے عوام کانگریس کی ناقص کارکردگی سے تنگ آچکے تھے اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے Shining India کے نعرے کی قلعی کھل چکی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بڑی حد تک درست اور بجا ہے کہ بھارت کے عوام کا 2014 کا بھاری مینڈیٹ ان کی انتہائی بیزاری اور اکتاہٹ کا آئینہ دار ہے۔بھارت کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کی عبرت ناک بلکہ شرمناک شکست میں بی جی پی کی حکمت عملی سے کہیں زیادہ کانگریس کی اپنی سالہا سال کی مسلسل بداعمالیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
وہ اس زعم اور گھمنڈ میں مبتلا تھی کہ وہ ہندوستان کو فرنگیوں سے آزادی دلانے والی سیاسی جماعت ہے۔ اس نے اقتدار کے نشے میں مدہوش ہوکر بھارت کی جنتا کو اپنی رعیت سمجھ لیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن اقلیت مسلمانوں کے ووٹوں کو وہ اپنی جیب میں پڑے ہوئے ووٹ تصور کرتی تھی اس کے دور حکمرانی میں وقفے وقفے سے مسلم کش فسادات ہوتے رہے مگر اس نے محض زبانی اور جھوٹی تسلیوں کے سوا مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے عملاً کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔ انتظامی معاملات میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کی آواز اس کے دور میں دبی ہی رہی۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کے لیے دروازے زیادہ تر بند ہی رہے جب کہ فوج جیسے اہم ادارے میں تو ان کا وجود نہ ہونے کے ہی برابر ہے۔ کانگریس نے گویا ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھ لیا تھا۔ اس کے اس غلط رویے نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس سے بد دل کرنا شروع کردیا تا آنکہ وہ اس سے مایوس اور Indifferent ہوتے چلے گئے۔
کانگریس کی اس غلط روش اور دوغلے پن کا سب سے زیادہ احساس ہندوستان کے مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت کے المناک سانحے سے ہوا۔ جو کانگریس کے وزیر اعظم پی وی نرسمہاراؤ کے دور میں وقوع پذیر ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ نرسمہا راؤ جیسے متعصب رہنما کانگریس میں پہلے بھی شامل رہے ہیں جن میں ولبھ بھائی پٹیل، گورنر ولبھ پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے مسلم دشمن سب سے نمایاں ہیں۔ رہی بات بی جے پی اور اس کی موجودہ قیادت کی تو اس کی مسلم دشمنی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھلا کون واقف نہیں ہے کہ 2002 میں بھارت کی ریاست گجرات میں جو ہزاروں مسلمان مسلم کش فسادات میں شہید کیے گئے تھے۔ ان کے خون میں نریندر مودی ہی کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور اب ہندوستان کے وزیراعظم بن رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ قانون کی کاغذی کارروائی کے ذریعے اس کے ثبوت فراہم نہ ہوسکے جس کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتاہے کہ:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سچی اور کھری بات یہ ہے کہ کانگریس کی موجودہ شکست کا سب سے بڑا سبب اس کی مسلم ووٹ کی حمایت سے محرومی اور ''ہندو توا'' کا نعرہ ہے جسے بی جے پی نے موجودہ عام انتخابات میں کیش کرایاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی موجودہ کامیابی نے دو قومی نظریے کی صداقت پر مہر ثبوت ثبت کردی ہے اور بھارتی سیکولرزم کا وہ ملمع اتار کر رکھ دیا ہے جو کانگریس نے عرصہ دراز سے چڑھایا ہوا تھا۔