غیر قانونی تارکین وطن کا انخلا درپیش چیلنجز
ملک کی سلامتی کا تحفظ ہی آج ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کررہے ہیں، ان کی وطن واپسی کا فیصلہ حکومت نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے، غیرقانونی غیر ملکیوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق باعزت طریقے سے ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں افغان طالبان کے دور میں خطے میں عدم استحکام بڑھنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ بلاشبہ غیر قانونی تارکین وطن کے پاکستان سے انخلا کو داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت پاکستان کے اس اقدام سے آنے والے دنوں میں داخلی سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں موجود بدامنی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، کو ان کے ملک واپس بھیجنا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر لوگ منشیات، اسلحہ فروشی، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی ایسی سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لہٰذا ان کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کا موجودہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے غیر قانونی ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی۔
سرکاری دستاویزات میں اندراج کی کمی، سرحدوں پرکڑی نگرانی اور پناہ گزینوں کے لیے رسمی قوانین متعارف کروانے کی راہ میں پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغانستان سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے باعث کے پی اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔
افغان مہاجرین کے ہمراہ جغرافیائی اور لسانی قربت کا نتیجہ سماجی سطح پر ان کے با آسانی گھل مل جانے کی صورت میں نکلتا ہے جس کے بعد باقی کے پورے پاکستان میں ان کی رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ دراصل افغانستان سے ہجرت کو ضابطے کے تحت لانے میں پاکستانی حکومتوں کی نااہلی دونوں ممالک کے درمیان عوام، سازوسامان اور نقدی کے آزادانہ پھیلاؤ اور متشدد نظریات کی سرحد پار سے ممکنہ آمد میں معاون بنتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایک دشوارگزار طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں اطراف قبائلی اور سماجی روابط کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کا تجارتی راہداری کا تعلق بھی ہے جو دونوں ملکوں کے لیے معاشی اہمیت کا حامل ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بظاہر جہاں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر غیر رسمی پناہ فراہم کی وہیں پناہ گزینوں کے حوالے سے اس کی باقاعدہ پالیسی سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی اہداف پر منحصر رہی ہے۔
امریکا اور پاکستان کی مبنی بر تعاون مداخلت اور نتیجتاً یو این ایچ سی آر اور یو ایس ایڈ کے ہمراہ شراکت داری کے باوجود بھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے انتظامات کے لیے قومی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو بین الاقوامی قوانین اور مقامی حکومتی ضروریات کو مد نظر رکھتی ہو۔
قومی سطح پر کسی پناہ گزین قانون کی غیر موجودگی میں پاکستان آنے والے پناہ گزینوں کی حیثیت کا تعین کرنے اور ان کی وطن واپسی کے لیے یو این ایچ سی آر کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ دونوں کنوینشنز جو یو این ایچ سی آر کے آپریشنزکی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں، پاکستان ان میں سے کسی ایک کا بھی دستخط کنندہ نہیں ہے۔
اس حقیقت کا نتیجہ پاکستان کی ریاستی پالیسی اور یو این ایچ سی آر کے اختیارات میں واضح عدم تعلق کی صورت میں جھلکتا ہے۔ 2012 میں افغانستان کے ہمراہ مشترکہ سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے موقع پر یہ سب سے نمایاں دکھائی دیا۔ پاکستانی حکومت اور یو این ایچ سی آر میں بڑے اختلافات موجود ہیں۔
یہ اختلافات نہ صرف طالبان کی آمد کے بعد سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے حوالے سے ہیں بلکہ یہ سرحد پر موجود باڑ اور آمدورفت کے لیے مقررہ چیک پوائنٹس کی موجودگی کے بارے میں خیالات پر بھی ہیں۔
ایک طرف جہاں پاکستانی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو نہیں رکھ سکتی وہیں یو این ایچ سی آر نے سرحدوں پر نگرانی کے عمل میں نرمی لانے کی درخواست کی ہے، نیز اس نے پناہ گزینوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے فنڈز میں اضافہ بھی کیا ہے۔
پاکستانی حکومت اور ان متعدد شراکت دار تنظیموں کے مابین عدم تعلق کہ جن کے ساتھ اسے لازماً کام کرنا چاہیے، خطے کو انسانی، سلامتی اور انتظامی نوعیت کے خطرات سے دوچارکرتا ہے۔حالیہ مہینوں میں پاکستان نے اپنی پناہ گزینوں کی پالیسیوں میں دوکلیدی پیش رفت کی ہیں۔ پہلی پیش رفت کسی تیسرے ملک میں بسنے کے خواہش مند افغانوں کے لیے حکومت پاکستان کی نئی ویزا پالیسی کی منظوری ہے۔
بعد ازاں جون میں حکومت نے افغان تاجروں کو چیک پوائنٹس سے گزرنے میں سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ٹیکس قوانین، تجارتی سہولیات اور طویل المدتی دورانیے میں معاشی انضمام کی تاجروں کو پیشکش جیسے امور پر زیادہ تفصیلات آشکار نہیں کی گئی ہیں۔ نتیجتاً سرحدی سلامتی اور باضابطہ ہجرت میں سہولت مہیا کرنے میں متعدد چیلنجز بدستور موجود ہیں جنھیں حکومت قانونی وضاحت کے ذریعے دورکرسکتی تھی۔
غیر قانونی افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا یہ اہم ترین فیصلہ 3 اکتوبر کو ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فیصلے سے قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے بارہا اس امرکی نشاندہی کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر یہی تارکین وطن ملوث ہوتے ہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ اب غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
اس فیصلے کے مطابق تمام غیر قانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی تھی۔افغان تارکین وطن وہی لوگ ہیں جنھوں نے 1979 میں افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد ہجرت کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے انھیں نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ انھیں ریاستی مہمان بھی قرار دیا۔
ابتدا میں یہ مہاجرین خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم کیے گئے کیمپوں تک محدود رہے، تاہم بعد ازاں یہ پورے ملک میں پھیل گئے جس سے پاکستان میں معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی نوعیت کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ 1979کے بعد اس وقت کی حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کے مسائل کو دیکھنے کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔
اسے افغان کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔ ایک چیف کمشنریٹ آفس اسلام آباد جب کہ کمشنریٹ دفاتر صوبوں میں قائم کیے گئے۔ افغان کمشنریٹ وزارتِ سرحدی امورکے تحت کام کرتے ہیں اور افغان مہاجرین کی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے حوالے سے اپنی خدمات اور فرائض انجام دیتے ہیں۔ 1995 تک افغان کمشنریٹ کا دائرہ کار افغان مہاجرین کے کیمپوں تک محدود تھا کیونکہ اس وقت تک سارے افغان مہاجرین ان کیمپوں تک محدود تھے لیکن اس کے بعد یہ مختلف شہری علاقوں میں پھیل گئے۔
افغان کمشنریٹ کے مطابق 60 سے 70 فیصد افغان مہاجرین کیمپوں کے بجائے شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ اس سلسلے میں افغان کمشنریٹ کی ایما پر وزارت سرحدی امور کی منظوری سے اربن ریفیوجی پالیسی بھی بنائی گئی۔ اس وقت افغان مہاجرین ملک میں جہاں جہاں بھی مقیم ہیں ان کا سارا ریکارڈ وزارت سرحدی امور کے پاس ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس صورت حال سے صحیح طریقے سے نہ نمٹا گیا تو اس سے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
حکومت کی طرف سے صرف ان افغان تارکین وطن کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا کوئی قانونی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی قانونی جواز۔ ان کے پاس کوئی امیگریشن پرمٹ یا پاسپورٹ ہے اور نہ دیگر دستاویزات۔
ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے تمام افغان مہاجر ہیں جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھجوا رہی بلکہ صرف ان لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جن کے پاس یہاں رہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
انھیں صرف اس لیے واپس بھجوایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر قانونی طریقے سے ویزا حاصل کریں اور پھر اگر پاکستان آنا چاہیں تو پاکستان کے لوگ اور حکومت انھیں خوش آمدید کہیں گے، لہٰذا افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے چالیس سال سے زائد حق میزبانی ادا کیا ہے۔ اس احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔
ملک کی سلامتی اور قومی اتحاد و یکجہتی کے معاملات پر سول اور عسکری قیادت مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں تو اس سے یقیناً بھارت اور دوسری ملک دشمن قوتوں کو ہماری جانب سے قومی یکجہتی کا ٹھوس پیغام جائیگا اور انھیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف مزید سازشیں پروان چڑھانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
بلاشبہ ملک کی سلامتی کا تحفظ ہی آج ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس سے عہدہ براء ہونے کے لیے تمام قومی ریاستی اداروں اور پوری قوم نے کردار ادا کرنا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں افغان طالبان کے دور میں خطے میں عدم استحکام بڑھنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ بلاشبہ غیر قانونی تارکین وطن کے پاکستان سے انخلا کو داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت پاکستان کے اس اقدام سے آنے والے دنوں میں داخلی سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں موجود بدامنی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
فارن ایکٹ کے تحت غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، کو ان کے ملک واپس بھیجنا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر لوگ منشیات، اسلحہ فروشی، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی ایسی سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لہٰذا ان کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کا موجودہ فیصلہ کسی بھی لحاظ سے غیر قانونی ہے اور نہ ہی غیر اخلاقی۔
سرکاری دستاویزات میں اندراج کی کمی، سرحدوں پرکڑی نگرانی اور پناہ گزینوں کے لیے رسمی قوانین متعارف کروانے کی راہ میں پاکستان کے لیے ایک اور چیلنج ہے۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغانستان سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے باعث کے پی اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھایا ہے۔
افغان مہاجرین کے ہمراہ جغرافیائی اور لسانی قربت کا نتیجہ سماجی سطح پر ان کے با آسانی گھل مل جانے کی صورت میں نکلتا ہے جس کے بعد باقی کے پورے پاکستان میں ان کی رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ دراصل افغانستان سے ہجرت کو ضابطے کے تحت لانے میں پاکستانی حکومتوں کی نااہلی دونوں ممالک کے درمیان عوام، سازوسامان اور نقدی کے آزادانہ پھیلاؤ اور متشدد نظریات کی سرحد پار سے ممکنہ آمد میں معاون بنتی ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایک دشوارگزار طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں اطراف قبائلی اور سماجی روابط کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کا تجارتی راہداری کا تعلق بھی ہے جو دونوں ملکوں کے لیے معاشی اہمیت کا حامل ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بظاہر جہاں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر غیر رسمی پناہ فراہم کی وہیں پناہ گزینوں کے حوالے سے اس کی باقاعدہ پالیسی سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی اہداف پر منحصر رہی ہے۔
امریکا اور پاکستان کی مبنی بر تعاون مداخلت اور نتیجتاً یو این ایچ سی آر اور یو ایس ایڈ کے ہمراہ شراکت داری کے باوجود بھی پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے انتظامات کے لیے قومی سطح پر ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو بین الاقوامی قوانین اور مقامی حکومتی ضروریات کو مد نظر رکھتی ہو۔
قومی سطح پر کسی پناہ گزین قانون کی غیر موجودگی میں پاکستان آنے والے پناہ گزینوں کی حیثیت کا تعین کرنے اور ان کی وطن واپسی کے لیے یو این ایچ سی آر کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ دونوں کنوینشنز جو یو این ایچ سی آر کے آپریشنزکی قانونی حیثیت کا تعین کرتے ہیں، پاکستان ان میں سے کسی ایک کا بھی دستخط کنندہ نہیں ہے۔
اس حقیقت کا نتیجہ پاکستان کی ریاستی پالیسی اور یو این ایچ سی آر کے اختیارات میں واضح عدم تعلق کی صورت میں جھلکتا ہے۔ 2012 میں افغانستان کے ہمراہ مشترکہ سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے موقع پر یہ سب سے نمایاں دکھائی دیا۔ پاکستانی حکومت اور یو این ایچ سی آر میں بڑے اختلافات موجود ہیں۔
یہ اختلافات نہ صرف طالبان کی آمد کے بعد سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے حوالے سے ہیں بلکہ یہ سرحد پر موجود باڑ اور آمدورفت کے لیے مقررہ چیک پوائنٹس کی موجودگی کے بارے میں خیالات پر بھی ہیں۔
ایک طرف جہاں پاکستانی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو نہیں رکھ سکتی وہیں یو این ایچ سی آر نے سرحدوں پر نگرانی کے عمل میں نرمی لانے کی درخواست کی ہے، نیز اس نے پناہ گزینوں کی آمد سے نمٹنے کے لیے فنڈز میں اضافہ بھی کیا ہے۔
پاکستانی حکومت اور ان متعدد شراکت دار تنظیموں کے مابین عدم تعلق کہ جن کے ساتھ اسے لازماً کام کرنا چاہیے، خطے کو انسانی، سلامتی اور انتظامی نوعیت کے خطرات سے دوچارکرتا ہے۔حالیہ مہینوں میں پاکستان نے اپنی پناہ گزینوں کی پالیسیوں میں دوکلیدی پیش رفت کی ہیں۔ پہلی پیش رفت کسی تیسرے ملک میں بسنے کے خواہش مند افغانوں کے لیے حکومت پاکستان کی نئی ویزا پالیسی کی منظوری ہے۔
بعد ازاں جون میں حکومت نے افغان تاجروں کو چیک پوائنٹس سے گزرنے میں سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ٹیکس قوانین، تجارتی سہولیات اور طویل المدتی دورانیے میں معاشی انضمام کی تاجروں کو پیشکش جیسے امور پر زیادہ تفصیلات آشکار نہیں کی گئی ہیں۔ نتیجتاً سرحدی سلامتی اور باضابطہ ہجرت میں سہولت مہیا کرنے میں متعدد چیلنجز بدستور موجود ہیں جنھیں حکومت قانونی وضاحت کے ذریعے دورکرسکتی تھی۔
غیر قانونی افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا یہ اہم ترین فیصلہ 3 اکتوبر کو ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس فیصلے سے قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے بارہا اس امرکی نشاندہی کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر یہی تارکین وطن ملوث ہوتے ہیں۔ چنانچہ طے پایا کہ اب غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
اس فیصلے کے مطابق تمام غیر قانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی گئی تھی۔افغان تارکین وطن وہی لوگ ہیں جنھوں نے 1979 میں افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد ہجرت کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ لی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے انھیں نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ انھیں ریاستی مہمان بھی قرار دیا۔
ابتدا میں یہ مہاجرین خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قائم کیے گئے کیمپوں تک محدود رہے، تاہم بعد ازاں یہ پورے ملک میں پھیل گئے جس سے پاکستان میں معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی نوعیت کے بے شمار مسائل پیدا ہوئے۔ 1979کے بعد اس وقت کی حکومت پاکستان نے افغان مہاجرین کے مسائل کو دیکھنے کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔
اسے افغان کمشنریٹ کہا جاتا ہے۔ ایک چیف کمشنریٹ آفس اسلام آباد جب کہ کمشنریٹ دفاتر صوبوں میں قائم کیے گئے۔ افغان کمشنریٹ وزارتِ سرحدی امورکے تحت کام کرتے ہیں اور افغان مہاجرین کی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے حوالے سے اپنی خدمات اور فرائض انجام دیتے ہیں۔ 1995 تک افغان کمشنریٹ کا دائرہ کار افغان مہاجرین کے کیمپوں تک محدود تھا کیونکہ اس وقت تک سارے افغان مہاجرین ان کیمپوں تک محدود تھے لیکن اس کے بعد یہ مختلف شہری علاقوں میں پھیل گئے۔
افغان کمشنریٹ کے مطابق 60 سے 70 فیصد افغان مہاجرین کیمپوں کے بجائے شہری علاقوں میں مقیم ہیں۔ اس سلسلے میں افغان کمشنریٹ کی ایما پر وزارت سرحدی امور کی منظوری سے اربن ریفیوجی پالیسی بھی بنائی گئی۔ اس وقت افغان مہاجرین ملک میں جہاں جہاں بھی مقیم ہیں ان کا سارا ریکارڈ وزارت سرحدی امور کے پاس ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر اس صورت حال سے صحیح طریقے سے نہ نمٹا گیا تو اس سے پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
حکومت کی طرف سے صرف ان افغان تارکین وطن کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا کوئی قانونی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی قانونی جواز۔ ان کے پاس کوئی امیگریشن پرمٹ یا پاسپورٹ ہے اور نہ دیگر دستاویزات۔
ایک تاثر یہ بھی دیا جا رہا ہے کہ پاکستان سے بے دخل کیے جانے والے تمام افغان مہاجر ہیں جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھجوا رہی بلکہ صرف ان لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جن کے پاس یہاں رہنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
انھیں صرف اس لیے واپس بھجوایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر قانونی طریقے سے ویزا حاصل کریں اور پھر اگر پاکستان آنا چاہیں تو پاکستان کے لوگ اور حکومت انھیں خوش آمدید کہیں گے، لہٰذا افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد کرے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے چالیس سال سے زائد حق میزبانی ادا کیا ہے۔ اس احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔
ملک کی سلامتی اور قومی اتحاد و یکجہتی کے معاملات پر سول اور عسکری قیادت مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں تو اس سے یقیناً بھارت اور دوسری ملک دشمن قوتوں کو ہماری جانب سے قومی یکجہتی کا ٹھوس پیغام جائیگا اور انھیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف مزید سازشیں پروان چڑھانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
بلاشبہ ملک کی سلامتی کا تحفظ ہی آج ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس سے عہدہ براء ہونے کے لیے تمام قومی ریاستی اداروں اور پوری قوم نے کردار ادا کرنا ہے۔