’’سندھو‘‘ کی بے بس بیٹیاں

عوام سمجھتے ہیں کہ سندھ کے سابق حکمرانوں نے جہاں جاگیرداری اوروڈیرے کلچر کے دفاع میں سندھ کوبدعنوانی کا صوبہ بنایا ہے

Warza10@hotmail.com

آج پھر میری سندھو دھرتی لہو لہان ہے، سر میں مٹی ڈالے نالہ و فریاد کر رہی ہے، بلک رہی ہے سسک رہی ہے، میرے سندھو کی گیتی اپنی بیٹیوں کے بے رحمانہ قتل اور لاپرواہ اداروں کے سربراہوں اور حکمرانوں کی بے حسی پر لعن طعن کر رہی ہے، آج پھر میری سندھو ایک اور بیٹی سنیہا جوتی کیسوانی جو میڈیکل کالج کی طالبہ ہے۔

سنیہاکی سہیلیاں کالج کی بے حس انتظامیہ کو مدد کے لیے پکارتی رہیں، مگر انتظامیہ کا کوئی کارندہ سنیہا جوتی کیسوانی کی مدد کو نہ پہنچا اور سنیہا بے یاس و مددگار زندہ لاش کی طرح تڑپتی رہی، جس پر ہمت کرکے کالج کے لڑکوں نے سنیہا جوتی کو رکشے میں ڈال کر اسپتال پہنچایا مگر اس وقت تک سنیہا جوتی اپنی زندگی کی آخری ہچکی لے چکی تھی،وہ انتظامیہ کی لاپرواہی پر اس امید کے ساتھ مر چکی تھی کہ۔

شاید میری خاکستر حشر کر سکے برپا

زندگی کی خواہش میں آؤ آج مر جائیں

ڈھرکی کے پسماندہ علاقے سے اپنی آنکھوں میں ڈاکٹر بننے کے خواب سجائے سنیہا جوتی اپنے پختہ ارادوں اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو میں نا ممکن کو ممکن بنانے والی ایسی بہادر تھی کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے گاؤں کی بچپن گلیاں اور یادیں چھوڑ کر خیرپور میڈیکل کے ہاسٹل کی زندگی میں مگن اپنی ڈاکٹری کو ''ممکن'' بنانے میں جتی ہوئی تھی، وہ بے خطر اپنے مشن کی تکمیل کے مرحلے میں تھی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔

انتظامیہ سنیہا کی پر اسرا رموت موت کی وضاحتیں دیتی ہوئی اپنی نا اہلی اور لا پرواہی کو چھپاتی رہی، سندھو کی بیٹیوں کے قتل کو کبھی خودکشی ظاہر کر دیا جاتا ہے،کبھی قتل کو محبت کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے اور کبھی پیر وڈیرے کی اوطاق میں عصمت دری کو ناگہانی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے،اور ان تمام واقعات پر سندھ حکومت نے ہمیشہ مجرمانہ عمل کیا یا مجرمانہ خاموشی ظاہر کی، جس کی اہم مثال معصوم بیٹی فاطمہ کا رانی پور میں ایک پیر وڈیرے کے ہاتھوں قتل ہے،جس میں قاتل گرفتار ہیں مگر کسی بھی وقت فاطمہ کے خون کا سودا متوقع ہے۔

سندھ میں اکثر اغوا قتل اور بدعنوانی کے پیچھے سندھ کے جاگیردار، پیر وڈیرے ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار نظر آئیں گے، وہ چاہے رئیس چانڈیو کے ہاتھوں رباب چانڈیو کے باپ بھائی سمیت چار افراد کا قتل ہو یا گورکھ ہل پارک کی تزئین و آرائش کے سلسلے میں اربوں روپے کی بدعنوانی ہو یا پھر سکھر ریجن میں کھلم کھلا دادا گیری ہو۔پورا سندھ سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری اور سہولت کار کی نشاندہی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔


دور کیوں جائیے میرے سندھ کی مٹی میں جنم لینے والی بیٹیوں نائلہ رند،ڈاکٹر ارمیلا دیوی،ڈاکٹر نمرتا،ڈاکٹر نوشین کاظمی آج تک انصاف کے لیے ترس رہی ہیں لیکن مجال کہ انسانی حقوق اور عورت کے حقوق میں گلے پھاڑنے والی سندھ کی عورت حقوق کے علمبردار رہنماؤں نے ان مذکورہ بیٹیوں کے لیے انصاف کی آواز اٹھائی ہو،یہ سندھ کے غیر قانونی ماحول کی وہ ہلکی سی جھلک ہے۔

نائلہ، نوشین، نمرتا کے بعد سنیہا جوتی کی پر اسرار ہلاکت سندھ کی درس گاہوں میں لڑکیوں کی مقتل گاہ بنتی جارہی ہیں، گزشتہ چند سال کے دوران ایم بی بی ایس کی طالبات کی پراسرار اموات ہوئیں۔سنیہا جوتی سے قبل نوشین کاظمی، ان سے پہلے نمرتا چندانی اور ان سے قبل نائلہ رند کی بھی یونیورسٹی میں پراسرار ہلاکت ہوئی تھی۔

یکم جنوری 2017 کو سندھ یونیورسٹی کے شعبہ'سندھی' کی طالبہ نائلہ رند کی انڈر گریجویٹس (یو جی) ہاسٹل کے کمرہ نمبر 36 سے پنکھے سے لٹکی لاش ملی تھی، جسے ابتدائی طور پر خودکشی قرار دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انکشاف ہوا تھا کہ گرلز ہاسٹل کا طاقتور گروپ اس واقعہ میں ملوث تھا۔

بیچلرز ان ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی 17 ستمبر 2019 کو اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی، ابتدائی طور پر ان کی خودکشی کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انہیں مبینہ قتل کیے جانے کے انکشافات بھی سامنے آئے تھے مگر حیدرآباد چیپٹر کی عورت حقوق تنظیم کی رہنما کالج کی پرنسپل پروین شاہ کے موقف کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑی رہیں اور نمرتا کی لاش آج بھی سوالیہ نشان ہے۔

چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ کی ایم بی بی ایس فائنل ایئر کی طالبہ نوشین کاظمی کی بھی 23 نومبر 2021 کو ہاسٹل کے کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش ملی تھی۔ ابتدائی طور پر ان کی بھی خودکشی کا خدشہ ظاہر کیا گیا لیکن بعد ازاں انہیں بھی قتل کیے جانے کے انکشافات سامنے آئے تھے۔

سندھ بھر کی یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز میں ہر دو سال کے بعد لڑکیوں کی لاشیں ملنے پر سندھ بھر کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، عوام سمجھتے ہیں کہ سندھ کے سابق حکمرانوں نے جہاں جاگیرداری اور وڈیرے کلچر کے دفاع میں سندھ کو بدعنوانی کا صوبہ بنایا ہے وہیں تعلیمی درس گاہوں کو لڑکیوں کی مقتل بنا دیا ہے،جبکہ میرے سندھو کی نوجوان لڑکیوں کی پراسرار ہلاکتیں سندھ کی لڑکیوں کو تعلیم سے دور کرنے کی گہری سازش ہے جس کا مداوا وقت کی ضرورت ہے۔

ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
Load Next Story