عقیدت کے پھول
شکیل فاروقی کا حمدیہ اور نعتیہ کلام ایمان کامل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت اور محبت کا ثمرہے
بعنوان '' عقیدت کے پھول'' حمدیہ نعتیہ کلام ہے، شعری مجموعے کے خالق شکیل فاروقی ہیں، ان کی اپنے مالک و خالق اور اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لازوال محبت کا یہ ثمر ہے کہ مجموعہ حمد و نعت عاشقین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے، انہوں نے اپنے مضمون ''اعتراف'' میں لکھا ہے کہ ''عقیدت کے پھول'' کی پیشکش رب کریم کی عطا اور حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔
انہوں نے اپنی تحریر میں دوست احباب کا ذکر بہت محبت اور قدر دانی کے ساتھ کیا ہے۔ اس کی وجہ ان کا حوصلہ بڑھانے والے یہی قابل احترام شعرا اور ناقدین ہیں جن کی محبت اور خلوص کی بدولت شاعری کے بکھرے ہوئے اوراق یکجا ہو کر کتابی شکل میں سامنے آئے ہیں۔
اس کارِ خیر میں نمایاں کردار شکیل صاحب کی صاحبزادی مہ وش فاروقی کا ہے جس نے انتہائی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ منتشر صفحات کو تلاش کرکے ناممکن کو ممکن بنایا۔ قابل احترام ڈاکٹر عزیز احسن اور ندیم صدیقی کے مضامین شامل اشاعت ہیں، پروفیسر محمد منشا طاہر نے ''اظہاریہ'' کا عنوان دے کر ایک خوبصورت تحریر قلم بند کی ہے۔
ڈاکٹر عزیز احسن نے شکیل فاروقی کا مکمل تعارف خصوصاً ریڈیو پاکستان اور ان سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے محبت اور قدر دانی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ''نعتیہ مجموعے کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا، وہ ایک سچے مسلمان کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کرتے ہیں، ان کی محبت ریاکارانہ نہیں ہے، ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساس ندامت، حب نبویؐ کی حرارت، بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب شامل ہے، شکیل صاحب کی نعتیہ شاعری پر اردو کلاسیکی شعری بوطیقا کا پرتو ہے، انہوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات و احساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔''
ندیم صدیقی کا تعلق ممبئی انڈیا سے ہے، وہ شاعر، ادیب اور صحافی ہیں، صاحب علم اور صاحب عرفان ،ندیم صدیقی کے مضمون کا ہر لفظ قابل توجہ اور باعث احترام ہے، جس انداز میں انہوں نے نعتیہ شاعری کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور بہت اہم نکات کی طرف قارئین کا ذہن مبذول کرایا ہے، بے شک یہ ان کا ہی حصہ ہے، احسان دانش سے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی نعت سے محبت و الفت کے ساتھ ساتھ جمیل مرصع پوری کے اس شعر تک وہ پہنچے ہیں:
اپنی روداد ہے مختصر دوستو!
ان کا در چھٹ گیا، در بدر ہوگئے
انہی شاعر بزرگوار کی غزل کا یہ شعر بھی عاشقین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دربار رسالت میں پہنچا دیتا ہے:
ایک بے نام سی خوشبو تھی کہ لب چوم گئی
میں کہ لینے بھی نہ پایا تھا ترا نام ابھی
ندیم صدیقی دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات پر دل گرفتہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے منشی منقہ کے اپنے شعری مجموعے ''دیوان عام عرف کڑوے بادام'' میں اس طرحی مصرعہ (میرے مولا بلا لو مدینے مجھے) پر مسدس نما خاصی تضمین کی ہے، جس کا عنوان ہے:
میرے مولا بلا لو مدینے مجھے
یہاں جینے نہ دیں گے کمینے مجھے
یہ پوری مسدس نما تضمین ہے جو اپنے طرز اظہار میں ایک نمونہ ہے۔ عطا الحق قاسمی کا یہ شعر بھی اسی کی قبیل کا ہے:
دیکھتے رہتے ہیں ہم خواب مدینے کے
اور کوفے کی جانب چلتے رہتے ہیں
ندیم صدیقی نے شکیل فاروقی کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ شکیل فاروقی کا تعلق یوپی کے ایک قصبے بگھرا (Baghra) سے ہے، وہ سچے علم دوست شاعر ہیں، عملی زندگی میں ان کا تعلق شعبہ نشر و اشاعت سے رہا ہے۔
ان کے ذہن و قلب میں رسول کریمؐ سے حقیقی محبت و مودت خون بن کے رواں ہے۔ شکیل فاروقی نے اپنے ایقان و ایمان کے ساتھ پورے اصرار اور واضح لفظوں میں کہا ہے:
ملے گی ہم کو شفاعت یقین کامل ہے
نبیؐ کے ساتھ مگر ارتباط لازم ہے
ادا ہوئی جو لب سے وہ نعت اپنی جگہ
لکھی ہوئی ہو جو دل پر وہ نعت لازم ہے
ندیم صدیقی کا مضمون چھوٹے چھوٹے ان واقعات سے پُر ہے جو ایمان کو تازگی بخشتے ہیں، جناب خالد عرفان کا شعر اور ایک واقعہ بھی درج ہے:
میں نعتِ احمد مختار پڑھنے والا ہوں
تم اپنے ذوقِ سماعت کو باوضو رکھنا
شکیل فاروقی کی کتاب عقیدت کے پھول نعت ریسرچ سینٹر سے شایع ہوئی ہے، صبیح رحمانی کی بیک کور پر بہت دل آویز اور مستند رائے بھی درج ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حمدیہ کلام میں شکیل فاروقی سراپا بندگی اور تسلیم و رضا کے پیکر نظر آتے ہیں، رب کائنات کی خلاقی، قدرت کی بے کراں وسعتوں اور جلوؤں کی فراوانی کو انہوں نے روانی، سلیقے اور سلاست سے جزو کلام کیا ہے، خیال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لیے کس قدر حیات آفرین ہے، احساس کی اس پختہ بنیاد کے باعث سہل ممتنع کے عمدہ نمونے ان کے نعتیہ کلام میں ملتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تخاطب کے وقت ان کے لہجے میں جو ایک رنگ ابھرتا ہے وہ حضورؐ کی ذات گرامی سے ان کے گہرے جذباتی رشتے کا مظہر ہے۔''
شکیل فاروقی کا حمدیہ اور نعتیہ کلام ایمان کامل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت اور محبت کا ثمر ہے۔ انہوں نے کوشش کرکے نعت و حمد کے میدان میں معطر پھولوں کی آبیاری نہیں کی ہے بلکہ ان کے ذہن و دل میں محبت کی تڑپ اور قوت ایمانی نے ان کی شعری صلاحیتوں کو حسن بخشا ہے۔ ان کی نگاہ اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ اور اس کے حسن پر ہے، ان کی نگاہیں اللہ کے جلووں کو دیکھنے میں محو اور قلم صفحہ قرطاس پر چاند، تارے ٹانک رہا ہے۔ حمد کا مطلع ہے:
کوہساروں میں تری جلوہ گری
آبشاروں میں تری جلوہ گری
شکیل فاروقی کا نعتیہ کلام بھی بے حد موثر اور دلکش ہے، ملاحظہ فرمائیے:
دل دیوانہ حضور پاکؐ کا ہے
یہ ٹھکانہ حضور پاکؐ کا ہے
ہم جسے صنف نعت کہتے ہیں
وہ ترانہ حضور پاکؐ کا ہے
جس کی دنیا مثال دیتی ہے
وہ زمانہ حضور پاکؐ کا ہے
جس کی عظمت بیاں سے ہے باہر
وہ گھرانہ حضور پاکؐ کا ہے
ماشا اللہ شکیل فاروقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب کامل کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے گہری وابستگی رہی ہے۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' میں ایک ہزار سے زائد کالم لکھ چکے ہیں۔ چلتے چلتے نعت کا ایک شعر:
مدحتِ سرورِ کونینؐ کی دل میں ہے تڑپ
پر وہ حسانؓ کا انداز کہاں سے لاؤں؟
ہاتھ میں تھامے قلم بیٹھا ہوں اور سوچ میں گم
نعت کا نقطہ آغاز کہاں سے لاؤں
انہوں نے اپنی تحریر میں دوست احباب کا ذکر بہت محبت اور قدر دانی کے ساتھ کیا ہے۔ اس کی وجہ ان کا حوصلہ بڑھانے والے یہی قابل احترام شعرا اور ناقدین ہیں جن کی محبت اور خلوص کی بدولت شاعری کے بکھرے ہوئے اوراق یکجا ہو کر کتابی شکل میں سامنے آئے ہیں۔
اس کارِ خیر میں نمایاں کردار شکیل صاحب کی صاحبزادی مہ وش فاروقی کا ہے جس نے انتہائی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ منتشر صفحات کو تلاش کرکے ناممکن کو ممکن بنایا۔ قابل احترام ڈاکٹر عزیز احسن اور ندیم صدیقی کے مضامین شامل اشاعت ہیں، پروفیسر محمد منشا طاہر نے ''اظہاریہ'' کا عنوان دے کر ایک خوبصورت تحریر قلم بند کی ہے۔
ڈاکٹر عزیز احسن نے شکیل فاروقی کا مکمل تعارف خصوصاً ریڈیو پاکستان اور ان سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے محبت اور قدر دانی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ''نعتیہ مجموعے کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا، وہ ایک سچے مسلمان کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کرتے ہیں، ان کی محبت ریاکارانہ نہیں ہے، ان کی نعتیہ شاعری میں ذاتی احساس ندامت، حب نبویؐ کی حرارت، بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے کی آرزو اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب شامل ہے، شکیل صاحب کی نعتیہ شاعری پر اردو کلاسیکی شعری بوطیقا کا پرتو ہے، انہوں نے بڑی سادگی سے اپنے جذبات و احساسات کا عکس قرطاس پر اتارا ہے۔''
ندیم صدیقی کا تعلق ممبئی انڈیا سے ہے، وہ شاعر، ادیب اور صحافی ہیں، صاحب علم اور صاحب عرفان ،ندیم صدیقی کے مضمون کا ہر لفظ قابل توجہ اور باعث احترام ہے، جس انداز میں انہوں نے نعتیہ شاعری کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور بہت اہم نکات کی طرف قارئین کا ذہن مبذول کرایا ہے، بے شک یہ ان کا ہی حصہ ہے، احسان دانش سے ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی نعت سے محبت و الفت کے ساتھ ساتھ جمیل مرصع پوری کے اس شعر تک وہ پہنچے ہیں:
اپنی روداد ہے مختصر دوستو!
ان کا در چھٹ گیا، در بدر ہوگئے
انہی شاعر بزرگوار کی غزل کا یہ شعر بھی عاشقین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دربار رسالت میں پہنچا دیتا ہے:
ایک بے نام سی خوشبو تھی کہ لب چوم گئی
میں کہ لینے بھی نہ پایا تھا ترا نام ابھی
ندیم صدیقی دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات پر دل گرفتہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے منشی منقہ کے اپنے شعری مجموعے ''دیوان عام عرف کڑوے بادام'' میں اس طرحی مصرعہ (میرے مولا بلا لو مدینے مجھے) پر مسدس نما خاصی تضمین کی ہے، جس کا عنوان ہے:
میرے مولا بلا لو مدینے مجھے
یہاں جینے نہ دیں گے کمینے مجھے
یہ پوری مسدس نما تضمین ہے جو اپنے طرز اظہار میں ایک نمونہ ہے۔ عطا الحق قاسمی کا یہ شعر بھی اسی کی قبیل کا ہے:
دیکھتے رہتے ہیں ہم خواب مدینے کے
اور کوفے کی جانب چلتے رہتے ہیں
ندیم صدیقی نے شکیل فاروقی کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ شکیل فاروقی کا تعلق یوپی کے ایک قصبے بگھرا (Baghra) سے ہے، وہ سچے علم دوست شاعر ہیں، عملی زندگی میں ان کا تعلق شعبہ نشر و اشاعت سے رہا ہے۔
ان کے ذہن و قلب میں رسول کریمؐ سے حقیقی محبت و مودت خون بن کے رواں ہے۔ شکیل فاروقی نے اپنے ایقان و ایمان کے ساتھ پورے اصرار اور واضح لفظوں میں کہا ہے:
ملے گی ہم کو شفاعت یقین کامل ہے
نبیؐ کے ساتھ مگر ارتباط لازم ہے
ادا ہوئی جو لب سے وہ نعت اپنی جگہ
لکھی ہوئی ہو جو دل پر وہ نعت لازم ہے
ندیم صدیقی کا مضمون چھوٹے چھوٹے ان واقعات سے پُر ہے جو ایمان کو تازگی بخشتے ہیں، جناب خالد عرفان کا شعر اور ایک واقعہ بھی درج ہے:
میں نعتِ احمد مختار پڑھنے والا ہوں
تم اپنے ذوقِ سماعت کو باوضو رکھنا
شکیل فاروقی کی کتاب عقیدت کے پھول نعت ریسرچ سینٹر سے شایع ہوئی ہے، صبیح رحمانی کی بیک کور پر بہت دل آویز اور مستند رائے بھی درج ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حمدیہ کلام میں شکیل فاروقی سراپا بندگی اور تسلیم و رضا کے پیکر نظر آتے ہیں، رب کائنات کی خلاقی، قدرت کی بے کراں وسعتوں اور جلوؤں کی فراوانی کو انہوں نے روانی، سلیقے اور سلاست سے جزو کلام کیا ہے، خیال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لیے کس قدر حیات آفرین ہے، احساس کی اس پختہ بنیاد کے باعث سہل ممتنع کے عمدہ نمونے ان کے نعتیہ کلام میں ملتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تخاطب کے وقت ان کے لہجے میں جو ایک رنگ ابھرتا ہے وہ حضورؐ کی ذات گرامی سے ان کے گہرے جذباتی رشتے کا مظہر ہے۔''
شکیل فاروقی کا حمدیہ اور نعتیہ کلام ایمان کامل اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت اور محبت کا ثمر ہے۔ انہوں نے کوشش کرکے نعت و حمد کے میدان میں معطر پھولوں کی آبیاری نہیں کی ہے بلکہ ان کے ذہن و دل میں محبت کی تڑپ اور قوت ایمانی نے ان کی شعری صلاحیتوں کو حسن بخشا ہے۔ ان کی نگاہ اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ اور اس کے حسن پر ہے، ان کی نگاہیں اللہ کے جلووں کو دیکھنے میں محو اور قلم صفحہ قرطاس پر چاند، تارے ٹانک رہا ہے۔ حمد کا مطلع ہے:
کوہساروں میں تری جلوہ گری
آبشاروں میں تری جلوہ گری
شکیل فاروقی کا نعتیہ کلام بھی بے حد موثر اور دلکش ہے، ملاحظہ فرمائیے:
دل دیوانہ حضور پاکؐ کا ہے
یہ ٹھکانہ حضور پاکؐ کا ہے
ہم جسے صنف نعت کہتے ہیں
وہ ترانہ حضور پاکؐ کا ہے
جس کی دنیا مثال دیتی ہے
وہ زمانہ حضور پاکؐ کا ہے
جس کی عظمت بیاں سے ہے باہر
وہ گھرانہ حضور پاکؐ کا ہے
ماشا اللہ شکیل فاروقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب کامل کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے گہری وابستگی رہی ہے۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' میں ایک ہزار سے زائد کالم لکھ چکے ہیں۔ چلتے چلتے نعت کا ایک شعر:
مدحتِ سرورِ کونینؐ کی دل میں ہے تڑپ
پر وہ حسانؓ کا انداز کہاں سے لاؤں؟
ہاتھ میں تھامے قلم بیٹھا ہوں اور سوچ میں گم
نعت کا نقطہ آغاز کہاں سے لاؤں