جھوٹ کے مضمرات اور تباہ کاریاں
اسلام میں جھوٹ کو منافق کی نشانی اور معاشرے کے لیے زہر قاتل قرار دیا گیا ہے
جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے اس بات کو سب مانتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم عملی طور پر اس سے بہت دور ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہم ہر بات پر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اس پر ڈٹ جا تے ہیں اور سچائی کے قریب ہی نہیں جاتے بلکہ بدزبانی و بدکلامی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں ۔
انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک مسلم معاشرہ میں رہتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہم وہ کام کرتے ہیں جس سے ہمیں اسلام نے روکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو ، یا اَنجانے میں ہو ، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے۔
لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسے افراد پر جوجھوٹ بولتے ہیں اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے ترجمہ ''لعنت کریں اللہ کی اْن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔'' (سورہ آلِ عمران: 61) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے، ترجمہ ''اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہو گی(سورۃ الاسراء :36) آیت مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ''یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدرِ کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی کوئی حکم کسی پر لاگو نہ کرے، یا عمل درآمد شروع نہ کردے۔
اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کر کسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کر لینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، ان دیکھی، یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن ہر چیز کا سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟ (تفسیر عثمانی) انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ترجمہ ''وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔'' (سورہ ق:18) یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اْسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ ''پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے (سورۃ النحل:105) ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے ترجمہ: '' اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے۔
ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاویں گے۔'' (سورۃ النحل:116) امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنیؒ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا''انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضا دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔'' (ابن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج:8، ص:143) رسول اللہﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔
ترجمہ:''حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا ''ہاں'' پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ''ہاں۔'' پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ''نہیں (اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا) (مؤطا امام مالک، حدیث:824/3230) ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلت نفاق سے متصف ہے۔
ترجمہ ''جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔'' (صحیح بخاری، حدیث: 34)ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں ترجمہ: ''جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔''
(سنن ترمذی:1972) ایک حدیث میں پیارے نبیﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے، ترجمہ: ''یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آنکہ اللہ کے یہاں ''کذاب'' (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے (صحیح بخاری، حدیث:6094) رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔
خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے، ترجمہ ''یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آنکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔'' (سنن ابو داود، حدیث: 4971) نبی کریمﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کی فطرت میں اور اْس کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے، سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اس ماحول و معاشرہ میں چیزوں کی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے۔
اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوش بو اور بدبو ہوتی ہے، جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بدبومحسوس کرتے ہیں، ایسی مخصوص خوشبو اور بد بو کبھی کبھی اللہ کے وہ بندے بھی محسوس کر لیتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آجاتی ہے، جھوٹ کی بعض قسمیں تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں، کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن حضورﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا اور پھر آپ ﷺ نے سورہ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی: ترجمہ:''یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو۔'' اس آیت میں اللہ رب العزت کے طرز کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ بولنا دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ''اجتنبوا'' لفظ استعمال فرمایا ہے۔
یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرہ کے سمجھ دار افراد بھی بْرا سمجھتے ہیں، لیکن یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے معاشرہ جھوٹ ہی نہیں سمجھتا ، بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں، رسول اللہﷺ نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ترجمہ:''آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اْسے بیان کرتا پھرے۔''بیہقی میں عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن وضو فرما رہے تھے۔
صحابہ کرام ؓ آپ کے وضو کا پانی لے لے کر اپنے چہروں اور جسم پر مل لیتے تھے، آپﷺ نے پوچھا اس بات پر تمہیں کیا چیز آمادہ کرتی ہے اور تمہارے اندر کون سا ایسا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ کر رہے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت۔ آپ نے یہ جواب سن کر فرمایا: ترجمہ ''جس شخص کی یہ خوشی ہو اور وہ یہ چاہے کہ اْسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے حقیقی محبت ہو اور اللہ اور اس کے رسول بھی اْس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اورجب کوئی امانت اْس کے سپرد کی جائے تو اسے ادا کر دے اور جس شخص کے ہمسائے میں رہے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔'' سچ بولنے کی عادت انسان اپنے اندر پیدا کر لے تو یہ خوبی آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر دنیا کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور سب سے بڑا انعام تو وہ ہے جسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ترجمہ''جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہے اور صرف سچائی ہی کو اختیار کرے تو اللہ کے نزدیک وہ سچا لکھا جاتا ہے اور اسے صدیق کا مرتبہ عطا کر دیا جاتا ہے۔''جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔
اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں ۔
اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ''نبی اکرمﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی ، چنانچہ آپﷺ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ ﷺ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپﷺ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہو جاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کر لی ہے (مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم، ج: 3، ص:209) اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے اور پوری زندگی سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک مسلم معاشرہ میں رہتے ہوئے بحیثیت مسلمان ہم وہ کام کرتے ہیں جس سے ہمیں اسلام نے روکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ، چاہے جان کر ہو ، یا اَنجانے میں ہو ، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے۔
لڑائی، جھگڑا اور خون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے، کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسے افراد پر جوجھوٹ بولتے ہیں اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے ترجمہ ''لعنت کریں اللہ کی اْن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔'' (سورہ آلِ عمران: 61) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے، ترجمہ ''اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہو گی(سورۃ الاسراء :36) آیت مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ''یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر، آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدرِ کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے، سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی کوئی حکم کسی پر لاگو نہ کرے، یا عمل درآمد شروع نہ کردے۔
اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کر کسی کے درپے آزار ہونا، یا بغض و عداوت قائم کر لینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلافِ شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، ان دیکھی، یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا، غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں، یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن ہر چیز کا سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟ (تفسیر عثمانی) انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ترجمہ ''وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔'' (سورہ ق:18) یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اْسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ ''پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے (سورۃ النحل:105) ایک دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے ترجمہ: '' اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے۔
ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاویں گے۔'' (سورۃ النحل:116) امام احمدؒ نے بلال بن حارث مزنیؒ سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا''انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضا دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔'' (ابن کثیر، تلخیص، از: معارف القرآن، ج:8، ص:143) رسول اللہﷺ نے جھوٹ کو ایمان کا منافی عمل قرار دیا ہے۔
ترجمہ:''حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا گیا کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا ''ہاں'' پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا ''ہاں۔'' پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ''نہیں (اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا) (مؤطا امام مالک، حدیث:824/3230) ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلت نفاق سے متصف ہے۔
ترجمہ ''جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔'' (صحیح بخاری، حدیث: 34)ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تورحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں ترجمہ: ''جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔''
(سنن ترمذی:1972) ایک حدیث میں پیارے نبیﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے، ترجمہ: ''یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آنکہ اللہ کے یہاں ''کذاب'' (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے (صحیح بخاری، حدیث:6094) رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔
خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے، ترجمہ ''یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حال آنکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔'' (سنن ابو داود، حدیث: 4971) نبی کریمﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کی فطرت میں اور اْس کی طبیعت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے، سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اس ماحول و معاشرہ میں چیزوں کی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے۔
اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوش بو اور بدبو ہوتی ہے، جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بدبومحسوس کرتے ہیں، ایسی مخصوص خوشبو اور بد بو کبھی کبھی اللہ کے وہ بندے بھی محسوس کر لیتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آجاتی ہے، جھوٹ کی بعض قسمیں تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں، کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن حضورﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا اور پھر آپ ﷺ نے سورہ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی: ترجمہ:''یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو۔'' اس آیت میں اللہ رب العزت کے طرز کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ بولنا دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ''اجتنبوا'' لفظ استعمال فرمایا ہے۔
یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرہ کے سمجھ دار افراد بھی بْرا سمجھتے ہیں، لیکن یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے معاشرہ جھوٹ ہی نہیں سمجھتا ، بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں، رسول اللہﷺ نے اس سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ترجمہ:''آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اْسے بیان کرتا پھرے۔''بیہقی میں عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن وضو فرما رہے تھے۔
صحابہ کرام ؓ آپ کے وضو کا پانی لے لے کر اپنے چہروں اور جسم پر مل لیتے تھے، آپﷺ نے پوچھا اس بات پر تمہیں کیا چیز آمادہ کرتی ہے اور تمہارے اندر کون سا ایسا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ کر رہے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت۔ آپ نے یہ جواب سن کر فرمایا: ترجمہ ''جس شخص کی یہ خوشی ہو اور وہ یہ چاہے کہ اْسے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے حقیقی محبت ہو اور اللہ اور اس کے رسول بھی اْس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اورجب کوئی امانت اْس کے سپرد کی جائے تو اسے ادا کر دے اور جس شخص کے ہمسائے میں رہے اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔'' سچ بولنے کی عادت انسان اپنے اندر پیدا کر لے تو یہ خوبی آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر دنیا کی زندگی کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ ساتھ جنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور سب سے بڑا انعام تو وہ ہے جسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ترجمہ''جو آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہے اور صرف سچائی ہی کو اختیار کرے تو اللہ کے نزدیک وہ سچا لکھا جاتا ہے اور اسے صدیق کا مرتبہ عطا کر دیا جاتا ہے۔''جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔
اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آگاہ اور باخبر کریں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں، کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں ۔
اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ''نبی اکرمﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی ، چنانچہ آپﷺ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ ﷺ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپﷺ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہو جاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کر لی ہے (مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم، ج: 3، ص:209) اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے اور پوری زندگی سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے ۔