کچھ محبت کچھ بے بسی
چند دن پہلے انور سن رائے نے اپنا مجموعہ کلام یہ کہہ کے دیا،’’اس پر کچھ لکھو۔‘‘
لمبے بالوں اور لبوں پر برا جمان مونچھوں والے انور سن رائے کو میں پہچانتی تو ۱۹۷۳ سے ہی ہوں، بس فرق یہ ہے کہ زلف پریشان اس وقت سیاہ تھی۔ چہرے پر کم وبیش ایسی ہی مسکراہٹ اور حلیہ بھی کچھ ایسا سا ہی ہوتا تھا۔
کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے ماحول میں آرٹس فیکلٹی میں بنے چھوٹے سے تالاب کا اطرافی علاقہ تمام نوآموز مغنیوں، موسیقاروں، شاعروں اور ہر قسم کے انقلابیوں کا گڑھ ہوتا تھا۔ سب مل جل کے، تنہا تنہا اپنے شوق پورے کر رہے ہوتے تھے۔
اس بات سے میں اس وقت بھی آگاہ تھی کہ یہ لمبے بالوں اور گھٹنوں تک لٹکتے تھیلے نما بیگ والا لڑکا شاعر ی کرتا ہے۔ کیسی شاعری کرتا ہے؟ کتنا بڑا شاعر ہے؟ اس سب سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔
چند دن پہلے انور سن رائے نے اپنا مجموعہ کلام یہ کہہ کے دیا،''اس پر کچھ لکھو۔''
''میں!'' میں نے لمبی سی میں کے ساتھ پوچھا؟ اور کتاب کو پکڑتے ہوئے اس کے سرورق پر نظر ڈالی، انور کا کئی رنگوں والا تجریدی چہرہ مسکرا رہا تھا اور کتاب کی پیشانی پر ۱۹۷۳-۲۰۲۳ لکھا ہوا تھا۔ میرے تمام اچھے برے، کم اچھے، کم برے، لکھنے والے، بولنے والے، جاننے والے تما دوستوں کو پتا ہے کہ میں اور شاعری ایک دوسرے کے متوازی وہ دو لائنیں ہیں جو کبھی نہیں ملتیں۔ شاعری پسند بہت ہے۔ اچھے اور پسندیدہ شاعروں کی کتابوں کا ایک اچھا کلیکشن بھی رکھتی ہوں لیکن کسی شاعر کی کتاب پر لکھنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ اور شاعر بھی ایسا جو پچاس سال سے شاعری کر رہا ہو۔ میرا جیسا جاہل کیا کہے گا اور لکھے گا اس کے بارے میں،
ان کی موجودہ کتاب دراصل ان کی پچاس برسوں کی شاعری کا اجتماع ہے۔ ان کی اس کتاب سے ہی پتا چلا کہ موصوف بنیادی طور پر پیروں، فقیروں، ولیوں اور مزاروں کی سرزمین جسے آج کل کی سیاسی زبان میں سرائیکی بیلٹ کہتے ہیں کہ ہونہار بُروا ہیں۔ ان کا بچپن خیرپور کی گلیوں میں بھی گزرا ہے اور اپنی نوجوانی کے آغاز ہی میں موصوف کراچی آگئے تھے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے نلکوں کا پانی جس نے ایک بار پی لیا وہ پھر نہ صرف پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بلکہ وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا۔ اس دور میں کراچی آنے والوں میں سے بیشتر کا ماضی محنت مشقت سے بھر پور ماضی ہوتا ہے سو وہ انور سن رائے کا بھی ہے۔ انھوں نے محنت کی پڑھا، لکھا، شاعری کی، شادی کی اور نوکریاں بھی کیں۔
انور کی زندگی میں شاعری اگر ان کا اُوڑھنابچھونا ہے تو صحافت کی ڈور بھی ان کے قدموں سے لپٹی ہوئی ہے۔ اسی ڈور کے سہارے وہ کئی سال بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس میں بھی گزار چکے ہیں۔ وہ ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے ناول ''چیخ'' کو مزاحمتی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ ان کے نامۂ اعمال میں شامی شاعر علی احمد سعید کی منتخب شاعری اور فلسطینی شاعر محمود درویش کی شاعری کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کا کارنامہ بھی لکھا ہے۔ ان کے ناول چیخ کو بھارت میں اوپندرناتھ اشک کی اہلیہ نے ہندی زبان کے رنگ میں رنگا ہے۔
انور سن رائے کی شاعری دراصل نثری شاعری ہے اور ان کا شمار نثری شاعری کے ابتدائی شعرا میں ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ستر کی دہائی میں شعرا کی محفلوں میں نثری شاعری اور شعرا ہر وقت موضوع گفتگو بنے رہتے تھے اور طرح طرح سے ان کے بخیے ادھیڑے جاتے تھے۔ باوجود اس کے مجھے شاعری کی کوئی سدھ بدھ نہیں پھر بھی انور کی کتاب میں لکھی کچھ باتیں نہ صرف سمجھ آتی ہیں دل کو بھی بھاتی ہیں۔
انور کی نظم '' سن امریکہ'' میں وہ کہہ رہے ہیں۔
امریکہ! تو جہاں بھی گیا
اپنے لئے ہی گیا تو نے ہمیشہ
ملکوں اور ان کے لوگوں کو نہیں فوجوں اور جنرلوں کو عزیز رکھا۔
اپنی ایک اور نظم ''مشتری ہوشیار باش'' میں وہ کہتے ہیں:
آمر آتے ہیں اور زندگیاں سج جاتی ہیں
نت نئی گہماگہمی سے بنتے ہیں نئے کمیشن اور بیورو
فائلیں کھلتی ہیں کچھے چٹھے باہر آتے ہیں
کھل جاتی ہے قانون کی آنکھوں پر بندھی پٹی
کودنے پھاندنے لگتا ہے ہر طرف انصاف
یہ ایک کافی طویل نظم ہے۔ اسی میں وہ آگے جاکے کچھ یوں بھی اظہار کر رہے ہیں۔
چمچاتے میڈل لگی وردیوں میں آتے ہیں
انصاف کو تیز تر کرنے والے بناء جانے والی سرسری سماعتوں کی
عدالتوں کے سربراہ فرسودگی کو ختم کرنے کے لئے نافذ کیا جاتا ہے
عبوری آئینی فرمان ختم ہوجاتی ہے
اسمبلیوں اور سینٹ کی ضرورت کھیل تماشے بدل جاتے ہیں
بچے تک لطف اندوز ہونے لگتے ہیں
سرعام پھانسیوں اور کوڑوں کے مناظر سے
نئی ڈیفنس سوسائیٹاں بنتی ہیں زمینوں کے بھاؤچڑھتے ہیں
ایک نئی روح دوڑنے لگتی ہے کاروبار وں میں بڑھنے لگتی ہے
اشرافیہ کے ارکان کی تعداد
کتاب کے اوراق اُلٹتے پلٹتے ہوئے ایک اور نظم نے میرے احساس شاعری کو پکڑلیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ''پرانے ادیبوں اور شاعروں کا بازار''
فٹ پاتھ پر، ٹھیلوں پر گرد میں لپٹے
وہ دیکھتے ہیں ہر آنے اور جانے والے کو
شاید کوئی رکے شاید کوئی انھیں دیکھے
شاید کوئی نکل آئے ان کا بھی شناسا
اس نظم میں دراصل ہمارے دور کا المیہ بھی ہے، لوگوں نے لکھنا پھڑناچھوڑ دیا ہے۔ ایک وقت تھا شاعر اور ادیب لکھتے ، لکھتے خون تھوکتے مرجاتے تھے لیکن وہ اپنی زندگی کے نچوڑ کو کاغذ کی صورت نہیں دے سکتے تھے۔ پھر بھی ان کے شعر زبان زدعام اور ان کی تحاریر لوگوں کے دلوں میں گھر کئے رہتی تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں زیادہ تر لکھنے والوں کو پبلشر کی ضرورت نہیں کہ وہ بقلم خود ہی چھپنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پڑھنے کا وہ ذوق جاتا رہا ہے۔ شہر کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اس دکھ کو ہی انور نے زبان دی اور لکھا ہے:
جب رات ہونے لگتی ہے جب لوگ چھٹنے لگتے ہیں
تو ڈبوں اور بوریوں میں بند کرکے انھیں
پہنچادیا جاتا ہے تنگ وتاریک کمروں تک
لیکن وہ کبھی کوئی شکایت نہیں کرتے صرف اس امید پر
کے ایک نہ ایک دن آہی جائے گا
کوئی شناسا اور اُنہیں لے جائے گا
انور سن رائے کی پانچ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل کتاب میں بہت کچھ ہے جسے زبان وبیان کی ضرورت ہے۔ اس سب کو کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں۔ یہ کہہ سکتی ہوں کہ پچاس سالوں کے طول وعرض پر پھیلی اس شاعری میں ''ہمارا آج اب بھی زندہ ہے۔''
کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے ماحول میں آرٹس فیکلٹی میں بنے چھوٹے سے تالاب کا اطرافی علاقہ تمام نوآموز مغنیوں، موسیقاروں، شاعروں اور ہر قسم کے انقلابیوں کا گڑھ ہوتا تھا۔ سب مل جل کے، تنہا تنہا اپنے شوق پورے کر رہے ہوتے تھے۔
اس بات سے میں اس وقت بھی آگاہ تھی کہ یہ لمبے بالوں اور گھٹنوں تک لٹکتے تھیلے نما بیگ والا لڑکا شاعر ی کرتا ہے۔ کیسی شاعری کرتا ہے؟ کتنا بڑا شاعر ہے؟ اس سب سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔
چند دن پہلے انور سن رائے نے اپنا مجموعہ کلام یہ کہہ کے دیا،''اس پر کچھ لکھو۔''
''میں!'' میں نے لمبی سی میں کے ساتھ پوچھا؟ اور کتاب کو پکڑتے ہوئے اس کے سرورق پر نظر ڈالی، انور کا کئی رنگوں والا تجریدی چہرہ مسکرا رہا تھا اور کتاب کی پیشانی پر ۱۹۷۳-۲۰۲۳ لکھا ہوا تھا۔ میرے تمام اچھے برے، کم اچھے، کم برے، لکھنے والے، بولنے والے، جاننے والے تما دوستوں کو پتا ہے کہ میں اور شاعری ایک دوسرے کے متوازی وہ دو لائنیں ہیں جو کبھی نہیں ملتیں۔ شاعری پسند بہت ہے۔ اچھے اور پسندیدہ شاعروں کی کتابوں کا ایک اچھا کلیکشن بھی رکھتی ہوں لیکن کسی شاعر کی کتاب پر لکھنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ اور شاعر بھی ایسا جو پچاس سال سے شاعری کر رہا ہو۔ میرا جیسا جاہل کیا کہے گا اور لکھے گا اس کے بارے میں،
ان کی موجودہ کتاب دراصل ان کی پچاس برسوں کی شاعری کا اجتماع ہے۔ ان کی اس کتاب سے ہی پتا چلا کہ موصوف بنیادی طور پر پیروں، فقیروں، ولیوں اور مزاروں کی سرزمین جسے آج کل کی سیاسی زبان میں سرائیکی بیلٹ کہتے ہیں کہ ہونہار بُروا ہیں۔ ان کا بچپن خیرپور کی گلیوں میں بھی گزرا ہے اور اپنی نوجوانی کے آغاز ہی میں موصوف کراچی آگئے تھے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کے نلکوں کا پانی جس نے ایک بار پی لیا وہ پھر نہ صرف پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بلکہ وہ کہیں کا بھی نہیں رہتا۔ اس دور میں کراچی آنے والوں میں سے بیشتر کا ماضی محنت مشقت سے بھر پور ماضی ہوتا ہے سو وہ انور سن رائے کا بھی ہے۔ انھوں نے محنت کی پڑھا، لکھا، شاعری کی، شادی کی اور نوکریاں بھی کیں۔
انور کی زندگی میں شاعری اگر ان کا اُوڑھنابچھونا ہے تو صحافت کی ڈور بھی ان کے قدموں سے لپٹی ہوئی ہے۔ اسی ڈور کے سہارے وہ کئی سال بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس میں بھی گزار چکے ہیں۔ وہ ناول نگار بھی ہیں۔ ان کے ناول ''چیخ'' کو مزاحمتی حلقوں میں بہت پزیرائی ملی۔ ان کے نامۂ اعمال میں شامی شاعر علی احمد سعید کی منتخب شاعری اور فلسطینی شاعر محمود درویش کی شاعری کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کا کارنامہ بھی لکھا ہے۔ ان کے ناول چیخ کو بھارت میں اوپندرناتھ اشک کی اہلیہ نے ہندی زبان کے رنگ میں رنگا ہے۔
انور سن رائے کی شاعری دراصل نثری شاعری ہے اور ان کا شمار نثری شاعری کے ابتدائی شعرا میں ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ستر کی دہائی میں شعرا کی محفلوں میں نثری شاعری اور شعرا ہر وقت موضوع گفتگو بنے رہتے تھے اور طرح طرح سے ان کے بخیے ادھیڑے جاتے تھے۔ باوجود اس کے مجھے شاعری کی کوئی سدھ بدھ نہیں پھر بھی انور کی کتاب میں لکھی کچھ باتیں نہ صرف سمجھ آتی ہیں دل کو بھی بھاتی ہیں۔
انور کی نظم '' سن امریکہ'' میں وہ کہہ رہے ہیں۔
امریکہ! تو جہاں بھی گیا
اپنے لئے ہی گیا تو نے ہمیشہ
ملکوں اور ان کے لوگوں کو نہیں فوجوں اور جنرلوں کو عزیز رکھا۔
اپنی ایک اور نظم ''مشتری ہوشیار باش'' میں وہ کہتے ہیں:
آمر آتے ہیں اور زندگیاں سج جاتی ہیں
نت نئی گہماگہمی سے بنتے ہیں نئے کمیشن اور بیورو
فائلیں کھلتی ہیں کچھے چٹھے باہر آتے ہیں
کھل جاتی ہے قانون کی آنکھوں پر بندھی پٹی
کودنے پھاندنے لگتا ہے ہر طرف انصاف
یہ ایک کافی طویل نظم ہے۔ اسی میں وہ آگے جاکے کچھ یوں بھی اظہار کر رہے ہیں۔
چمچاتے میڈل لگی وردیوں میں آتے ہیں
انصاف کو تیز تر کرنے والے بناء جانے والی سرسری سماعتوں کی
عدالتوں کے سربراہ فرسودگی کو ختم کرنے کے لئے نافذ کیا جاتا ہے
عبوری آئینی فرمان ختم ہوجاتی ہے
اسمبلیوں اور سینٹ کی ضرورت کھیل تماشے بدل جاتے ہیں
بچے تک لطف اندوز ہونے لگتے ہیں
سرعام پھانسیوں اور کوڑوں کے مناظر سے
نئی ڈیفنس سوسائیٹاں بنتی ہیں زمینوں کے بھاؤچڑھتے ہیں
ایک نئی روح دوڑنے لگتی ہے کاروبار وں میں بڑھنے لگتی ہے
اشرافیہ کے ارکان کی تعداد
کتاب کے اوراق اُلٹتے پلٹتے ہوئے ایک اور نظم نے میرے احساس شاعری کو پکڑلیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ''پرانے ادیبوں اور شاعروں کا بازار''
فٹ پاتھ پر، ٹھیلوں پر گرد میں لپٹے
وہ دیکھتے ہیں ہر آنے اور جانے والے کو
شاید کوئی رکے شاید کوئی انھیں دیکھے
شاید کوئی نکل آئے ان کا بھی شناسا
اس نظم میں دراصل ہمارے دور کا المیہ بھی ہے، لوگوں نے لکھنا پھڑناچھوڑ دیا ہے۔ ایک وقت تھا شاعر اور ادیب لکھتے ، لکھتے خون تھوکتے مرجاتے تھے لیکن وہ اپنی زندگی کے نچوڑ کو کاغذ کی صورت نہیں دے سکتے تھے۔ پھر بھی ان کے شعر زبان زدعام اور ان کی تحاریر لوگوں کے دلوں میں گھر کئے رہتی تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں زیادہ تر لکھنے والوں کو پبلشر کی ضرورت نہیں کہ وہ بقلم خود ہی چھپنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پڑھنے کا وہ ذوق جاتا رہا ہے۔ شہر کے فٹ پاتھوں پر پرانی کتابوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اس دکھ کو ہی انور نے زبان دی اور لکھا ہے:
جب رات ہونے لگتی ہے جب لوگ چھٹنے لگتے ہیں
تو ڈبوں اور بوریوں میں بند کرکے انھیں
پہنچادیا جاتا ہے تنگ وتاریک کمروں تک
لیکن وہ کبھی کوئی شکایت نہیں کرتے صرف اس امید پر
کے ایک نہ ایک دن آہی جائے گا
کوئی شناسا اور اُنہیں لے جائے گا
انور سن رائے کی پانچ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل کتاب میں بہت کچھ ہے جسے زبان وبیان کی ضرورت ہے۔ اس سب کو کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں۔ یہ کہہ سکتی ہوں کہ پچاس سالوں کے طول وعرض پر پھیلی اس شاعری میں ''ہمارا آج اب بھی زندہ ہے۔''