مسئلہ کشمیر و فلسطین اور اقوام عالم

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ نہ اسرائیل کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد پر مجبور کرسکی ہے اور نہ بھارت کو

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ نہ اسرائیل کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد پر مجبور کرسکی ہے اور نہ بھارت کو—فائل فوٹو

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اعتراف کیا ہے کہ عالمی ادارے کا فیصلہ ساز فورم سلامتی کونسل جیو پولیٹیکل تقسیم کے باعث مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

دوسری جانب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے تمام اقدار، اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، عالمی برادری کشمیریوں کے حقوق کے لیے بھار ت پر دباؤ ڈالے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اقوامِ متحدہ نہ اسرائیل کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد پر مجبور کرسکی ہے اور نہ بھارت کو۔ اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں، ناجائز قبضے سے لے کر ناجائز آبادکاری تک، اسرائیل کے نامہ اعمال میں بے شمار ایسے جرائم درج ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے، یہی معاملہ کشمیر میں بھی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنسٹرکشن سیکٹر ایک لاکھ بھارتی کارکنوں کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے، کیونکہ اسرائیل نے اپنے یہاں کام کرنے والے فلسطینیوں کے ورک پرمٹ مبینہ طور پر منسوخ کر دیے ہیں۔

اسرائیل کے تعمیراتی شعبے نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ وہ کمپنیوں کو 90000 فلسطینیوں کی جگہ بھارت سے تقریباً ایک لاکھ تک مزدوروں کو بھرتی کرنے کی اجازت دے، دوسری جانب بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحالی کی درخواستیں مسترد کردیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کے لیے دائر اپیلوں پر متعصبانہ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5 اگست 2019 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت سرکار نے کشمیر میں آبادی کا تناسب مصنوعی طور پر بدلنے کی کوشش کی ہے۔

بھارت کا آخری بڑا حملہ کشمیر کے آئینی اسٹیٹس پر ہے۔ کشمیر پر بھارت کا ہر دعویٰ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے جو اسے ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہیں۔

یہ بلاشبہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے لیکن اسرائیل کی طرح بھارت نے محض قبضے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اب غیر کشمیریوں کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ کشمیر میں زمین خرید سکتے اور مستقل آباد ہو سکتے ہیں۔

کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے انکار کے بعد، یہ کشمیریوں کی شناخت پر دوسرا بڑا حملہ ہے۔ اس بات میں اب کوئی شک باقی نہیں کہ جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کی شناخت مٹانا چاہتا ہے اسی طرح بھارت کشمیریوں کی شناخت کے درپے ہے۔

قابض بھارت اور اسرائیل کشمیر اور فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں، جو جدید تاریخ میں نسل کشی کی بدترین مثال ہے۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق کشمیریوں اور فلسطینیوں دونوں کو غیر ملکی قابضوں کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے لیکن جب وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قابض قوتوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو عالمی طاقتیں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے قابض طاقتوں کا ساتھ دیتی ہیں۔

سب سے بڑھ کر بھارت اور اسرائیل کے درمیان قریبی فوجی تعاون انسانیت اور عالمی امن کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں حل طلب دیرینہ تنازعات ہیں جو کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔

تنازعہ کشمیر نے 1947میں تقسیم برصغیر کے بعد جنم لیا جب کہ اسرائیل، فلسطین تنازعہ کی ابتدا 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں ہوئی جب انگریزوں نے فلسطین کی سرزمین پر مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک نئی ریاست تشکیل دی۔

یہ دونوں تنازعات بین الاقوامی طاقتوں، مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جو مختلف مواقع پر ان کے حل کے لیے ثالثی یا کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

تاہم قابض قوتوں کی ہٹ دھرمی ان تنازعات کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جو آج مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد، جنگوں، مزاحمت اور سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔


کشمیر اور فلسطین کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکامی کا نتیجہ براہ راست جنوبی مغربی اور مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام کی صورت میں نکلا ہے۔

بھارت بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے اور کشمیریوں میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے اندر اور باہر اپنے کٹھ پتلیوں کو متحرک کر رکھا ہے، پاکستان اور کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنا بھارت کی پرانی عادت ہے اور وہ اپنی مذموم مہم کے ذریعے کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت میڈیا، سائبر ٹیکنالوجی اور دہشت گردی کو پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف بڑے ہائبرڈ ٹولز کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور جھوٹے فلیگ آپریشنوں اور بلاجواز پروپیگنڈے کے ذریعے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ اور عالمی فورموں پر آواز اٹھا رہا ہے اور بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی غیر متزلزل حمایت آزادی پسند کشمیریوں کے لیے حوصلے کا باعث ہے۔ بھارت دہشت گردی کی سرپرستی کرنے اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو فروغ دینے والا ملک ہے۔

پاکستان کو اپنے مفاد میں ہر قسم کے فیصلے کرنے کا پورا حق حاصل ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر بھارت نے ان اقدامات پر شور شرابا کرنا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔

پاکستان نے حال ہی میں ملک سے افغانوں سمیت تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اس کو پورا حق حاصل ہے، تاہم بھارت نے پاکستان کو جو دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر نے والا دنیا کا واحد ملک ہے،ان کے ساتھ ناروا سلوک کا مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا ہے۔

بین الا قوامی تعلقات کی پیچیدگیوں سے ناواقف ایک عام آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو انصاف اور عالمی قوانین کے مطابق حل کردیا جائے تو دنیا میں اضطراب ختم ہو سکتا ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ اقوامِ متحدہ جیسے ادارے اور عالمی سیاسی قوتیں ان مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ ظلم کا ساتھ دینے کی مرتکب ہیں۔ اسرائیل اور بھارت دونوں اقوامِ متحدہ کی علانیہ خلاف ورزی کرتے ہیں مگر نہ صرف یہ کوئی ان کا ہاتھ نہیں پکڑتا بلکہ ان کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کردیا جاتا ہے۔

اس بات کا کریڈٹ اہل ِفلسطین اور اہلِ کشمیر کو جاتا ہے کہ انھوں نے آزادی کی شمع کو اپنے لہو سے روشن رکھا ہے۔ ان کی تیسری نسلیں مقتل میں کھڑی ہیں اور ان کے چہروں پر کمزوری کے کوئی آثار نہیں، اگر ان کی یہ جرات بصیرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے اور وہ ایک قیادت میں متحد ہوکر سیاسی جنگ لڑیں تو ان کا ناقابلِ شکست عزم ظالموں کو جلد جھکنے پر مجبور کردے گا۔ اس کے ساتھ لازم ہے کہ ظلم کے خلاف ان کا اخلاقی اور سفارتی سطح پر ساتھ دینے والی قوتیں بھی ہم آواز ہو کر عالمی قوتوں کو اپنی اہمیت کا احساس دلائیں۔

انھیں باور کرائیں کہ اگر انھوں نے انصاف نہ کیا تو اقوامِ متحدہ جیسے اداروں پر مظلوموں کا کمزور ہوتا اعتماد ختم بھی ہو سکتا ہے۔

وہ وقت آنے سے پہلے فلسطین اور کشمیریوں کا ان کا حق دلانے کے لیے ان قوتوں کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے، وہ حق جسے دنیا کا ہر ضابطہ تسلیم کرتا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطینیوں اور کشمیریوں پر جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس ان کے مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں ہے، فلسطین کا مسئلہ تقریباً ڈیڑھ صدی پرانا ہے۔

کشمیریوں کو بھی ظلم و ستم سہتے پون صدی گزرگئی، ا س دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دونوں مسائل کے حل کے لیے متعدد قراردادیں بھی منظور کیں، جو کہ محض کاغذی ثابت ہوئیں۔ کشمیر کے لیے یو این او کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد تو بڑی واضح ہے کہ کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ یو این او کے تحت منعقدہ ایک آزادانہ، منصفانہ استصوابِ رائے یعنی ریفرنڈم میں کریں گے، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی نے آج تک استصواب کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔

فلسطین کے لیے یو این سلامتی کونسل کی ایک قرارداد بڑی غیر مبہم ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی سرحدیں 1967کی جنگ سے قبل کے مطابق ہوں گی، لیکن ایک وسیع و عریض فلسطین غزہ اور مغربی کنارے کی دو یونین کونسلوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

اب دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ظالم کے ساتھ ہے یا مظلوم کے ساتھ؟ دہرا عالمی معیار اور عالمی منافقت ہی انسانیت اور امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جب تک مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین اور جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا اس وقت تک پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔
Load Next Story