قومی بیانیے کی تلاش ناگزیر ہے
بحران کسی ایک خاص نقطہ کے گرد نہیں گھومتا بلکہ مجموعی طور پر ریاستی اداروں کے گرد گھومتا کرتا ہے
پاکستان کی سیاست ، سماجیات، جمہوریت، آئین، قانون کی حکمرانی ، سیکیورٹی ، طرز حکمرانی، معیشت کی بدحالی سمیت عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی سے جڑے معاملات پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ بحران کسی ایک خاص نقطہ کے گرد نہیں گھومتا بلکہ مجموعی طور پر ریاستی اداروں کے گرد گھومتا کرتا ہے۔
ہمارا ریاستی نظام یا تو اس بحران کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا وہ اسی بحران کے نتیجے میں طاقت پکڑتے ہیں۔ لفظوں، تاریخی یا تحریری دستاویزات یا تقریروں سمیت سیاسی کہانی میں ہم یا ہمارا بیانیہ کافی حد تک بالادست ہے،لیکن عملی طور پر یا عملدرآمد کے معاملے میں ہمارا نظام میں بہت پیچھے کھڑاہے۔
ایک عمومی رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہمارے ریاستی نظام کا گہرا تعلق بحرانوں کی سیاست سے ہے اورہم ان کو پیدا کرنے ، پالنے یا اسے پوسنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ ایک بحران سے دوسرے بحران کو پیدا کرنا اور معاملات کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہماری فطرت میں شامل ہے ۔
پچھلے چند برسوں میں ہونے والی سیاسی مہم جوئی یا ایڈونچرز کے کھیل نے ہمارے داخلی سیاسی نظام کو بہت کمزور کردیا ہے یا اس پر بنیادی سطح کے سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ اس کا ایک عملی نتیجہ کمزور معیشت اور کمزور سیکیورٹی کے نظام کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
دوسری وجہ ریاستی،حکومتی اور عوامی تعلق یاریاستی و حکومتی ساکھ پر سوا ل اٹھ رہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر تمام فریقین ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہیں یا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا یا ایک دوسرے کو نیچے گرانے کا ہدف رکھتے ہیں ۔
تمام فریقین ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کرکے ریاستی بحران کو اور زیادہ سنگینی میں مبتلا کررہے ہیں۔ جو بات یا معاملات یا مسائل بات چیت یا آئینی و قانونی فریم ورک میں ہوسکتے ہیں ان پر ہم تیار نہیں او ربلاوجہ جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ سیاست و جمہوری عمل میں جب ڈیڈلاک پیدا ہوجائے اور مفاہمت کے تمام دروازے بند یا ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا ہنر کہیں گم ہوجائے توپھر حالات بند گلی میں ہی جاتے ہیں۔
ایک عمومی بات یہ ہی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت درکار ہے او راسی کو بنیاد بنا کر ہم اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے فریقین ہیں جو جمہوریت کو بنیاد بنانے کی بات تو کرتے ہیں مگر وہ جمہوریت پر چلنے یا اس کو بنیاد بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ فریقین محض سیاسی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ غیر سیاسی فریقین یا ریاستی سطح پر موجود کئی ادارے یا کردار بھی جمہوری عمل کی کمزور ی میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہم ریاستی سطح پر سب ہی جمہوریت ، آئین کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ہماری ترجیحات میں غیر جمہوری، مرکزیت پر مبنی حکمرانی پہلے نمبر ہے ۔ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی ریاستی ساکھ کو قائم کرسکیں گے خود کو دھوکا دینے کے ہی حکمت عملی ہوسکتی ہے جب کہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔
ایک مسئلہ ہمیں اپنی ناکامی کو قبول کرنے کی عادت نہیں بلکہ اپنی ہر ناکامی کو دوسروں پر ڈالنا یا اس میں سے داخلی یا خارجی سازشوں کو تلاش کرکے قوم کو گمراہی کی طرف دکھیلنا ہے ۔ممکن ہے کہ ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارے دشمن ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہوںگے لیکن جو سازشیں ہم خود اپنے خلاف یا اپنی قوم یا ریاست کے خلاف کرکے اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دیتے ہیں اس کا اعتراف کون کرے گا۔
اگر ہم نے عام آدمی کے مفادات کو تقویت دینی ہے تو ہمیں آج کے اپنے جاری طرز عمل سے عملی طور پر بغاوت کرنا ہوگی ۔ کیونکہ یہ فرسودہ ، روایتی طور طریقے یا ایک مخصوص طبقات کی سیاسی اجارہ داری یا ان کو ہی بڑی طاقت یا فیصلہ سازی تک محدود کرنے کی پالیسی ہماری مشکلات میں اضافہ کرے گی۔ مرکزیت پر مبنی نظام اور عدم مرکزیت سے بغاوت کی وجہ سے حکمرانی کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔
معیشت سمیت تمام شعبہ جات میں ہمیں جو سخت گیر اسٹرکچرل اصلاحات کرنی ہے تو اس کو ہم نظرانداز کرکے عدم ترقی کے ایجنڈے پر کھڑے ہیں ۔ٹیکس کا نظام ہو،ایف بی آر، پولیس، بیوروکریسی، حکمرانی ، انتظامی و قانونی یا سیاست پر مبنی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکیں گے ۔یہ جو اصلاحات کے بغیر تعمیر و ترقی کا ایجنڈا ہے، یہ ہماری مشکلات بڑھارہا ہے ۔
ہمیں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے مرکزیت پر مبنی نظام کے خاتمہ اور عدم مرکزیت کی بنیاد پر ایک مضبوط، مربوط ، شفاف اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے ۔ یہ بیانیہ بنانا اختیار کرنا ہوگا کہ موجودہ حکمرانی کے نظام میں مقامی حکومتوں کو اولین فوقیت دینی ہے اور یہ ہی ہماری ریاستی ترجیح کا حصہ ہوگا۔
اس کے لیے آئینی خود مختاری اور موجودہ آئین میں ترمیم اور ایک مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد پر آئینی پیکیج او رخصوصی باب پر اتفاق رائے کرنا ہوگا۔اسی طرح انتظامی ڈھانچوں میں موجود متبادل اداروں کا خاتمہ اور کم سے کم انتظامی سطح پر بوجھ ڈالے ہوئے انتظامی ڈھانچہ اختیار کرنا ہوگا۔
جوابدہی،نگرانی اور شفافیت پر مبنی نظام جس میں نجی شعبہ جات یا پبلک سیکٹر میں ریگولیٹ یا ریگولیٹری اتھارٹیوں کی مضبوطی او ربااختیار بنانا اور نجی شعبہ کی بے لگام پالیسیوں یا لوٹ مار کے کھیل کا خاتمہ ، مقامی انڈسٹری کا فروغ جن میں چھوٹے کاروبار یا صنعتوں کو آگے بڑھانا اور نئی نسل میں مائیکرو انٹرپیونیورشپ کو بنیاد بنا کر روزگار پیدا کرنا، افراد کے مقابلے میں ہمیں ادارہ جاتی عمل کی مضبوطی اور اداروں کا استحکام، آئین و قانون کی حکمرانی، علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات بشمول بھارت، تنازعوں یا جنگوں سے گریز کی پالیسی، معیشت کی مضبوطی، ٹیکسوں کا جدید نظام، طاقت ور افراد پر ٹیکس اور ان کو قانون کے شکنجے میں لانا، ریاستی یا حکومتی نظام کا مختلف طاقت ور طبقات کے ساتھ موجود گٹھ جوڑیا مافیا کا خاتمہ، عام آدمی کے سیاسی اور معاشی مفادات کو یقینی بنانا، آزادی اظہار اور سیاسی و جمہوری عمل کو مستحکم کرنا، صاف اور شفاف عدالتی نظام، انسانی حقوق کی پاسداری، اسٹیبلیشمنٹ کا سیاسی معاملات میں بڑھتے ہوئے کردار کو کم کرنے اور سول ملٹری تعلقات میں توازن، تعلیم وصحت کے شعبہ میں بڑی سرمایہ کاری اور ان کے معیارات میں اضافہ کو بنیاد بناکر پورے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا۔
دنیا میں خود کو قابل قبول بنانے کے لیے داخلی معاملات کی درستگی او رجمہوریت کے ساتھ مضبوط کمٹمنٹ کے علاوہ ہمیں عالمی دنیا میں اپنے ہی بارے میں موجود منفی تصورات کو ختم کرنا ہوگا۔ دنیا کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کے بجائے جوڑنے کی پالیسی، انتہا پسندی ودہشت گردی کے خاتمہ اور کسی کی بھی اس تناظر میں حمایت یا ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا یا ان کی پس پردہ سرپرستی کا کھیل، جمہوری معاملات میں مداخلتوں کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔
جذباتیت کے مقابلے میں عقلی فہم، تدبر اور سوچ و فکر میں گہرائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔ یہ جو ہم میں ایک دوسرے مخالفین کو فتح کرنے یا کسی کو تباہ کرنے کا جو جنون موجود ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ اس طرز کی محاذآرائی ، ٹکراؤ یا تناؤ کو بنیاد بنا کر یا مہم جوئی کرکے ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔
اگر ہم نے واقعی سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے یا جیو معیشت یا جیو تعلقات کو نئی جہت دے کر نئے سیاسی اور معاشی امکانات کو پیدا کرنا ہے تو موجودہ روش یا طرز عمل یا پالیسیوں سے خود کو علیحدہ کرنا ہوگا۔
آج ہم خود ہی دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم خود تو تبدیل نہیں ہونگے لیکن عالمی دنیا ہماری مدد میں پیش پیش رہے ۔ حد سے زیادہ خود کو مضبوط نہ بنانا اور عالمی طاقتوں یا مالیاتی اداروں پر انحصار یا بھروسہ کی پالیسی کے مقابلے میں ایک نیا بیانیہ درکار ہے جو ہمیں داخلی ،علاقائی اور خارجی محاذوں پر سرخرو کرسکے ۔
ہمارا ریاستی نظام یا تو اس بحران کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا وہ اسی بحران کے نتیجے میں طاقت پکڑتے ہیں۔ لفظوں، تاریخی یا تحریری دستاویزات یا تقریروں سمیت سیاسی کہانی میں ہم یا ہمارا بیانیہ کافی حد تک بالادست ہے،لیکن عملی طور پر یا عملدرآمد کے معاملے میں ہمارا نظام میں بہت پیچھے کھڑاہے۔
ایک عمومی رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ہمارے ریاستی نظام کا گہرا تعلق بحرانوں کی سیاست سے ہے اورہم ان کو پیدا کرنے ، پالنے یا اسے پوسنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ ایک بحران سے دوسرے بحران کو پیدا کرنا اور معاملات کو حل کرنے کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہماری فطرت میں شامل ہے ۔
پچھلے چند برسوں میں ہونے والی سیاسی مہم جوئی یا ایڈونچرز کے کھیل نے ہمارے داخلی سیاسی نظام کو بہت کمزور کردیا ہے یا اس پر بنیادی سطح کے سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ اس کا ایک عملی نتیجہ کمزور معیشت اور کمزور سیکیورٹی کے نظام کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔
دوسری وجہ ریاستی،حکومتی اور عوامی تعلق یاریاستی و حکومتی ساکھ پر سوا ل اٹھ رہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر تمام فریقین ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہیں یا ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا یا ایک دوسرے کو نیچے گرانے کا ہدف رکھتے ہیں ۔
تمام فریقین ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کرکے ریاستی بحران کو اور زیادہ سنگینی میں مبتلا کررہے ہیں۔ جو بات یا معاملات یا مسائل بات چیت یا آئینی و قانونی فریم ورک میں ہوسکتے ہیں ان پر ہم تیار نہیں او ربلاوجہ جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ سیاست و جمہوری عمل میں جب ڈیڈلاک پیدا ہوجائے اور مفاہمت کے تمام دروازے بند یا ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا ہنر کہیں گم ہوجائے توپھر حالات بند گلی میں ہی جاتے ہیں۔
ایک عمومی بات یہ ہی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت درکار ہے او راسی کو بنیاد بنا کر ہم اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے فریقین ہیں جو جمہوریت کو بنیاد بنانے کی بات تو کرتے ہیں مگر وہ جمہوریت پر چلنے یا اس کو بنیاد بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ فریقین محض سیاسی لوگوں تک محدود نہیں بلکہ غیر سیاسی فریقین یا ریاستی سطح پر موجود کئی ادارے یا کردار بھی جمہوری عمل کی کمزور ی میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہم ریاستی سطح پر سب ہی جمہوریت ، آئین کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ۔ہماری ترجیحات میں غیر جمہوری، مرکزیت پر مبنی حکمرانی پہلے نمبر ہے ۔ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی ریاستی ساکھ کو قائم کرسکیں گے خود کو دھوکا دینے کے ہی حکمت عملی ہوسکتی ہے جب کہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔
ایک مسئلہ ہمیں اپنی ناکامی کو قبول کرنے کی عادت نہیں بلکہ اپنی ہر ناکامی کو دوسروں پر ڈالنا یا اس میں سے داخلی یا خارجی سازشوں کو تلاش کرکے قوم کو گمراہی کی طرف دکھیلنا ہے ۔ممکن ہے کہ ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارے دشمن ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہوںگے لیکن جو سازشیں ہم خود اپنے خلاف یا اپنی قوم یا ریاست کے خلاف کرکے اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دیتے ہیں اس کا اعتراف کون کرے گا۔
اگر ہم نے عام آدمی کے مفادات کو تقویت دینی ہے تو ہمیں آج کے اپنے جاری طرز عمل سے عملی طور پر بغاوت کرنا ہوگی ۔ کیونکہ یہ فرسودہ ، روایتی طور طریقے یا ایک مخصوص طبقات کی سیاسی اجارہ داری یا ان کو ہی بڑی طاقت یا فیصلہ سازی تک محدود کرنے کی پالیسی ہماری مشکلات میں اضافہ کرے گی۔ مرکزیت پر مبنی نظام اور عدم مرکزیت سے بغاوت کی وجہ سے حکمرانی کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔
معیشت سمیت تمام شعبہ جات میں ہمیں جو سخت گیر اسٹرکچرل اصلاحات کرنی ہے تو اس کو ہم نظرانداز کرکے عدم ترقی کے ایجنڈے پر کھڑے ہیں ۔ٹیکس کا نظام ہو،ایف بی آر، پولیس، بیوروکریسی، حکمرانی ، انتظامی و قانونی یا سیاست پر مبنی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکیں گے ۔یہ جو اصلاحات کے بغیر تعمیر و ترقی کا ایجنڈا ہے، یہ ہماری مشکلات بڑھارہا ہے ۔
ہمیں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے مرکزیت پر مبنی نظام کے خاتمہ اور عدم مرکزیت کی بنیاد پر ایک مضبوط، مربوط ، شفاف اور خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت ہے ۔ یہ بیانیہ بنانا اختیار کرنا ہوگا کہ موجودہ حکمرانی کے نظام میں مقامی حکومتوں کو اولین فوقیت دینی ہے اور یہ ہی ہماری ریاستی ترجیح کا حصہ ہوگا۔
اس کے لیے آئینی خود مختاری اور موجودہ آئین میں ترمیم اور ایک مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد پر آئینی پیکیج او رخصوصی باب پر اتفاق رائے کرنا ہوگا۔اسی طرح انتظامی ڈھانچوں میں موجود متبادل اداروں کا خاتمہ اور کم سے کم انتظامی سطح پر بوجھ ڈالے ہوئے انتظامی ڈھانچہ اختیار کرنا ہوگا۔
جوابدہی،نگرانی اور شفافیت پر مبنی نظام جس میں نجی شعبہ جات یا پبلک سیکٹر میں ریگولیٹ یا ریگولیٹری اتھارٹیوں کی مضبوطی او ربااختیار بنانا اور نجی شعبہ کی بے لگام پالیسیوں یا لوٹ مار کے کھیل کا خاتمہ ، مقامی انڈسٹری کا فروغ جن میں چھوٹے کاروبار یا صنعتوں کو آگے بڑھانا اور نئی نسل میں مائیکرو انٹرپیونیورشپ کو بنیاد بنا کر روزگار پیدا کرنا، افراد کے مقابلے میں ہمیں ادارہ جاتی عمل کی مضبوطی اور اداروں کا استحکام، آئین و قانون کی حکمرانی، علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات بشمول بھارت، تنازعوں یا جنگوں سے گریز کی پالیسی، معیشت کی مضبوطی، ٹیکسوں کا جدید نظام، طاقت ور افراد پر ٹیکس اور ان کو قانون کے شکنجے میں لانا، ریاستی یا حکومتی نظام کا مختلف طاقت ور طبقات کے ساتھ موجود گٹھ جوڑیا مافیا کا خاتمہ، عام آدمی کے سیاسی اور معاشی مفادات کو یقینی بنانا، آزادی اظہار اور سیاسی و جمہوری عمل کو مستحکم کرنا، صاف اور شفاف عدالتی نظام، انسانی حقوق کی پاسداری، اسٹیبلیشمنٹ کا سیاسی معاملات میں بڑھتے ہوئے کردار کو کم کرنے اور سول ملٹری تعلقات میں توازن، تعلیم وصحت کے شعبہ میں بڑی سرمایہ کاری اور ان کے معیارات میں اضافہ کو بنیاد بناکر پورے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا۔
دنیا میں خود کو قابل قبول بنانے کے لیے داخلی معاملات کی درستگی او رجمہوریت کے ساتھ مضبوط کمٹمنٹ کے علاوہ ہمیں عالمی دنیا میں اپنے ہی بارے میں موجود منفی تصورات کو ختم کرنا ہوگا۔ دنیا کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کے بجائے جوڑنے کی پالیسی، انتہا پسندی ودہشت گردی کے خاتمہ اور کسی کی بھی اس تناظر میں حمایت یا ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا یا ان کی پس پردہ سرپرستی کا کھیل، جمہوری معاملات میں مداخلتوں کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔
جذباتیت کے مقابلے میں عقلی فہم، تدبر اور سوچ و فکر میں گہرائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا ۔ یہ جو ہم میں ایک دوسرے مخالفین کو فتح کرنے یا کسی کو تباہ کرنے کا جو جنون موجود ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ اس طرز کی محاذآرائی ، ٹکراؤ یا تناؤ کو بنیاد بنا کر یا مہم جوئی کرکے ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔
اگر ہم نے واقعی سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے یا جیو معیشت یا جیو تعلقات کو نئی جہت دے کر نئے سیاسی اور معاشی امکانات کو پیدا کرنا ہے تو موجودہ روش یا طرز عمل یا پالیسیوں سے خود کو علیحدہ کرنا ہوگا۔
آج ہم خود ہی دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم خود تو تبدیل نہیں ہونگے لیکن عالمی دنیا ہماری مدد میں پیش پیش رہے ۔ حد سے زیادہ خود کو مضبوط نہ بنانا اور عالمی طاقتوں یا مالیاتی اداروں پر انحصار یا بھروسہ کی پالیسی کے مقابلے میں ایک نیا بیانیہ درکار ہے جو ہمیں داخلی ،علاقائی اور خارجی محاذوں پر سرخرو کرسکے ۔