بیچاری عورت
عورت کی ناقدری ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے
ہر سال کی طرح اِس سال بھی 25 نومبر سے 10 دسمبر تک اقوامِ متحدہ کے زیر ِاہتمام خواتین پر تشدد کا عالمی سولہ روزہ منایا جا رہا ہے جس کا مقصد خواتین کے ساتھ مردوں کی بدسلوکی کے مسئلے کو اُجاگرکرنا ہے۔ دنیا کی آبادی پر اگر نظر ڈالی جائے تو خواتین کا تناسب تقریباً نصف فیصد ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
معاشرے میں خواتین کی حیثیت پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو نتیجہ قریب قریب ایک ہی جیسا ہے یعنی مرد حضرات کو خواتین پر بالادستی حاصل ہے۔ عورت کی ناقدری ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طلوعِ اسلام سے پہلے جہالت کے اندھیروں میں حالت یہ تھی کہ لوگ پیدا ہوتے ہی اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔
ہندو معاشرے میں بھی عورت کی حالت دگرگوں تھی جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش ایک بُرا شگون سمجھا جاتا تھا اور شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ کو شوہر کے مردہ جسم کے ساتھ نذرِ آتش کردیا جاتا تھا جسے ستی کہتے تھے۔
دنیا بہت ترقی کرچکی ہے اور انسانی معاشرے میں کافی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور آزادی نسواں کی لہر آچکی ہے اور شانہ بشانہ کا نظریہ زور پکڑ چکا ہے لیکن انسانی معاشرے میں اِسے وہ قبولیت نہیں مل سکی جو ملنا چاہیے تھی۔
غنیمت ہے کہ نئی روشنی پھیلنے کے نتیجے میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو محسوس کیا جا رہا ہے ورنہ تو صورتحال بہت خراب ہوا کرتی تھی۔
اِس کے علاوہ خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں کے ساتھ قدم بہ قدم مصروفِ کار ہیں تاہم بعض لوگ اب بھی اِس کے حق میں نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے کاندھوں پر اب بھی مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بوجھ ہے۔ یہ بیچاری گھریلو کام کاج کے علاوہ سخت جانفشانی اور محنت کَشی کرنے پر مجبور ہیں۔
دیہات کی اَن پڑھ خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے علاوہ مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور پانی کی قلت والے علاقوں میں کافی دور دور سے اپنے سَروں پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے برتن اُٹھا کر لانا پڑتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو گاؤں دیہات کی زندگی کے مقابلے میں شہری عورت کی زندگی کافی بہتر ہے۔
وطنِ عزیز کے بعض علاقوں میں عورت اب بھی سماجی رواجوں اور رسومات کے بندھنوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اُس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اِس کا اندازہ کاروکاری کی گھناؤنی اور غیر انسانی رسم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جہیزکی لعنت ابھی تک بہت سے خاندانوں کی لڑکیوں کی شادی کی راہ میں حائل ہے۔ اِن بیچاری کے سر کے بالوں میں چاندی کے تار نظر آتے ہیں اور وہ ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو دیکھیے تو خواتین کی درگت بن رہی ہے۔ اسرائیل کی ہولناک سفاکی کا عالم یہ ہے کہ فلسطینی مائیں بہنیں اور بہو بیٹیاں درندگی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اُن کے ماں باپ، بھائی اور شوہر اسرائیلی بمباری کا شکار ہورہی ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اُن کے معصوم بچے کیڑوں مکوڑوں کی طرح روندے جا رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں ہے۔
اِس سے بڑھ کر ظلم و ستم اورکیا ہوگا کہ حاملہ خواتین بھی بھیڑ بکریوں کی طرح دم توڑ رہی ہیں۔
اسرائیل کی بربریت کا عالم یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ ہر طرف گھُپ اندھیرا ہے۔ نہ کھانا میسر ہے اور نہ پینے کے لیے پانی اور نہ سر چھپانے کے لیے سایہ ہے اور بے یارو مددگار فلسطینی عورتیں سسکیاں اور ہچکیاں لے رہی ہیں۔ یہ بیچاری قسمت کی ماری زندہ درگور ہیں۔ نَہ پائے رَفتَن، نَہ جائے ماندَن!
کوئی اِن کی بپتا سننے والا اور اِن کے رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے والا بھی نہیں۔ ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم۔ باقی دنیا میں بھی خواتین کے حالات بہتر نہیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا میں تقریباً 89000 خواتین اپنی جان سے گئیں۔ رپورٹ کے مطابق اِس قتلِ عام میں 55 فیصد افرادِ خانہ یا قربت رکھنے والے مرد ملوث پائے گئے۔یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اعداد وشمار مکمل ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار امریکا سے متعلق ہیں جہاں خواتین انتہائی قربت رکھنے والے مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ جی ہاں! وہی امریکا کہ جس کے گُن دنیا بھر میں گائے جاتے ہیں اور جس کی مثالوں پر مثالیں دی جاتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی بھی کچھ کم نہیں کہ جن معاشروں میں یہ گھناؤنی صورتحال ہے وہاں کے لوگ اِس جانب کوئی خاص توجہ نہیں کرتے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کا دستور یہی ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
تصویر کا یہ رخ شمالی امریکا اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کا ہے جسے عرفِ عام میں یو ایس کہا جاتا ہے۔ ایک مالدار اور گوری اکثریت والا ملک ہونے کی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ امریکا کی خواتین کے حالات جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی خواتین کی بہ نسبت بہتر ہیں۔
معاشرے میں خواتین کی حیثیت پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو نتیجہ قریب قریب ایک ہی جیسا ہے یعنی مرد حضرات کو خواتین پر بالادستی حاصل ہے۔ عورت کی ناقدری ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طلوعِ اسلام سے پہلے جہالت کے اندھیروں میں حالت یہ تھی کہ لوگ پیدا ہوتے ہی اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔
ہندو معاشرے میں بھی عورت کی حالت دگرگوں تھی جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش ایک بُرا شگون سمجھا جاتا تھا اور شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ کو شوہر کے مردہ جسم کے ساتھ نذرِ آتش کردیا جاتا تھا جسے ستی کہتے تھے۔
دنیا بہت ترقی کرچکی ہے اور انسانی معاشرے میں کافی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور آزادی نسواں کی لہر آچکی ہے اور شانہ بشانہ کا نظریہ زور پکڑ چکا ہے لیکن انسانی معاشرے میں اِسے وہ قبولیت نہیں مل سکی جو ملنا چاہیے تھی۔
غنیمت ہے کہ نئی روشنی پھیلنے کے نتیجے میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو محسوس کیا جا رہا ہے ورنہ تو صورتحال بہت خراب ہوا کرتی تھی۔
اِس کے علاوہ خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں کے ساتھ قدم بہ قدم مصروفِ کار ہیں تاہم بعض لوگ اب بھی اِس کے حق میں نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے کاندھوں پر اب بھی مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بوجھ ہے۔ یہ بیچاری گھریلو کام کاج کے علاوہ سخت جانفشانی اور محنت کَشی کرنے پر مجبور ہیں۔
دیہات کی اَن پڑھ خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے علاوہ مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور پانی کی قلت والے علاقوں میں کافی دور دور سے اپنے سَروں پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے برتن اُٹھا کر لانا پڑتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو گاؤں دیہات کی زندگی کے مقابلے میں شہری عورت کی زندگی کافی بہتر ہے۔
وطنِ عزیز کے بعض علاقوں میں عورت اب بھی سماجی رواجوں اور رسومات کے بندھنوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اُس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اِس کا اندازہ کاروکاری کی گھناؤنی اور غیر انسانی رسم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جہیزکی لعنت ابھی تک بہت سے خاندانوں کی لڑکیوں کی شادی کی راہ میں حائل ہے۔ اِن بیچاری کے سر کے بالوں میں چاندی کے تار نظر آتے ہیں اور وہ ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو دیکھیے تو خواتین کی درگت بن رہی ہے۔ اسرائیل کی ہولناک سفاکی کا عالم یہ ہے کہ فلسطینی مائیں بہنیں اور بہو بیٹیاں درندگی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اُن کے ماں باپ، بھائی اور شوہر اسرائیلی بمباری کا شکار ہورہی ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اُن کے معصوم بچے کیڑوں مکوڑوں کی طرح روندے جا رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں ہے۔
اِس سے بڑھ کر ظلم و ستم اورکیا ہوگا کہ حاملہ خواتین بھی بھیڑ بکریوں کی طرح دم توڑ رہی ہیں۔
اسرائیل کی بربریت کا عالم یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ ہر طرف گھُپ اندھیرا ہے۔ نہ کھانا میسر ہے اور نہ پینے کے لیے پانی اور نہ سر چھپانے کے لیے سایہ ہے اور بے یارو مددگار فلسطینی عورتیں سسکیاں اور ہچکیاں لے رہی ہیں۔ یہ بیچاری قسمت کی ماری زندہ درگور ہیں۔ نَہ پائے رَفتَن، نَہ جائے ماندَن!
کوئی اِن کی بپتا سننے والا اور اِن کے رِستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے والا بھی نہیں۔ ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم۔ باقی دنیا میں بھی خواتین کے حالات بہتر نہیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا میں تقریباً 89000 خواتین اپنی جان سے گئیں۔ رپورٹ کے مطابق اِس قتلِ عام میں 55 فیصد افرادِ خانہ یا قربت رکھنے والے مرد ملوث پائے گئے۔یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اعداد وشمار مکمل ہیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار امریکا سے متعلق ہیں جہاں خواتین انتہائی قربت رکھنے والے مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ جی ہاں! وہی امریکا کہ جس کے گُن دنیا بھر میں گائے جاتے ہیں اور جس کی مثالوں پر مثالیں دی جاتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی بھی کچھ کم نہیں کہ جن معاشروں میں یہ گھناؤنی صورتحال ہے وہاں کے لوگ اِس جانب کوئی خاص توجہ نہیں کرتے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کا دستور یہی ہے اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
تصویر کا یہ رخ شمالی امریکا اور یونائیٹڈ اسٹیٹس کا ہے جسے عرفِ عام میں یو ایس کہا جاتا ہے۔ ایک مالدار اور گوری اکثریت والا ملک ہونے کی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ امریکا کی خواتین کے حالات جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی خواتین کی بہ نسبت بہتر ہیں۔