معیشت کے حوالے سے مثبت پیش رفت

آرمکو بھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے

آرمکو بھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے۔ فوٹو: فائل

ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے لیے پندرہ کروڑ 55 لاکھ ڈالرکی فنانسنگ منظوری دے دی۔ اس حوالے سے بینک نے خواتین کی مالیات تک رسائی بڑھانے اور ان کی زیر قیادت مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو قرض فراہم کرنے کے لیے پالیسی اصلاحات میں معاونت فراہم کرے گا۔ ادھر آرمکو بھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے۔

بلاشبہ نگران حکومت کی درست پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب ملک دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان کی معیشت پر چھائے گہرے سیاہ بادل چھٹ گئے۔

کہا جاتا ہے کہ '' ترقی کا کوئی بھی طریقہ عورت کی خود مختاری سے زیادہ موثر نہیں'' خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں، خواتین کو بااختیار بنا دیا جائے تو پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

افرادی قوت میں پاکستانی خواتین کی شمولیت 23 فیصد ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا کے 181 ممالک میں 167 ویں نمبر پر آتا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں برابری کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے ذریعے خواتین کے لیے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں جو پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

معیشت کی بحالی سے قوم کو یقینا ثمرات ملیں گے ، اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، ڈالرکی قیمت بھی خاصی نیچے آئی ہے، یوں زرمبادلہ کے ذخائر پر جو دباؤ تھا وہ ختم ہوجائے گا اور مہنگائی کا کچھ بوجھ کم ہوجائے گا، روپے کو استحکام ملے گا، شرح سود اور ٹیکسز میں کمی آئے گی۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ پاکستان کے لیے ضروری تھا، یہ معاہدہ بے یقینی کو ختم اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے ۔ اب پاکستان کے لیے دوست ممالک کی جانب سے مدد کی راہ کھل گئی ہے، جب کہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے پالیسی اور پروجیکٹس لونزکے اجرا میں تیزی آنے لگی ہے۔

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان نئے معاہدے کے باعث اسٹاک مارکیٹ کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہو گئی ہیں۔ نئے انتظام سے پاکستان کی معیشت کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے، میکرو اکنامک استحکام برقرار رکھنے اور دوطرفہ اورکثیر الاقومی پارٹنرز سے فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے فریم ورک دستیاب ہو جائے گا۔

پاکستان کی آبادی 2050 تک 300 ملین سے تجاوز کرنے کا امکان ہے، اور اس ترقی کا ایک اہم حصہ شہری علاقوں میں ہونے کی توقع ہے۔

اس شہری آمد کو سنبھالنا ایک اہم چیلنج ہے، جس کے لیے اسٹرٹیجک منصوبہ بندی اور جدید حل کی ضرورت ہے۔ شہریوں کے لیے اعلیٰ معیار زندگی کو یقینی بناتے ہوئے بڑھتی ہوئی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اسمارٹ شہری ترقیاتی پالیسیاں ضروری ہوں گی۔

مضبوط انفرا اسٹرکچرکسی بھی ترقی پذیر شہرکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مستقبل میں، پاکستان کو اپنے بڑھتے ہوئے شہری مراکز کی مدد کے لیے جدید اور پائیدار انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس میں موثر نقل و حمل کے نظام، قابل اعتماد توانائی کے ذرایع اور جدید مواصلاتی نیٹ ورک شامل ہیں۔ اسمارٹ ٹیکنالوجیزکوکنیکٹوٹی بڑھانے اور وسائل کے استعمال کو بہتر بنانے کے لیے مربوط کیا جا سکتا ہے۔

جیسے جیسے شہر پھیلتے ہیں، پائیدار فن تعمیرکو شامل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ تکنیکی ترقی کو اپنانا پاکستان میں شہری ترقی کے مستقبل کی کلید ہے۔ انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) سے چلنے والے اسمارٹ شہر نقل و حمل، فضلہ کے انتظام اور عوامی خدمات میں کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ مزید برآں، گورننس کی شفافیت اور شہریوں کی مصروفیت کو بڑھا سکتی ہے، کمیونٹی اور شرکت کے احساس کو فروغ دے سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائش کی ضروریات کو پورا کرنا ایک اہم تشویش ہے۔


حکومت اور نجی شعبے کو سستی رہائش کے حل تیار کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے جو متنوع سماجی اقتصادی گروپوں کو پورا کرتے ہیں۔ جامع پالیسیوں کا نفاذ یقینی بناتا ہے کہ شہری ترقی کے فوائد معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچیں۔ شہری ترقی کو صرف فزیکل انفرا اسٹرکچر پر ہی نہیں بلکہ معاشی تنوع پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

روزگار کے متنوع مواقع پیدا کرنا، انٹرپرینیورشپ کو سپورٹ کرنا، اور جدت طرازی کو فروغ دینا شہروں کو اقتصادی مرکز میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، غربت میں کمی اور قوم کی مجموعی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان میں شہری ترقی کا مستقبل چیلنجز اور مواقع دونوں کا حامل ہے۔ پائیدار طریقوں، تکنیکی جدت طرازی اور جامع پالیسیوں کو شامل کرنے والے ایک جامع نقطہ نظر کو اپنا کر، پاکستان لچکدار، رہنے کے قابل اور خوشحال شہروں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ تزویراتی منصوبہ بندی اور مشترکہ کوششیں ایک ایسے مستقبل کی تشکیل کے لیے اہم ہوں گی جہاں شہر سب کے لیے ترقی اور معیار زندگی کی روشنی کا کام کرتے ہیں۔

اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے ملکی سطح پر ریونیو میں اضافہ اور عوام کی بہتری کے لیے اخراجات کو محتاط انداز سے خرچ کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ اس سے ترقیاتی اور سماجی ترقی کے لیے گنجائش پیدا ہوگئی ہے، تاہم اس کے ساتھ اسٹیٹ بینک کو افراط زر میں کمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، نئی فائنانسنگ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں کے رول اوور پر بھی کام ہو رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انرجی سیکٹر کو بھی بہتر بنایا جائے، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں گورننس کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اقتصادی بحالی کے منصوبے سے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی اور چالیس لاکھ افراد کے لیے روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے، یہ ایک مشکل سفر ہوگا۔

پاکستان کو بڑے پیمانے پر درپیش معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اسلامی ترقیاتی فنڈ، دیگر دوست ممالک اور شراکت داروں نے بھی خصوصی تعاون کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر آدمی ٹیکس دے گا۔

دوسری جانب سرکاری اداروں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہے، اگرکسی دفتر میں ایک ملازم کی ضرورت ہو وہاں پچاس افراد بھرتی کر دیے جائیں تو اس ادارے کا تباہ ہوجانا بنتا ہے کچھ ایسا ہی ہمارے سرکاری اداروں میں بھی ہوا ہے درجنوں غیر ضروری سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جن کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کی کوئی کارکردگی ہے سیاسی آشیر باد کی بنا پر احساسِ تحفظ اور عدم احتسابی نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثرکیا ہے۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس اور اشیائے خورونوش کی قلت اور ان کی امپورٹ کا عمل حد درجہ باعث تکلیف و افسوس ہے۔ زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار نے زراعت کے شعبے کو خاصا نقصان پہنچایا ہے جب کہ دوسری جانب دنیا ریگستانوں میں زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔

ہماری ایکسپورٹس میں بتدریج کمی اور امپورٹس میں اضافہ ہورہا ہے لوکل انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک جو ہم سے بہت پیچھے تھے وہ آج ہم سے ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز دیانت داری اور ایمانداری میں پنہاں ہے۔ ہمارے ہاںکرپشن، اقربا پروری اور بد انتظامی نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے لوگ رشوت اور بد عنوانی کو جرم اور برائی محسوس ہی نہیں کرتے ملک کے لیے قربانی دینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کی گھنٹی بج چکی ہے یہ ملک ہم سے اپنا حق مانگ رہا ہے اس ملک کا حق ہے اس پر رحم کیا جائے اب معیشت کی بحالی کے لیے کھوکھلے اور روایتی نعرے، وعدے اور دعوے نہیں چلیں گے۔

قوم اب عملی اقدامات ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے سامنے ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں کہ جنگ عظیم دوئم میں تباہ برباد ہو جانے والے ممالک محض چند ہی دہائیوں میں اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہوگئے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے نیک نیتی سے درست سمت میں پالیسیاں بنائیں ہماری سیاسی جماعتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے ایک میثاق پر متفق ہو جائیں اور عہد کریں کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کریں گی۔ مراعات یافتہ طبقاتی نظام کے خاتمہ کا یہی وقت ہے ۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کے نظام کو موثر اور مربوط بنایا جائے، سرکاری دفاتر میں کفایت شعاری کو نافذ کیا جائے۔
Load Next Story