شیخ الاسلام کا اعلان اور ہماری ذمے داری
شیخ الاسلام نے کہا کہ ہم فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں
شہر اقتدار اسلام آباد کا درجہ حرارت کافی گر چکا ہے، راتیں ہی نہیں دن بھی ٹھٹھر رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد کا کنونشن سینٹر ایمان والوں کی ایمانی حرارت سے خوب گرم ہے۔
ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ ان میں نوے فیصد ورثائے انبیاء ہیں یعنی علماء و شیوخ، خطباء و آئمہ ہیں باقی دس فیصد میں بھی دینی جماعتوں کے سرکردہ احباب شامل ہیں۔ یہ سب فلسطین پر اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کرب و اضطراب کی کیفیت میں جمع ہیں، مسجد اقصیٰ کی آزادی کی فکر انھیں تڑپا رہی ہے، ارض مقدس فلسطین پر صیہونیت کے ناپاک قدم انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔
کنونشن سینٹر میں حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس جاری ہے۔ اسٹیج پر تمام مسالک کی نمایندہ جماعتوں کے قائدین جلوہ افروز ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے سربراہ مفتی منیب الرحمن، اہلسنت والجماعت پاکستان کے قائد مولانا محمد احمد لدھیانوی، جمعیت علماء اسلام(س) کے امیر مولانا حامد الحق حقانی، مجلس احرار اسلام کے رہنما مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری ثالث، پیر مظہر شاہ اور پاکستان شریعت کونسل کے جنرل سیکریٹری شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی بھی موجود ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک خطاب ہورہا ہے۔
پھر خطاب کے لیے معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کا نام پکارا گیا۔ ہال میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔
شیخ الاسلام ڈائس پر آئے اور حمد و ثناء کے بعد انھوں نے بیان کا آغاز کیا، مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کی وجہ سے ان کا انداز آج بدلا بدلا سا محسوس ہوا، دنیا بھر میں نشریاتی اداروں کے ذریعے علماء و شیوخ کے بیانات سنے اور دیکھے جارہے تھے، شیخ الاسلام کا بیان بھی براہ راست کئی ٹی وی چینلز اور یوٹیوب پر دکھایا جارہا تھا۔
اس بیان میں انھوں نے جو اعلان حق کیا وہ صیہونی ریاست اور اس کے سہولت کاروں پر ایٹم بم بن کر گرا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دے کر کبھی تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، بانی پاکستان کے ریاستی اعلان سے پاکستان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ لہٰذا دو ریاستی حل کی بات کسی صورت قابل قبول نہیں،کوئی بھی مسلمان اسرائیل کی ریاست کو قبول نہیں کرسکتا، ہم فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں، دو ریاستی حل کی بات سے پرہیز کیا جائے، اس کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے اعلان کیا کہ جب کسی مسلمان سرزمین پر کوئی غیر مسلم طاقت قبضہ کرلے تو سب سے پہلے اس سرزمین پر رہنے والے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے، پھر آس پاس کے ملکوں میں رہنے والوں پر بھی جہاد فرض ہوجاتا ہے اور پھر دنیا بھر کے مسلمانوں پر۔ اس وقت حسب استطاعت تمام مسلمانوں پرجہاد فرض ہے، وہ فلسطینیوں کی مدد کوپہنچیں، حماس کے لڑنے والوں کو جنگجوکے بجائے مجاہدین کہا جانا چاہیے۔
عالم اسلام کے پاس وسائل ہیں جو ان کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں، دولت کے باوجود مسلم ممالک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، آج حماس کے جانباز مجاہدین نے آزادی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، اگرعالم اسلام متحد ہوکر ساتھ دے تو مغربی طاقتیں کچھ نہیں کرسکتیں۔ مفتی تقی عثمانی کی تقریر کے دوران ہال فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔
ہر طرف سے نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر۔ سبیلنا سبیلنا۔ الجہاد الجہاد کی صدائیں گونج اٹھیں۔ شیخ الاسلام نے اپنا خطاب جاری رکھا اور کہا کہ خدائی امریکا کے پاس نہیں اللہ کے پاس ہے، ہمیں جنگ بندی کے بجائے غزہ پر بمباری بندکرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے، اسرائیل سے فلسطینیوں پر مظالم روکنے کا مطالبہ کرنا چاہیے، آج پورا عالم اسلام مغرب کی غلامی کا شکار ہے، سیاسی معاشی اور فوجی اعتبار سے ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک خصوصاً امریکا آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے، یہی معاملہ کشمیریوں کے ساتھ بھی رہا، حماس ایک سیاسی طاقت ہے، وہ صرف لڑنے والے مجاہدین کا قافلہ نہیں، اسماعیل ہنیہ نے بتایا کہ مجاہدین کی اکثریت حافظ قرآن ہے، مگر افسوس کہ عالمی دہشت گرد اسرائیل کے مظالم کے شکار مجاہدین حماس کو دہشت گرد گردانہ جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی معتبر ترین شخصیت ہیں، فقہ و فتویٰ کا میدان ہو یا تفسیر و حدیث کا، اسلامی معاشیات کا موضوع ہو یا سیاسیات کا، تحریر و تقریر کا میدان ہو یا علم و تحقیق کا، وہ ہر میدان کے شہہ سوارِ ہیں اور امت کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس میں ان کا خطاب غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے یہ خطاب غاصب اسرائیلی ریاست کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوگا ، انشاء اللہ۔
اس وقت پوری دنیا میں ظالم و مظلوم کی صف بندی بڑی واضح ہو چکی ہے۔ یہ کام حماس کے چند راکٹوں نے کردکھایا۔ سات اکتوبر کی رات حماس کی جانب سے اسرائیل پر برسائے گئے راکٹوں سے صیہونی ریاست بوکھلا گئی، اگر مسلمہ امہ حماس کا ساتھ دیتی تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ سکتا تھا۔ امت تو نہ جاگی، مگر امریکا کھل کر اسرائیل کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہوا، اسے ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا جسے مظلوم فلسطینیوں پر برسایا گیا۔
اب بھی ہنگامی بنیادوں پر امریکا نے اسرائیل کو ٹینکوں کے ہزاروں گولے دینے کی منظوری دی ہے، یہ گولے آیندہ چند روز میں یروشلم پہنچ جائیں گے اور ارض مقدس کے باسیوں پر برسائے جائیں گے۔ اسرائیلی درندگی کی حمایت امریکا ہی نہیں، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی سمیت تمام بڑے ممالک کررہے ہیں۔ روس اور چین آدھے ادھر آدھے ادھر نظر آرہے ہیں۔
بحیثیت مجموعی مغربی ممالک کے حکمران ظالم و جابر اسرائیل کی صف میں کھڑے ہیں اور دنیا بھر کے مسلم حکمران اپنی اپنی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ صرف مسلم اور غیر مسلم دنیا کے عوام ہی مظلوموں کی حمایت میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔ کسی اسلامی ملک نے اس طرح مظلوم فلسطین کی حمایت نہیں کی جس طرح امریکا اور مغربی ممالک ظالم اسرائیل کی کررہے ہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ یہ بیان دینے پر مجبور ہوگئے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو صرف دھمکی بھی دے دے تو وہ اپنی شیطانیت سے باز آجائے گا لیکن شاید ایسا نہیں ہو گا'اسلامی دنیا کی نگاہیں سعودی عرب میں ہونے والے او آئی سی کے سربراہی اجلاس پر مرکوز تھیں کہ شاید وہاں سے کوئی جرات مندانہ متفقہ اعلامیہ جاری ہو جو اس صیہونی دہشت گردی کا راستہ روک سکے، لیکن ایک بار پھر او آئی سی مردہ گھوڑا ثابت ہوئی۔
ایک بھی اسلامی ملک فلسطینیوں کی مالی و فوجی مدد کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں امت مسلمہ کی نگاہیں اپنے علماء پر ہیں، دینی جماعتوں پر ہیں۔ پاکستان کے علماء نے حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس میں جمع ہو کر بتا دیا کہ ہم فلسطین کی آزادی کے لیے دامے درمے سخنے حاضر ہیں۔ یہ اجتماع اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویر تھی۔
اس میں تمام مسالک کی نمایندگی موجود تھی فلسطین کے مسئلے پر سب کا ایک موقف ایک سوچ اور ایک فکر تھی۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے دو اہم اعلانات کیے پہلا اعلان جہاد کا تھا جس پر کانفرنس میں موجود سب علماء و شیوخ نے لبیک کہا۔ دوسرا اعلان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو مسترد کرنے کا تھا۔
یہ حل جہاں سے آیا ہے پوری امت جانتی ہے، اس حل کو پیش کرنے والے حقیقت میں ایک ناجائز صیہونی ریاست کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ یہ حل نہیں فساد کی جڑ ہے۔ جسے فلسطینی، نہ حماس اور نہ امت مسلمہ تسلیم کرے گی۔ حماس نے پوری امت مسلمہ کو فکر حریت بخشی ہے، جو دیا حماس نے جلا دیا ہے اس کی لو سے پورا عالم اسلام روشن ہوگا۔
اہل پاکستان شیخ الاسلام کے اعلان کے مطابق عملی طور پر فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد تو کرسکتے ہیں۔ یہی ہمارا بہترین جہاد ہے جس سے کسی پاکستانی مسلمان کو محروم نہیں رہنا چاہیے۔
ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ ان میں نوے فیصد ورثائے انبیاء ہیں یعنی علماء و شیوخ، خطباء و آئمہ ہیں باقی دس فیصد میں بھی دینی جماعتوں کے سرکردہ احباب شامل ہیں۔ یہ سب فلسطین پر اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کرب و اضطراب کی کیفیت میں جمع ہیں، مسجد اقصیٰ کی آزادی کی فکر انھیں تڑپا رہی ہے، ارض مقدس فلسطین پر صیہونیت کے ناپاک قدم انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہے۔
کنونشن سینٹر میں حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس جاری ہے۔ اسٹیج پر تمام مسالک کی نمایندہ جماعتوں کے قائدین جلوہ افروز ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے سربراہ مفتی منیب الرحمن، اہلسنت والجماعت پاکستان کے قائد مولانا محمد احمد لدھیانوی، جمعیت علماء اسلام(س) کے امیر مولانا حامد الحق حقانی، مجلس احرار اسلام کے رہنما مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری ثالث، پیر مظہر شاہ اور پاکستان شریعت کونسل کے جنرل سیکریٹری شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی بھی موجود ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک سے بڑھ کر ایک خطاب ہورہا ہے۔
پھر خطاب کے لیے معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کا نام پکارا گیا۔ ہال میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔
شیخ الاسلام ڈائس پر آئے اور حمد و ثناء کے بعد انھوں نے بیان کا آغاز کیا، مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کی وجہ سے ان کا انداز آج بدلا بدلا سا محسوس ہوا، دنیا بھر میں نشریاتی اداروں کے ذریعے علماء و شیوخ کے بیانات سنے اور دیکھے جارہے تھے، شیخ الاسلام کا بیان بھی براہ راست کئی ٹی وی چینلز اور یوٹیوب پر دکھایا جارہا تھا۔
اس بیان میں انھوں نے جو اعلان حق کیا وہ صیہونی ریاست اور اس کے سہولت کاروں پر ایٹم بم بن کر گرا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دے کر کبھی تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، بانی پاکستان کے ریاستی اعلان سے پاکستان کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ لہٰذا دو ریاستی حل کی بات کسی صورت قابل قبول نہیں،کوئی بھی مسلمان اسرائیل کی ریاست کو قبول نہیں کرسکتا، ہم فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہیں، دو ریاستی حل کی بات سے پرہیز کیا جائے، اس کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے اعلان کیا کہ جب کسی مسلمان سرزمین پر کوئی غیر مسلم طاقت قبضہ کرلے تو سب سے پہلے اس سرزمین پر رہنے والے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے، پھر آس پاس کے ملکوں میں رہنے والوں پر بھی جہاد فرض ہوجاتا ہے اور پھر دنیا بھر کے مسلمانوں پر۔ اس وقت حسب استطاعت تمام مسلمانوں پرجہاد فرض ہے، وہ فلسطینیوں کی مدد کوپہنچیں، حماس کے لڑنے والوں کو جنگجوکے بجائے مجاہدین کہا جانا چاہیے۔
عالم اسلام کے پاس وسائل ہیں جو ان کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں، دولت کے باوجود مسلم ممالک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، آج حماس کے جانباز مجاہدین نے آزادی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، اگرعالم اسلام متحد ہوکر ساتھ دے تو مغربی طاقتیں کچھ نہیں کرسکتیں۔ مفتی تقی عثمانی کی تقریر کے دوران ہال فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔
ہر طرف سے نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر۔ سبیلنا سبیلنا۔ الجہاد الجہاد کی صدائیں گونج اٹھیں۔ شیخ الاسلام نے اپنا خطاب جاری رکھا اور کہا کہ خدائی امریکا کے پاس نہیں اللہ کے پاس ہے، ہمیں جنگ بندی کے بجائے غزہ پر بمباری بندکرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے، اسرائیل سے فلسطینیوں پر مظالم روکنے کا مطالبہ کرنا چاہیے، آج پورا عالم اسلام مغرب کی غلامی کا شکار ہے، سیاسی معاشی اور فوجی اعتبار سے ہم غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک خصوصاً امریکا آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے، یہی معاملہ کشمیریوں کے ساتھ بھی رہا، حماس ایک سیاسی طاقت ہے، وہ صرف لڑنے والے مجاہدین کا قافلہ نہیں، اسماعیل ہنیہ نے بتایا کہ مجاہدین کی اکثریت حافظ قرآن ہے، مگر افسوس کہ عالمی دہشت گرد اسرائیل کے مظالم کے شکار مجاہدین حماس کو دہشت گرد گردانہ جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی معتبر ترین شخصیت ہیں، فقہ و فتویٰ کا میدان ہو یا تفسیر و حدیث کا، اسلامی معاشیات کا موضوع ہو یا سیاسیات کا، تحریر و تقریر کا میدان ہو یا علم و تحقیق کا، وہ ہر میدان کے شہہ سوارِ ہیں اور امت کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس میں ان کا خطاب غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے یہ خطاب غاصب اسرائیلی ریاست کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوگا ، انشاء اللہ۔
اس وقت پوری دنیا میں ظالم و مظلوم کی صف بندی بڑی واضح ہو چکی ہے۔ یہ کام حماس کے چند راکٹوں نے کردکھایا۔ سات اکتوبر کی رات حماس کی جانب سے اسرائیل پر برسائے گئے راکٹوں سے صیہونی ریاست بوکھلا گئی، اگر مسلمہ امہ حماس کا ساتھ دیتی تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ سکتا تھا۔ امت تو نہ جاگی، مگر امریکا کھل کر اسرائیل کو بچانے کے لیے کمر بستہ ہوا، اسے ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا جسے مظلوم فلسطینیوں پر برسایا گیا۔
اب بھی ہنگامی بنیادوں پر امریکا نے اسرائیل کو ٹینکوں کے ہزاروں گولے دینے کی منظوری دی ہے، یہ گولے آیندہ چند روز میں یروشلم پہنچ جائیں گے اور ارض مقدس کے باسیوں پر برسائے جائیں گے۔ اسرائیلی درندگی کی حمایت امریکا ہی نہیں، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی سمیت تمام بڑے ممالک کررہے ہیں۔ روس اور چین آدھے ادھر آدھے ادھر نظر آرہے ہیں۔
بحیثیت مجموعی مغربی ممالک کے حکمران ظالم و جابر اسرائیل کی صف میں کھڑے ہیں اور دنیا بھر کے مسلم حکمران اپنی اپنی مصلحتوں کا شکار ہیں۔ صرف مسلم اور غیر مسلم دنیا کے عوام ہی مظلوموں کی حمایت میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔ کسی اسلامی ملک نے اس طرح مظلوم فلسطین کی حمایت نہیں کی جس طرح امریکا اور مغربی ممالک ظالم اسرائیل کی کررہے ہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ یہ بیان دینے پر مجبور ہوگئے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو صرف دھمکی بھی دے دے تو وہ اپنی شیطانیت سے باز آجائے گا لیکن شاید ایسا نہیں ہو گا'اسلامی دنیا کی نگاہیں سعودی عرب میں ہونے والے او آئی سی کے سربراہی اجلاس پر مرکوز تھیں کہ شاید وہاں سے کوئی جرات مندانہ متفقہ اعلامیہ جاری ہو جو اس صیہونی دہشت گردی کا راستہ روک سکے، لیکن ایک بار پھر او آئی سی مردہ گھوڑا ثابت ہوئی۔
ایک بھی اسلامی ملک فلسطینیوں کی مالی و فوجی مدد کو تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں امت مسلمہ کی نگاہیں اپنے علماء پر ہیں، دینی جماعتوں پر ہیں۔ پاکستان کے علماء نے حرمت مسجد اقصیٰ کانفرنس میں جمع ہو کر بتا دیا کہ ہم فلسطین کی آزادی کے لیے دامے درمے سخنے حاضر ہیں۔ یہ اجتماع اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویر تھی۔
اس میں تمام مسالک کی نمایندگی موجود تھی فلسطین کے مسئلے پر سب کا ایک موقف ایک سوچ اور ایک فکر تھی۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے دو اہم اعلانات کیے پہلا اعلان جہاد کا تھا جس پر کانفرنس میں موجود سب علماء و شیوخ نے لبیک کہا۔ دوسرا اعلان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو مسترد کرنے کا تھا۔
یہ حل جہاں سے آیا ہے پوری امت جانتی ہے، اس حل کو پیش کرنے والے حقیقت میں ایک ناجائز صیہونی ریاست کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ یہ حل نہیں فساد کی جڑ ہے۔ جسے فلسطینی، نہ حماس اور نہ امت مسلمہ تسلیم کرے گی۔ حماس نے پوری امت مسلمہ کو فکر حریت بخشی ہے، جو دیا حماس نے جلا دیا ہے اس کی لو سے پورا عالم اسلام روشن ہوگا۔
اہل پاکستان شیخ الاسلام کے اعلان کے مطابق عملی طور پر فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد میں حصہ نہیں لے سکتے لیکن وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد تو کرسکتے ہیں۔ یہی ہمارا بہترین جہاد ہے جس سے کسی پاکستانی مسلمان کو محروم نہیں رہنا چاہیے۔