فلسطین عالمی برادری کے مفادات اور منافقت
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی۔193 میں سے 153ارکان نے قرارداد کے حق میں اور دس نے مخالفت نے ووٹ دیا جب کہ تیئس ممالک غیر حاضر رہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فضائیہ کے تازہ حملوں میں مزید پچاس افراد شہید ہوگئے ہیں، وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق حماس کی سرنگوں کو پانی سے بھرنے کا سلسلہ تقریباً دو ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔
بادی النظر میں جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونا، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا کے اکثریتی ممالک فلسطینیوں کے حامی ہیں اور جنگ نہیں امن کے قیام کے خواہش مند ہیں، لیکن یہ بات زیادہ اہم ہے کہ یہ ایک ' غیر لازمی ' قرارداد ہے جس پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں، جب کہ اصل اہمیت تو سیکیورٹی کونسل ہے جہاں فلسطین میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی گئی ہے۔
طے یہ پایا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اب عالمی سلامتی کی ضامن نہیں بنی بلکہ 5 ممالک کی سیاسی حکمت عملیوں کا میدان جنگ بن چکی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی سطح پر تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں اسرائیل کے ظلم و بربریت اور سفاکیت کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ لاکھوں کے اجتماع میں احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ جنگ بندی کے لیے اسرائیل کو پابند نہیں کرسکتا۔
غزہ میں رونما ہونے والے واقعات نے عالمی برادری اور یورپی یونین کے ممالک کی منافقت کو بہت واضح کر دیا ہے لیکن مغربی سامراج معصوم شہریوں کے قتل عام اور 'چھوٹی قوموں' کے حقوق کی خلاف ورزی پر بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ان کے سارے نیک دعوے اپنے سامراجی مفادات کو چھپانے کا محض ایک بہانہ ہیں۔ مغرب میں فلسطین کے مسئلے پر ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے اپنے حکمران طبقے کے خلاف انقلابی جدوجہد ہی فلسطینی عوام کی جدوجہد میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ محنت کش طبقے کو ہی اپنے مجرم حکمران طبقے کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔
عالمی منافقت ختم ہوجائے تو اسرائیل کو جنگی جرائم کی سزا سے کوئی نہیں روک سکتا مگر حال یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور کینیڈا ہوں یا ان جیسا کوئی اور ملک، یہ سب تل ابیب سے یہ اُمید تو رکھتے ہیں کہ وہ عالمی انسانی قوانین کی پاسداری کرے مگر جب وہ ان قوانین کی دھجیاں اُڑاتا ہے تو یہ، گھنگنیاں منہ میں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری غزہ کو دن رات تہس نہس کررہی ہے۔
جنگ کا اُصول ہے کہ شہری ٹھکانوں پر بمباری نہ ہو مگر اس اُصول سے اسرائیل کا کوئی سروکار نہیں ہے جس نے اسپتالوں پر بھی بمباری کی ہے، مسجدوں اور کلیساؤں پر بھی اور رہائشی عمارتوں پر بھی۔ بچے اس کا خاص ہدف ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ اب تک غزہ میں جتنی اموات ہوئی ہیں اُن میں کم و بیش پچاس فیصد بچے ہیں۔
صاف محسوس ہورہا ہے کہ تل ابیب غزہ کو نیست و نابود کردینا چاہتا ہے تاکہ کوئی مزاحمت باقی ہی نہ رہے اور غزہ کا اسرائیل سے الحاق کرلیا جائے اور بہت آسانی کے ساتھ یہودی بستیاں بسا لی جائیں۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے آوازوں کو دبانے پر خاص توجہ دی ہے۔
خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ خود اسرائیل کے عوام کی ایک تعداد بھی غزہ کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوش نہیں اور اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے مگر اس کے غم و غصے کو ذرائع ابلاغ میں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ جن مشہور شخصیات نے فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی اُنہیں کسی نہ کسی انداز میں پریشان کیا جارہا ہے۔ تنقیدی آوازوں کو بالجبر خاموش کرنے کا یہ سلسلہ اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ امریکا تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کے کئی شواہد منظر عام پر ہیں۔ اپنے ''کارناموں'' پر تنقید برداشت نہ کرنا ایسی ہی بزدلی ہے جیسی بچوں کو یا تو بمباری کے ذریعہ مارنا یا اُنہیں طبی امداد فراہم کرنے والے اسپتالوں کو منہدم کر دینا یا وہاں تک دوائیں نہ پہنچنے دینا۔ اسرائیل اِس وقت ہر وہ بد معاشی کر رہا ہے جو وہ کرسکتا ہے اور عالمی برادری اُسے ایسا کرنے دے رہی ہے، جو ممالک دبے یا کھلے الفاظ میں کچھ کہہ رہے ہیں وہ دیگر ملکوں کو اعتماد میں لے کر کچھ کہنے یا کرنے سے بچ رہے ہیں۔ غزہ کو، پوری یا آدھی، یہی منافقت ڈس رہی ہے۔
دنیا مظلوم فلسطینی عوام اور قابض اسرائیلی ریاست کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی۔ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ منافقت برتی جا رہی ہے۔ مظلوم بھی فلسطینی عوام ہیں اور دنیا کی طرف سے شرائط بھی انھی پرعائد کی جا رہی ہیں اور اسرائیل کو دنیا بھر میں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے جب کہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ہی گھروں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے۔
اسرائیل عالمی برادری کے سامنے بے گناہ فلسطینیوں پر مسلسل بمباری کر کے انھیں شہید اور ان کی املاک کو تباہ کر رہا ہے اور دنیا کو فلسطینیوں کی مظلومیت اور صیہونیوں کے مظالم نظر نہیں آتے۔غزہ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کی شہادتیں، تباہی و بربادی اور دربدری آج کی مہذب دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے۔
غزہ میں اس قدر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے کہ پوری دنیا کے عوام احتجاج پر مجبور ہوگئے لیکن صہیونیوں نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور مجرمانہ افعال سے تاحال گریز نہیں کیا۔ فلسطین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے، مگر افسوس کہ عرب و عجم کی مسلم امہ اور او آئی سی کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔
ہزاروں نظمیں، ڈرامے اور ناول لکھے گئے اور اس واقعے کو '' ہولوکاسٹ'' کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ میں مرنے والوں کو اس قدر تقدس عطا کیا گیا کہ ان کے خلاف لب کشائی کرنے والا مجرم جانا گیا۔ ہولوکاسٹ کی نہ صرف تردید کرنا جرم ٹھہرا، بلکہ یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ ''مقتولین'' کی ساٹھ لاکھ تعداد میں کمی بھی قابل سزا جرم بنا دیا گیا۔ متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولو کاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کر دیے گئے۔
ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے، حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی اور کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولو کاسٹ پر تحقیق اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے۔
بہت سے ممالک میں ہولو کاسٹ کے ضمن میں زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی۔ صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولو کاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے اور اس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔
عالمی برادری نے ہولو کاسٹ کے حوالے سے سخت سے سخت تر قوانین تو بنا دیے، لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد بھی تھے یا نہیں؟ اور جو آباد تھے، ان میں سے بیشتر کو ہٹلر کے حکم پر جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بدر نہیں کر دیا گیا تھا؟
عالمی برادری کی ناانصافی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف یہودیوں کے '' افسانوی واقعہ'' کے حوالے سے تقریباً پون صدی بعد بھی سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہودیوں کے ہاتھوں پون صدی سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولو کاسٹ جاری ہے۔
انھیں تہ تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی برادری کی زبانیں گنگ ہیں۔ آخر کیوں؟
طویل عرصے سے فلسطین پر قابض اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، لیکن عالمی برادری نے اپنے لب سی لیے ہیں۔ آخر کیوں؟ عالمی برادری کہاں ہے؟ یہودیوں کے ہولو کاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں سفاکیت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فضائیہ کے تازہ حملوں میں مزید پچاس افراد شہید ہوگئے ہیں، وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق حماس کی سرنگوں کو پانی سے بھرنے کا سلسلہ تقریباً دو ہفتوں میں مکمل ہوجائے گا۔
بادی النظر میں جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونا، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا کے اکثریتی ممالک فلسطینیوں کے حامی ہیں اور جنگ نہیں امن کے قیام کے خواہش مند ہیں، لیکن یہ بات زیادہ اہم ہے کہ یہ ایک ' غیر لازمی ' قرارداد ہے جس پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں، جب کہ اصل اہمیت تو سیکیورٹی کونسل ہے جہاں فلسطین میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی گئی ہے۔
طے یہ پایا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اب عالمی سلامتی کی ضامن نہیں بنی بلکہ 5 ممالک کی سیاسی حکمت عملیوں کا میدان جنگ بن چکی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی سطح پر تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں اسرائیل کے ظلم و بربریت اور سفاکیت کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ لاکھوں کے اجتماع میں احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ جنگ بندی کے لیے اسرائیل کو پابند نہیں کرسکتا۔
غزہ میں رونما ہونے والے واقعات نے عالمی برادری اور یورپی یونین کے ممالک کی منافقت کو بہت واضح کر دیا ہے لیکن مغربی سامراج معصوم شہریوں کے قتل عام اور 'چھوٹی قوموں' کے حقوق کی خلاف ورزی پر بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ان کے سارے نیک دعوے اپنے سامراجی مفادات کو چھپانے کا محض ایک بہانہ ہیں۔ مغرب میں فلسطین کے مسئلے پر ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے اپنے حکمران طبقے کے خلاف انقلابی جدوجہد ہی فلسطینی عوام کی جدوجہد میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ محنت کش طبقے کو ہی اپنے مجرم حکمران طبقے کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔
عالمی منافقت ختم ہوجائے تو اسرائیل کو جنگی جرائم کی سزا سے کوئی نہیں روک سکتا مگر حال یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور کینیڈا ہوں یا ان جیسا کوئی اور ملک، یہ سب تل ابیب سے یہ اُمید تو رکھتے ہیں کہ وہ عالمی انسانی قوانین کی پاسداری کرے مگر جب وہ ان قوانین کی دھجیاں اُڑاتا ہے تو یہ، گھنگنیاں منہ میں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری غزہ کو دن رات تہس نہس کررہی ہے۔
جنگ کا اُصول ہے کہ شہری ٹھکانوں پر بمباری نہ ہو مگر اس اُصول سے اسرائیل کا کوئی سروکار نہیں ہے جس نے اسپتالوں پر بھی بمباری کی ہے، مسجدوں اور کلیساؤں پر بھی اور رہائشی عمارتوں پر بھی۔ بچے اس کا خاص ہدف ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ اب تک غزہ میں جتنی اموات ہوئی ہیں اُن میں کم و بیش پچاس فیصد بچے ہیں۔
صاف محسوس ہورہا ہے کہ تل ابیب غزہ کو نیست و نابود کردینا چاہتا ہے تاکہ کوئی مزاحمت باقی ہی نہ رہے اور غزہ کا اسرائیل سے الحاق کرلیا جائے اور بہت آسانی کے ساتھ یہودی بستیاں بسا لی جائیں۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے آوازوں کو دبانے پر خاص توجہ دی ہے۔
خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ خود اسرائیل کے عوام کی ایک تعداد بھی غزہ کے ساتھ ہونے والے سلوک سے خوش نہیں اور اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے مگر اس کے غم و غصے کو ذرائع ابلاغ میں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ جن مشہور شخصیات نے فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی اُنہیں کسی نہ کسی انداز میں پریشان کیا جارہا ہے۔ تنقیدی آوازوں کو بالجبر خاموش کرنے کا یہ سلسلہ اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ امریکا تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کے کئی شواہد منظر عام پر ہیں۔ اپنے ''کارناموں'' پر تنقید برداشت نہ کرنا ایسی ہی بزدلی ہے جیسی بچوں کو یا تو بمباری کے ذریعہ مارنا یا اُنہیں طبی امداد فراہم کرنے والے اسپتالوں کو منہدم کر دینا یا وہاں تک دوائیں نہ پہنچنے دینا۔ اسرائیل اِس وقت ہر وہ بد معاشی کر رہا ہے جو وہ کرسکتا ہے اور عالمی برادری اُسے ایسا کرنے دے رہی ہے، جو ممالک دبے یا کھلے الفاظ میں کچھ کہہ رہے ہیں وہ دیگر ملکوں کو اعتماد میں لے کر کچھ کہنے یا کرنے سے بچ رہے ہیں۔ غزہ کو، پوری یا آدھی، یہی منافقت ڈس رہی ہے۔
دنیا مظلوم فلسطینی عوام اور قابض اسرائیلی ریاست کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی۔ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ منافقت برتی جا رہی ہے۔ مظلوم بھی فلسطینی عوام ہیں اور دنیا کی طرف سے شرائط بھی انھی پرعائد کی جا رہی ہیں اور اسرائیل کو دنیا بھر میں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے جب کہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ہی گھروں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے۔
اسرائیل عالمی برادری کے سامنے بے گناہ فلسطینیوں پر مسلسل بمباری کر کے انھیں شہید اور ان کی املاک کو تباہ کر رہا ہے اور دنیا کو فلسطینیوں کی مظلومیت اور صیہونیوں کے مظالم نظر نہیں آتے۔غزہ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کی شہادتیں، تباہی و بربادی اور دربدری آج کی مہذب دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے۔
غزہ میں اس قدر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے کہ پوری دنیا کے عوام احتجاج پر مجبور ہوگئے لیکن صہیونیوں نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور مجرمانہ افعال سے تاحال گریز نہیں کیا۔ فلسطین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے، مگر افسوس کہ عرب و عجم کی مسلم امہ اور او آئی سی کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔
ہزاروں نظمیں، ڈرامے اور ناول لکھے گئے اور اس واقعے کو '' ہولوکاسٹ'' کا نام دیا گیا۔ ہولو کاسٹ میں مرنے والوں کو اس قدر تقدس عطا کیا گیا کہ ان کے خلاف لب کشائی کرنے والا مجرم جانا گیا۔ ہولوکاسٹ کی نہ صرف تردید کرنا جرم ٹھہرا، بلکہ یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ ''مقتولین'' کی ساٹھ لاکھ تعداد میں کمی بھی قابل سزا جرم بنا دیا گیا۔ متعدد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولو کاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کر دیے گئے۔
ہولوکاسٹ کے خلاف زبان کھولنے والے دانشوروں کے صرف ملکی ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر وارنٹ جاری کیے گئے، حالانکہ تحقیق کا دروازہ کبھی اور کسی ملک میں بند نہیں ہوتا، لیکن ہولو کاسٹ پر تحقیق اور آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پائے۔
بہت سے ممالک میں ہولو کاسٹ کے ضمن میں زبان بندی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی گئی۔ صرف یورپ کے تقریباً تین درجن ممالک میں ہولو کاسٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہار رائے جرم ہے اور اس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔
عالمی برادری نے ہولو کاسٹ کے حوالے سے سخت سے سخت تر قوانین تو بنا دیے، لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیا دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد بھی تھے یا نہیں؟ اور جو آباد تھے، ان میں سے بیشتر کو ہٹلر کے حکم پر جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے ہی ملک بدر نہیں کر دیا گیا تھا؟
عالمی برادری کی ناانصافی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف یہودیوں کے '' افسانوی واقعہ'' کے حوالے سے تقریباً پون صدی بعد بھی سخت قوانین نافذ ہیں، لیکن دوسری جانب اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہودیوں کے ہاتھوں پون صدی سے مظلوم فلسطینیوں کا ہولو کاسٹ جاری ہے۔
انھیں تہ تیغ کیا جا رہا ہے، بمباری کرکے بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار اور ان کی زمینیں ہتھیائی جارہی ہیں، اس سب کچھ کے بعد بھی عالمی برادری کی زبانیں گنگ ہیں۔ آخر کیوں؟
طویل عرصے سے فلسطین پر قابض اسرائیل نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے، لیکن عالمی برادری نے اپنے لب سی لیے ہیں۔ آخر کیوں؟ عالمی برادری کہاں ہے؟ یہودیوں کے ہولو کاسٹ کے حوالے سے قوانین بنانے والے ممالک کیا اسرائیل سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ فلسطینیوں پر کس جرم کی پاداش میں سفاکیت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے؟
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں، اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔ سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔