انتخابات کا منظرنامہ اور سیاسی امکانات

سیاسی منظر نامہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے سوا ابھی تک کوئی بڑی سیاسی گہما گہمی یا انتخابی مہم کی شدت دیکھنے کو نہیں مل رہی

salmanabidpk@gmail.com

قومی انتخابات عمومی طور پر ایک بڑے سیاسی بندوبست کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی یہ تصویر سامنے آجاتی ہے کہ اقتدار میں کون کس پر بالادستی حاصل کرے گا۔

یہ منظر نامہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور ووٹرز سمیت سیاسی مہم میں شامل تمام فریقوں کو واضح کردیتا ہے کہ ہوا کا رخ کیا ہے۔ اسی بنیاد پر انتخابی حلقوں میں طاقت ور خاندانی یا برادری سے جڑے افراد اسی سیاسی پناہ گاہ کا حصہ بن جاتے یا بنا دیے جاتے ہیں۔

شفاف انتخابات کی خواہش کچھ فریقوں کی ہوتی ہے مگر شفاف انتخابات کے لیے جو عمل ہونا چاہیے اس کا فقدان سب کو نظر بھی آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان بھی رہتے ہیں اور کوئی بھی انتخابی نتائج کی شفافیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

8فروری 2024کو عام انتخابات ہونے ہیں۔ لیکن سیاسی منظر نامہ میں سیاسی جوڑ توڑ کے سوا ابھی تک کوئی بڑی سیاسی گہما گہمی یا انتخابی مہم کی شدت دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ ایک بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے بارے میں ابھی تک کوئی بات واضح نہیں کہ اس کا انتخابی مستقبل کیا ہوگا۔

کیا وہ آزادانہ بنیاد پر انتخاب لڑ سکیں گے ، کیا پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخاب لڑنے دیا جائے گا ، کیا ان کو انتخابی نشان بلا مل سکے گا یا کیا انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے راہنماؤں کو جیل سے رہائی مل سکے گی اورکیا ان کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی مل سکے گی۔

9مئی کے بعد کا جو بھی منظر نامہ ہے وہ پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ ایک منطق یہ دی جارہی ہے کہ انتخابی مہم میں شدت پیدا نہ ہونے یا انتخابی ماحول کے نہ بننے کی دو وجوہات ہیں ۔اول پی ٹی آئی سے یہ واضح نہیں کہ کون انتخاب میں حصہ لے گا اور کس کو انتخاب لڑنے کا اجازت ہوگی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ امیدوار کا سامنے نہ آنا انتخابی ماحول کو پیدا نہیں کررہا ۔ دوئم، ایسے لگتا ہے کہ یہ ایک خاص منصوبہ بندی کا حصہ ہے کہ انتخابی ماحول میں کوئی بڑی پرجوشیت کو پیدا ہی نہ کیا جائے ، اس میں بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کا ماحول نہ ہو۔ بظاہر یہ تاثر موجود ہے کہ حالات مسلم لیگ ن کے لیے سازگار ہیں اور ان ہی کو اقتدار کے کھیل کا حصہ بنایا جائے گا۔

عمومی طور پر ہم انتخابات کے نتائج کو روائتی اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ کی بنیاد پر دیکھتے یا نتیجہ اخذ کرتے ہیں لیکن اس دفعہ صرف سیاسی پنڈت ہی نہیں بلکہ کئی اور سیاسی و غیر سیاسی فریق نتائج کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔


جو وہ چاہتے ہیں اس میں ان کی کامیابی کو کیسے یقینی بنایا جائے گا ، غور طلب مسئلہ ہے ۔18برس سے 35برس کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو کل ووٹرز کا 46 فیصد ہیں ان کو کیسے انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے سے روکا جاسکے گا ۔

کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ نوجوان ووٹرز 35سے 50فیصد باہر نکلتا ہے اور وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آتا ہے تو پھر حالات روائتی سیاست یا پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے بھی خلاف ہوسکتا ہے اور اس میں طاقت ور الیکٹ ایبلز بھی خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔ ووٹرز کا بڑا ٹرن آوٹ تحریک انصاف کے حق میں ہوگا اور کم ٹرن آوٹ اس کے سیاسی مخالفین کے حق میں ہوگا۔

اصل چیلنج یا انتخابی جنگ پنجاب میں ہوگی۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کا ہی مقابلہ ہوگا اور جو بھی جیتے گا وہی مرکز کی سیاست پر بھی غالب ہوگا ۔مسلم لیگ ن انتخابی سیاست اور روائتی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اور انتخابات لڑنے کا ہنر بھی اس کے پاس ہے ۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرز کتنی بڑی تعداد میں باہر نکلتا ہے۔

انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی اور کیسے اس انتخابات کو قابل قبول بنایا جائے گا خود ایک بڑا سوال ہے۔کیونکہ اگر انتخابی عمل انتخابات سے پہلے ہی متنازعہ بن جائے تو پھر انتخابات کی ساکھ کا سوال پیچھے رہ جاتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ انتخابات سے پہلے یا پری پول مناظر یا جوڑ توڑ یا نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ شفافیت اور انتخابی قبولیت سے زیادہ ہماری مرضی کو بالادستی حاصل ہے۔ اس لیے انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں حالات میں سیاسی استحکام کم اور ٹکراؤ کا ماحول ہم کو زیادہ دیکھنے کو ملے گا۔

یہ جو کہا جارہا ہے کہ انتخابات کی عدم شفافیت کی بنیاد پر بنے والی حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہوگی اور اس کو نہ تو کوئی سیاسی برتری حاصل ہوگی بلکہ اتحادیوں کی بنیاد پر تشکیل دی جانے والی حکومت سیاسی محاذ پر اور فیصلہ سازی کے عمل میں کمزور وکٹ پر کھڑی ہوگی اور طاقت کا مرکز سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں کسی اور کے پاس ہوگا۔

یہ بات درست ہے کہ انتخابات ناگزیر ہیں اور اس کو پس پشت ڈال کر سیاسی سطح پر استحکام ممکن نہیں اور نہ ہی معاشی استحکام ممکن ہوسکے گا۔لیکن اس سے بڑھ کر ایک شرط یہ بھی ہے کہ انتخابات کی حیثیت متنازعہ نہ بنے اور یہ جو اپنی مرضی کو بنیاد بنا کر انتخابی میدان یا انتخابی مہم جوئی کا کھیل یا دربار سجایا جارہا ہے اس سے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔

اگرچہ انتخابی مہم میں ہمیں سابقہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے کو مل رہی ہے جن میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نمایاں ہے ۔لیکن یہ محض انتخابی حکمت عملی ہوگی اور اس بات کا امکان ہے کہ اگلی حکومت میں بھی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی اقتدار کی سیاست میں کھڑی ہوں گی ۔

مسلم لیگ ن کی قیادت کو احساس ہے کہ ہمیں تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر ہی حکومت سازی کرنا ہوگی اور تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔مگر یہ سب کچھ مصنوعی انداز میں سجایا جارہا ہے جو ہمیں دوبارہ انتخابات یا عدم انتخابات دونوں صورتوں میں عدم استحکام کی طرف ہی دھکیلے گا۔
Load Next Story