دبئی کا ذکر اور ایک فون کال
اگر دھاندلی نہ ہوتی تو فراز ہاشمی نے الیکشن جیتنا تھا۔ فراز ہاشمی کے ووٹوں کے بیگز غائب کر دیے گئے
موضوعات کی ہنگامہ خیزی اور مصروفیات نے شب و روز کو ایک دوسرے میں یوں پیوسط کر دیا کہ متحدہ عرب امارات کی باتیں کہیں درمیان میں ہی رہ گئیں' اس دوران ایک سے بڑھ کر ایک موضوع میڈیا کی زینت بنتا رہا' ایسا غبار ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا' پہلے سوچا کہ چلو اس غبار میں ہم بھی گھس جاتے ہیں لیکن پھر سوچا کہ غبار چھٹ جائے تو بہتر ہے' اس لیے اپنی ادھوری بات کو آگے بڑھاتا ہوں' ابوظہبی کی کچھ باتیں تو ہو گئی تھیں' اب کچھ ذکرشہر بے مثال دبئی کا بھی ہو جائے۔
ہمارا( میں اور خالد قیوم) قیام چونکہ ابوظہبی میں تھا' یہاں سے ہمیں 22 مارچ کی رات دبئی جانا تھا۔ ابوظہبی سے دبئی کا فاصلہ تقریباً 124 کلو میٹر کے قریب ہے۔ سڑک کیونکہ بہترین ہے، اس لیے گھنٹے سوا گھنٹے میں آپ با آسانی دبئی پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری منزل دبئی میں ابراہیمی پیلس ریسٹورنٹ تھا'یہاں پیپلز پارٹی گلف کے صدر میاں منیر ہانس نے یوم پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا' انھوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے ہمیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے دورہ ابوظہبی کے اصل میزبان میاں منیر ہانس ہی تھے' وہ اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ دبئی میں ہم نے جو وقت گزارا اس کے میزبان میاں صاحب ہی تھے۔
ہم نے ابوظہبی کے صنعتی شہر مصفح سے دبئی روانہ ہونا تھا' میاں منیر ہانس کے دوست اور ابوظہبی میں پیپلز پارٹی کے متحرک اور نوجوان رہنما میاں عابد محمد علی ہمیں لینے آ گئے' ہم رات کو تقریباً 7 بجے کے قریب مصفع سے روانہ ہو گئے' ابوظہبی سے دبئی تک کمال سڑک ہے' کہیں کوئی گڑھا نہیں' لیول ایسا کہ کار میں بیٹھے پتہ نہیں چلتا کہ وہ چل رہی ہے۔ ہائی وے پر رات کے وقت اتنی روشنی ہوتی ہے کہ اگر گاڑی کی ہیڈ لائٹس نہ بھی جلائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میاں عابد سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا' انتہائی ملنسار انسان ہیں' ہم ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دبئی کے ابراہیمی ریسٹورنٹ پہنچ گئے' اس وقت گہما گہمی کا عالم تھا' ہر رنگ اور ہر نسل کے خواتین و حضرات ہر قسم کے تفکرات سے آزاد گھوم پھر رہے تھے' فلک بوس عمارتیں حیرت گم کر دیتی ہیں' برج الخلیفہ تو عجوبہ ہے۔
موسم بھی بے حد خوشگوار تھا' ہوٹل کے جس ہال میں تقریب تھی وہاں پہنچے تو وہ مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا' تھوڑی دیر میں یوم آزادی کے حوالے سے تقریب کا آغاز ہو گیا' اس تقریب میں متروکہ وقف املاک بورڈ کے سابق سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف ہاشمی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وہ تقریباً ایک برس کی روپوشی کے بعد پہلی بار کسی عوامی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ میری ان کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی' پاکستان میں ان کے بارے میں بہت کہانیاں سن رکھی تھیں' ان پر کئی مقدمات بھی قائم ہیں، شاید اس لیے وہ پاکستان سے دبئی شفٹ ہو گئے' ان کا کہنا تھا کہ آج سے پہلے چند قریبی دوستوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دبئی میں مقیم ہیں' پاکستان میں یہی سمجھا جاتا رہا کہ وہ لندن میں رہ رہے ہیں۔
ان کے ساتھ بڑی اچھی گفتگو رہی' وہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے خاصے نالاں اور مایوس نظر آئیاورگلہ کیا کہ انھوں نے پارٹی کے لیے انتھک کام کیا لیکن جب مشکل وقت آیا تو ان کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ کسی نے ان کے حق میں بیان تک نہیں دیا حالانکہ متروکہ املاک کے چیئرمین کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ کیا' وہ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی کی حالت زار کے بارے میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اس سے پارٹی کا اندازہ کر لیں۔قارئین آپ بھی پڑھ لیں۔
2013 کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی لاہور کی ایک میٹنگ گورنر ہائوس میں بلائی گئی تھی' اس میں فریال تالپور صاحبہ نے شریک ہونا تھا۔ وہ جب گورنر ہائوس کے دربار ہال میں پہنچیں اور انھوں نے پارٹی کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اب میں آپ کو سیاست سکھائوں گی۔ اس پر میں نے بلند آواز میں بے ساختہ کہا ' ''اب خود کشی لازم ہے''۔ فریال صاحبہ نے استفسار کیا تو میں نے کہا کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے سیاست سیکھی ہے' اب بھی ہمیں سیاست نہیں آئی تو پھر ہمارے لیے خود کشی ہی بنتی ہے۔
میں ابھی یہ جملے تحریر کر رہا تھا کہ ٹیلی فون چیخنے لگا' میں نے فون اسکرین پر نظر ڈالی تو دبئی کا نمبر تھا' میں نے کال اوکے کی تو دوسری جانب سے آواز آئی،''میں آصف ہاشمی بول رہا ہوں' کیا حال ہے،'' میں نے الحمد للہ کہا تو بولے،''پاکستان میں کیا ہو رہا ہے' اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی سب سے محدود اقلیت سکھ بھی سراپا احتجاج ہیں اور سیکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ وہ پارلیمنٹ ہائوس کے ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔ سکھ کو ہزاروں میں پہچانا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کسی کو سکھوں کی آمد کا پتہ نہ چل سکا۔ کسی سکھ کے روپ میں کوئی دہشت گرد بھی آ سکتا تھا۔ اب تو سیکیورٹی LAPSE کی انتہا ہو گئی ہے۔
آصف ہاشمی مزید بولے ''جب تک میں متروکہ املاک کا چیئرمین رہا ،کبھی سیکیورٹی ایشو نہیں ہوا کیونکہ ان کے سکھ' ہندو اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ اچھے روابط تھے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کے دور میں بھرتی کیے گئے سیکیورٹی کے 600 اہلکار نکال دیے گئے، چیف سیکیورٹی آفیسر کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے، اب ان کا معاملہ کورٹ میں ہے۔ اگر ان سیکیورٹی اہلکاروں کو فارغ نہ کیا جاتا تو آج سکھوں کو احتجاج نہ کرنا پڑتا کیونکہ ان کے مقدس مقامات اور کتب کی حفاظت رہتی۔''
باتیں بڑھتے بڑھتے موجودہ ملکی صورت حال اور عمران خان تک آ پہنچیں۔ آصف ہاشمی نے لاہور کے این اے 118 کا ذکر چھیڑ دیا جہاں سے ان کے صاحبزادے فراز ہاشمی نے مئی 2013 کا الیکشن لڑا اور وہ ہار گئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ این اے 118 میں 90 ہزار ووٹ غائب ہوئے ہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ووٹ میرے بیٹے فراز ہاشمی کے تھے۔ میں نے 2008 میں اسی حلقے سے الیکشن لڑا اور 26 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں، میں نے اس حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے' سیکڑوں نوکریاں دیں' چھوٹے کاروبار ریڑھی' کھوکھے' ٹھیلے اور رکشے دیے اور یتیموں' غریبوں کی مالی امداد کی۔ آپ خو دہی بتائیں کہ جب میں نے یہاں اتنے کام نہیں کیے تھے تو 2008میں مجھے 26 ہزار ووٹ پڑے جب کہ 2014 کے الیکشن میں یہ کم ہو کر 14 ہزار کیسے ہو گئے۔
اس سے ثابت ہو گیاکہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو فراز ہاشمی نے الیکشن جیتنا تھا۔ فراز ہاشمی کے ووٹوں کے بیگز غائب کر دیے گئے۔ یہ فراز ہاشمی کے ووٹ تھے عمران خان کے ووٹ نہیں تھے۔ یہ تو آصف ہاشمی کا دعویٰ ہے ' اب یہ تحریک انصاف والے جانیں یا ہاشمی صاحب کہ اس حلقے میں کس کے ساتھ دھاندلی ہوئی۔ میں اس بارے میں خاموش رہوں گا کیونکہ دھاندلی کا معاملہ ہے' میں لینے میں نہ دینے میں۔ ہاشمی صاحب نے بتایا ہے کہ وہ تین چار ماہ کے اندر اندر وطن واپس آ رہے ہیں۔ میرا انھیں مشورہ ہے کہ وہ جلد آئیں کیونکہ یہاں دھاندلی کا تنور گرم ہے، شاید ان کا پراٹھا بھی اسی تنور میں پک جائے ورنہ مقدمات تو ہیں ہی۔
ہمارا( میں اور خالد قیوم) قیام چونکہ ابوظہبی میں تھا' یہاں سے ہمیں 22 مارچ کی رات دبئی جانا تھا۔ ابوظہبی سے دبئی کا فاصلہ تقریباً 124 کلو میٹر کے قریب ہے۔ سڑک کیونکہ بہترین ہے، اس لیے گھنٹے سوا گھنٹے میں آپ با آسانی دبئی پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری منزل دبئی میں ابراہیمی پیلس ریسٹورنٹ تھا'یہاں پیپلز پارٹی گلف کے صدر میاں منیر ہانس نے یوم پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا' انھوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے ہمیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے دورہ ابوظہبی کے اصل میزبان میاں منیر ہانس ہی تھے' وہ اکثر پاکستان آتے رہتے ہیں۔ دبئی میں ہم نے جو وقت گزارا اس کے میزبان میاں صاحب ہی تھے۔
ہم نے ابوظہبی کے صنعتی شہر مصفح سے دبئی روانہ ہونا تھا' میاں منیر ہانس کے دوست اور ابوظہبی میں پیپلز پارٹی کے متحرک اور نوجوان رہنما میاں عابد محمد علی ہمیں لینے آ گئے' ہم رات کو تقریباً 7 بجے کے قریب مصفع سے روانہ ہو گئے' ابوظہبی سے دبئی تک کمال سڑک ہے' کہیں کوئی گڑھا نہیں' لیول ایسا کہ کار میں بیٹھے پتہ نہیں چلتا کہ وہ چل رہی ہے۔ ہائی وے پر رات کے وقت اتنی روشنی ہوتی ہے کہ اگر گاڑی کی ہیڈ لائٹس نہ بھی جلائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میاں عابد سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا' انتہائی ملنسار انسان ہیں' ہم ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دبئی کے ابراہیمی ریسٹورنٹ پہنچ گئے' اس وقت گہما گہمی کا عالم تھا' ہر رنگ اور ہر نسل کے خواتین و حضرات ہر قسم کے تفکرات سے آزاد گھوم پھر رہے تھے' فلک بوس عمارتیں حیرت گم کر دیتی ہیں' برج الخلیفہ تو عجوبہ ہے۔
موسم بھی بے حد خوشگوار تھا' ہوٹل کے جس ہال میں تقریب تھی وہاں پہنچے تو وہ مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا' تھوڑی دیر میں یوم آزادی کے حوالے سے تقریب کا آغاز ہو گیا' اس تقریب میں متروکہ وقف املاک بورڈ کے سابق سربراہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف ہاشمی سے بھی ملاقات ہو گئی۔ وہ تقریباً ایک برس کی روپوشی کے بعد پہلی بار کسی عوامی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ میری ان کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی' پاکستان میں ان کے بارے میں بہت کہانیاں سن رکھی تھیں' ان پر کئی مقدمات بھی قائم ہیں، شاید اس لیے وہ پاکستان سے دبئی شفٹ ہو گئے' ان کا کہنا تھا کہ آج سے پہلے چند قریبی دوستوں کے سوا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دبئی میں مقیم ہیں' پاکستان میں یہی سمجھا جاتا رہا کہ وہ لندن میں رہ رہے ہیں۔
ان کے ساتھ بڑی اچھی گفتگو رہی' وہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے خاصے نالاں اور مایوس نظر آئیاورگلہ کیا کہ انھوں نے پارٹی کے لیے انتھک کام کیا لیکن جب مشکل وقت آیا تو ان کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ کسی نے ان کے حق میں بیان تک نہیں دیا حالانکہ متروکہ املاک کے چیئرمین کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ کیا' وہ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی کی حالت زار کے بارے میں انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا اور کہا کہ اس سے پارٹی کا اندازہ کر لیں۔قارئین آپ بھی پڑھ لیں۔
2013 کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی لاہور کی ایک میٹنگ گورنر ہائوس میں بلائی گئی تھی' اس میں فریال تالپور صاحبہ نے شریک ہونا تھا۔ وہ جب گورنر ہائوس کے دربار ہال میں پہنچیں اور انھوں نے پارٹی کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اب میں آپ کو سیاست سکھائوں گی۔ اس پر میں نے بلند آواز میں بے ساختہ کہا ' ''اب خود کشی لازم ہے''۔ فریال صاحبہ نے استفسار کیا تو میں نے کہا کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے سیاست سیکھی ہے' اب بھی ہمیں سیاست نہیں آئی تو پھر ہمارے لیے خود کشی ہی بنتی ہے۔
میں ابھی یہ جملے تحریر کر رہا تھا کہ ٹیلی فون چیخنے لگا' میں نے فون اسکرین پر نظر ڈالی تو دبئی کا نمبر تھا' میں نے کال اوکے کی تو دوسری جانب سے آواز آئی،''میں آصف ہاشمی بول رہا ہوں' کیا حال ہے،'' میں نے الحمد للہ کہا تو بولے،''پاکستان میں کیا ہو رہا ہے' اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کی سب سے محدود اقلیت سکھ بھی سراپا احتجاج ہیں اور سیکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ وہ پارلیمنٹ ہائوس کے ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔ سکھ کو ہزاروں میں پہچانا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کسی کو سکھوں کی آمد کا پتہ نہ چل سکا۔ کسی سکھ کے روپ میں کوئی دہشت گرد بھی آ سکتا تھا۔ اب تو سیکیورٹی LAPSE کی انتہا ہو گئی ہے۔
آصف ہاشمی مزید بولے ''جب تک میں متروکہ املاک کا چیئرمین رہا ،کبھی سیکیورٹی ایشو نہیں ہوا کیونکہ ان کے سکھ' ہندو اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ اچھے روابط تھے۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ ان کے دور میں بھرتی کیے گئے سیکیورٹی کے 600 اہلکار نکال دیے گئے، چیف سیکیورٹی آفیسر کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے، اب ان کا معاملہ کورٹ میں ہے۔ اگر ان سیکیورٹی اہلکاروں کو فارغ نہ کیا جاتا تو آج سکھوں کو احتجاج نہ کرنا پڑتا کیونکہ ان کے مقدس مقامات اور کتب کی حفاظت رہتی۔''
باتیں بڑھتے بڑھتے موجودہ ملکی صورت حال اور عمران خان تک آ پہنچیں۔ آصف ہاشمی نے لاہور کے این اے 118 کا ذکر چھیڑ دیا جہاں سے ان کے صاحبزادے فراز ہاشمی نے مئی 2013 کا الیکشن لڑا اور وہ ہار گئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کہتے ہیں کہ این اے 118 میں 90 ہزار ووٹ غائب ہوئے ہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ووٹ میرے بیٹے فراز ہاشمی کے تھے۔ میں نے 2008 میں اسی حلقے سے الیکشن لڑا اور 26 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں، میں نے اس حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے' سیکڑوں نوکریاں دیں' چھوٹے کاروبار ریڑھی' کھوکھے' ٹھیلے اور رکشے دیے اور یتیموں' غریبوں کی مالی امداد کی۔ آپ خو دہی بتائیں کہ جب میں نے یہاں اتنے کام نہیں کیے تھے تو 2008میں مجھے 26 ہزار ووٹ پڑے جب کہ 2014 کے الیکشن میں یہ کم ہو کر 14 ہزار کیسے ہو گئے۔
اس سے ثابت ہو گیاکہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو فراز ہاشمی نے الیکشن جیتنا تھا۔ فراز ہاشمی کے ووٹوں کے بیگز غائب کر دیے گئے۔ یہ فراز ہاشمی کے ووٹ تھے عمران خان کے ووٹ نہیں تھے۔ یہ تو آصف ہاشمی کا دعویٰ ہے ' اب یہ تحریک انصاف والے جانیں یا ہاشمی صاحب کہ اس حلقے میں کس کے ساتھ دھاندلی ہوئی۔ میں اس بارے میں خاموش رہوں گا کیونکہ دھاندلی کا معاملہ ہے' میں لینے میں نہ دینے میں۔ ہاشمی صاحب نے بتایا ہے کہ وہ تین چار ماہ کے اندر اندر وطن واپس آ رہے ہیں۔ میرا انھیں مشورہ ہے کہ وہ جلد آئیں کیونکہ یہاں دھاندلی کا تنور گرم ہے، شاید ان کا پراٹھا بھی اسی تنور میں پک جائے ورنہ مقدمات تو ہیں ہی۔